اقتصادی دہشت گردی کے خلاف آپریشن ہوگا یا این آر او
لطائف انسان کی زندگی کو خوش کرنے کے لیے ہوتے ہیں
لطائف انسان کی زندگی کو خوش کرنے کے لیے ہوتے ہیں ، لیکن یہ کسی سیاستدان یا حکمران کی طرف سے ہو ں تو پھر کوئی لطیفہ آپ کو ہنسانے کے بعد ثابت کرتا ہے کہ آپ کو بیوقوف بنا جارہا ہے۔
تازہ لطیفہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت کیمطابق ٹیکس گوشوارے جمع کرا نیوالوں کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور یہ تعداد دس لاکھ تک پہنچ گئی ہے جب کہ ایک ماہر معاشیات کا کہنا ہے کہ مالی سال دو ہزار دس میں یہ تعداد سولہ لاکھ تھی۔ ایک چھوٹا لطیفہ یہ بھی ہے کہ ہمارے وزیر خزانہ اور وزیر اعظم جو عوام کو ایک عرصے سے یہ نوید دے رہے تھے کہ مجموعی پیداوار اور ٹیکسوں کی وصولی کا حدف دو ہزار سترہ اور اٹھارہ تک پندرہ فیصد تک ہے اب تازہ اطلاع کے مطابق وفاقی وزیر خزانہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت یہ حدف بڑھا کر تیرہ فیصد تک لے جائے گی۔
ہمیں ملکی معیشت کی باریکیاں تو زیادہ معلوم نہیں لیکن کم ازکم اتنی باتیں تو سمجھ میں آتیں ہیں کہ کونسا ہندسہ کم اورکونسا ہندسہ بڑا ہے اور اس کے اثرات ہماری روزمرہ کی زندگی پر منفی مرتب ہونگے یا مثبت؟ جب ہم یہ پڑھتے ہیں کہ جناب نوے کی دہائی میں مجموعی داخلی پیداوارکے تناسب سے ٹیکسوں کی اوسط وصولی انیس سونوے کی دہائی میں تیرہ فیصد سے زائد تھی اوراب حکومت اپنا حدف دس فیصد سنا رہی ہے تو یہ ہماری معیشت کے لیے اور ہماری عوام کے لیے فائدہ مند بات ہے یا نقصان دہ بات ہے۔
سیدھی سی بات ہے کہ جب ٹیکسوں کی وصولی نہیں ہوگی تو حکومت عوام پر نئے ٹیکس لگا کر بجٹ خسارہ پورہ کرے گی یا پھر آئی ایم ایف وغیرہ کے اداروں سے قرضے لے کر۔ اگر نئے ٹیکس لگائی گی تو مہنگائی میں اضافہ ہوگا اور عوامی مشکلات میں اضافہ ہوگا اور اگر قرضہ لے گی تو ملکی معیشت مزید کمزور ہوگئی کیو نکہ تاریخ یہ بتا تی ہے کہ جن ملکوں نے بھی ان اداروں سے قرض لیے، یہ قرضے ان کی ملکی معیشت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئے۔اس ملک کے چند ایک اہم مسائل میں یہ مسئلہ بھی شامل ہے کہ امیر،امیر تر اورغریب،غریب تر ہوتا جا رہے جس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ یہاں ایک سبزی فروخت کرنیوالے کو بھی ٹیکس دینا پڑ رہا ہے جب کہ انتہائی دولت مند افراد سے جو ٹیکس حکومت کو وصول کرنا چاہیے اس سے حکومت وہ ٹیکس وصول نہیں کر پا رہی ہے۔
ایک ممتاز ماہر معا شیات کے تخمینے کے مطابق اس ملک میں کم از کم پچھتر لاکھ افراد کو ٹیکس گوشوارے جمع کرانا چاہئیں (جب کہ موجودہ حکومت کے مطابق اس وقت یہ تعداد صرف دس لاکھ ہے)۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک بہت بڑا فرق ہے اگر ان افراد کو ٹیکس دینے پر مجبورکرلیا جائے تو پھر عوام پر آئے روز نت نئے ٹیکس لگانے کی ضرورت ہی باقی نہ رہے اور نہ ہی مہنگائی میں ہوش ربا اضافہ ہو۔اس قدر اہم مسئلے کو آخر ہمارے ذرائع ابلاغ میں نمایاں جگہ کیوں نہیں ملتی؟ یعنی ٹاک شوز وغیرہ میں ان موضوعات کوکیوں نہیں لایا جاتا؟ ٹاک شوز میں شریک افراد سے اس ضمن میں سوالات کیوں نہیں کیے جاتے؟
ہماری سیاسی جماعتوں کے رہنما ویسے تو ایک دوسرے پر بہت کیچڑ اچھالتے ہیں لیکن کوئی موجو دہ حکمرانوں سے یہ سوال کیوں نہیں کرتا کہ ن لیگ نے اپنے منشور میں وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد ہر قسم کی آمدن پر ٹیکس لگائے گی، کالے دھن کو سفید کرنے کی حوصلہ شکنی کی جائے گی نیز جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے ٹیکس دھندگان کا دائرہ وسیع کیا جائے گا، اب ن لیگ کے یہ سارے وعدے کہاں گئے؟ بلکہ اب تو الٹا چالیس ارب روپے کے نئے ٹیکس کا بوجھ عوام پر ڈال دیا گیا ہے ۔یو ں دیکھا جائے تو ان اہم امور پر ن لیگ اپنے منشورکے مخالف سمت میں سفرکر رہی ہے جب کہ کوئی تین سال قبل تک حکومت کا کہنا تھا کہ ان کے پاس یہ اختیار موجود ہے کہ ٹیکس نادہندگان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالے جائیں اور ان کے قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کو منسوخ کرکے بینکوں کے کھاتے ضبط کرلیے جائیں۔
ن لیگ کی اس سے قبل کے دورحکومت میں یہ اطلاع آئی تھی کہ حکومت اور ایف بی آر نے بتیس لاکھ ایسے انتہائی دولت مند افراد کے اثاثوں بشمول بینکوں کے کھاتوں، جائیدادوں اور آمدنی و اخراجات کی تفصیلات جمع کرلی ہیں جو انکم ٹیکس گوشوارے جمع ہی نہیں کراتے۔ ان تمام افراد سے ٹیکس وصولی کے پروگرام کا اظہار بھی کیا گیا تھا مگر آج تک اس بارے میں کوئی پیش رفت ہوتی دکھائی نہیں دی۔یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے؟ اور اس اہم مسئلے پر حزب اختلاف کی جماعتیں خا ص کر انصاف کی اور اس ملک کو نیا چہرہ دینے کی باتیں کرنیوالی جماعتیں کیوں خاموش ہیں؟
وہ اپنے ایجنڈے میں اس مسئلے کو سرفہرست کیوں نہیں رکھتیں؟کیا ان سب کے مفادات ان نادہندگان سے وابستہ ہیں؟ یا یہ بھی اس ہی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں؟ راقم نے کافی عرصے قبل اس سے ملتے جلتے ایک اور مسئلے پر بھی کالم لکھا تھا جوکرپشن اور ناجائزدولت کے بیرون ملک اکاوئنٹ کے حوالے سے تھا، راقم نے عرض کیا تھا کہ امریکا اپنے ٹیکس چوروں کی ایک بڑی رقم سوئزر لینڈ کے بینکوں سے نہ صرف حاصل کر چکا ہے بلکہ ان ٹیکس چوروں کی مکمل معلومات بھی حاصل کر چکا ہے، لہذا ہمیں بھی اس سلسلے میں پیش رفت کرنی چاہیے، نہایت افسوس کا مقام ہے کہ صرف ایک آدھ خبر تو ضرور ذرائع ابلاغ پر آئی کہ حکومت پاکستان بھی سوئزرلینڈ کے بینکوں سے اس ضمن میں رابطہ کرے گی۔
مگر کوئی بڑی اور ٹھوس خبر سامنے نہ آئی۔کس قدر مذاق کی بات ہے کہ جو جماعت پاکستان کو قرضوں کی لعنت سے چھٹکارے کے لیے قرض اتارو، ملک سنواروں کی باتیں کرتی تھی اور اس ملک کو ایشیا کا ٹائیگر بنانے کی بات کرتی تھی،آج اپنے ہی منشور سے باغی ہے اور اس ملک کو سیکولر ریاست بنانے کی باتیں کرتی ہے، کیا سیکولر ریاست میں یہی معاشی پالیسی ہوتی ہے؟ یہ اطلاعات بھی آرہی ہیں کہ مالیاتی این آر اوکے طرز پر محدود قسم کی ٹیکس ایمنٹی اسکیم کے اجراء پر حکومت غورکر رہی ہے۔ جس سے ظاہر ہے کہ کالے دھند والے اورٹیکس نہ دینے والوں ہی کو فائدہ ہوگا ۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس اہم مسئلے پر بھی کوئی آپریشن ہوگا؟ یا کوئی این آر او ہوگا؟ آیے قارئین غورکریں اس اہم مسئلے پرکس جماعت کا کیا کردار ہے۔
تازہ لطیفہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت کیمطابق ٹیکس گوشوارے جمع کرا نیوالوں کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور یہ تعداد دس لاکھ تک پہنچ گئی ہے جب کہ ایک ماہر معاشیات کا کہنا ہے کہ مالی سال دو ہزار دس میں یہ تعداد سولہ لاکھ تھی۔ ایک چھوٹا لطیفہ یہ بھی ہے کہ ہمارے وزیر خزانہ اور وزیر اعظم جو عوام کو ایک عرصے سے یہ نوید دے رہے تھے کہ مجموعی پیداوار اور ٹیکسوں کی وصولی کا حدف دو ہزار سترہ اور اٹھارہ تک پندرہ فیصد تک ہے اب تازہ اطلاع کے مطابق وفاقی وزیر خزانہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت یہ حدف بڑھا کر تیرہ فیصد تک لے جائے گی۔
ہمیں ملکی معیشت کی باریکیاں تو زیادہ معلوم نہیں لیکن کم ازکم اتنی باتیں تو سمجھ میں آتیں ہیں کہ کونسا ہندسہ کم اورکونسا ہندسہ بڑا ہے اور اس کے اثرات ہماری روزمرہ کی زندگی پر منفی مرتب ہونگے یا مثبت؟ جب ہم یہ پڑھتے ہیں کہ جناب نوے کی دہائی میں مجموعی داخلی پیداوارکے تناسب سے ٹیکسوں کی اوسط وصولی انیس سونوے کی دہائی میں تیرہ فیصد سے زائد تھی اوراب حکومت اپنا حدف دس فیصد سنا رہی ہے تو یہ ہماری معیشت کے لیے اور ہماری عوام کے لیے فائدہ مند بات ہے یا نقصان دہ بات ہے۔
سیدھی سی بات ہے کہ جب ٹیکسوں کی وصولی نہیں ہوگی تو حکومت عوام پر نئے ٹیکس لگا کر بجٹ خسارہ پورہ کرے گی یا پھر آئی ایم ایف وغیرہ کے اداروں سے قرضے لے کر۔ اگر نئے ٹیکس لگائی گی تو مہنگائی میں اضافہ ہوگا اور عوامی مشکلات میں اضافہ ہوگا اور اگر قرضہ لے گی تو ملکی معیشت مزید کمزور ہوگئی کیو نکہ تاریخ یہ بتا تی ہے کہ جن ملکوں نے بھی ان اداروں سے قرض لیے، یہ قرضے ان کی ملکی معیشت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئے۔اس ملک کے چند ایک اہم مسائل میں یہ مسئلہ بھی شامل ہے کہ امیر،امیر تر اورغریب،غریب تر ہوتا جا رہے جس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ یہاں ایک سبزی فروخت کرنیوالے کو بھی ٹیکس دینا پڑ رہا ہے جب کہ انتہائی دولت مند افراد سے جو ٹیکس حکومت کو وصول کرنا چاہیے اس سے حکومت وہ ٹیکس وصول نہیں کر پا رہی ہے۔
ایک ممتاز ماہر معا شیات کے تخمینے کے مطابق اس ملک میں کم از کم پچھتر لاکھ افراد کو ٹیکس گوشوارے جمع کرانا چاہئیں (جب کہ موجودہ حکومت کے مطابق اس وقت یہ تعداد صرف دس لاکھ ہے)۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک بہت بڑا فرق ہے اگر ان افراد کو ٹیکس دینے پر مجبورکرلیا جائے تو پھر عوام پر آئے روز نت نئے ٹیکس لگانے کی ضرورت ہی باقی نہ رہے اور نہ ہی مہنگائی میں ہوش ربا اضافہ ہو۔اس قدر اہم مسئلے کو آخر ہمارے ذرائع ابلاغ میں نمایاں جگہ کیوں نہیں ملتی؟ یعنی ٹاک شوز وغیرہ میں ان موضوعات کوکیوں نہیں لایا جاتا؟ ٹاک شوز میں شریک افراد سے اس ضمن میں سوالات کیوں نہیں کیے جاتے؟
ہماری سیاسی جماعتوں کے رہنما ویسے تو ایک دوسرے پر بہت کیچڑ اچھالتے ہیں لیکن کوئی موجو دہ حکمرانوں سے یہ سوال کیوں نہیں کرتا کہ ن لیگ نے اپنے منشور میں وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد ہر قسم کی آمدن پر ٹیکس لگائے گی، کالے دھن کو سفید کرنے کی حوصلہ شکنی کی جائے گی نیز جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے ٹیکس دھندگان کا دائرہ وسیع کیا جائے گا، اب ن لیگ کے یہ سارے وعدے کہاں گئے؟ بلکہ اب تو الٹا چالیس ارب روپے کے نئے ٹیکس کا بوجھ عوام پر ڈال دیا گیا ہے ۔یو ں دیکھا جائے تو ان اہم امور پر ن لیگ اپنے منشورکے مخالف سمت میں سفرکر رہی ہے جب کہ کوئی تین سال قبل تک حکومت کا کہنا تھا کہ ان کے پاس یہ اختیار موجود ہے کہ ٹیکس نادہندگان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالے جائیں اور ان کے قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کو منسوخ کرکے بینکوں کے کھاتے ضبط کرلیے جائیں۔
ن لیگ کی اس سے قبل کے دورحکومت میں یہ اطلاع آئی تھی کہ حکومت اور ایف بی آر نے بتیس لاکھ ایسے انتہائی دولت مند افراد کے اثاثوں بشمول بینکوں کے کھاتوں، جائیدادوں اور آمدنی و اخراجات کی تفصیلات جمع کرلی ہیں جو انکم ٹیکس گوشوارے جمع ہی نہیں کراتے۔ ان تمام افراد سے ٹیکس وصولی کے پروگرام کا اظہار بھی کیا گیا تھا مگر آج تک اس بارے میں کوئی پیش رفت ہوتی دکھائی نہیں دی۔یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے؟ اور اس اہم مسئلے پر حزب اختلاف کی جماعتیں خا ص کر انصاف کی اور اس ملک کو نیا چہرہ دینے کی باتیں کرنیوالی جماعتیں کیوں خاموش ہیں؟
وہ اپنے ایجنڈے میں اس مسئلے کو سرفہرست کیوں نہیں رکھتیں؟کیا ان سب کے مفادات ان نادہندگان سے وابستہ ہیں؟ یا یہ بھی اس ہی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں؟ راقم نے کافی عرصے قبل اس سے ملتے جلتے ایک اور مسئلے پر بھی کالم لکھا تھا جوکرپشن اور ناجائزدولت کے بیرون ملک اکاوئنٹ کے حوالے سے تھا، راقم نے عرض کیا تھا کہ امریکا اپنے ٹیکس چوروں کی ایک بڑی رقم سوئزر لینڈ کے بینکوں سے نہ صرف حاصل کر چکا ہے بلکہ ان ٹیکس چوروں کی مکمل معلومات بھی حاصل کر چکا ہے، لہذا ہمیں بھی اس سلسلے میں پیش رفت کرنی چاہیے، نہایت افسوس کا مقام ہے کہ صرف ایک آدھ خبر تو ضرور ذرائع ابلاغ پر آئی کہ حکومت پاکستان بھی سوئزرلینڈ کے بینکوں سے اس ضمن میں رابطہ کرے گی۔
مگر کوئی بڑی اور ٹھوس خبر سامنے نہ آئی۔کس قدر مذاق کی بات ہے کہ جو جماعت پاکستان کو قرضوں کی لعنت سے چھٹکارے کے لیے قرض اتارو، ملک سنواروں کی باتیں کرتی تھی اور اس ملک کو ایشیا کا ٹائیگر بنانے کی بات کرتی تھی،آج اپنے ہی منشور سے باغی ہے اور اس ملک کو سیکولر ریاست بنانے کی باتیں کرتی ہے، کیا سیکولر ریاست میں یہی معاشی پالیسی ہوتی ہے؟ یہ اطلاعات بھی آرہی ہیں کہ مالیاتی این آر اوکے طرز پر محدود قسم کی ٹیکس ایمنٹی اسکیم کے اجراء پر حکومت غورکر رہی ہے۔ جس سے ظاہر ہے کہ کالے دھند والے اورٹیکس نہ دینے والوں ہی کو فائدہ ہوگا ۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس اہم مسئلے پر بھی کوئی آپریشن ہوگا؟ یا کوئی این آر او ہوگا؟ آیے قارئین غورکریں اس اہم مسئلے پرکس جماعت کا کیا کردار ہے۔