ٹوٹی سڑکیں بہتے گٹر ڈھیروں کوڑا
پورے پاکستان کا یہی حال ہے۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے پاس پیسے ہوتے ہیں
پورے پاکستان کا یہی حال ہے۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے پاس پیسے ہوتے ہیں، مگر حکمران اپنے گھروں کی طرف جاتی سڑکیں، گلیاں ہی دھیان میں رکھتے ہیں۔ غریب عوام کے لیے ان کے پاس دھیلا بھی نہیں ہے۔ غریب عوام گندگی میں رہ رہے ہیں۔ اور مہلک بیماریوں میں مبتلا تیزی سے موت کی طرف جا رہے ہیں۔ یہ برے حال اندھے کو بھی نظر آرہے ہیں مگر ان آنکھوں والوں کو نظر نہیں آرہے۔
گاؤں دیہاتوں کی تو بات چھوڑیں، یہاں شہروں میں بسنے والے غریب بھی انتہائی گندگی کے ماحول میں رہ رہے ہیں۔ شہروں کی غریب بستیوں میں گٹر بہہ رہے ہیں، کوڑے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں اور یہ ماحول مسلسل رہتا ہے۔ ریل گاڑی میں پورے پاکستان کا سفر کیجیے، کوڑے اور غلاظت کے ڈھیر ہی نظر آئیں گے۔ اب تو عرصہ ہوا متوسط طبقے کی آبادیاں بھی اسی عذاب میں مبتلا نظر آتی ہیں، یہ چھوٹے تاجر ہیں، بینکوں، نجی اداروں کے ملازمین ہیں، اسکولوں کالجوں کے اساتذہ اور طلبا و طالبات ہیں، معصوم بچے ہیں۔ یہ پاکستانی ہیں، سہانے مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے اسی گندگی کے ماحول میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ اگر ان کو پاک و صاف ماحول میسر ہو، تو یہ کتنی تیزی سے ترقی کا سفر طے کرسکتے ہیں۔
دس سال بعد گلی محلوں کی قسمت جاگی ہے اور ملک میں حاکمیت بڑے بڑے ہیبت ناک ایوانوں سے نکل کر نچلی سطح تک آگئی ہے، تقریباً 80 فیصد بلدیاتی انتخابات ہوچکے۔ بس اب کراچی اور پنجاب کے کچھ اضلاع میں انتخابات ہونا باقی ہیں، تب اختیارات اور بجٹ یعنی پیسہ گلی محلوں کے منتخب بلدیاتی نمایندوں کو مل جائیں گے۔ بلدیاتی نظام میں یہی خوبی ہوتی ہے کہ لوگ باگ اپنے گھروں سے نکل کر فرلانگ دو فرلانگ دور کونسلر کے دفتر میں جاکر اپنی شکایات اسے بتاتے ہیں۔ یوں حکمرانی عام آدمی کی دہلیز تک آجاتی ہے۔
ہونا تو یوں ہی چاہیے جیساکہ میں نے بیان کیا ہے مگر عملاً ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ سندھ میں صورت حال بہت زیادہ گمبھیر ہوگئی ہے۔ سندھ میں چند کو چھوڑ کر تمام بلدیاتی اختیارات صوبائی حکومت نے لے لیے ہیں، کراچی کا منتخب میئر، ایک سرکاری ملازم کمشنر کراچی کو جواب دہ ہوگا، بہت سے بلدیاتی ادارے صوبائی حکومت کے تحت کام کریں گے۔ اس صورتحال میں لگتا ہے سڑکیں ٹوٹی رہیں گی، گٹر بہتے رہیں گے اور کوڑے کے ڈھیر لگے رہیں گے، پانی نہیں ملے گا۔
''بات یہی ہے بنیادی'' کہ مسئلے حل کیے جائیں، مگر جب نیت ہی بد ہو، تو چاہے اختیارات صوبائی حکومت کے پاس ہوں یا بلدیاتی نمایندوں کے پاس۔ عوام کو سہولتیں نہیں ملیں گی۔
کراچی میں کل 5 دسمبر ہے۔ عوام ووٹ ڈالنے کے لیے گھروں سے نکلیں گے، شہر کی فضا میں گھٹن ہے۔ پچھلے پندرہ دنوں میں چار رینجرز اہلکار اور دو فوجی اہلکار جان کی بازی ہارچکے ہیں۔ انتخابی جھگڑے بھی اکادکا ہورہے ہیں۔ حکومت کی طرف سے موٹرسائیکل پر ڈبل سواری پر پابندی لگادی گئی ہے۔ پولیس اور رینجرز کے گشت بڑھادیے گئے ہیں۔ رینجرز کو بھی مجسٹریٹ کے اختیارات دے دیے گئے ہیں۔ پولیس اور رینجرز موقع پر بھی سزا دے سکیں گے۔ ان حالات میں بلدیاتی انتخابات کے بعد منتخب میئر، ایک غیر منتخب سرکار کے ملازم کمشنر کے سامنے جواب دہ ہوگا۔ تو پھر یہ سارا ''تماشا'' لگانے کی ضرورت کیا تھی۔ بلدیاتی انتخابات کا ''ڈرامہ'' رچانے کے بجائے ویسے ہی ''کام'' جاری رکھتے۔ گلی گلی محلے محلے دس سال کے ترسے عوام تو باہر نکلیں گے ان کے مسائل ہیں۔ ان کا فوری حل عوام کا مطالبہ ہوگا اور منتخب بلدیاتی نمایندے یہ رونا روتے نظر آئیں گے کہ ''انھیں صوبائی حکومت فنڈ نہیں دے رہی۔''
صورت حال سب کے سامنے ہے۔ صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ حالات صاف صاف بتا رہے ہیں کہ کراچی میں پیپلز پارٹی مخالفین ہی بلدیاتی انتخابات جیتیں گے۔ اور کیا پھر ''چوہے بلی'' کی لڑائی میں سڑکیں ٹوٹی رہیں گی، گٹر بہتے رہیں گے اور کوڑے کے ڈھیر لگے رہیں گے؟ ہاتھیوں کی لڑائی میں عوام کچلے جائیں گے۔ تو کیا حکمران اب بھی یہی پروگرام بنائے بیٹھے ہیں۔ غریب تو ویسے ہی مر رہے ہیں، غریبوں کے پاس تو مرنے کے لاکھ بہانے ہیں۔ یہ صدارتی محل والے، وزیراعظم محل والے، گورنر محل والے، وزیراعلیٰ محل والے، یہ جاتی امرا، بنی گالا، بلاول ہاؤس محل والے، یہ گجرات ہاؤس محل والے، اور کس کس کا ذکر کروں۔
یہ اقتدار میں ہوں تو خاموش چپ چاپ حکومتی محلوں کے مزے لوٹتے رہتے ہیں اور جیسے ہی یہ اقدار سے باہر آتے ہیں تو ''حکومتی محلوں'' کے خلاف بولنے لگتے ہیں۔ کہتے ہیں ''ان محلوں کے یومیہ اخراجات لاکھوں میں ہیں'' بندہ پوچھے کہ جب تم خود ان حکومتی محلوں میں رہ رہے تھے تب تمہیں یہ خیال نہ آیا؟ پھر یہ کہتے ہیں ''ان حکومتی محلوں میں رہنے والوں کو غریبوں کا کیا پتا'' تو بندہ پھر پوچھے کہ ''جب تم خود ان محلوں کے مزے لوٹ رہے تھے تو تمہیں غریبوں کا خیال آیا؟''
بنی گالا والے محمود الرشید بھی بول رہے ہیں۔ کہتے ہیں ''ان حکومتی محلوں کا یومیہ خرچ لاکھوں روپے ہے'' تو بندہ ان سے پوچھے ''تمہارے بنی گالا کا یومیہ خرچ کتنا ہے؟'' پاکستان کے غریب عوام کو ''سبھی'' نے دھوکا دیا، دوست بن کر ہاتھ ملانے والے ہی دشمنی پر اتر آئے۔ تفصیل کیا لکھوں ''دوست اور دشمن'' والے کھیل سے سبھی واقف ہیں۔ جو آیا غریبوں کو سہانے خواب دکھائے۔ لیجیے حبیب جالب کا شعر آگیا۔ میں جو لکھنا چاہ رہا ہوں ، یہ شاعر کہیں زیادہ بہتر انداز میں عوام تک وہ بات پہنچا دے گا۔
سر منبر وہ خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہیں
علاجِ غم نہیں کرتے، فقط تقریر کرتے ہیں
تو جو عوام کا غمگسار بن کر آیا اس نے آتے ہی تقریر شروع کردی، خوابوں کے محل بنانا شروع کردیے اور جب غریب عوام غمگسار کے دکھائے گئے خوابوں سے جاگے تو وہیں اپنے جھونپڑے پر پڑے تھے، وہی غربت کے سائے، وہی ذلت کے عذاب۔
آج بھی ہمارے یہ ''غمگسار'' کروڑوں روپے خرچ کرکے بلدیاتی انتخابات کا لولی پاپ عوام کو دے رہے ہیں اور مسائل نہ ٹلنے والے مسائلوں کی طرح اے دے جا سخیا! اے دے جا سخیا! الاپتے رہیں گے اور سخی بڑی سخاوت کرے گا۔ جو چند سکے کشکول میں ڈال دے گا۔ یاد آیا میرا ایک بہت بڑے پیر خانے کے گاؤں سے گزر ہوا، میں نے ایک غریب سے پوچھا ''کیسے گزارا ہوتا ہے؟'' اس نے بتایا ''ہمارا پیر شہر سے آتا ہے، ہم حاضر ہوتے ہیں، ہم فریاد کرتے ہیں، کچھ خرچہ پانی۔۔۔۔۔ تو ہمارا پیر پانچ سو کا نوٹ زمین پر پھینک دیتا ہے۔ ہم نوٹ اٹھا لیتے ہیں۔''
یہ بلدیاتی الیکشن کیا رنگ لاتا ہے، دیکھئے!
گاؤں دیہاتوں کی تو بات چھوڑیں، یہاں شہروں میں بسنے والے غریب بھی انتہائی گندگی کے ماحول میں رہ رہے ہیں۔ شہروں کی غریب بستیوں میں گٹر بہہ رہے ہیں، کوڑے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں اور یہ ماحول مسلسل رہتا ہے۔ ریل گاڑی میں پورے پاکستان کا سفر کیجیے، کوڑے اور غلاظت کے ڈھیر ہی نظر آئیں گے۔ اب تو عرصہ ہوا متوسط طبقے کی آبادیاں بھی اسی عذاب میں مبتلا نظر آتی ہیں، یہ چھوٹے تاجر ہیں، بینکوں، نجی اداروں کے ملازمین ہیں، اسکولوں کالجوں کے اساتذہ اور طلبا و طالبات ہیں، معصوم بچے ہیں۔ یہ پاکستانی ہیں، سہانے مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے اسی گندگی کے ماحول میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ اگر ان کو پاک و صاف ماحول میسر ہو، تو یہ کتنی تیزی سے ترقی کا سفر طے کرسکتے ہیں۔
دس سال بعد گلی محلوں کی قسمت جاگی ہے اور ملک میں حاکمیت بڑے بڑے ہیبت ناک ایوانوں سے نکل کر نچلی سطح تک آگئی ہے، تقریباً 80 فیصد بلدیاتی انتخابات ہوچکے۔ بس اب کراچی اور پنجاب کے کچھ اضلاع میں انتخابات ہونا باقی ہیں، تب اختیارات اور بجٹ یعنی پیسہ گلی محلوں کے منتخب بلدیاتی نمایندوں کو مل جائیں گے۔ بلدیاتی نظام میں یہی خوبی ہوتی ہے کہ لوگ باگ اپنے گھروں سے نکل کر فرلانگ دو فرلانگ دور کونسلر کے دفتر میں جاکر اپنی شکایات اسے بتاتے ہیں۔ یوں حکمرانی عام آدمی کی دہلیز تک آجاتی ہے۔
ہونا تو یوں ہی چاہیے جیساکہ میں نے بیان کیا ہے مگر عملاً ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ سندھ میں صورت حال بہت زیادہ گمبھیر ہوگئی ہے۔ سندھ میں چند کو چھوڑ کر تمام بلدیاتی اختیارات صوبائی حکومت نے لے لیے ہیں، کراچی کا منتخب میئر، ایک سرکاری ملازم کمشنر کراچی کو جواب دہ ہوگا، بہت سے بلدیاتی ادارے صوبائی حکومت کے تحت کام کریں گے۔ اس صورتحال میں لگتا ہے سڑکیں ٹوٹی رہیں گی، گٹر بہتے رہیں گے اور کوڑے کے ڈھیر لگے رہیں گے، پانی نہیں ملے گا۔
''بات یہی ہے بنیادی'' کہ مسئلے حل کیے جائیں، مگر جب نیت ہی بد ہو، تو چاہے اختیارات صوبائی حکومت کے پاس ہوں یا بلدیاتی نمایندوں کے پاس۔ عوام کو سہولتیں نہیں ملیں گی۔
کراچی میں کل 5 دسمبر ہے۔ عوام ووٹ ڈالنے کے لیے گھروں سے نکلیں گے، شہر کی فضا میں گھٹن ہے۔ پچھلے پندرہ دنوں میں چار رینجرز اہلکار اور دو فوجی اہلکار جان کی بازی ہارچکے ہیں۔ انتخابی جھگڑے بھی اکادکا ہورہے ہیں۔ حکومت کی طرف سے موٹرسائیکل پر ڈبل سواری پر پابندی لگادی گئی ہے۔ پولیس اور رینجرز کے گشت بڑھادیے گئے ہیں۔ رینجرز کو بھی مجسٹریٹ کے اختیارات دے دیے گئے ہیں۔ پولیس اور رینجرز موقع پر بھی سزا دے سکیں گے۔ ان حالات میں بلدیاتی انتخابات کے بعد منتخب میئر، ایک غیر منتخب سرکار کے ملازم کمشنر کے سامنے جواب دہ ہوگا۔ تو پھر یہ سارا ''تماشا'' لگانے کی ضرورت کیا تھی۔ بلدیاتی انتخابات کا ''ڈرامہ'' رچانے کے بجائے ویسے ہی ''کام'' جاری رکھتے۔ گلی گلی محلے محلے دس سال کے ترسے عوام تو باہر نکلیں گے ان کے مسائل ہیں۔ ان کا فوری حل عوام کا مطالبہ ہوگا اور منتخب بلدیاتی نمایندے یہ رونا روتے نظر آئیں گے کہ ''انھیں صوبائی حکومت فنڈ نہیں دے رہی۔''
صورت حال سب کے سامنے ہے۔ صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ حالات صاف صاف بتا رہے ہیں کہ کراچی میں پیپلز پارٹی مخالفین ہی بلدیاتی انتخابات جیتیں گے۔ اور کیا پھر ''چوہے بلی'' کی لڑائی میں سڑکیں ٹوٹی رہیں گی، گٹر بہتے رہیں گے اور کوڑے کے ڈھیر لگے رہیں گے؟ ہاتھیوں کی لڑائی میں عوام کچلے جائیں گے۔ تو کیا حکمران اب بھی یہی پروگرام بنائے بیٹھے ہیں۔ غریب تو ویسے ہی مر رہے ہیں، غریبوں کے پاس تو مرنے کے لاکھ بہانے ہیں۔ یہ صدارتی محل والے، وزیراعظم محل والے، گورنر محل والے، وزیراعلیٰ محل والے، یہ جاتی امرا، بنی گالا، بلاول ہاؤس محل والے، یہ گجرات ہاؤس محل والے، اور کس کس کا ذکر کروں۔
یہ اقتدار میں ہوں تو خاموش چپ چاپ حکومتی محلوں کے مزے لوٹتے رہتے ہیں اور جیسے ہی یہ اقدار سے باہر آتے ہیں تو ''حکومتی محلوں'' کے خلاف بولنے لگتے ہیں۔ کہتے ہیں ''ان محلوں کے یومیہ اخراجات لاکھوں میں ہیں'' بندہ پوچھے کہ جب تم خود ان حکومتی محلوں میں رہ رہے تھے تب تمہیں یہ خیال نہ آیا؟ پھر یہ کہتے ہیں ''ان حکومتی محلوں میں رہنے والوں کو غریبوں کا کیا پتا'' تو بندہ پھر پوچھے کہ ''جب تم خود ان محلوں کے مزے لوٹ رہے تھے تو تمہیں غریبوں کا خیال آیا؟''
بنی گالا والے محمود الرشید بھی بول رہے ہیں۔ کہتے ہیں ''ان حکومتی محلوں کا یومیہ خرچ لاکھوں روپے ہے'' تو بندہ ان سے پوچھے ''تمہارے بنی گالا کا یومیہ خرچ کتنا ہے؟'' پاکستان کے غریب عوام کو ''سبھی'' نے دھوکا دیا، دوست بن کر ہاتھ ملانے والے ہی دشمنی پر اتر آئے۔ تفصیل کیا لکھوں ''دوست اور دشمن'' والے کھیل سے سبھی واقف ہیں۔ جو آیا غریبوں کو سہانے خواب دکھائے۔ لیجیے حبیب جالب کا شعر آگیا۔ میں جو لکھنا چاہ رہا ہوں ، یہ شاعر کہیں زیادہ بہتر انداز میں عوام تک وہ بات پہنچا دے گا۔
سر منبر وہ خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہیں
علاجِ غم نہیں کرتے، فقط تقریر کرتے ہیں
تو جو عوام کا غمگسار بن کر آیا اس نے آتے ہی تقریر شروع کردی، خوابوں کے محل بنانا شروع کردیے اور جب غریب عوام غمگسار کے دکھائے گئے خوابوں سے جاگے تو وہیں اپنے جھونپڑے پر پڑے تھے، وہی غربت کے سائے، وہی ذلت کے عذاب۔
آج بھی ہمارے یہ ''غمگسار'' کروڑوں روپے خرچ کرکے بلدیاتی انتخابات کا لولی پاپ عوام کو دے رہے ہیں اور مسائل نہ ٹلنے والے مسائلوں کی طرح اے دے جا سخیا! اے دے جا سخیا! الاپتے رہیں گے اور سخی بڑی سخاوت کرے گا۔ جو چند سکے کشکول میں ڈال دے گا۔ یاد آیا میرا ایک بہت بڑے پیر خانے کے گاؤں سے گزر ہوا، میں نے ایک غریب سے پوچھا ''کیسے گزارا ہوتا ہے؟'' اس نے بتایا ''ہمارا پیر شہر سے آتا ہے، ہم حاضر ہوتے ہیں، ہم فریاد کرتے ہیں، کچھ خرچہ پانی۔۔۔۔۔ تو ہمارا پیر پانچ سو کا نوٹ زمین پر پھینک دیتا ہے۔ ہم نوٹ اٹھا لیتے ہیں۔''
یہ بلدیاتی الیکشن کیا رنگ لاتا ہے، دیکھئے!