بلدیاتی انتخابات کا تیسرا مرحلہ اختتام پذیر

ایم کیو ایم نے بلدیاتی انتخابات میں تاریخی کامیابی حاصل کی اور کلین سویپ کرتے ہوئے اپنے ماضی کے ریکارڈ کو بھی توڑ دیا۔


Editorial December 07, 2015
انتخابات میں دھاندلی کے الزامات روکنے کے لیے حکومت کو بائیو میٹرک سسٹم اپنانے پر توجہ دینا چاہیے۔ فوٹو : فائل

پنجاب کے 12 اور کراچی کے 6 اضلاع میں 5دسمبر کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے تیسرے مرحلے کے انعقاد کے بعد پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے تمام مراحل کامیابی سے پایہ تکمیل کو پہنچ گئے ہیں۔ انتخابی نتائج کے مطابق پنجاب میں مسلم لیگ ن اور کراچی میں ایم کیو ایم نے میدان مار لیا۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن 1069 نشستیں حاصل کر کے سرفہرست رہی جب کہ آزاد امیدوار 968 نشستیں جیت کر دوسرے نمبر پر رہے' اسی طرح تحریک انصاف نے 259' پیپلز پارٹی نے 100 اور جماعت اسلامی نے 3 نشستیں حاصل کیں۔

25 نشستوں پر الیکشن ملتوی کر دیے گئے جن کا بعد میں اعلان کیا جائے گا۔ کراچی کی 209 یونین کمیٹیز میں سے ایم کیو ایم نے 138' پی پی نے 13' تحریک انصاف 7' آزاد 7 اور جماعت اسلامی نے 6 نشستیں حاصل کیں۔ ایم کیو ایم نے بلدیاتی انتخابات میں تاریخی کامیابی حاصل کی اور کلین سویپ کرتے ہوئے اپنے ماضی کے ریکارڈ کو بھی توڑ دیا۔ کراچی کی میئر شپ کی دوڑ میں شامل جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن' پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن کے صدر نجمی عالم اور تحریک انصاف کراچی کے آرگنائزر علی زیدی شکست کھا گئے۔

پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے تیسرے اور آخری مرحلے کی تکمیل کے بعد جمہوری نظام کا بنیادی اور اہم مرحلہ بھی مکمل ہو گیا ہے۔ 31 اکتوبر کو پنجاب کے 12 اور سندھ کے آٹھ اضلاع میں پہلے اور 19نومبر کو پنجاب کے 12 اور سندھ کے 14اضلاع میں دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے، دونوں مراحل کے انتخابی نتائج کے مطابق پنجاب میں مسلم لیگ ن اور سندھ میں پیپلز پارٹی نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ تینوں مراحل کے انتخابی نتائج کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آزاد امیدوار دوسری بڑی قوت بن کر سامنے آئے ہیں۔

آخر عوام نے سیاسی پارٹیوں کو مسترد کر کے آزاد امیدواروں کو اتنی بڑی تعداد میں کیوں منتخب کیا یہ لمحہ فکریہ ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق ایک تو بعض مقامات پر آزاد امیدوار اپنے حلقوں میں بہترین کارکردگی کی بنا پر بہت مقبولیت رکھتے اور کسی بھی پارٹی کو شکست دینے کی اہلیت کے حامل ہیں، دوسری جانب یہ عوام کا سیاسی جماعتوں کی ناقص کارکردگی پر اپنے غم و غصے کا اظہار بھی ہے جو اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ عوام کی ایک تعداد کی نظر میں سیاسی جماعتیں ملک کا نظام بہتر بنانے میں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔

کراچی میں ایم کیو ایم نے حیران کن طور پر واضح برتری حاصل کی ہے' کراچی کے ضلع وسطی کی 51 یونین کمیٹیوں میں متحدہ قومی موومنٹ نے 50 یوسیز جب کہ صرف ایک یوسی میں پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی۔ واضح اکثریت ملنے کے بعد ایم کیو ایم میئر کراچی کا تاج سجانے سے چند روز کی دوری پر ہے۔ کراچی کے 6 اضلاع میں میونسپل کارپوریشن بنائی گئی ہیں جن میں مجموعی طور پر 209 یونین کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں ، پہلے مرحلے میں ان نشستوں کے انتخاب کے بعد مخصوص نشستوں پر خواتین، مزدور، کسان، نوجوان اور اقلیتوں کے نمایندوں کا چناؤ ہوگا جس کے بعد ضلعی کونسل کے ارکان کی تعداد 209 سے بڑھ کر 308 ہو جائے گی۔ اس مرحلے کے بعد کراچی کے میئر کا انتخاب ہوگا۔ میئر کے انتخاب کے لیے سادہ اکثریت 105 نشستوں کی ضرورت ہے جب کہ ایم کیو ایم درکار سادہ اکثریت سے زیادہ 122 نشستیں حاصل کرچکی ہے۔ اس طرح کراچی کی میئر شپ ایم کیو ایم کے ہاتھ آنے کے امکانات واضح ہو گئے ہیں۔

بلدیاتی انتخابات کے تیسرے مرحلے کے دوران بعض مقامات پر لڑائی جھگڑے کے واقعات بھی رونما ہوئے' مختلف مقامات پر حالات خراب ہونے پر فوج کو بھی طلب کر لیا گیا، راولپنڈی کی یونین کونسل 86 میں سابق صوبائی وزیر قانون بشارت راجہ کے بھانجے راجہ شعیب جھگڑے کے دوران ہونے والی فائرنگ سے جاں بحق ہو گئے۔ چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار رضا خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ راولپنڈی میں ایک شخص کی ہلاکت کے سوا الیکشن مجموعی طور پر پرامن رہا' تینوں مراحل میں انتخابات پر تقریباً تین ارب 80 کروڑ روپے خرچ ہوئے' عام انتخابات کے مقابلے میں بلدیاتی انتخابات کو زیادہ مربوط بنایا گیا۔

اب منتخب نمایندوں پر یہ بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عوامی مسائل کے حل پر بھرپور توجہ دیں جن کے لیے ان کا انتخاب عمل میں آیا ہے۔ انتخابات میں دھاندلی کے الزامات روکنے کے لیے حکومت کو بائیو میٹرک سسٹم اپنانے پر توجہ دینا چاہیے تاکہ شفاف انتخابات کے عمل کو یقینی بنایا جا سکے، انتخابی بے ضابطگیوں پر قابو پانے کے لیے بھی بھرپور اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ انتخابی فہرستوں کو اپ ڈیٹ کیا جائے اور ان کی تمام انتخابی امیدواروں سے پڑتال کرائی جائے تاکہ بعدازاں امیدواروں کی جانب سے انتخابی فہرستوں میں تبدیلی کے الزامات نہ لگائے جا سکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں