چیخیں نکل گئی ہیں سرکار
آپ سے زیادہ کس کو علم ہے کہ اس ملک میں لوگ غربت کے ہاتھوں خود کشیاں کرتے ہیں،
انتہائی محترم جناب اسحاق ڈار صاحب!!
اس سے پہلے بھی ایک کالم میں آپ کو چیلنج کیا تھا کہ پورے ملک کا بجٹ بناتے ہیں آپ، ذرا کسی غریب کا یا متوسط طبقے کے آدمی کے ایک گھر کا بجٹ تو بنا کر دکھائیں، ایسا ہی تھا جیسے کسی ایم اے اردو کے طالب علم کو کہا جاتا کہ الف ب لکھ کر دکھاؤ، مگر نہ وہ کالم آپ نے پڑھا ہو گا نہ یہ کالم پڑھنے کا وقت ہو گا سرکار۔ کیا بجا فرمایا ہے آپ نے کہ جہاں موذی مرض کا پینا ڈول اور پین کلر سے علاج ممکن نہیں ہوتا وہاں سرجری ناگزیر ہوتی ہے... سبحان اللہ کیا وژن ہے اور کیا مثال پیش کی ہے۔
آپ کے اپنے طبقے کے لوگ، وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے تمام لوگ تو پینا ڈول لینے کے لیے بھی قریب ترین اسپتالوں یعنی لندن وغیرہ تک چلے جاتے ہیں، ا نہیں سرجری کروانا ہو تو عوام کے کندھوں پر آپ ٹیکسوں کا اور بوجھ ڈالیں گے۔ کاش اس ملک میں درد کی گولی کو ہی غریب کے لیے مفت کر دیا جائے، اتنا احساس تو اپنے عوام کے درد کا ہونا چاہیے۔
آپ سے زیادہ کس کو علم ہے کہ اس ملک میں لوگ غربت کے ہاتھوں خود کشیاں کرتے ہیں، اپنے بچوں کو بیچ دیتے ہیں اور اس سے برے حالات ہوں تو چار چار بچوں سمیت موت کو گلے لگا لیتے ہیں، شاید آپ کو لگا ہو گا کہ کچھ عرصے سے ایسی خود کشیوں کا تناسب کم ہو رہا ہو گا تو آپ نے ایک اچھے مشیر ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے وزیر اعظم صاحب کو تجویز کیا ہو گا کہ چلیں اس عوام کو ٹیکسوں کے ایک نئے تکیے کے نیچے دبا کر ان کا سانس لینا بند کر دیتے ہیں تا کہ بڑھتی ہوئی آبادی کو بھی قابو میں رکھا جا سکے۔
چند برس قبل پٹرول کی قیمت بڑھی تو مجھے یاد ہے کہ تنور سے روٹی مجھے دو روپے مہنگی ملی، میں نے اس سے پوچھا کہ کیا وہ تنور میں پٹرول جلاتا ہے تو اس کا جواب وہی تھا جو مجھے ایک تانگے والے نے یہ سوال پوچھنے پر دیا تھا کہ بابا تمہارا گھوڑا تو پٹرول پر نہیں چلتا... '' اس ملک میں ہر چیز کی قیمت پٹرول، سونے اور ڈالر کی قیمت بڑھنے کے ساتھ بڑھتی ہے !!'' ہم سے تو یہ سادہ سے لوگ بہتر جانتے ہیں۔
اس وقت تو دنیا بھر میں سونے اور پٹرول کی قیمت گر گر کر زمین سے بھی نیچے جا چکی ہے، ہم دنیا بھر کے نرخوں سے مہنگا پٹرول خرید رہے ہیں، اوپر کے پیسے حکومت کی کس جیب میں جا رہے ہیں، اللہ ہی جانتا ہے...
آپ نے ایک اور ارشاد فرمایا ہے سرکار کہ آپ کے نافذ کردہ نئے ٹیکسوں سے عام آدمی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا، سولہ آنے درست بات کی ہے آپ نے جناب!! ویسے عام آدمی کی مزید تشریح کر دیتے آپ تو ہمیں کتنی سہولت ہو سکتی تھی، یہ بھی معلوم ہو جاتا کہ ہمارے حکمران ''آدمی'' سمجھتے کس کس کو ہیں۔
درست ہے کہ آپ کے مطابق ان چیزوں پر ٹیکس لگایا گیا ہے جو بیرون ملک سے آتی ہیں، کاسمیٹک وغیرہ۔ واقعی عام آدمی کا غیر ملکی تو کیا، ملکی کاسمیٹکس سے بھی دور کا واسطہ نہیں پڑتا۔ مزدور، مستری، ریڑھیاں لگا کر سبزیاں بیچنے والے، پھل کے ٹھیلے لگائے، کوڑے کے ڈھیروں سے اٹھا اٹھا کرکھانے والے، بھکاری، قلی، سڑکوں پر جھاڑولگانے والے اور دیگر ایسے... ان میں سے کون ہے جو غیر ملکی تو کیا، ملکی صابن ، ٹوتھ پیسٹ اور شیمپو استعمال کر تا ہے یا کر سکتا ہے؟ ان کے ہاں تو یہ سب عیاشی کے زمرے میں آتا ہے اور یوں بھی ان کی کون سا ایسی تربیت کی جاتی ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے اور خود کو صاف رکھنا ، خود سے محبت کا پہلا اصول ہے۔ انھیں خود سے کیا محبت ہو گی جو دن بھر مشقت کر کے صرف اتنا کما سکتے ہیں کہ گھر میں موجود سارے پیٹوں کو بھر کر رات سو سکیں، اس میں بھی وہ کئی دن ناکام رہتے ہیں ۔
آپ ان کے سامنے سیب رکھ کر دیکھیں تو انھیں یہ علم نہیں ہو گا کہ اسے کاٹتے کیسے ہیں، پھل کھانا تو ان کے ہاں عید کے دن بھی ممکن نہیں ہوتا۔ زندگیوں کی گاڑیاں صرف گھسیٹ رہے ہیں یہ لوگ ، جنھیں شاید آپ عام آدمی کہتے ہیں اور ہمیں اللہ نے ان سے کچھ بہتر بنایا ہے تو ہم خود کو خواص کے انتہائی نچلے درجے پر تصور کر لیتے ہیں... میں نے آپ کے عائد کردہ ٹیکسوں کے آئٹم کی تفصیلات پڑھ کر سوچا کہ گھر کے بجٹ کو اعتدال میں رکھنا ہے تو ان اشیاء کا استعمال ترک نہیں توکم ضرور کرنا ہو گا۔ شیمپو کی پرانی غیر ملکی بوتلوں میں ، اپنا کوئی لوکل شیمپو ڈال کر غسل خانے میں رکھ دیا جائے تو اپنے بچے اور مہمان اس پر اعتراض نہیں کریں گے۔
پرفیوم تو یوں بھی ہمارے ہاں خریدنے کا رواج کم ہے، جب مستعمل بوتل قریب الاختتام ہوتی ہے تو ہم اپنے غیر ملکی رشتہ داروںکو کال کر کے یاد دہانی کرواتے ہیں کہ ہم بھی ان کے رشتہ دار ہیں اور اگلی دفعہ آئیں تو ہمارے لیے زیادہ وقت لے کر آئیں... وہ بھی '' وقت'' کا مطلب ، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سمجھ گئے ہیں ۔ اسی طرح دیگر '' عیاشیوں '' کا کوئی حل سوچنا تھا کہ اب یہ سب لوازمات ہماری زندگیوں کا حصہ بن چکے ہیں، اپنے ملک میں کسی چیز کے معیار کو بہتر نہ بنانے اور غیر ملکی اشیاء کی ترسیل پر کوئی پابندی نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے بچوں کو تو کسی ملکی برانڈ کا نام تک نہیں آتا۔ چلو کوشش کرتے ہیں اور حکومت کے عائد کردہ ٹیکسوں کو برداشت کرتے ہیں۔
ٹیکس کیوں عائد کیے گئے ہیں ، اس کی وجہ کسی کو علم نہیں... حکومت بھی اس طرح کام کر رہی ہے جیسے ایک بے حال غریب بارش کے بعد اپنے کچے گھر کی ٹوٹی ہوئی چھت کے ٹپکنے پر کرتا ہے، کبھی کسی جگہ جوڑ لگاتا ہے، کہیں چھت پر لفافے اور آٹے کے خالی توڑے رکھتا ہے اور کبھی کسی ٹپکنے والی جگہ کے نیجے برتن رکھتا ہے، کبھی چھت کے اوپر چڑھ کر بے بسی سے دیکھتا ہے تو کبھی ٹپکن کے نیچے لیٹ کر مجبوری سے سوچتا ہے کہ اب تو کوئی برتن بھی گھر میں نہیں بچا جو نئی جگہ پر رکھا جا سکے۔ ہماری حکومت ایسی صورت حال میں عوام کو ٹپکن کے نیچے کھڑا کر دیتی ہے، بے بسی کی تصویریںبنا کر!!
میں نے خود کو خواص کے نچلے ترین مچلکے پر رکھ کر سوچا کہ کسی نہ کسی طرح گزارا کر لیں گے، مگر یقین مانیں سرکار... مہینے کی پہلی تاریخ کو حسب سابق ، صاحب نے ہماری فریادی ہتھیلی پر وہی مروجہ تنخواہ رکھی اور ہم اسی طرح خوش خوش اسے لٹانے کو اپنی مہینے بھر کی خریداری کرنے کو چلے گئے۔
بل بنا تو پیروں کے نیچے سے زمین نکلنے کے باعث چیخیں نکل گئیں سرکار!!!! آپ نے تو صرف غیر ملکی اشیاء پر چالیس ارب روپے کے ٹیکس لگائے ہیں مگر مجھے تو بل دیکھ کر لگا کہ اسی ارب روپوں کے ٹیکس دال، چاول، گھی، دودھ، انڈے، مصالہ جات، صابن، سرف،مشروبات، دہی، کریم ، آئس کریم، سبزیاں اور پھل... غرض کوئی ایسی چیز نہیں جس کی قیمت میں ایک دو روپے یا اس سے زیادہ کا اضافہ نہ تھا، بچوں کی کتابوں اور کاپیوں پر بھی قیمتوں کااضافہ۔ صاحب خانہ سے التجا بھی حکومت سے کی گئی التجاؤں جیسی ثابت ہوئی کہ وہ بھی کیا کریں، انھیں کون سا نیا مہنگائی الاؤنس مل رہا ہے؟؟ پہلے تویہ ہی علم نہیں ہو رہا کہ لوکل اشیاء کا انتخاب کہاں سے کریں کہ مارکیٹ تو ساری چینی سامان سے بھری پڑی ہے اور پھر سوال اٹھتا ہے کہ ساری عیاشیاں توآپ ( حکمران ) کریں، خود تو آپ پانی بھی اس ملک کا نہیں پیتے اور ٹیکس سارے ہم دیں؟؟
کہاں استعمال کرتے ہیں آپ ان ٹیکسوں کا جو ہم ادا کرتے ہیں؟ اور کوئی دے یا نہ دے ، ہم تنخواہ دار طبقہ تو ٹیکس کٹوتی سے نہیں چھوٹ سکتے، ہمارا بھی دل چاہتا ہے کہ ہم حکومتوں کو کوئی ٹیکس نہ دیں یا کم از کم آپ کی طرح ڈنڈی ماریں اور اتنا ٹیکس دیں جتنا ہمارا دل چاہے... مگر ہمیں تو اس ملک میں سانس لینے پربھی ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ دنیا بھر میں آپ لوگ گھومتے ہیں، آ پ لوگوں کے پاس دوسرے ممالک کی شہریتیں بھی ہیں اور وہاں آپ لوگوں کی جائیدادیں اور کاروبار بھی ہیں مگر ہر کسی کو پلٹ پلٹ کر اسی ملک میں آ کر بسنے، سیاست کرنے اور ارباب اختیار بننے کا شوق کیوں چراتا ہے؟
اسی لیے ناں کہ وہاں آپ کو ان سب پر ٹیکس دینا پڑتا ہے، اتنا نہیں جو آپ چاہتے ہیں بلکہ اتنا جو واقعی آپ کو دینا ہوتا ہے۔
آپ کی پالیسیوں نے عوام کو توڑ کر رکھ دیا ہے، پوری قوم کو آپ نے بھکاری کا لقب دلوا دیا ہے، ہم اپنے طور پر تو اپنی خود داری اور انا کا بھرم ٹوٹنے دیتے ہیں نہ اپنی سفید پوشی کی چادر کو داغ لگنے دیتے ہیں مگر حکومتوں نے تو ہمیں اپنے ننگے پیٹ اغیار کو دکھانے پر مجبور کر دیا ہے۔ خدارا!! رحم کریں، ہم سب پر رحم کریں، عوام کو صرف ووٹ دینے والے افراد نہ سمجھیں، ان کے جذبات بھی ہیں، احساسات بھی، ضروریات بھی، مسائل بھی اور توقعات بھی... اگر آپ ان سب کو پورا کرنے کے اہل نہیں تو پھر چھوڑیں اس ملک کو اور جا کر بسیں جہاں آپ بھی سکون سے رہیں اور ہمیں بھی رہنے دیں!!!
اس سے پہلے بھی ایک کالم میں آپ کو چیلنج کیا تھا کہ پورے ملک کا بجٹ بناتے ہیں آپ، ذرا کسی غریب کا یا متوسط طبقے کے آدمی کے ایک گھر کا بجٹ تو بنا کر دکھائیں، ایسا ہی تھا جیسے کسی ایم اے اردو کے طالب علم کو کہا جاتا کہ الف ب لکھ کر دکھاؤ، مگر نہ وہ کالم آپ نے پڑھا ہو گا نہ یہ کالم پڑھنے کا وقت ہو گا سرکار۔ کیا بجا فرمایا ہے آپ نے کہ جہاں موذی مرض کا پینا ڈول اور پین کلر سے علاج ممکن نہیں ہوتا وہاں سرجری ناگزیر ہوتی ہے... سبحان اللہ کیا وژن ہے اور کیا مثال پیش کی ہے۔
آپ کے اپنے طبقے کے لوگ، وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے تمام لوگ تو پینا ڈول لینے کے لیے بھی قریب ترین اسپتالوں یعنی لندن وغیرہ تک چلے جاتے ہیں، ا نہیں سرجری کروانا ہو تو عوام کے کندھوں پر آپ ٹیکسوں کا اور بوجھ ڈالیں گے۔ کاش اس ملک میں درد کی گولی کو ہی غریب کے لیے مفت کر دیا جائے، اتنا احساس تو اپنے عوام کے درد کا ہونا چاہیے۔
آپ سے زیادہ کس کو علم ہے کہ اس ملک میں لوگ غربت کے ہاتھوں خود کشیاں کرتے ہیں، اپنے بچوں کو بیچ دیتے ہیں اور اس سے برے حالات ہوں تو چار چار بچوں سمیت موت کو گلے لگا لیتے ہیں، شاید آپ کو لگا ہو گا کہ کچھ عرصے سے ایسی خود کشیوں کا تناسب کم ہو رہا ہو گا تو آپ نے ایک اچھے مشیر ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے وزیر اعظم صاحب کو تجویز کیا ہو گا کہ چلیں اس عوام کو ٹیکسوں کے ایک نئے تکیے کے نیچے دبا کر ان کا سانس لینا بند کر دیتے ہیں تا کہ بڑھتی ہوئی آبادی کو بھی قابو میں رکھا جا سکے۔
چند برس قبل پٹرول کی قیمت بڑھی تو مجھے یاد ہے کہ تنور سے روٹی مجھے دو روپے مہنگی ملی، میں نے اس سے پوچھا کہ کیا وہ تنور میں پٹرول جلاتا ہے تو اس کا جواب وہی تھا جو مجھے ایک تانگے والے نے یہ سوال پوچھنے پر دیا تھا کہ بابا تمہارا گھوڑا تو پٹرول پر نہیں چلتا... '' اس ملک میں ہر چیز کی قیمت پٹرول، سونے اور ڈالر کی قیمت بڑھنے کے ساتھ بڑھتی ہے !!'' ہم سے تو یہ سادہ سے لوگ بہتر جانتے ہیں۔
اس وقت تو دنیا بھر میں سونے اور پٹرول کی قیمت گر گر کر زمین سے بھی نیچے جا چکی ہے، ہم دنیا بھر کے نرخوں سے مہنگا پٹرول خرید رہے ہیں، اوپر کے پیسے حکومت کی کس جیب میں جا رہے ہیں، اللہ ہی جانتا ہے...
آپ نے ایک اور ارشاد فرمایا ہے سرکار کہ آپ کے نافذ کردہ نئے ٹیکسوں سے عام آدمی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا، سولہ آنے درست بات کی ہے آپ نے جناب!! ویسے عام آدمی کی مزید تشریح کر دیتے آپ تو ہمیں کتنی سہولت ہو سکتی تھی، یہ بھی معلوم ہو جاتا کہ ہمارے حکمران ''آدمی'' سمجھتے کس کس کو ہیں۔
درست ہے کہ آپ کے مطابق ان چیزوں پر ٹیکس لگایا گیا ہے جو بیرون ملک سے آتی ہیں، کاسمیٹک وغیرہ۔ واقعی عام آدمی کا غیر ملکی تو کیا، ملکی کاسمیٹکس سے بھی دور کا واسطہ نہیں پڑتا۔ مزدور، مستری، ریڑھیاں لگا کر سبزیاں بیچنے والے، پھل کے ٹھیلے لگائے، کوڑے کے ڈھیروں سے اٹھا اٹھا کرکھانے والے، بھکاری، قلی، سڑکوں پر جھاڑولگانے والے اور دیگر ایسے... ان میں سے کون ہے جو غیر ملکی تو کیا، ملکی صابن ، ٹوتھ پیسٹ اور شیمپو استعمال کر تا ہے یا کر سکتا ہے؟ ان کے ہاں تو یہ سب عیاشی کے زمرے میں آتا ہے اور یوں بھی ان کی کون سا ایسی تربیت کی جاتی ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے اور خود کو صاف رکھنا ، خود سے محبت کا پہلا اصول ہے۔ انھیں خود سے کیا محبت ہو گی جو دن بھر مشقت کر کے صرف اتنا کما سکتے ہیں کہ گھر میں موجود سارے پیٹوں کو بھر کر رات سو سکیں، اس میں بھی وہ کئی دن ناکام رہتے ہیں ۔
آپ ان کے سامنے سیب رکھ کر دیکھیں تو انھیں یہ علم نہیں ہو گا کہ اسے کاٹتے کیسے ہیں، پھل کھانا تو ان کے ہاں عید کے دن بھی ممکن نہیں ہوتا۔ زندگیوں کی گاڑیاں صرف گھسیٹ رہے ہیں یہ لوگ ، جنھیں شاید آپ عام آدمی کہتے ہیں اور ہمیں اللہ نے ان سے کچھ بہتر بنایا ہے تو ہم خود کو خواص کے انتہائی نچلے درجے پر تصور کر لیتے ہیں... میں نے آپ کے عائد کردہ ٹیکسوں کے آئٹم کی تفصیلات پڑھ کر سوچا کہ گھر کے بجٹ کو اعتدال میں رکھنا ہے تو ان اشیاء کا استعمال ترک نہیں توکم ضرور کرنا ہو گا۔ شیمپو کی پرانی غیر ملکی بوتلوں میں ، اپنا کوئی لوکل شیمپو ڈال کر غسل خانے میں رکھ دیا جائے تو اپنے بچے اور مہمان اس پر اعتراض نہیں کریں گے۔
پرفیوم تو یوں بھی ہمارے ہاں خریدنے کا رواج کم ہے، جب مستعمل بوتل قریب الاختتام ہوتی ہے تو ہم اپنے غیر ملکی رشتہ داروںکو کال کر کے یاد دہانی کرواتے ہیں کہ ہم بھی ان کے رشتہ دار ہیں اور اگلی دفعہ آئیں تو ہمارے لیے زیادہ وقت لے کر آئیں... وہ بھی '' وقت'' کا مطلب ، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سمجھ گئے ہیں ۔ اسی طرح دیگر '' عیاشیوں '' کا کوئی حل سوچنا تھا کہ اب یہ سب لوازمات ہماری زندگیوں کا حصہ بن چکے ہیں، اپنے ملک میں کسی چیز کے معیار کو بہتر نہ بنانے اور غیر ملکی اشیاء کی ترسیل پر کوئی پابندی نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے بچوں کو تو کسی ملکی برانڈ کا نام تک نہیں آتا۔ چلو کوشش کرتے ہیں اور حکومت کے عائد کردہ ٹیکسوں کو برداشت کرتے ہیں۔
ٹیکس کیوں عائد کیے گئے ہیں ، اس کی وجہ کسی کو علم نہیں... حکومت بھی اس طرح کام کر رہی ہے جیسے ایک بے حال غریب بارش کے بعد اپنے کچے گھر کی ٹوٹی ہوئی چھت کے ٹپکنے پر کرتا ہے، کبھی کسی جگہ جوڑ لگاتا ہے، کہیں چھت پر لفافے اور آٹے کے خالی توڑے رکھتا ہے اور کبھی کسی ٹپکنے والی جگہ کے نیجے برتن رکھتا ہے، کبھی چھت کے اوپر چڑھ کر بے بسی سے دیکھتا ہے تو کبھی ٹپکن کے نیچے لیٹ کر مجبوری سے سوچتا ہے کہ اب تو کوئی برتن بھی گھر میں نہیں بچا جو نئی جگہ پر رکھا جا سکے۔ ہماری حکومت ایسی صورت حال میں عوام کو ٹپکن کے نیچے کھڑا کر دیتی ہے، بے بسی کی تصویریںبنا کر!!
میں نے خود کو خواص کے نچلے ترین مچلکے پر رکھ کر سوچا کہ کسی نہ کسی طرح گزارا کر لیں گے، مگر یقین مانیں سرکار... مہینے کی پہلی تاریخ کو حسب سابق ، صاحب نے ہماری فریادی ہتھیلی پر وہی مروجہ تنخواہ رکھی اور ہم اسی طرح خوش خوش اسے لٹانے کو اپنی مہینے بھر کی خریداری کرنے کو چلے گئے۔
بل بنا تو پیروں کے نیچے سے زمین نکلنے کے باعث چیخیں نکل گئیں سرکار!!!! آپ نے تو صرف غیر ملکی اشیاء پر چالیس ارب روپے کے ٹیکس لگائے ہیں مگر مجھے تو بل دیکھ کر لگا کہ اسی ارب روپوں کے ٹیکس دال، چاول، گھی، دودھ، انڈے، مصالہ جات، صابن، سرف،مشروبات، دہی، کریم ، آئس کریم، سبزیاں اور پھل... غرض کوئی ایسی چیز نہیں جس کی قیمت میں ایک دو روپے یا اس سے زیادہ کا اضافہ نہ تھا، بچوں کی کتابوں اور کاپیوں پر بھی قیمتوں کااضافہ۔ صاحب خانہ سے التجا بھی حکومت سے کی گئی التجاؤں جیسی ثابت ہوئی کہ وہ بھی کیا کریں، انھیں کون سا نیا مہنگائی الاؤنس مل رہا ہے؟؟ پہلے تویہ ہی علم نہیں ہو رہا کہ لوکل اشیاء کا انتخاب کہاں سے کریں کہ مارکیٹ تو ساری چینی سامان سے بھری پڑی ہے اور پھر سوال اٹھتا ہے کہ ساری عیاشیاں توآپ ( حکمران ) کریں، خود تو آپ پانی بھی اس ملک کا نہیں پیتے اور ٹیکس سارے ہم دیں؟؟
کہاں استعمال کرتے ہیں آپ ان ٹیکسوں کا جو ہم ادا کرتے ہیں؟ اور کوئی دے یا نہ دے ، ہم تنخواہ دار طبقہ تو ٹیکس کٹوتی سے نہیں چھوٹ سکتے، ہمارا بھی دل چاہتا ہے کہ ہم حکومتوں کو کوئی ٹیکس نہ دیں یا کم از کم آپ کی طرح ڈنڈی ماریں اور اتنا ٹیکس دیں جتنا ہمارا دل چاہے... مگر ہمیں تو اس ملک میں سانس لینے پربھی ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ دنیا بھر میں آپ لوگ گھومتے ہیں، آ پ لوگوں کے پاس دوسرے ممالک کی شہریتیں بھی ہیں اور وہاں آپ لوگوں کی جائیدادیں اور کاروبار بھی ہیں مگر ہر کسی کو پلٹ پلٹ کر اسی ملک میں آ کر بسنے، سیاست کرنے اور ارباب اختیار بننے کا شوق کیوں چراتا ہے؟
اسی لیے ناں کہ وہاں آپ کو ان سب پر ٹیکس دینا پڑتا ہے، اتنا نہیں جو آپ چاہتے ہیں بلکہ اتنا جو واقعی آپ کو دینا ہوتا ہے۔
آپ کی پالیسیوں نے عوام کو توڑ کر رکھ دیا ہے، پوری قوم کو آپ نے بھکاری کا لقب دلوا دیا ہے، ہم اپنے طور پر تو اپنی خود داری اور انا کا بھرم ٹوٹنے دیتے ہیں نہ اپنی سفید پوشی کی چادر کو داغ لگنے دیتے ہیں مگر حکومتوں نے تو ہمیں اپنے ننگے پیٹ اغیار کو دکھانے پر مجبور کر دیا ہے۔ خدارا!! رحم کریں، ہم سب پر رحم کریں، عوام کو صرف ووٹ دینے والے افراد نہ سمجھیں، ان کے جذبات بھی ہیں، احساسات بھی، ضروریات بھی، مسائل بھی اور توقعات بھی... اگر آپ ان سب کو پورا کرنے کے اہل نہیں تو پھر چھوڑیں اس ملک کو اور جا کر بسیں جہاں آپ بھی سکون سے رہیں اور ہمیں بھی رہنے دیں!!!