اپنے بھی خفا مجھ سے بیگانے بھی ناخوش
ہ امریکی حکومت مختلف ذرائع سے شہریوں کی نگرانی اور جانچ کے نظام کو وسعت دے رہی ہے
امریکا میں 'ہفتہ آزادی اظہار' (Free Speech Week) کے نام سے ایک باقاعدہ ادارہ کام کرتا ہے، جو ہر سال اکتوبر کے تیسرے ہفتے میں اس سلسلے میں ایک سرگرمی منعقدکرتا ہے، جس کا بنیادی مقصد آزادی اظہارکو یقینی بنانا ہوتا ہے۔اس ایونٹ میں افراد سے لے کر مختلف ادارے سبھی حصہ لے سکتے ہیں، جو اس بنیادی انسانی حق کی ترویج پر یقین رکھتے ہوں۔
یہ تحریروتقریرکے مختلف ذرائع استعمال کرتے ہوئے شہریوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کسی قسم کے خوف اور دباؤ سے بالاتر ہوکر اپنے خیالات کا اظہار کرنا ان کا بنیادی حق ہے۔ حالانکہ امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک میں جہاں 1791ء میں یہ قانون منظورکیا جاچکا اور آج لگ بھگ ہر شہری نہ صرف اس سے آگاہ ہے بلکہ اس کا وقتاً فوقتا استعمال بھی کرتا رہتا ہے، لیکن سنوڈن واقعے کے بعد یہ ثابت ہو چکا کہ دنیا کا یہ ترقی یافتہ ملک بھی اپنے شہریوں کے اس بنیادی حق پہ چوری چھپے ڈاکہ ڈالتا رہتا ہے۔ آزادی اظہارکے لیے کام کرنیوالی ایک اور بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل اسے ایک مختلف قسم کے دباؤ اورخوف سے تعبیرکرتی ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ امریکی حکومت مختلف ذرائع سے شہریوں کی نگرانی اور جانچ کے نظام کو وسعت دے رہی ہے،جس سے عقائد، نظریات اور افکار کے آزادانہ اظہار سے متعلق ایک اَن دیکھی خوف کی فضا جنم لیتی ہے۔ایمنٹسی انٹرنیشنل آزادی اظہار کو بنیادی حق قرار دیتے ہوئے، اس کی حدود بھی متعین کرتی ہے۔ اس بابت اس کی ویب سائٹ پر موجود متن کی یہ آخری بات کیسی شاندار ہے کہ''آزادی اظہار وہ اہم ترین حق ہے جس کی سب سے زیادہ غلط تفہیم کی گئی ہے، اپنے آزادی اظہار کے حق کو اُن کے حق میں بولنے کے لیے استعمال کیجیے جن کی کوئی نہیں سنتا، لیکن اسے ذمے داری کے ساتھ استعمال کیجیے، یہ طاقت ور ترین شئے ہے۔''
اس کی طاقت سے متعلق ہی ہند وسندھ کے مہان کوی شیخ ایاز نے کہا تھا کہ حرفِ حق ہرآمر کے سینے میں کسی خنجرکی طر ح اترتا ہے۔ اسی لیے آمر ہمیشہ حرف وحق کی صدا کو مقیدکرتا ہے۔ یہ عمل مگر المیہ تب بن جاتا ہے، جب حرف کی قوت کی علم بردار و پاسدار قوتیں ہی اس پہ قدغن لگانے پہ تل جائیں، اس سے خوف زدہ ہونے لگیں، یا منہ موڑنے لگیں۔ امریکا کی مثال اسی لیے دی گئی کہ امریکا بہادر دنیا بھر میں آزادی اظہارکا علم بردار بناپھرتا ہے، تحریروتقریر پہ ایسی قدغن کسی بنیاد پرست حکومت والے ملک میں ہو توکچھ اچنبھا نہیں ہوتا، مگر یہ سب جب 'مہذب' امریکا میں ہورہا ہو تو تشویش باید ہے۔
اس تشویش کا اظہار ہمیں امریکی دانشور نوم چومسکی کی تنقیدی تحریروں میں جا بہ جا ملتا ہے۔ اسی طرح اگر 'دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت' کا اندرونی چہرہ دیکھنا ہو تو افتادگانِ خاک کی کہانیاں بیان کرنیوالی اروندھتی رائے کی تحریریں پڑھیے۔ پاکستان میں ماضی میں ایسی مثالیں بہ کثرت ملتی ہیں جب ریاست اورحکومت کے عوام دشمن رویوں پہ اہلِ قلم نے ضمیرکی آواز پہ لبیک کہا۔ حبیب جالب کو یاد کیجیے ۔
ایوب کو للکارا، یحییٰ خان کے دستورکو ماننے سے انکارکردیا، آمروں سے تو اس کا نظریاتی اختلاف رہا، بھٹو میں متبادل نظرآیا تو اس کے گن گائے مگر اقتدار میں آکر اس قائد عوام نے جب عوام کے حق پہ ڈاکہ ڈالنا شروع کیا تو اس کے خوب لتے لیے۔ بے نظیرکے لیے 'بندوقوں والوں' کے سامنے 'نہتی لڑکی' کا استعارہ لائے، مگر جب وہ بھی عوام کی توقعات پر پورا نہ اترسکیں تو 'پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے' کہہ کر اسے بھی رد کردیا۔ آزادی اظہار کی یہ صورت جمہوریت پسند کسی حکمران کو نہ بھائی اور جالبؔ جیسے سبھی دیوانے اہلِ اقتدار کی نظروں میں سدا معتوب رہے۔
یہ جالبؔ کا ہی جگر تھا جو ایک زمانے میں بلوچستان میں آمریت کا استعارہ سمجھے جانے والے نواب اکبر بگٹی کو مخاطب کر کے جمہوریت کی راہ میں رکاوٹ نہ بننے کی چتاونی دے سکتا تھا، اور یہ ظرف بھی اسی بگٹی کا تھا کہ وہ اس کے آزادی اظہارکی قدر کرتے ہوئے اس سے خفگی کا اظہار تک نہ کرتا تھا۔
ہمارا بلوچستان تو ابھی پچاس برس پہلے تک سرداریت وخانیت کے زیراثر تھا، جہاں سردار ہی حرفِ اول وآخر ہوا کرتا تھا( اورآج بھی ہے)، عام آدمی کو زبان دینے والے یوسف عزیز سے غوث بخش بزنجو تک ان کے ہاں معتوب ہی رہے۔ خانیت سے نکلے تو ہماری سیاسی تحریک آغاز سے ہی بندوق برداروں کے ہاتھ آ گئی اور بندوق بردار مکالمے پرکم ہی یقین رکھتے ہیں۔ بندوق برداری، دراصل مکالمے کی موت کا اعلان ہی تو ہے۔ سو' ہمارے ہاں دلیل اور مکالمے کی روایت پروان چڑھنے سے پہلے ہی دم توڑ گئی۔ ہمارے ہاں مکالمے کے میدان کے آخری لوگ غوث بخش بزنجواورگل خان نصیر تھے۔ایک کو شدت پسند شاگردوں کے ہاتھوں شکست نے ماردیا، دوسرے کو'گل خاتون' جیسے جگر بریدہ القاب نے۔ 'بابائے مذاکرات' اور'گل خاتون' جیسے طنزیہ خطاب ، دلیل اور مکالمے سے متعلق ہمارے اجتماعی رویوں کی چغلی کھاتے ہیں۔
بلوچستان میں آزادی اظہارکا میدان صرف قصیدہ نگاروں کے لیے کھلا ہے، خواہ قصیدہ نگار سرکاری ہو یا 'سرمچاری'۔ یعنی ہر دوصورتوں میں قلم کوکسی ایک طاقتور قوت کے ہاں رہن رکھ دیا جائے۔ آزاد رائے کسی صورت ممکن نہیں۔ حالاں کہ ہر دو صورتوں میں بھی موت کی تلوار ہمہ وقت آپ کے سر پہ لٹکتی رہتی ہے، اور جب موقع ملے مخالف قوت اسے آپ کی گردن پرگرا بھی دیتی ہے۔ ڈاکٹر چشتی مجاہد سے لے کر پروفیسر صبا دشتیاری تک درجنوں مقتولین کے ناجائز قتل، بندوق کے سامنے دلیل کی بے بسی کا نوحہ ہی تو ہیں۔
اس آگ وخون کے درمیان ایک دَہائی سے مسلسل ایک آزاد خیال لکھاری کے بہ طور دونوں قوتوں سے واسطہ پڑنا فطری تھا۔کبھی کسی نے دھمکایا،کبھی کسی نے اٹھوایا،کبھی کسی نے گالم گلوچ کی،کبھی کسی نے گریبان پکڑا، کسی نے قبیلے کا طعنہ دیا،کوئی زبان کے دُشنام پہ اتر آیا، کسی نے 'غائب' کرا دیا،کسی نے حب الوطنی کا درس پڑھا دیا۔بارہا ایسا ہوا کہ کسی ایک قوت کی حکمت ِ عملی کی ناکامی پر سوال نے اسے برہم کردیا۔ ایک قوت کی کسی عوام دشمن سرگرمی پر تنقید نے اسے برافروختہ کردیا۔ ریاست اور اُس سے برسرپیکار قوتیں، ہر دو نے کسی قسم کے سوال اور تنقید سے خود کو مبرا قرار دے دیا۔
سوال اٹھانے والوں کو دنیا سے ہی اٹھا دیا...اس سارے تجربے نے ہی اس نتیجے پر پہنچایا کہ طاقت کے سامنے دلیل بے بس ہے۔ جو سیاست کو طاقت کے طابع کرنا چاہے، اس سے مکالمہ بے کار ہے۔ اسی لیے ایک زمانے میں طاقت کی حمایت کو 'حماقت' جانا اور جمہور کی سیاست اپنانے والوں کو دوست سمجھا۔ سمجھ آیاکہ سیاست ہی جمہوریت کی منزل کی اور جانے والامسلسل دلیل اور مستقل مکالمے کا اَ ن تھک رستہ ہے۔
اس میں مختلف رائے رکھنے کا مطلب مخالفت یا غداری نہیں۔ اس میں اختلاف کی سزا موت نہیں۔ اسی بنا پر سیاست کے حق میں لکھا،سیاسی قوتوں کے حق میں لکھا۔آمر مزاج 'شفیق' سرداروں کے سامنے سخت مزاج کے 'مالک' سیاست دانوں کی حمایت میں لکھا۔ مگر جہاں سیاست، جمہور کے بجائے طاقت ور قوتوں کے ہاں سرنگوں ہو گئی، وہاں سے جالبؔ کی روایت کی پاسداری لازم ٹھہری۔ مدعا سیاست کی تردید نہیں، اس طرزِ سیاست پہ حرف اٹھانا ہے جو جمہوری سیاست پر عوام کے اعتبار کو مجروح کرتا ہے۔ ایک آزاد خیال لکھنے والے کو ہمیشہ عوام کے حق میں ہونا چاہیے، عوام کے حق میں ہونے والی ہر سرگرمی کی مدح اور ہرعوام دشمن قدم کی تردید میں پیش پیش۔
پاکستان میں حال ہی میں،ایک زمانے میں بندوق اور اب مکالمے پر یقین رکھنے والے، بندوق بردارسے اہلِ قلم کا سفر طے کرنیوالے میر محمد علی تالپورکے بلوچستان سے متعلق ایک معاصر انگریزی روزنامے میںآزادانہ اظہارِ خیال کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے ان کی تحریروں کی اشاعت سے معذوری کا اظہارکیا گیا، اور یہاںجب بہ غرضِ اصلاح لکھے گئے آزاد خیال تنقیدی سیاسی تجزیوں کودشمنی پر محلول کیا گیا اور دوستوں کے ہاں تنبیہ نما شکایت بھیجی گئی تو جالبؔ یاد آئے، انھیں بھی کچھ دوستوں نے یہی مشورہ دیا تھا کہ،''ہم سے کہتے ہیں کچھ دوست ہمارے مت لکھو/جان اگر پیاری ہے پیارے مت لکھو...'' تب خود کو خود حوصلہ دیتے ہوئے اسی دیوانے جالبؔ نے لکھا تھا:''دینا پڑے کچھ ہی ہرجانہ ،سچ ہی لکھتے جانا/مت گھبرانا مت ڈرجانا، سچ ہی لکھتے جانا/پل دو پل کے عیش کی خاطرکیا دَبنا کیا جھکنا/آخر سب کو ہے مرجانا، سچ ہی لکھتے جانا...''
تحریروتقریر پہ یہ قدغنیں جب تحریروتقریر کی آزادی کے علمبرداروں کے عہد میں، انھی کے ہاتھوں ہورہی ہوں توپھر ازالے کی کوئی راہ بھی نہیں رہتی،کس کو وکیل کیا جائے،کس سے منصفی چاہی جائے،خود اپنے ہاتھ سے لگائے زخم کا مرہم کہاں ڈھونڈا جائے 'زخمِ دل کہاں لے جاؤں، تیر اپنا جگر اپنا...'
یہ تحریروتقریرکے مختلف ذرائع استعمال کرتے ہوئے شہریوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کسی قسم کے خوف اور دباؤ سے بالاتر ہوکر اپنے خیالات کا اظہار کرنا ان کا بنیادی حق ہے۔ حالانکہ امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک میں جہاں 1791ء میں یہ قانون منظورکیا جاچکا اور آج لگ بھگ ہر شہری نہ صرف اس سے آگاہ ہے بلکہ اس کا وقتاً فوقتا استعمال بھی کرتا رہتا ہے، لیکن سنوڈن واقعے کے بعد یہ ثابت ہو چکا کہ دنیا کا یہ ترقی یافتہ ملک بھی اپنے شہریوں کے اس بنیادی حق پہ چوری چھپے ڈاکہ ڈالتا رہتا ہے۔ آزادی اظہارکے لیے کام کرنیوالی ایک اور بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل اسے ایک مختلف قسم کے دباؤ اورخوف سے تعبیرکرتی ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ امریکی حکومت مختلف ذرائع سے شہریوں کی نگرانی اور جانچ کے نظام کو وسعت دے رہی ہے،جس سے عقائد، نظریات اور افکار کے آزادانہ اظہار سے متعلق ایک اَن دیکھی خوف کی فضا جنم لیتی ہے۔ایمنٹسی انٹرنیشنل آزادی اظہار کو بنیادی حق قرار دیتے ہوئے، اس کی حدود بھی متعین کرتی ہے۔ اس بابت اس کی ویب سائٹ پر موجود متن کی یہ آخری بات کیسی شاندار ہے کہ''آزادی اظہار وہ اہم ترین حق ہے جس کی سب سے زیادہ غلط تفہیم کی گئی ہے، اپنے آزادی اظہار کے حق کو اُن کے حق میں بولنے کے لیے استعمال کیجیے جن کی کوئی نہیں سنتا، لیکن اسے ذمے داری کے ساتھ استعمال کیجیے، یہ طاقت ور ترین شئے ہے۔''
اس کی طاقت سے متعلق ہی ہند وسندھ کے مہان کوی شیخ ایاز نے کہا تھا کہ حرفِ حق ہرآمر کے سینے میں کسی خنجرکی طر ح اترتا ہے۔ اسی لیے آمر ہمیشہ حرف وحق کی صدا کو مقیدکرتا ہے۔ یہ عمل مگر المیہ تب بن جاتا ہے، جب حرف کی قوت کی علم بردار و پاسدار قوتیں ہی اس پہ قدغن لگانے پہ تل جائیں، اس سے خوف زدہ ہونے لگیں، یا منہ موڑنے لگیں۔ امریکا کی مثال اسی لیے دی گئی کہ امریکا بہادر دنیا بھر میں آزادی اظہارکا علم بردار بناپھرتا ہے، تحریروتقریر پہ ایسی قدغن کسی بنیاد پرست حکومت والے ملک میں ہو توکچھ اچنبھا نہیں ہوتا، مگر یہ سب جب 'مہذب' امریکا میں ہورہا ہو تو تشویش باید ہے۔
اس تشویش کا اظہار ہمیں امریکی دانشور نوم چومسکی کی تنقیدی تحریروں میں جا بہ جا ملتا ہے۔ اسی طرح اگر 'دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت' کا اندرونی چہرہ دیکھنا ہو تو افتادگانِ خاک کی کہانیاں بیان کرنیوالی اروندھتی رائے کی تحریریں پڑھیے۔ پاکستان میں ماضی میں ایسی مثالیں بہ کثرت ملتی ہیں جب ریاست اورحکومت کے عوام دشمن رویوں پہ اہلِ قلم نے ضمیرکی آواز پہ لبیک کہا۔ حبیب جالب کو یاد کیجیے ۔
ایوب کو للکارا، یحییٰ خان کے دستورکو ماننے سے انکارکردیا، آمروں سے تو اس کا نظریاتی اختلاف رہا، بھٹو میں متبادل نظرآیا تو اس کے گن گائے مگر اقتدار میں آکر اس قائد عوام نے جب عوام کے حق پہ ڈاکہ ڈالنا شروع کیا تو اس کے خوب لتے لیے۔ بے نظیرکے لیے 'بندوقوں والوں' کے سامنے 'نہتی لڑکی' کا استعارہ لائے، مگر جب وہ بھی عوام کی توقعات پر پورا نہ اترسکیں تو 'پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے' کہہ کر اسے بھی رد کردیا۔ آزادی اظہار کی یہ صورت جمہوریت پسند کسی حکمران کو نہ بھائی اور جالبؔ جیسے سبھی دیوانے اہلِ اقتدار کی نظروں میں سدا معتوب رہے۔
یہ جالبؔ کا ہی جگر تھا جو ایک زمانے میں بلوچستان میں آمریت کا استعارہ سمجھے جانے والے نواب اکبر بگٹی کو مخاطب کر کے جمہوریت کی راہ میں رکاوٹ نہ بننے کی چتاونی دے سکتا تھا، اور یہ ظرف بھی اسی بگٹی کا تھا کہ وہ اس کے آزادی اظہارکی قدر کرتے ہوئے اس سے خفگی کا اظہار تک نہ کرتا تھا۔
ہمارا بلوچستان تو ابھی پچاس برس پہلے تک سرداریت وخانیت کے زیراثر تھا، جہاں سردار ہی حرفِ اول وآخر ہوا کرتا تھا( اورآج بھی ہے)، عام آدمی کو زبان دینے والے یوسف عزیز سے غوث بخش بزنجو تک ان کے ہاں معتوب ہی رہے۔ خانیت سے نکلے تو ہماری سیاسی تحریک آغاز سے ہی بندوق برداروں کے ہاتھ آ گئی اور بندوق بردار مکالمے پرکم ہی یقین رکھتے ہیں۔ بندوق برداری، دراصل مکالمے کی موت کا اعلان ہی تو ہے۔ سو' ہمارے ہاں دلیل اور مکالمے کی روایت پروان چڑھنے سے پہلے ہی دم توڑ گئی۔ ہمارے ہاں مکالمے کے میدان کے آخری لوگ غوث بخش بزنجواورگل خان نصیر تھے۔ایک کو شدت پسند شاگردوں کے ہاتھوں شکست نے ماردیا، دوسرے کو'گل خاتون' جیسے جگر بریدہ القاب نے۔ 'بابائے مذاکرات' اور'گل خاتون' جیسے طنزیہ خطاب ، دلیل اور مکالمے سے متعلق ہمارے اجتماعی رویوں کی چغلی کھاتے ہیں۔
بلوچستان میں آزادی اظہارکا میدان صرف قصیدہ نگاروں کے لیے کھلا ہے، خواہ قصیدہ نگار سرکاری ہو یا 'سرمچاری'۔ یعنی ہر دوصورتوں میں قلم کوکسی ایک طاقتور قوت کے ہاں رہن رکھ دیا جائے۔ آزاد رائے کسی صورت ممکن نہیں۔ حالاں کہ ہر دو صورتوں میں بھی موت کی تلوار ہمہ وقت آپ کے سر پہ لٹکتی رہتی ہے، اور جب موقع ملے مخالف قوت اسے آپ کی گردن پرگرا بھی دیتی ہے۔ ڈاکٹر چشتی مجاہد سے لے کر پروفیسر صبا دشتیاری تک درجنوں مقتولین کے ناجائز قتل، بندوق کے سامنے دلیل کی بے بسی کا نوحہ ہی تو ہیں۔
اس آگ وخون کے درمیان ایک دَہائی سے مسلسل ایک آزاد خیال لکھاری کے بہ طور دونوں قوتوں سے واسطہ پڑنا فطری تھا۔کبھی کسی نے دھمکایا،کبھی کسی نے اٹھوایا،کبھی کسی نے گالم گلوچ کی،کبھی کسی نے گریبان پکڑا، کسی نے قبیلے کا طعنہ دیا،کوئی زبان کے دُشنام پہ اتر آیا، کسی نے 'غائب' کرا دیا،کسی نے حب الوطنی کا درس پڑھا دیا۔بارہا ایسا ہوا کہ کسی ایک قوت کی حکمت ِ عملی کی ناکامی پر سوال نے اسے برہم کردیا۔ ایک قوت کی کسی عوام دشمن سرگرمی پر تنقید نے اسے برافروختہ کردیا۔ ریاست اور اُس سے برسرپیکار قوتیں، ہر دو نے کسی قسم کے سوال اور تنقید سے خود کو مبرا قرار دے دیا۔
سوال اٹھانے والوں کو دنیا سے ہی اٹھا دیا...اس سارے تجربے نے ہی اس نتیجے پر پہنچایا کہ طاقت کے سامنے دلیل بے بس ہے۔ جو سیاست کو طاقت کے طابع کرنا چاہے، اس سے مکالمہ بے کار ہے۔ اسی لیے ایک زمانے میں طاقت کی حمایت کو 'حماقت' جانا اور جمہور کی سیاست اپنانے والوں کو دوست سمجھا۔ سمجھ آیاکہ سیاست ہی جمہوریت کی منزل کی اور جانے والامسلسل دلیل اور مستقل مکالمے کا اَ ن تھک رستہ ہے۔
اس میں مختلف رائے رکھنے کا مطلب مخالفت یا غداری نہیں۔ اس میں اختلاف کی سزا موت نہیں۔ اسی بنا پر سیاست کے حق میں لکھا،سیاسی قوتوں کے حق میں لکھا۔آمر مزاج 'شفیق' سرداروں کے سامنے سخت مزاج کے 'مالک' سیاست دانوں کی حمایت میں لکھا۔ مگر جہاں سیاست، جمہور کے بجائے طاقت ور قوتوں کے ہاں سرنگوں ہو گئی، وہاں سے جالبؔ کی روایت کی پاسداری لازم ٹھہری۔ مدعا سیاست کی تردید نہیں، اس طرزِ سیاست پہ حرف اٹھانا ہے جو جمہوری سیاست پر عوام کے اعتبار کو مجروح کرتا ہے۔ ایک آزاد خیال لکھنے والے کو ہمیشہ عوام کے حق میں ہونا چاہیے، عوام کے حق میں ہونے والی ہر سرگرمی کی مدح اور ہرعوام دشمن قدم کی تردید میں پیش پیش۔
پاکستان میں حال ہی میں،ایک زمانے میں بندوق اور اب مکالمے پر یقین رکھنے والے، بندوق بردارسے اہلِ قلم کا سفر طے کرنیوالے میر محمد علی تالپورکے بلوچستان سے متعلق ایک معاصر انگریزی روزنامے میںآزادانہ اظہارِ خیال کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے ان کی تحریروں کی اشاعت سے معذوری کا اظہارکیا گیا، اور یہاںجب بہ غرضِ اصلاح لکھے گئے آزاد خیال تنقیدی سیاسی تجزیوں کودشمنی پر محلول کیا گیا اور دوستوں کے ہاں تنبیہ نما شکایت بھیجی گئی تو جالبؔ یاد آئے، انھیں بھی کچھ دوستوں نے یہی مشورہ دیا تھا کہ،''ہم سے کہتے ہیں کچھ دوست ہمارے مت لکھو/جان اگر پیاری ہے پیارے مت لکھو...'' تب خود کو خود حوصلہ دیتے ہوئے اسی دیوانے جالبؔ نے لکھا تھا:''دینا پڑے کچھ ہی ہرجانہ ،سچ ہی لکھتے جانا/مت گھبرانا مت ڈرجانا، سچ ہی لکھتے جانا/پل دو پل کے عیش کی خاطرکیا دَبنا کیا جھکنا/آخر سب کو ہے مرجانا، سچ ہی لکھتے جانا...''
تحریروتقریر پہ یہ قدغنیں جب تحریروتقریر کی آزادی کے علمبرداروں کے عہد میں، انھی کے ہاتھوں ہورہی ہوں توپھر ازالے کی کوئی راہ بھی نہیں رہتی،کس کو وکیل کیا جائے،کس سے منصفی چاہی جائے،خود اپنے ہاتھ سے لگائے زخم کا مرہم کہاں ڈھونڈا جائے 'زخمِ دل کہاں لے جاؤں، تیر اپنا جگر اپنا...'