پاک بھارت کرکٹ سیریز مشن امپاسیبل بن گئی

ہر روز نت نئے بیانات نے معاملہ مزیدگھمبیر بنا دیا، ایک دن امید کی کرن نظر آتی تو اگلے روز پھر اندھیرا چھا جاتا ہے.


Saleem Khaliq December 06, 2015
ہر روز نت نئے بیانات نے معاملہ مزیدگھمبیر بنا دیا، ایک دن امید کی کرن نظر آتی تو اگلے روز پھر اندھیرا چھا جاتا ہے. فوٹو: فائل

LOS ANGELES: پاک بھارت کرکٹ سیریز ہو گی یا نہیں یہ اس وقت ملین ڈالر کا سوال بن چکا ہے،اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا دکھائی نہیں دے رہا، ہر روز نت نئے بیانات نے معاملہ مزیدگھمبیر بنا دیا، ایک دن امید کی کرن نظر آتی تو اگلے روز پھر اندھیرا چھا جاتا ہے، بھارتی حکومت نے اجازت کے معاملے پر پراسرار خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔

صاف ظاہر ہے اسے سیریز میں کوئی دلچسپی نظر نہیں آ رہی البتہ ہم اتنے بے چین ہیں کہ وزیراعظم نے پی سی بی کی درخواست چند ہی گھنٹوں میں منظور کر دی تھی، بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق روایتی حریفوں میں مقابلے ہوتے دکھائی نہیں دے رہے، مگر حیران کن طور پر بی سی سی آئی آفیشلز ان دنوں بیحد میٹھی بولی بول رہے ہیںِ، کل تک انگارے برسانے والے سیکریٹری انوراگ ٹھاکر کو اب اچانک یاد آ گیا کہ پاکستان سے سیریز ''دوستی'' کے لیے کتنی ضروری ہے، نائب صدر راجیو شکلا بھی کہنے لگے کہ '' کھیل کو سیاست سے الگ رکھا جائے''۔

مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھیں بخوبی علم ہے کہ حکومت اجازت نہیں دینی والی، ایسے میں مثبت باتیں کرنے کا مقصد یہی ہے کہ کل کو کہہ سکیں ہم تو سیریز کھیلنا چاہتے تھے مگر حکومتی اجازت نہ ملنے پر مجبور ہیں، اس سے قبل بھارتی بورڈ کبھی ایسی مثبت باتیں نہیں کر رہا تھا مگر رویے میں تبدیلی سخت پاکستانی موقف کی وجہ سے آئی، چیئرمین پی سی بی شہریارخان کئی بار واضح کر چکے کہ اگر باہمی سیریز نہ ہوئی تو ممکن ہے پاکستانی ٹیم بھی سیکیورٹی خدشات کے سبب حکومت سے اجازت نہ ملنے کے سبب آئی سی سی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کھیلنے کے لیے بھارت نہ جائے،ایک بڑی ٹیم دستبردار ہوئی تو ایونٹ کی کیا اہمیت رہ جائے گی یہ سب جانتے ہیں۔

اسی لیے بی سی سی آئی ان دنوں سرگرم ہے، دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے ویسے جس طرح بھارتی حکومت گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی ہے ویسے ہی کیا پتا اچانک سیریز کھیلنے کا بھی کہہ دے، مگر اب وقت بہت کم ہے، چند روز کے دوران سری لنکا میں مقابلوں کی تیاریاں، اسپانسر شپ کا حصول اور دیگر معاملات طے کرنا پاکستان کے لیے انتہائی دشوار ثابت ہو گا، اگر کوئی اور بورڈ ہوتا تو کب کا انکار کر چکا ہوتا مگر پی سی بی ڈالرز کی لالچ میں ملکی عزت و وقارسب کچھ بھلا بیٹھا ہے، شہریارخان کئی ماہ سے ''1،2دن'' میں واضح جواب مانگ رہے ہیں، نجانے ان کے نزدیک ایک دن کتنے ماہ پر محیط ہوتا ہے۔

بھارت بھی معاملے کو لٹکا کر پاکستانی بے بسی سے لطف اندوز ہو رہا ہے، اب تو سنیل گاوسکر بھی نفرت کی بولی بولنے لگے ہیں، یو اے ای میں وہ سیریز کے لیے مثبت باتیں کرتے دکھائی دیے مگر اپنے ملک میں کہنے لگے کہ '' پاک بھارت مقابلے ایشز کی طرح اہم نہیں، نہ ہونے سے دنیائے کرکٹ کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا، جب اتنے بڑے سابق کرکٹر کی یہ رائے ہے تو دیگر بھارتی پاکستان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل بات نہیں ہے۔

ملکی کرکٹ میں ان دنوں اسپاٹ فکسنگ میں سزا یافتہ محمد عامر کو ٹیم میں واپس لانے کا معاملہ بھی بہت گرم ہے، کوچ وقار یونس کا نام ماضی میں میچ فکسنگ کی تحقیقات کرنے والے جسٹس (ر) ملک محمد قیوم کی رپورٹ میں شامل تھا، سابق ساتھی کھلاڑی عاقب جاوید نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ''وقار نے انھیں بتایا کہ بکی سے جیپ لی تھی مگر پھر واپس کر دی'' ان کو کوئی عہدہ نہ دینے کی سفارش ہوئی مگر وہ قومی ٹیم کے کوچ بنے ہوئے ہیں، اب وہ اگر عامر کو ''دوسرا موقع'' دینے کی بات کر رہے ہیں تو وہ سمجھ میں آتی ہے۔

اسی طرح وسیم اکرم کو بھی جسٹس قیوم نے کوئی ذمہ داری نہ دینے کا کہا تھا مگر وہ پی ایس ایل کے سفیر اور سال میں ایک بار کئی لاکھ روپے لے کر نوجوان بولرز کی ''کوچنگ'' کرتے ہیں، انھیں بھی زندگی میں کئی ''چانس'' ملے لہذا وہ بھی عامر کے ساتھ ایسا ہی چاہتے ہیں، ایسے میں معروف صحافی سہیل عمران کی یہ بات دل پر لگتی ہے کہ ''افسوس اس بات کا ہے کہ5برس میں ہم عامر جیسا کوئی بولر تلاش نہیں کر سکے یہ سلیکٹرز اور بورڈ کی ناکامی ہے''۔ سلمان بٹ اور محمد آصف کو بھی عامر کو دعائیں دینا چاہئیں۔

نوجوان پیسر کی ٹیم میں واپسی کے لیے بے چین بورڈ نے ان دونوں کو اسی لیے ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے کی اجازت دی تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ عامر کے ساتھ اچھا سلوک اور سلمان و آصف کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، ہم اس ملک میں رہتے ہیں جہاں ایک بااثر ''اسٹار'' کو بچانے کے لیے ایف آئی آر میں آدھا نام تک تبدیل کر دیا جاتا ہے، یہاں بعض سیاستدانوں پر کئی بار کرپشن ثابت ہو چکی مگر وہ دوبارہ منتخب ہو کر ملک و قوم کی ''خدمت'' کے لیے سامنے آ جاتے ہیں۔

یہاں جب ایسے لوگوں کو کئی چانس مل جاتے ہیں تو عامر کو بھی ملنے پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے، البتہ بعد میں کیا ہو گا اس کا کوئی نہیں سوچ رہا، اس وقت سب سے زیادہ خوش بکیز ہی ہوں گے، اب وہ نئے کرکٹرز کو جال میں پھنسانے کے لیے کہہ سکیں گے کہ ''عامرکو دیکھو، غلطی سے پکڑا گیا مگر پھر 5 سال ہماری دی ہوئی رقم پر عیش کیے اب پھر آ کر پیسہ کمائے گا، آئو تم بھی ہمارے ساتھ مل جائو''۔ٹیم میں بھی مخالفتیں سامنے آئیں گی، یہ معاملہ اتنا آسان نہیں جتنا بورڈ سمجھ رہا ہے کہ بولنگ کوچ مشتاق احمد جا کر کھلاڑیوں کو سمجھائیں گے تو سب مان جائیںگے،آگے کئی مسائل سامنے آنے والے ہیں جن کی ہماری کرکٹ متحمل نہیں ہو سکتی۔

اب کچھ بات پاکستانی ٹیم کے دورئہ یو اے ای کی کرلیتے ہیں،ایک اور سیریز کا شکست پر اختتام ہوا، شائقین کی یہ تشویش بالکل جائز ہے کہ ہماری کرکٹ آخرکس سمت میں گامزن ہو چکی، ٹیسٹ میں تو من پسند اسپن پچز بنا کر فتح حاصل کر لی مگر ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں کیا ہوگیا؟ایک طرز میں ٹیم آٹھویں اور دوسرے میں چھٹے نمبر پر آ چکی، اس تباہی کے باوجود حکام چین کی بانسری بجا رہے ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھیں شکستوں کا کوئی دکھ نہیں، بس اپنے غیرملکی ٹورز اور مال کمانے کی ہی فکر ہے،یہ سوچ مستقبل میں حالات مزید خراب کر دے گی۔

اسی طرح ایک طرف پی سی بی بھارت سے سیریز کی کوششوں میں مصروف ہے دوسری جانب ٹیم کے کوچ وقار یونس ایک بار پھر آسٹریلیا جا چکے، ہم دنیا کو کہتے ہیں کہ ''ہمارا ملک محفوظ ہے آئو یہاں آ کر کرکٹ کھیلو دوسری جانب خود کوچ کو سیکیورٹی پر یقین نہیں اور وہ اپنے اہل خانہ کو پاکستان لانے پر تیار نہیں ہوتے، اس کے بجائے ہر سیریز ختم ہونے پر بورڈ کے لاکھوں روپے پھونک کر آسٹریلیا چلے جاتے ہیں،اتنی بار اپنے گھر تو سابق کوچ ڈیو واٹمور بھی نہیں گئے ہوں گے، ٹیم انگلینڈ کیخلاف ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی سیریز بُری طرح ہاری، ایسے میں بہتری لانے کی کوشش کرنے کے بجائے وہ آسٹریلیا روانہ ہو گئے، اس سے 16 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ لینے والے کوچ کی سنجیدگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

قومی ٹیم کی حالیہ ناکامیوں میں بڑا کردار سلیکشن کمیٹی کا بھی ہے، پہلے ون ڈے اسکواڈ میں یونس خان کی شمولیت کے لیے سب سے لڑائی مول لی اور پھر جب وہ پہلے میچ کے بعد ہی ریٹائر ہو گئے تو بغلیں جھانکنے لگے، اسی طرح ٹی20 اسکواڈ کا انتخاب بھی درست نہ تھا،39 سالہ رفعت اﷲ مہمند کو ڈیبیو کرانے کی کیا منطق تھی یہ تو ہارون رشید ہی بتا سکتے ہیں، 20 سال ڈومیسٹک کرکٹ میں ''آزمانے'' کے بعد انھیں اب قومی ٹیم کی نمائندگی کا موقع دیا گیا، حسب توقع وہ ناکام ثابت ہوئے،ایک بات بالکل واضح ہو چکی کہ جو میچز ٹیلی ویژن پر نشر ہوں ان کی پرفارمنس کسی بھی کھلاڑی کو قومی ٹیم میں شامل کرا سکتی ہے، دیگر ایونٹس میں پلیئرز بیچارے رنز کے ڈھیر لگا کر سلیکٹرز کی نظرکرم کے منتظر ہی رہتے ہیں۔

رفعت نے ڈومیسٹک ٹی ٹوئنٹی ایونٹ میں اچھا کھیل پیش کیا تو سب کی نظروں میں آ گئے لیکن بدقسمتی سے پرفارم نہ کر سکے، ہماری ڈومیسٹک اور انٹرنیشنل کرکٹ میں کتنا فرق ہے وہ اب بخوبی جان چکے ہوں گے، اسی طرح سہیل تنویر کو اتنے موقع مل چکے لیکن صلاحیتوں کا لوہا نہ منوا سکے، بولنگ اور بیٹنگ تو چھوڑیں وہ تو فیلڈنگ بھی نہیں کر پاتے،تین میچز میں انھوں نے کتنے کیچز ڈراپ کیے سب نے دیکھا ہوگا،50 ٹوئنٹی 20 انٹرنیشنل میں 47 وکٹیں لینے اور190رنز بنانے والے کو اگر آل رائونڈرکہتے ہیں تو ٹیم کا یہ حال بالکل ٹھیک ہے۔

اب چیف سلیکٹر بھی ان پر تنقید کر رہے ہیں، جب پہلے ہی صلاحیتوں پر شکوک تھے تو منتخب کیوں کیا، انور علی نے بھی چند میچز کے سوا غیرمعمولی کارکردگی نہیں دکھائی،14میچز میں 10 وکٹیں حاصل کرنے اور88رنز بنانے پر وہ بھی آل رائونڈر ہی کہلاتے ہیں، شاید ہم بھول گئے کہ عبدالرزاق اور اظہر محمود بھی ہماری ٹیم کا ہی حصہ ہوا کرتے تھے، فاسٹ بولرز کی کارکردگی انتہائی مایوس کن اور بطور کوچ وقار یونس کی ناکامی کو ثابت کرتی ہے،انور، سہیل، عرفان اور وہاب کسی میچ میں بھی متاثر نہ کر پائے، نئے پیسر عمران خان کو دیکھ کر ایسا لگا کہ بھاگ کر اسپن بولنگ کر رہے ہیں، ان کی سلیکشن بھی ''ٹیلی کاسٹ'' میچز کی بدولت ہوئی تھی،کپتان شاہد آفریدی سیریز سے قبل انتہائی دبائو کا شکار تھے مگر اب لگتا ہے کہ فارم واپس آنے لگی۔

انھیں جلد اپنے کھیل میں مزید بہتری لانا ہوگی تاکہ ورلڈٹی ٹوئنٹی میں ٹیم مناسب پرفارم کر سکے، شعیب ملک نے تیسرے ٹی 20 میں اچھی اننگز کھیلی لیکن ان جیسے تجربہ کار کھلاڑی کا میچ کو فنش نہ کرپانا مایوس کن تھا،عمر اکمل اور صہیب مقصود خاص پرفارم نہ کرسکے، اس وقت ٹیم بالکل بھی سیٹ نہیں لگ رہی، مینجمنٹ کے تجربات کی وجہ سے مسائل میں اضافہ ہو گیا،سرفراز احمد کو ناکام بنانے کے لیے کوچ وقار یونس کی کوششیں جاری ہیں،پہلے ٹی ٹوئنٹی میں ان سے اننگز کا آغاز کرایا گیا، دوسرے میں ساتویں نمبر پر بیٹنگ کی، تیسرے میں کھلایا ہی نہیں گیا،سرفرازپر دبائو ڈالنے کے لیے ایک اور وکٹ کیپر محمد رضوان کو اسکواڈ کے ساتھ رکھا جاتا ہے مگر ان کی پرفارمنس خاصی غیرمعیاری رہی۔

اس وقت ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ کھلاڑی ٹیم نہیں بلکہ صرف اپنے لیے کھیل رہے ہیں، اپنی پوزیشن پکی رہے بس سب کی یہی کوشش ہے،3میچز میں2 بار ایسا ہوا کہ دونوں بیٹسمین ایک ہی اینڈ پر کھڑے ہو گئے، ماضی میں دیکھا جاتا تھا کہ ایک پلیئر دوسرے کے لیے قربانی دے دیتا تھا مگر اب دونوں کی کوشش ہوتی تھی کہ ایک ہی اینڈ پر پہلے پہنچ کر رن آئوٹ سے بچا جائے، تھرڈ امپائر کو اس لیے زحمت دی گئی کہ کون آئوٹ ہوا ہے،اس سے ٹیم کے اتحاد کا اندازہ لگا لیں، رننگ بٹوین دی وکٹ کے لیے تو پروفیسر کو بھی کسی سے کلاسز لینی چاہئیں، اتنے تجربہ کار کھلاڑی کا بے تحاشا رن آئوٹس میں ملوث ہونا تشویشناک ہے، ٹی ٹوئنٹی میں ان کی حالیہ کارکردگی ٹیم سے اخراج کا سبب بن سکتی ہے، بولنگ پر پابندی کے سبب وہ ویسے ہی اب ناگزیر نہیں رہے۔

پاکستانی کھلاڑی عموماً متواتر کرکٹ کھیلنے سے تھکاوٹ کا رونا روتے رہتے ہیں، مگر اب انگلینڈ سے سیریز کے بعد ٹکے کمانے بنگلہ دیش چلے گئے، بورڈ کی کمزور گرفت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی ہمت نہ ہو سکی کہ کسی کو روک سکے،ملک میں قائد اعظم ٹرافی ہو رہی ہے مگر پلیئرز ان کی تصاویر والے نوٹ زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کے لیے بنگلہ دیشی سرزمین پر ایکشن میں ہیں، ایونٹ میں فکسنگ بھی عروج پر ہے، ویسے بھی پاکستانی ٹیم کی حالیہ کارکردگی نے آئی سی سی اینٹی کرپشن یونٹ کو خاصا مصروف رکھا ہوا ہے، کئی ''اتفاقات'' ایسے ہوئے جس نے حکام کو چوکنا کر دیا، اب بی پی ایل میں تو کونسل کا یونٹ بھی موجود نہیں، وہاں سے کئی بکیز پکڑے جا چکے، حیرت کی بات ہے کہ ہمارے بورڈ نے اپنے کھلاڑیوں کو اتنی آسانی سے سٹے بازوں کے جال میں پھنسنے کے لیے چھوڑ دیا۔

ورلڈ ٹی ٹوئنٹی اب زیادہ دور نہیں رہا، آفریدی، حفیظ اور شعیب ملک سمیت تمام سینئرز کو ذمہ داری محسوس کر کے کارکردگی میں تسلسل لانا چاہیے، اسی طرح اب تجربات کا وقت گذر چکا،مینجمنٹ ایک ٹیم بنا لے اور اسی کو کھلائے، ابھی کسی کھلاڑی کو بھی پتا نہیں کہ وہ اگلا میچ کھیلے گا یا نہیں، عدم تحفظ کا یہ احساس ہی انفرادی کھیل کے کلچر کو پروان دے رہا ہے، جلد ہوش کے ناخن نہ لیے تو بھارت میں شیڈول میگا ایونٹ سے پہلے رائونڈ کے بعد ہی گھر واپسی کے لیے ابھی سے ذہنی طور پر تیار ہو جانا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں