محصورین پاکستان درد و الم کی تصویر
وطن سے دور، ان غریب الدیار محصورین پر، جو آج بھی وطن کی محبت دل میں بسائے
وطن سے دور، ان غریب الدیار محصورین پر، جو آج بھی وطن کی محبت دل میں بسائے، یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ایک دن ضرور ایسا سورج طلوع ہوگا جب وہ بھی پاک سرزمین پر سجدہ ریز ہوں گے۔ یہ شعر سو فیصد صادق آتا ہے کہ ''مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے، وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے''۔ سانحہ مشرقی پاکستان کو اس برس 16 دسمبر کو 44 سال ہوجائیں گے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سقوط ڈھاکہ کے ناقابل فراموش اور دل خراش المیے پر لاتعداد مضامین، کتابیں اور رپورٹس منظر عام پر آچکی ہیں۔ درد دل رکھنے والے ادیبوں اور شاعروں نے انسانیت کا خوابیدہ ضمیر جھنجھوڑنے کے لیے اس پر افسانے اور مرثیے بھی لکھے۔
ادیبانہ اسلوب میں اس المیے پر صدائے احتجاج بھی بلند کی اور آج بھی اس اہم اور حساس مسئلے پر اہل قلم ایک ہی رائے رکھتے ہیں کہ یہ ہماری قومی اور ملی تاریخ کا وہ دن ہے جسے ہم کبھی فراموش نہیں کرسکتے۔ مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں مختلف فورمز پر یہ الم ناک اور ناقابل فراموش فن محض رسمی اور واجبی طور پر ہی منایا جاتا ہے، اس دوران اس سانحے کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی جاتی ہے کہ اگر ایسا کیا جاتا تو ایسا نہ ہوتا، ویسا کیا جاتا تو ویسا نہ ہوتا۔
اس بات سے قطع نظر کہ اس سانحے سے پاکستان کا کتنا نقصان ہوا، اس میں کتنے بے گناہ پاکستانیوں کو شہید کیا گیا، کیا کیا تلخ واقعات رونما ہوئے، وغیرہ۔ یہاں ان محب وطن پاکستانیوں کا ذکر ضروری ہے، جو سقوط ڈھاکہ 16 دسمبر 1971 سے آج تک اپنے ملک آنے کی آس اور تمنا دل میں بسائے سسک رہے ہیں اور کتنے ہی درد و الم کی تصویر بنے اذیتیں سہہ سہہ کر اس امید پر کہ ایک دن وہ اپنے مادر وطن ضرور جائیں گے، اس دار فانی سے کوچ کرچکے ہیں۔ ذرا غور کریں، 44 سال ہوگئے لیکن پاکستان کی محبت کا روگ دل میں لیے یہ دیوانے آج تک پاکستان کا قومی پرچم اپنی بوسیدہ اور ٹوٹی پھوٹی جھونپڑیوں میں لگائے، اب بھی پاکستان آنے کے خواہش مند ہیں۔
یہ پاکستان کے کیسے دیوانے ہیں جو اپنے آپ کو پاکستانی کہلوانے کے سوا اور کچھ نہیں چاہتے، یہی ان کی شناخت اور یہی گویا ان کا دین دھرم ہے، انھیں متعدد بار بنگلہ دیش، آسٹریلیا اور دیگر ملکوں کی شہریت اختیار کرنے کی پیش کش ہوئی مگر پاکستان کی محبت سے سرشار ان سچے پاکستانیوں نے ایسی ہر پیشکش کو ٹھکرادیا اور ہر بار یہی کہا کہ ہم صرف پاکستان جانا چاہتے ہیں، پاکستان ہی ہمارا وطن ہے اور بس۔ جس کے نتیجے میں وہ وطن سے دور اپنے سچے جذبوں کو قربان کرکے آج بھی کیمپوں میں محصور ہیں۔ کیمپوں میں مقیم ہر بچے کی زبان پر آج بھی ایک ہی نعرہ ہوتا ہے ''آدھی روٹی کھائیں گے، پاکستان جائیں گے''۔ وہاں کی مائیں، بہنیں اپنے چھید چھید اور بوسیدہ آنچل اٹھاکر پاکستان کی سلامتی کی دعائیں مانگتی ہیں۔
پاکستان کا دولخت ہونا معمولی بات نہیں، بلکہ اسے معمولی سمجھ کر نظر انداز کردینا یقیناً ملک دشمنوں کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہے۔ مگر المیے کا شکار ہونیوالے محصور پاکستانی آج بھی حب الوطنی کی سزا بھگت رہے ہیں اور بنگلہ دیش کے مختلف شہروں میں قائم کیمپوں میں چھوٹی چھوٹی جھونپڑیوں میں اذیت ناک زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ شاید ان کا پہلا جرم یہ ہے کہ انھوں نے تقسیم ہند کے وقت دو قومی نظریے پر لبیک کہتے ہوئے ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی۔
ان کا دوسرا جرم یہ ہے کہ انھوں نے پاکستان کو دولخت ہونے سے بچانے کے لیے پاک فوج کے شانہ بشانہ مکتی باہنی اور بھارتی فوج کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر ان کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ تیسرا جرم یہ ہے کہ انھوں نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش کی حیثیت سے کبھی تسلیم نہیں کیا اور ان کا چوتھا سب سے بڑا اور سنگین جرم یہ ہے کہ وہ گزشتہ 44 سال سے اپنے آپ کو پاکستان کہلوانے پر نہ صرف فخر محسوس کرتے ہیں بلکہ اپنی ٹوٹی پھوٹی جھونپڑیوں میں ہر سال پاکستان کا یوم آزادی بھی پوری شان و شوکت کے ساتھ مناتے ہیں۔ کیمپوں میں پاکستانی پرچم لہرائے جاتے ہیں، قومی ترانے بجائے جاتے ہیں۔
مشہور شاعر اقبال عظیم نے شاید ان ہی لوگوں کے لیے کہا تھا کہ ''جہاں بھی ہم نے صدا دی، یہی جواب ملا، یہ کون لوگ ہیں، پوچھو، کہاں سے آئے ہیں''۔ جب کہ 1974 میں ڈھاکا سے واپسی پر مشہور شاعر فیض احمد فیض نے کہا تھا کہ ''کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار، خون کے دھبے دھلیں گے، کتنی برساتوں کے بعد''۔ لیکن خون کے دھبے آج تک نہیں دھلے، اتنا عرصہ گزرجانے کے باوجود نفرت اور تعصب کی آگ آج بھی سلگ رہی ہے۔ ستم بالائے ستم کہ پاکستان سے تو معافی کا مطالبہ کیا جاتا ہے مگر بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت چار دہائی قبل کے مقدمات دوبارہ چلارہی ہے اور سقوط ڈھاکا سے قبل پاکستان کا ساتھ دینے کے جرم میں ملوث افراد کو پھانسی کی سزائیں سنارہی ہے۔
ماضی میں مختلف ادوار میں محصورین بنگال کو پاکستان میں آباد کرنے کے حوالے سے اقدامات کیے جاتے رہے مگر ان کے مستقل حل کے لیے کوئی بھی پیش رفت نہیں کی گئی۔ وزیراعظم نواز شریف جب 1989 میں وزیراعلیٰ پنجاب تھے تو انھوں نے ایک لاکھ جوڑے کپڑوں کے محصورین کمیٹی کے توسط سے بنگلہ دیش بھجواکر ان کو واپس پاکستان لاکر آباد کرنے کا وعدہ کیا تھا اور اس کے چند سال بعد جب وہ پہلی مرتبہ وزیراعظم پاکستان بنے تھے اور 348 محصورین بنگلہ دیش کا پہلا قافلہ بھی ایک جہاز سے لاکر ملتان کی سرزمین پر آباد کرتے ہوئے، پھر وعدہ دہرایا تھا مگر وہ بقایا لاکھوں افراد کو لاکر پنجاب میں آباد کرنے کا خواب ابھی تک پورا نہیں ہوسکا، جب کہ اس کے بعد تیسری مرتبہ قدرت نے ان کو وزیراعظم بنایا اور اس مرتبہ وہ خودمختار بھی ہیں۔ نہ جانے وہ مظلوم کیسی زندگی بسر کررہے ہوں گے۔
پاکستان میں بسنے والے حکمران، سیاستدان، دانشور، تجزیہ نگار وغیرہ تو شاید کبھی بھی اپنی غلطی محسوس کریں گے اور نہ ہی نادم ہوں گے۔ محصورین کی وطن واپسی اور آباد کاری کا نعرہ لگاکر مسند اقتدار کے مزے لوٹنے والے بھی آج انھیں فراموش کر بیٹھے ہیں کہ انھیں ان کی اذیت کا ادراک ہی نہیں ۔