کراچی نے پھر ایم کیو ایم کو ووٹ کیوں دیا
سائیں سرکار اور وفاقی حکومت کو بھی چاہیئے کہ کراچی کے مئیر کو اختیارات دیں تا کہ شہر کی معاشی رگ خوب پھولے پھلے۔
RAWALPINDI:
سپریم کورٹ کے حکم کے بعد تیسرے مرحلے میں سندھ اور پنجاب کے باقی اضلاع میں بلدیاتی انتخابات منعقد کئے گئے۔ ویسے تو عام طور پر بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ صوبے کی حکومت کی جیت ہی یقینی ہوتی ہے اور ملک بھر کے اکثریتی علاقوں میں کچھ ایسا ہی ہوا۔ بلدیاتی انتخابات کے قریب آتے ہی کراچی کے مختلف علاقوں میں بہت ساری جماعتوں کے جھنڈے اور پوسٹر آویزاں دیکھے۔ ساتھ ساتھ ایسے سیاسی مذہبی اتحاد دیکھنے میں آئے جنہیں دیکھ کر انسان ہنسنے پر مجبور ہوجائے۔ وفاق اور صوبے کی سطح پر ایک دوسرے پر الزام لگانے والے کراچی میں اتحادی بن کر انتخابات میں حصہ لے رہے تھے۔
کراچی کے وسائل کی بات تو سب کرتے ہیں مگر اسکے مسائل کو حل کرنے کے لئے کوئی بھی سنجیدہ نہیں ہوتا۔ ہاں اگر کبھی کوئی فیصلہ کراچی کے مفاد میں ہو بھی جائے تو اُس کو اپنے سیاسی منشور میں شامل کرکے خوب سیاست چمکاتے ہیں۔ کراچی جس کی آبادی تقریباً دو کروڑ کے قریب ہے جس میں تمام ہی قومیتوں کے لوگ اپنی زندگی گذار رہے ہیں لیکن اکثریت اُردو بولنے والوں کی ہے۔
5 دسمبر کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سمیت ملک کی دوسری دیگر بڑی جماعتوں نے بھرپور حصہ لیا، مگر دیکھنے میں یہ آیا کہ سیاسی جماعتیں تو بہت متحرک دکھائی دیں لیکن عوام نے کچھ خاص جوش و خروش دیکھنے کو نہیں ملا اور اِسکی واضح مثال ووٹ کا حق استعمال کرنے والوں کی تعداد ہے۔ اطلاعات کے مطابق کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں لگ بھگ 30 فیصد لوگوں نے ووٹ ڈالے مگر جتنے بھی لوگوں نے ووٹ ڈالیں اُن کی اکثریت نے ایم کیو ایم پر اظہار اعتماد کیا اور یوں ایم کیو ایم باآسانی شہر میں اپنا مئیر بنانے کی پوزیشن میں آگئی ہے۔
انتخابات سے کئی دن پہلے سے ہی تمام سیاسی جماعتوں نے لوگوں سے رابطے کیے، بھرپور مہم چلائی مگر بدقسمتی سے دیکھنے میں یہ آیا کہ تمام ہی سیاسی جماعتوں نے تنقید کے نشتر ایم کیو ایم کی جانب کیے رکھے۔ کسی نے کہا کہ ایم کیو ایم بھتہ لیتی ہے تو کسی نے ٹارگٹ کلنگ کا الزام لگایا۔ جب کسی کو کچھ نہ ملا تو چائنہ کٹنگ کا الزام بھی عائد کردیا۔ انتخابات سے قبل یہ خدشہ تھا کہ کہیں عوام اس صورتحال کے پیش نظر مخالفین سے متاثر نہ ہوجائے مگر کراچی کی عوام نے تمام الزامات، تنقید اور پروپیگنڈا کو مسترد کرتے ہوئے انتخابات میں ایم کیو ایم کو واضح اکثریت سے نواز دیا۔
عوام کے نزدیک اِس فتح کے پیچھے مصطفی کمال کی کارکردگی بھی ہوسکتی ہے جنہوں نے 2005 سے 2009 کے عرصے میں کراچی کو ترقی کی راہ پر گامزن کردیا اور شہر کا نقشہ تبدیل کردیا۔ کراچی کو دنیا کے 10 خوبصورت ترین شہروں میں شامل کیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ عوام کو جن مشکلات کا سامنا تھا اُن کو حل کرکے ثابت کیا کہ مقامی حکومت کے ذریعے عوام کے مسائل کس قدر آسانی سے حل ہوسکتے ہیں۔
اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ میں نے کس اُمیدوار کو ووٹ دیا تو میں یہی کہیں گا کہ جناب مجھے کیا معلوم کہ ہمارے علاقے میں اُمیدوار کون تھا، ہم تو یہ جانتے تھے کہ اُمیدوار کا تعلق ایم کیو ایم سے ہے اور میں یہ جانتا ہوں کہ محلے میں جب بھی کوئی مسئلہ ہو تو امیدواران کو کہاں اور کیسے پکڑا جاسکتا ہے کیونکہ اِس کے لئے ایم کیو ایم نے باقاعدہ طور پر ایک سسٹم واضح کیا ہوا ہے۔
7 سال بعد بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم کی جیت اس وجہ سے بھی یقینی ہوئی کہ سائیں سرکار کی جانب سے شہر کے لئے کوئی ترقیاتی کام نہیں کیا گیا۔ تعلیم سے لے کر اسپتالوں تک تمام ہی نظام درہم برہم کردیا تھا۔ 2007 کے ادوار میں بننے والی سٹرکیں، اسپتال اور اسکول وغیرہ کے نظام تقریباً ختم ہوگئے۔ سڑکوں کی تعمیر و مرمت کا کام بالکل نہیں کیا گیا۔ حد یہ ہے کہ اساتذہ، ڈاکٹرز کی تعداد بھی بڑھی مگر صرف فائلوں اور فنڈ کو نقصان پہنچانے تک۔
عوام شہر کو پُرامن دیکھنا چاہتے ہیں اور انتخابات میں ایم کیو ایم کی جیت کے لئے یہ بات بہت اہم تھی کہ انہوں نے دیگر جماعتوں کی طرح الزامات نہیں بلکہ عوام سے یہ وعدہ کیا کہ اختیارات ملنے پر کراچی کا نقشہ ایک بار پھر تبدیل کردیں گے اور کراچی کے ریونیو کو اسی شہر کے لئے استعمال کرتے ہوئے k-4 جیسے منصوبے، ٹرانسپورٹ کی سہولیات، اسپتالوں کے نظام اور اسکولوں کی بہتری کے لئے اقدامات کئے جائیں گے۔ ان وعدوں پر عوام اسلئے اعتماد کرتے ہیں کہ کیونکہ ماضی میں اس پر عمل بھی ہوچکا ہے۔
ایم کیوایم سے عوام کی محبت کو سمجھنے کے لئے اتنا ہی بات کافی ہے اکثریت حاصل کرنے کے فوری بعد عوام کی بڑی تعداد جشن منانے جناح گراونڈ عزیز آباد پہنچی جہاں جشن کی تیاری کا بندوبست دن میں ہی ہوگیا تھا کیونکہ ایم کیو ایم پہلے ہی جانتی تھی کہ وہ اکثریت حاصل کرلے گی۔
یقیناً اکثریت ایم کیو ایم کو ملی مگر جن جن جماعتوں پر عوام نے جس سطح تک اعتماد کیا ہے اُن کو چاہیے کہ کراچی کی عوام کے مفاد میں اپنی آواز اٹھائیں، ترقیاتی کام کریں اور کراچی کی ترقی و خوشحالی میں اپنا کردار ادا کریں اور اگر یہ جماعتیں کراچی سے واقعی مخلص ہیں تو منتخب ہونے والے مئیر کو انتظامی بنیادوں پر اختیارات دلوانے میں اپنا کردار ادا کریں کیونکہ کراچی کو مل کر ہی ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے۔ ممکن ہے یہ بھاری اکثریتی مینڈیٹ آپ کے اقدامات کے باعث آپکا ساتھ دے۔ اِسی طرح سائیں سرکار اور وفاقی اداروں کو بھی چاہیئے کہ کراچی کے مئیر کو اختیارات دیں تاکہ شہر کی معاشی رگ خوب پھولے پھلے۔
چونکہ عوام نے ایم کیو ایم کو محض ماضی کی کارکردگی دیکھ کر ہی دوبارہ منتخب کیا ہے اِس لیے اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ایم کیو ایم اپنی ماضی کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے شہر کو ترقی دے گی یا پھر جنہوں نے اُن پر اعتماد کیا ہے اُن کو مایوس کرے گی۔
[poll id="816"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
سپریم کورٹ کے حکم کے بعد تیسرے مرحلے میں سندھ اور پنجاب کے باقی اضلاع میں بلدیاتی انتخابات منعقد کئے گئے۔ ویسے تو عام طور پر بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ صوبے کی حکومت کی جیت ہی یقینی ہوتی ہے اور ملک بھر کے اکثریتی علاقوں میں کچھ ایسا ہی ہوا۔ بلدیاتی انتخابات کے قریب آتے ہی کراچی کے مختلف علاقوں میں بہت ساری جماعتوں کے جھنڈے اور پوسٹر آویزاں دیکھے۔ ساتھ ساتھ ایسے سیاسی مذہبی اتحاد دیکھنے میں آئے جنہیں دیکھ کر انسان ہنسنے پر مجبور ہوجائے۔ وفاق اور صوبے کی سطح پر ایک دوسرے پر الزام لگانے والے کراچی میں اتحادی بن کر انتخابات میں حصہ لے رہے تھے۔
کراچی کے وسائل کی بات تو سب کرتے ہیں مگر اسکے مسائل کو حل کرنے کے لئے کوئی بھی سنجیدہ نہیں ہوتا۔ ہاں اگر کبھی کوئی فیصلہ کراچی کے مفاد میں ہو بھی جائے تو اُس کو اپنے سیاسی منشور میں شامل کرکے خوب سیاست چمکاتے ہیں۔ کراچی جس کی آبادی تقریباً دو کروڑ کے قریب ہے جس میں تمام ہی قومیتوں کے لوگ اپنی زندگی گذار رہے ہیں لیکن اکثریت اُردو بولنے والوں کی ہے۔
5 دسمبر کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سمیت ملک کی دوسری دیگر بڑی جماعتوں نے بھرپور حصہ لیا، مگر دیکھنے میں یہ آیا کہ سیاسی جماعتیں تو بہت متحرک دکھائی دیں لیکن عوام نے کچھ خاص جوش و خروش دیکھنے کو نہیں ملا اور اِسکی واضح مثال ووٹ کا حق استعمال کرنے والوں کی تعداد ہے۔ اطلاعات کے مطابق کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں لگ بھگ 30 فیصد لوگوں نے ووٹ ڈالے مگر جتنے بھی لوگوں نے ووٹ ڈالیں اُن کی اکثریت نے ایم کیو ایم پر اظہار اعتماد کیا اور یوں ایم کیو ایم باآسانی شہر میں اپنا مئیر بنانے کی پوزیشن میں آگئی ہے۔
انتخابات سے کئی دن پہلے سے ہی تمام سیاسی جماعتوں نے لوگوں سے رابطے کیے، بھرپور مہم چلائی مگر بدقسمتی سے دیکھنے میں یہ آیا کہ تمام ہی سیاسی جماعتوں نے تنقید کے نشتر ایم کیو ایم کی جانب کیے رکھے۔ کسی نے کہا کہ ایم کیو ایم بھتہ لیتی ہے تو کسی نے ٹارگٹ کلنگ کا الزام لگایا۔ جب کسی کو کچھ نہ ملا تو چائنہ کٹنگ کا الزام بھی عائد کردیا۔ انتخابات سے قبل یہ خدشہ تھا کہ کہیں عوام اس صورتحال کے پیش نظر مخالفین سے متاثر نہ ہوجائے مگر کراچی کی عوام نے تمام الزامات، تنقید اور پروپیگنڈا کو مسترد کرتے ہوئے انتخابات میں ایم کیو ایم کو واضح اکثریت سے نواز دیا۔
عوام کے نزدیک اِس فتح کے پیچھے مصطفی کمال کی کارکردگی بھی ہوسکتی ہے جنہوں نے 2005 سے 2009 کے عرصے میں کراچی کو ترقی کی راہ پر گامزن کردیا اور شہر کا نقشہ تبدیل کردیا۔ کراچی کو دنیا کے 10 خوبصورت ترین شہروں میں شامل کیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ عوام کو جن مشکلات کا سامنا تھا اُن کو حل کرکے ثابت کیا کہ مقامی حکومت کے ذریعے عوام کے مسائل کس قدر آسانی سے حل ہوسکتے ہیں۔
اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ میں نے کس اُمیدوار کو ووٹ دیا تو میں یہی کہیں گا کہ جناب مجھے کیا معلوم کہ ہمارے علاقے میں اُمیدوار کون تھا، ہم تو یہ جانتے تھے کہ اُمیدوار کا تعلق ایم کیو ایم سے ہے اور میں یہ جانتا ہوں کہ محلے میں جب بھی کوئی مسئلہ ہو تو امیدواران کو کہاں اور کیسے پکڑا جاسکتا ہے کیونکہ اِس کے لئے ایم کیو ایم نے باقاعدہ طور پر ایک سسٹم واضح کیا ہوا ہے۔
7 سال بعد بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم کی جیت اس وجہ سے بھی یقینی ہوئی کہ سائیں سرکار کی جانب سے شہر کے لئے کوئی ترقیاتی کام نہیں کیا گیا۔ تعلیم سے لے کر اسپتالوں تک تمام ہی نظام درہم برہم کردیا تھا۔ 2007 کے ادوار میں بننے والی سٹرکیں، اسپتال اور اسکول وغیرہ کے نظام تقریباً ختم ہوگئے۔ سڑکوں کی تعمیر و مرمت کا کام بالکل نہیں کیا گیا۔ حد یہ ہے کہ اساتذہ، ڈاکٹرز کی تعداد بھی بڑھی مگر صرف فائلوں اور فنڈ کو نقصان پہنچانے تک۔
عوام شہر کو پُرامن دیکھنا چاہتے ہیں اور انتخابات میں ایم کیو ایم کی جیت کے لئے یہ بات بہت اہم تھی کہ انہوں نے دیگر جماعتوں کی طرح الزامات نہیں بلکہ عوام سے یہ وعدہ کیا کہ اختیارات ملنے پر کراچی کا نقشہ ایک بار پھر تبدیل کردیں گے اور کراچی کے ریونیو کو اسی شہر کے لئے استعمال کرتے ہوئے k-4 جیسے منصوبے، ٹرانسپورٹ کی سہولیات، اسپتالوں کے نظام اور اسکولوں کی بہتری کے لئے اقدامات کئے جائیں گے۔ ان وعدوں پر عوام اسلئے اعتماد کرتے ہیں کہ کیونکہ ماضی میں اس پر عمل بھی ہوچکا ہے۔
ایم کیوایم سے عوام کی محبت کو سمجھنے کے لئے اتنا ہی بات کافی ہے اکثریت حاصل کرنے کے فوری بعد عوام کی بڑی تعداد جشن منانے جناح گراونڈ عزیز آباد پہنچی جہاں جشن کی تیاری کا بندوبست دن میں ہی ہوگیا تھا کیونکہ ایم کیو ایم پہلے ہی جانتی تھی کہ وہ اکثریت حاصل کرلے گی۔
یقیناً اکثریت ایم کیو ایم کو ملی مگر جن جن جماعتوں پر عوام نے جس سطح تک اعتماد کیا ہے اُن کو چاہیے کہ کراچی کی عوام کے مفاد میں اپنی آواز اٹھائیں، ترقیاتی کام کریں اور کراچی کی ترقی و خوشحالی میں اپنا کردار ادا کریں اور اگر یہ جماعتیں کراچی سے واقعی مخلص ہیں تو منتخب ہونے والے مئیر کو انتظامی بنیادوں پر اختیارات دلوانے میں اپنا کردار ادا کریں کیونکہ کراچی کو مل کر ہی ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے۔ ممکن ہے یہ بھاری اکثریتی مینڈیٹ آپ کے اقدامات کے باعث آپکا ساتھ دے۔ اِسی طرح سائیں سرکار اور وفاقی اداروں کو بھی چاہیئے کہ کراچی کے مئیر کو اختیارات دیں تاکہ شہر کی معاشی رگ خوب پھولے پھلے۔
چونکہ عوام نے ایم کیو ایم کو محض ماضی کی کارکردگی دیکھ کر ہی دوبارہ منتخب کیا ہے اِس لیے اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ایم کیو ایم اپنی ماضی کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے شہر کو ترقی دے گی یا پھر جنہوں نے اُن پر اعتماد کیا ہے اُن کو مایوس کرے گی۔
[poll id="816"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔