جواب ان دو سوالوں کا
اندھے اور لنگڑے کی کہانی اسکول کے زمانے میں پڑھی تھی۔ دونوں کی ایک ایک مجبوری تھی۔
اندھے اور لنگڑے کی کہانی اسکول کے زمانے میں پڑھی تھی۔ دونوں کی ایک ایک مجبوری تھی۔ گاؤں میں آگ لگ گئی تو سب بھاگ گئے۔ لنگڑے سے چلا نہ جاتا تھا اور اندھے کو دکھائی نہ دیتا تھا۔ یوں دونوں ایک دوسرے کا سہارا بنے۔ اندھے نے لنگڑے کو اپنے کاندھوں پر بٹھالیا۔ اس طرح کہ لنگڑا اپنے ساتھی کو راستہ بتاتا یوں دونوں اپنی منزل پر پہنچ گئے۔ ایسی کہانیاں تحریر کو ہلکا پھلکا بناتی ہیں، قاری محسوس کرتا ہے کہ وہ کوئی مشکل مضمون نہیں بلکہ کسی ہلکے پھلکے کالم کا مطالعہ کررہا ہے۔ خیر چھوڑیئے کہانی کو کہ یہ کوئی بچوں کا صفحہ تو نہیں، ایک بڑے اخبار کا بڑا اہم صفحہ ہے۔ ادارتی صفحے پر سیاست کی کچھ باتیں کرتے ہیں۔
عمران خان سیاست میں آنے کا سوچ رہے تھے۔ یہ 1996 کی بات ہے ان کے کریڈٹ پر اس وقت تک ورلڈ کپ اور شوکت خانم اسپتال تھے۔ ان ہی دنوں کے کالم دو اخبارات میں چھپتے تھے، عمران لکھتے تو انگریزی میں تھے اور اس کا ترجمہ اردو اخبار میں شایع ہوتا۔ ان کی باتیں عجیب و غریب اور حیرت انگیز ہوتیں، خوشحال گھرانے کا ایک ایسا شخص جو لڑکپن سے لندن کی آزاد فضاؤں میں رہا ہو، تعلیم اور کرکٹ کو یکجا کرکے کرکٹ ٹیم کا اہم بالر بنا ہو، ظہیر اور میانداد کے اختلافات کے سبب کپتان بنا ہو۔ ٹیم کو کامیابی دلائی ہو اور وہ بھی اس طرح کہ بھارت، آسٹریلیا، انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کی طاقتور ٹیموں کو ان کے اپنے میدانوں اور ایمپائرز کے ہوتے ہوئے شکست دی ہو، وہ عمران جسے کرکٹ سے ریٹائرڈ ہوئے چار سال بیت چکے تھے۔ وہ کپتان جس نے شادی، اسپتال کی تکمیل اور سیاسی پارٹی بناکر ہیٹ ٹرک کی ہو، اب وہ اپنے منصوبوں کی بات کررہا ہے اور اس کے کالم ملک کے بڑے اخبارات میں شایع ہورہے ہیں، تحریر میں بڑی حیرانی تھی اور کہا جائے کہ کچھ لوگوں کے لیے خوشگوار حیرت تھی تو غلط نہ ہوگا۔
شہرت کے بعد سیاست یعنی کامیاب پروفیشنل لائف کے بعد کرشماتی شخصیت کا سیاسی پارٹی بنانا۔ اصغر خان کے بعد یہ دوسری مثال تھی۔ سیاست میں آمد اور پھر خالی ہاتھ واپسی اصغر خان کی ناکامی کو عمران کے سیاسی مخالفین ان پر طنزاً ایئر مارشل کی مثال چسپاں کرتے۔ تحریک انصاف کی عمر ابھی چھ ماہ تھی کہ انتخابات کا اعلان ہوگیا۔ صدر فاروق لغاری نے بے نظیر بھٹو کی حکومت کو ختم کردیا، یوں پانچ سالہ میعاد کے ادھورے مرحلے پر الیکشن ہوئے، وہ انتخابات جس میں نواز شریف نے دو تہائی اکثریت حاصل کی جب کہ عمران کے ساتھی کہیں سے بھی اپنی ضمانت بچانے میں کامیاب نہ ہوسکے، پھر سیاسی بازی پلٹ گئی۔ نئی صدی میں نئے حکمران پرویز مشرف تھے۔
سپریم کورٹ نے انھیں لامحدود وقت نہیں دیا تھا۔ جب انھوں نے الیکشن کروائے تو چھ سالہ تحریک انصاف ایک نشست ہی جیت سکی۔ یہ قومی اسمبلی میں چیئرمین عمران خان ہی اپنی پارٹی کی نمایندگی کررہے تھے، جب پرویز مشرف نے جسٹس افتخار محمد چوہدری کو برطرف کیا تو وکلا نے تحریک شروع کی۔ سیاسی پارٹیوں نے اس میں اپنا حصہ بٹایا۔ اس مرحلے پر کپتان کی پارٹی کی عمر گیارہ سال ہوچکی تھی۔ تحریک انصاف نے اپنی اہمیت محسوس کروائی لیکن وہ معاملہ نہ تھا کہ لوگ کہیں کہ ''وہ آیا، اس نے دیکھا اور وہ چھا گیا'' ایک سال بعد ہونے والے انتخابات کا عمران نے بائیکاٹ کیا۔ یوں کامیابی کے دور دور تک آثار نہ ہونے کے سبب لوگوں نے ایک بار پھر عمران کو ''دوسرا اصغر خان'' کہنا شروع کردیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب ڈاکٹر طاہرالقادری بھی مایوس ہوکر سیاست سے دستبردار ہوگئے تھے، سیاسی دانشوروں کو عمران میں ایک اور ناکام سیاست دان نظر آنے لگا۔
بینظیر بھٹو کی چوتھی برسی کی تیاریاں ہورہی تھیں۔ پیپلزپارٹی ایک خوبصورت سیاسی ماحول سجائے ہوئے تھی۔ آصف زرداری صدر تو یوسف رضا گیلانی وزیراعظم، چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی سمیت تمام اہم وزارتیں جیالوں کے پاس تھیں۔ پنجاب میں شہباز شریف کا اقتدار رائے ونڈ کے لیے خوبصورتحال اور تابناک مستقبل کی نوید دے رہا تھا، شریف خاندان اب اندوہناک ماضی سے باہر نکل آیا تھا۔ سیاسی منظر میں پندرہ سالہ تحریک انصاف کا مینار پاکستان کا جلسہ سیاسی بساط پر رکھے تمام مہروں کی ترتیب کو الٹ پلٹ کر رکھ دیتا ہے۔ ٹو پارٹی سسٹم میں دراڑ نظر آرہی تھی لیکن بھارت، برطانیہ اور امریکا کے جمہوری نظام میں ایسی کوئی مثال دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ مورخ ہاتھ میں قلم تھامے وقت کا انتظار کررہا تھا۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ آصف زرداری کی پیپلزپارٹی نے اپنی میعاد مکمل کی۔ انتخابی مہم آگے بڑھی تو محسوس ہوا کہ تین طاقتور حریف اسمبلی میں پہنچیںگے، یہی ہوا لیکن نواز شریف، وزیراعظم بننے کے علاوہ دو تنہائی اکثریت کی بھی ہیٹ ٹرک کرگئے، عمران کو محسوس ہوا کہ دال میں کچھ کالا ہے، پیپلزپارٹی نے نتائج کو قبول کرلیا لیکن تحریک انصاف نے مبینہ دھاندلی کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ ایک سال گزرا تو پاکستان میں دھرنے کا ماحول سج گیا۔ خیبر پختونخوا کی حکومت پر چپ چاپ قناعت کے بجائے اسلام آباد میں احتجاجی تحریک شروع ہوگئی۔ 126 دن کے دھرنے کے بعد پشاور کے آرمی پبلک اسکول کے بچوں کی شہادت کے سبب دھرنا ختم کردیا گیا، سولہ دسمبر کو دہشت گردی کے واقعے کی یاد کے علاوہ دھرنے کے خاتمے کی سالگرہ بھی منائی جائے گی اور یقیناً ہم ''سقوط ڈھاکہ'' کے سانحے کو بھی یاد کریں گے۔
عمران کی باتیں اور پارٹی میں پیدا ہونے والی خامیاں کیا ہیں؟ اندھے اور لنگڑے کی کہانی کہ گاؤں میں آگ لگ جانے پر انھوں نے کس طرح ایک دوسرے کی مدد کرکے منزل پائی۔ ستر فیصد کالم پڑھ لینے کے باوجود ابھی تک سوالوں کا جواب نہیں ملا۔ ہم اپنی گفتگو کے انتہائی نازک مرحلے پر آچکے ہیں، سیاسی منظر یہ ہے کہ پاکستان اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ تمام تر جمہوری اداروں کو دیکھنے والا ہے پہلی مرتبہ جمہوری حکومت نے بلدیاتی انتخابات کا ڈول ڈالا ہے۔ اس سے پہلے ایوب دو مرتبہ، مشرف دو مرتبہ اور ضیا الحق تین مرتبہ بلدیاتی انتخابات کرواچکے ہیں، اب پاکستان میں خالصتاً سویلین صدر کے ہوتے ہوئے تمام جمہوری ادارے کام کرنے جارہے ہیں، اس مرحلے پر ہم ایک تیسری سیاسی پارٹی کے قائد کی باتوں اور پارٹی کی خامیوں کا جائزہ لے رہے ہیں تو یہ بات بھی ہمارے ذہن میں ہے کہ ماضی میں ایک کامیاب ایئر مارشل سیاست میں کرشماتی شخصیت ہونے کے باوجود کامیاب نہیں ہوسکے۔
یہ کالم ہے ابن صفی یا اشتیاق احمد کا ناول نہیں کہ پچہتر فی صد سے زیادہ کالم پڑھ لیے جانے کے باوجود اب تک تجسس برقرار رہے، عمران کی باتیں اصغر خان سے بالکل مختلف ہیں اور حیرت انگیز طور پر جماعت اسلامی سے قریب تر، جب لوگ عمران کو ''طالبان خان'' یا بغیر داڑھی والے مولانا کہتے تو وہ انھیں مذہبی پارٹیوں سے قریب تر گردانتے لندن میں پڑھنے والا اور آزاد فضاؤں میں رہنے والے سے توقع تھی کہ وہ پاکستان کو سیکولر اور لبرل بنانے کی بات کہہ کر اصغر خان کی تاریخ دہرائینگے، صدی کے آخری عشرے میں عمران کے مضامین حیرت انگیز طور پر جماعت اسلامی سے قریب تر محسوس ہوتے تھے دھرنے کے دوران عمران کی باتوں کو تمام پاکستانیوں نے سنا، ''ایاک نعبد و ایاک نستعین''ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں'' خلفائے راشدین کا نظام، مدینے جیسی ریاست کے قیام کی بات کو حیرت انگیز طور پر سنا گیا۔
یہ باتیں کسی عالم کی زبان سے نہیں بلکہ برطانیہ کی تعلیم گاہوں سے پڑھ کر آنیوالے مشہور کرکٹر کی زبان سے سنی جا رہی تھیں۔ زمانہ شباب میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستگی کے دوران مولانا مودودی کی تحریروں کے مطالعے کا موقع ملا، عمران کی باتیں کم و بیش وہی ہیں۔ ''صالحین'' کی اصطلاح کا مطلب کرپشن فری سوسائٹی ہی ہوتا ہے، دھرنے کے دوران خوشحال گھرانوں کی پڑھی لکھی ماڈرن خواتین سے کہنا کہ اپنے بچوں کو قرآن پاک کا ترجمہ پڑھائیں، اقبال کو مسلمانوں کی پانچ سو سالہ تاریخ کا قابل ترین آدمی قرار دینا اور بار بار علامہ کے اشعار کا حوالہ دینا کیا ہے؟
جماعت اسلامی اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود عوام کی بہت بڑی تعداد تو اب تک متاثر نہیں کرسکی۔ عمران خان اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود پارٹی کو منظم اور شفاف نہیں بناسکے ہیں، دونوں کی ایک ایک مجبوری ہے اور دونوں کو منزل تک پہنچنے کے لیے ایک دوسرے کے سہارے کی ضرورت جس بات کو دو عشروں سے محسوس کیا جارہا تھا اسے اب کہیں جاکر خیبرپختونخوا اور بلدیاتی انتخابات میں تسلیم کیا گیا ہے۔ دیکھنا ہے کہ دو سیاسی پارٹیاں کس حد تک اپنے اتحاد کو برقرار رکھ پاتی ہیں؟ یہ بھی جانچنا ہے کہ بددیانت سیاستدانوں کے ہاتھوں ستائے ہوئے عوام کس حد تک صالح اور کرپشن فری سوسائٹی کے نعروں کے علمبرداروں پر اعتماد کرتے ہیں؟ پاکستان کی ترقی و خوشحالی کی خاطر لازمی ہے کہ ہمیں ملے جواب ان دو سوالوں کا۔
عمران خان سیاست میں آنے کا سوچ رہے تھے۔ یہ 1996 کی بات ہے ان کے کریڈٹ پر اس وقت تک ورلڈ کپ اور شوکت خانم اسپتال تھے۔ ان ہی دنوں کے کالم دو اخبارات میں چھپتے تھے، عمران لکھتے تو انگریزی میں تھے اور اس کا ترجمہ اردو اخبار میں شایع ہوتا۔ ان کی باتیں عجیب و غریب اور حیرت انگیز ہوتیں، خوشحال گھرانے کا ایک ایسا شخص جو لڑکپن سے لندن کی آزاد فضاؤں میں رہا ہو، تعلیم اور کرکٹ کو یکجا کرکے کرکٹ ٹیم کا اہم بالر بنا ہو، ظہیر اور میانداد کے اختلافات کے سبب کپتان بنا ہو۔ ٹیم کو کامیابی دلائی ہو اور وہ بھی اس طرح کہ بھارت، آسٹریلیا، انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کی طاقتور ٹیموں کو ان کے اپنے میدانوں اور ایمپائرز کے ہوتے ہوئے شکست دی ہو، وہ عمران جسے کرکٹ سے ریٹائرڈ ہوئے چار سال بیت چکے تھے۔ وہ کپتان جس نے شادی، اسپتال کی تکمیل اور سیاسی پارٹی بناکر ہیٹ ٹرک کی ہو، اب وہ اپنے منصوبوں کی بات کررہا ہے اور اس کے کالم ملک کے بڑے اخبارات میں شایع ہورہے ہیں، تحریر میں بڑی حیرانی تھی اور کہا جائے کہ کچھ لوگوں کے لیے خوشگوار حیرت تھی تو غلط نہ ہوگا۔
شہرت کے بعد سیاست یعنی کامیاب پروفیشنل لائف کے بعد کرشماتی شخصیت کا سیاسی پارٹی بنانا۔ اصغر خان کے بعد یہ دوسری مثال تھی۔ سیاست میں آمد اور پھر خالی ہاتھ واپسی اصغر خان کی ناکامی کو عمران کے سیاسی مخالفین ان پر طنزاً ایئر مارشل کی مثال چسپاں کرتے۔ تحریک انصاف کی عمر ابھی چھ ماہ تھی کہ انتخابات کا اعلان ہوگیا۔ صدر فاروق لغاری نے بے نظیر بھٹو کی حکومت کو ختم کردیا، یوں پانچ سالہ میعاد کے ادھورے مرحلے پر الیکشن ہوئے، وہ انتخابات جس میں نواز شریف نے دو تہائی اکثریت حاصل کی جب کہ عمران کے ساتھی کہیں سے بھی اپنی ضمانت بچانے میں کامیاب نہ ہوسکے، پھر سیاسی بازی پلٹ گئی۔ نئی صدی میں نئے حکمران پرویز مشرف تھے۔
سپریم کورٹ نے انھیں لامحدود وقت نہیں دیا تھا۔ جب انھوں نے الیکشن کروائے تو چھ سالہ تحریک انصاف ایک نشست ہی جیت سکی۔ یہ قومی اسمبلی میں چیئرمین عمران خان ہی اپنی پارٹی کی نمایندگی کررہے تھے، جب پرویز مشرف نے جسٹس افتخار محمد چوہدری کو برطرف کیا تو وکلا نے تحریک شروع کی۔ سیاسی پارٹیوں نے اس میں اپنا حصہ بٹایا۔ اس مرحلے پر کپتان کی پارٹی کی عمر گیارہ سال ہوچکی تھی۔ تحریک انصاف نے اپنی اہمیت محسوس کروائی لیکن وہ معاملہ نہ تھا کہ لوگ کہیں کہ ''وہ آیا، اس نے دیکھا اور وہ چھا گیا'' ایک سال بعد ہونے والے انتخابات کا عمران نے بائیکاٹ کیا۔ یوں کامیابی کے دور دور تک آثار نہ ہونے کے سبب لوگوں نے ایک بار پھر عمران کو ''دوسرا اصغر خان'' کہنا شروع کردیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب ڈاکٹر طاہرالقادری بھی مایوس ہوکر سیاست سے دستبردار ہوگئے تھے، سیاسی دانشوروں کو عمران میں ایک اور ناکام سیاست دان نظر آنے لگا۔
بینظیر بھٹو کی چوتھی برسی کی تیاریاں ہورہی تھیں۔ پیپلزپارٹی ایک خوبصورت سیاسی ماحول سجائے ہوئے تھی۔ آصف زرداری صدر تو یوسف رضا گیلانی وزیراعظم، چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی سمیت تمام اہم وزارتیں جیالوں کے پاس تھیں۔ پنجاب میں شہباز شریف کا اقتدار رائے ونڈ کے لیے خوبصورتحال اور تابناک مستقبل کی نوید دے رہا تھا، شریف خاندان اب اندوہناک ماضی سے باہر نکل آیا تھا۔ سیاسی منظر میں پندرہ سالہ تحریک انصاف کا مینار پاکستان کا جلسہ سیاسی بساط پر رکھے تمام مہروں کی ترتیب کو الٹ پلٹ کر رکھ دیتا ہے۔ ٹو پارٹی سسٹم میں دراڑ نظر آرہی تھی لیکن بھارت، برطانیہ اور امریکا کے جمہوری نظام میں ایسی کوئی مثال دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ مورخ ہاتھ میں قلم تھامے وقت کا انتظار کررہا تھا۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ آصف زرداری کی پیپلزپارٹی نے اپنی میعاد مکمل کی۔ انتخابی مہم آگے بڑھی تو محسوس ہوا کہ تین طاقتور حریف اسمبلی میں پہنچیںگے، یہی ہوا لیکن نواز شریف، وزیراعظم بننے کے علاوہ دو تنہائی اکثریت کی بھی ہیٹ ٹرک کرگئے، عمران کو محسوس ہوا کہ دال میں کچھ کالا ہے، پیپلزپارٹی نے نتائج کو قبول کرلیا لیکن تحریک انصاف نے مبینہ دھاندلی کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ ایک سال گزرا تو پاکستان میں دھرنے کا ماحول سج گیا۔ خیبر پختونخوا کی حکومت پر چپ چاپ قناعت کے بجائے اسلام آباد میں احتجاجی تحریک شروع ہوگئی۔ 126 دن کے دھرنے کے بعد پشاور کے آرمی پبلک اسکول کے بچوں کی شہادت کے سبب دھرنا ختم کردیا گیا، سولہ دسمبر کو دہشت گردی کے واقعے کی یاد کے علاوہ دھرنے کے خاتمے کی سالگرہ بھی منائی جائے گی اور یقیناً ہم ''سقوط ڈھاکہ'' کے سانحے کو بھی یاد کریں گے۔
عمران کی باتیں اور پارٹی میں پیدا ہونے والی خامیاں کیا ہیں؟ اندھے اور لنگڑے کی کہانی کہ گاؤں میں آگ لگ جانے پر انھوں نے کس طرح ایک دوسرے کی مدد کرکے منزل پائی۔ ستر فیصد کالم پڑھ لینے کے باوجود ابھی تک سوالوں کا جواب نہیں ملا۔ ہم اپنی گفتگو کے انتہائی نازک مرحلے پر آچکے ہیں، سیاسی منظر یہ ہے کہ پاکستان اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ تمام تر جمہوری اداروں کو دیکھنے والا ہے پہلی مرتبہ جمہوری حکومت نے بلدیاتی انتخابات کا ڈول ڈالا ہے۔ اس سے پہلے ایوب دو مرتبہ، مشرف دو مرتبہ اور ضیا الحق تین مرتبہ بلدیاتی انتخابات کرواچکے ہیں، اب پاکستان میں خالصتاً سویلین صدر کے ہوتے ہوئے تمام جمہوری ادارے کام کرنے جارہے ہیں، اس مرحلے پر ہم ایک تیسری سیاسی پارٹی کے قائد کی باتوں اور پارٹی کی خامیوں کا جائزہ لے رہے ہیں تو یہ بات بھی ہمارے ذہن میں ہے کہ ماضی میں ایک کامیاب ایئر مارشل سیاست میں کرشماتی شخصیت ہونے کے باوجود کامیاب نہیں ہوسکے۔
یہ کالم ہے ابن صفی یا اشتیاق احمد کا ناول نہیں کہ پچہتر فی صد سے زیادہ کالم پڑھ لیے جانے کے باوجود اب تک تجسس برقرار رہے، عمران کی باتیں اصغر خان سے بالکل مختلف ہیں اور حیرت انگیز طور پر جماعت اسلامی سے قریب تر، جب لوگ عمران کو ''طالبان خان'' یا بغیر داڑھی والے مولانا کہتے تو وہ انھیں مذہبی پارٹیوں سے قریب تر گردانتے لندن میں پڑھنے والا اور آزاد فضاؤں میں رہنے والے سے توقع تھی کہ وہ پاکستان کو سیکولر اور لبرل بنانے کی بات کہہ کر اصغر خان کی تاریخ دہرائینگے، صدی کے آخری عشرے میں عمران کے مضامین حیرت انگیز طور پر جماعت اسلامی سے قریب تر محسوس ہوتے تھے دھرنے کے دوران عمران کی باتوں کو تمام پاکستانیوں نے سنا، ''ایاک نعبد و ایاک نستعین''ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں'' خلفائے راشدین کا نظام، مدینے جیسی ریاست کے قیام کی بات کو حیرت انگیز طور پر سنا گیا۔
یہ باتیں کسی عالم کی زبان سے نہیں بلکہ برطانیہ کی تعلیم گاہوں سے پڑھ کر آنیوالے مشہور کرکٹر کی زبان سے سنی جا رہی تھیں۔ زمانہ شباب میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستگی کے دوران مولانا مودودی کی تحریروں کے مطالعے کا موقع ملا، عمران کی باتیں کم و بیش وہی ہیں۔ ''صالحین'' کی اصطلاح کا مطلب کرپشن فری سوسائٹی ہی ہوتا ہے، دھرنے کے دوران خوشحال گھرانوں کی پڑھی لکھی ماڈرن خواتین سے کہنا کہ اپنے بچوں کو قرآن پاک کا ترجمہ پڑھائیں، اقبال کو مسلمانوں کی پانچ سو سالہ تاریخ کا قابل ترین آدمی قرار دینا اور بار بار علامہ کے اشعار کا حوالہ دینا کیا ہے؟
جماعت اسلامی اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود عوام کی بہت بڑی تعداد تو اب تک متاثر نہیں کرسکی۔ عمران خان اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود پارٹی کو منظم اور شفاف نہیں بناسکے ہیں، دونوں کی ایک ایک مجبوری ہے اور دونوں کو منزل تک پہنچنے کے لیے ایک دوسرے کے سہارے کی ضرورت جس بات کو دو عشروں سے محسوس کیا جارہا تھا اسے اب کہیں جاکر خیبرپختونخوا اور بلدیاتی انتخابات میں تسلیم کیا گیا ہے۔ دیکھنا ہے کہ دو سیاسی پارٹیاں کس حد تک اپنے اتحاد کو برقرار رکھ پاتی ہیں؟ یہ بھی جانچنا ہے کہ بددیانت سیاستدانوں کے ہاتھوں ستائے ہوئے عوام کس حد تک صالح اور کرپشن فری سوسائٹی کے نعروں کے علمبرداروں پر اعتماد کرتے ہیں؟ پاکستان کی ترقی و خوشحالی کی خاطر لازمی ہے کہ ہمیں ملے جواب ان دو سوالوں کا۔