کیا یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے

تعلیمی و طبی ادارے بھی اس وبا سے محفوظ نہ رہ سکے اور یہ بھی حق ہے،

nasim.anjum27@gmail.com

کیا ہم اپنے ملک کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کہہ سکتے ہیں؟ یہ ایک سوال ہے، جس کا جواب نفی میں ہے کہ یہاں ہر کام اسلامی نظام کے خلاف ہے، سادگی، سچائی، دیانت داری اور منصفی کا دور دور پتہ نہیں ہے، اس کے برعکس جھوٹ، بددیانتی اور غیر منصفانہ رویے عروج پر ہیں، ہر ادارہ کرپشن کا شکار ہے۔

تعلیمی و طبی ادارے بھی اس وبا سے محفوظ نہ رہ سکے اور یہ بھی حق ہے، وہ ملک کبھی ترقی نہیں کرسکتے، جہاں تعلیم کا فقدان اور ذہنی و جسمانی طور پر ہر شخص پریشان اور اذیت کا شکار ہو، انصاف سے محرومی ہر فرد کا مقدر بن چکا ہو، جو صاحب ثروت ہے اسے سات خون معاف ہیں۔

اس کی ایک نہیں بے شمار مثالیں موجود ہیں، ماڈل ٹاؤن کے بے گناہوں کا قتل، آج تک مجرم پکڑے نہیں گئے، اسی طرح بے قصور نوجوانوں کا قتل اپنے ساتھیوں کے ہاتھ، جو بااختیار ہے، جیت اس کی ہی ہوتی ہے۔ اندھیر نگری اور چوپٹ راج والا معاملہ درپیش ہے، سفید پوشی اور عزت کا بھرم اس گرانی و مفاد پرستی کے دور میں قائم رہ جائے تو بڑی بات ہے۔

لوگ مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہیں لیکن اس اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم نے مسائل میں اضافہ مزید ٹیکس عائد کرکے کردیا ہے۔ اس طرح متوسط اور بظاہر خوشحال گھرانوں کا سکون برباد ہوگیا ہے۔ غربا و مساکین کے لیے تو ویسے ہی زمین تنگ ہے نہ جی سکتے ہیں اور نہ مرسکتے ہیں، افلاس کی ڈور سے بندھے خلا میں لٹکے ہوئے ہیں، اقتدار کی کرسیوں پر براجمان حضرات ہر احساس سے عاری ہوچکے ہیں۔ سونے چاندی اور روپوں کی چمک نے نگاہوں کو خیرہ کر دیا ہے، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو مفلوج ہوس زر نے شعور سے بیگانہ کردیا، جب انسان اپنے ہی بارے میں سوچتا ہے۔

تب ایسے ہی حالات ہوتے ہیں، بے بس مجبور لوگوں کے پاس کوٹھڑی بنانے کی جگہ اور وسائل نہیں اور یہ میلوں کے رقبے پر اپنے شاہانہ محل تعمیر کرتے ہیں اور دو گز کی زمین کو بھول جاتے ہیں کہ وہ بھی ملے گی کہ نہیں؟ انواع و اقسام کے کھانے کھاتے ہوئے انھیں ذرا لاج نہیں آتی ہے کہ ان کے ملک کے کروڑوں لوگ فاقہ کشی پر مجبور ہیں یہ مفلوک الحال قرض کے بوجھ، معصوم بچوں کی بھوک اور بیمار بیوی کی علاج سے محرومی، اپنی بے روزگاری سے مایوسی اور شدید مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں تب ان کے قدم زندگی کے خاتمے کے لیے آگے بڑھتے ہیں اور تھوڑی ہی دیر میں رسی کا پھندا انھیں موت سے ہمکنار کردیتا ہے۔

پورا خاندان برباد ہوجاتا ہے، بچوں کا سہانا مستقبل اندھیروں میں گم ہو جاتا ہے اور اس کی بیوہ پر بھوکے بھیڑیوں کی غلیظ نگاہیں پڑنے لگتی ہیں۔ اگر بدقسمتی سے وہ بیوہ عورت درندہ نما انسان کی سفاکی کا شکار ہوگئی، تو بچے تنہا، اب ان کا بٹوارہ شروع ہوجاتا ہے، کچھ کو اغوا کرلیا جاتا ہے اور کوئی خالہ یا پھوپھی کے یہاں پناہ لینے پر مجبور ہوجاتا ہے، اس طرح یہ کہانی مہنگائی کے ہاتھوں انجام کو پہنچتی ہے۔ اسی قبیل کی سیکڑوں کہانیاں جنم لیتی ہیں اور چند ہی دن بعد مٹی میں مل کر مٹی کی طرح ہوجاتی ہیں، بھولے بسرے دنوں کی یادیں بن جاتی ہیں۔

افسوس کہ حاکمِ وقت سنگدل اور بے حس ہے، اسے احساس ہی نہیں کہ جتنی دیر سے وہ جہاز سے دوسرے ملک میں پہنچ جاتا ہے، اتنی ہی دیر میں گاؤں، گوٹھ اور شہر کے لوگ پانی اور روزگار کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ مٹی اور دھول میں اٹے ہوئے لوگ، ان کے پاؤں میں چپل نہیں، جسم پر وہ لباس نہیں جو موسموں کی شدت کا مقابلہ کرسکے۔


سابق صدر پرویز مشرف کی حکومت کے بعد سابقہ اور موجودہ حکومتوں نے جیتے انسانوں کے سروں پر کیلیں ٹھونک دی ہیں، افسوس یہ ہوا انسان پتھر کا نہ بن سکا۔ ذہنی اذیت سہنے کے لیے زندہ رہا۔ کہ یہ اس کی مجبوری ہے موت اور زندگی پر اس کا اختیار کہاں؟

ٹیکسوں کی پہلے ہی بھرمار تھی اب چالیس ارب کے ٹیکس پھر لگنے والے ہیں۔ وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف کی شرط پر 40 ارب روپے کا ریونیو شارٹ فال پورا کرنے کے لیے منی بجٹ کا اعلان نہایت اعتماد کے ساتھ کیا ہے ان ٹیکسوں کا اطلاق دوست ممالک چین، ملائیشیا اور ایران و دیگر ممالک کے ساتھ طے شدہ آزادانہ تجارتی معاہدوں اور ترجیحی تجارتی معاہدوں کے تحت درآمد کی جانیوالی اشیا پر بھی ہوگا۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کی ہدایت پر عام آدمی کی اشیا پر ٹیکس کی شرح نہیں لگائی گئی ہے۔

اب قابل غور بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں عام آدمی کسے کہتے ہیں؟ اس آشوب زمانہ میں جب جوتیوں میں دال بٹ رہی ہو، ہر شخص خاص سے عام ہوچکا ہے اور جب قائداعظم محمد علی جناح کا خاندان جن کا شمار خاص الخاص لوگوں میں ہوتا ہے انھیں عزت و مرتبے سے نہیں نوازا گیا اور ایسے ہی بے شمار اعلیٰ حضرات اور نابغہ روزگار شخصیات اور ان کے کنبوں کے لوگ چھوٹی سی ملازمت کے لیے در در کی خاک چھان رہے ہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں، تو پھر سب ہی عام ہیں، غریب ہیں، پریشان ہیں، ناقدری کا شکار ہیں، درآمدی اشیا میں ٹماٹر اور کیچپ، دودھ، مکھن، چاکلیٹ، بسکٹ، منرل واٹر اور جوس بھی شامل ہیں۔

ان حالات میں دکانداروں کے مزے ہوگئے خوب نقلی لیبل لگا کر اشیا کو فروخت کریں گے، نقصان کس کا ہوا، اسی عام آدمی کا، الیکٹرانکس کی چیزیں بھی ٹیکس سے محفوظ نہ رہ سکیں، ٹیکس سے پالتو جانوروں کی غذا بھی نہ بچ سکی۔

اس سے تو بہتر یہ تھا کہ مہنگائی کے ہاتھوں دبوچی اور لوٹی کھسوٹی قوم پر ایک زہریلا اسپرے کرادیا جاتا، اس سے آبادی کم ہوجاتی، ادھ مرے لوگوں کی بھی جان چھوٹ جاتی، حکومت اگر چاہتی تو چین کی بانسری بجاسکتی تھی یا پھر یہی نسخے دوسروں پر آزمانے میں بھلا کس بات کی جھجک ہوسکتی تھی؟

مہنگائی کا زہر قوم کے رگ و پے میں اتر چکا ہے اور اداسی و غموں میں ڈوبے ہوئے لوگ ڈھلتے سورج کی طرح ڈھلانوں میں اترتے جا رہے ہیں، اب مزید مہنگائی کو بڑھانا بالکل ایسا ہی ہے کہ جاں بلب مریض کا گلا گھونٹ دیا جائے، میں نے کئی بار یہ جملہ لکھا ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب ہوا، پانی اور موسموں کی خوبصورتی اور مطالعہ کرنے پر بھی ٹیکس لگ جائے گا، آپ کو ہوا نے زیادہ سکون پہنچایا، برسات سے لطف اندوز ہوئے، آپ نے پھولوں کو دیکھا، اخبار پڑھا، لائبریری گئے، ٹیکس دیجیے۔ رہا پانی تو وہ تو ہے ہی مہنگا، چلو بھر مستحقین کو نصیب نہیں۔ویسے بھی پانی کی تجارت عروج پر ہے۔

کہ یہ ان لوگوں کا کاروبار ہے جن کے دیدوں کا پانی کرچکا ہے اب آتے ہیں سودی کاروبار کی طرف۔ ایک تقریب کے موقع پر صدر صاحب نے سود کو اسلامی و قانونی درجہ دینے کے لیے مفتی صاحب سے درخواست کی ہے کہ احادیث اور قرآنی تعلیم کیمطابق سود کی حمایت میں اعلان کیا جائے۔ جب کہ سود لینے کا مطلب اللہ سے کھلم کھلا جنگ اور والدہ محترمہ کی عزت و آبرو پر حملہ ہے۔ پہلے ہی کون سا پاکستان اسلام کی روشنی سے منور ہے جو مزید روشنی پھیلانے کے لیے راہیں ہموار کی جا رہی ہیں اگر ہم دوسرے ممالک پر نظر دوڑائیں تو پاکستان میں مختلف شکلوں میں سود لینے اور دینے کی وبا عام ہوچکی ہے۔
Load Next Story