آنے والا کل …
ایک طویل وقفے کے بعد پھر حاضر خدمت ہوں۔ کوشش کروں گا اب یہ رابطہ ٹوٹنے نہ پائے
ایک طویل وقفے کے بعد پھر حاضر خدمت ہوں۔ کوشش کروں گا اب یہ رابطہ ٹوٹنے نہ پائے۔ ویک اینڈکی دوپہر پنجاب کے ایک انتہائی سینئر سیاستدان سے ملاقات ہوئی، ملکی سیاسی صورتحال پر گفتگو کے دوران بلدیاتی الیکشن کے آخری مرحلے کا ذکر ہوا تو ان کا کہنا تھا ایم کیو ایم کو جیتنے سے روکا جائے گا۔ ان کا خیال تھا متحدہ کا میئر کسی صورت نہیں بن سکتا۔ ماضی کی روایات کو سامنے رکھا جائے تو ان کی بات اتنی غلط نہیں تھی۔ مجھے البتہ ایم کیو ایم کی جیت کا یقین تھا۔
اس یقین کی وجہ یہ تھی کہ پہلے دونوں مراحل میں بھی ماضی کی کوئی روایت نظر نہیں آئی۔ پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی الیکشن کے تینوں مراحل مکمل ہو چکے ہیں، ان کے نتائج سے ایک بات ثابت ہو گئی کہ اسٹیبلشمنٹ نے ماضی سے سبق سیکھ لیا ہے۔ میں نے اپنی ہوش میں پہلی بار دیکھا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے بالکل مداخلت نہیں کی، جس پارٹی اور حکومت کا جہاں زور تھا وہاں جیت گئی۔ کیا ماضی میں ایسا ممکن تھا کہ کراچی میں آپریشن بھی چل رہا ہوتا اور ایم کیو ایم کو جیتنے بھی دیا جاتا۔ متحدہ نے کراچی سے پہلے بلدیاتی الیکشن کے دوسرے مرحلے میں حیدر آباد میں بھی واضح برتری حاصل کی تھی۔
پنجاب میں ن لیگ نے کسی سیاسی حریف کو اپنے نزدیک تک نہیں آنے دیا، اگر کسی نے چیلنج کیا تو وہ آزاد امیدوار تھے۔ آزاد امیدواروں کی اکثریت کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ وہ ن لیگ سے ہی تعلق رکھتے ہیں، کئی جگہ شیر کو بالٹی ہوتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
دونوں بڑے صوبوں کے بلدیاتی الیکشن کی تکمیل کے بعد یہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے عدم مداخلت کی پالیسی پر عمل کیا ہے، اسٹیبلشمنٹ نے ماضی سے سبق سیکھ لیا ہے۔ اب سیاستدانوں کی باری ہے کہ وہ بھی اپنی ترجیحات کو درست کر لیں۔ الیکشن میں عدم مداخلت سے یہ نہ سمجھا جائے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ اب محض خاموش تماشائی بن کر رہے گی۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ، آپریشن ضربِ عضب ابھی جاری ہے، اس حوالے سے کچھ معاملات پر اتفاق ہوا تھا، ان پر عملدرآمد ہونا باقی ہے۔
دہشتگردوں کی فنڈنگ کرنے والے اور ان کے سرپرست ابھی نہیں پکڑے گئے، کرپشن کرنے والے خود کو معصوم قرار دیتے نہیں تھکتے، ان کو مہلت دی گئی تھی۔ مہلت سے مطلب اخذ کیا گیا کہ اب انھیں کچھ نہیں ہو گا، یہ تاثر درست نہیں ہے۔ پاک فوج کا موقف واضح ہے، وہ کہتے ہیں آپریشن ضربِ عضب میں اپنے حصے کا کام وہ کر چکے، اب سیاسی قیادت کی باری ہے۔ یہ مان لیتے ہیں کہ ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا۔۔۔۔۔۔اب اور نہیں، زیادہ دیر نہیں۔
موسم تبدیل ہونے لگا ہے، ابھی دھند چھائی ہوئی ہے، دسمبر کا مہینہ اسی طرح گزرے گا ، کبھی دھند چھائے گی اور کبھی سورج نکلے گا، دھند اور سورج کی یہ آنکھ مچولی 31دسمبر تک جاری رہے گی، یکم جنوری کا سورج سیاسی ماحول میں تبدیلی کی کرنیں لا رہا ہے۔ کرپشن کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز نئے سال کی شروعات کے ساتھ منسوب ہو چکا ہے۔
دھند چھٹنا شروع ہو گئی تو ایسے مناظر سامنے آئیں گے کہ دیکھنے والے دنگ رہ جائیں گے۔ تاثر یہ ہے کہ اختلافات کے باوجود سیاسی جماعتیں اکٹھی ہیں، وہ سمجھتی ہیں کہ ایک کی کمزوری دوسری کی کمزوری ہو گی۔ ایک گر گئی تو دوسری کو گرانا آسان ہو گا۔ آپ کو یاد ہو گا جب کراچی میں آپریشن شروع ہوا، ایم کیو ایم کے بعد پیپلز پارٹی کے لوگوں کا نام آنے لگا تو پنجاب میں آپریشن کا مطالبہ شدت سے ہونے لگا تھا۔ پھر اچانک کیا ہوا کہ یہ آوازیں خاموش ہو گئیں، نئے سال میں کوئی مطالبہ ہونہ ہو، کام شروع ہو جائے گا۔ سیاسی قیادت نے جتنی کامیابیاں سمیٹنی تھی سمیٹ لیں، اب حساب بے باک ہونے کی باری ہے۔
کون انکار کر سکتا ہے کہ کرپشن اور دہشتگردی میں گہرا گٹھ جوڑ ہے۔ دہشتگردی کرپشن کے پیسے سے فروغ پاتی ہے۔ ماضی قریب میں بعض اہم شخصیات کی طرف سے دہشت گردوں کو اپنی اور اپنے خاندان کی حفاظت کے لیے بھتہ تک جاتا رہا۔ یہ باتیں گراس روٹ لیول پر عام ہیں۔
یہ بھی گلی محلے کی باتیں ہیں کہ بعض حلقے دہشت گردوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور انھیں بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔زیرو ٹالرنس صرف دہشتگردی کے بارے میں ہی نہیں کرپشن کے بارے میں بھی ہے۔ نیب کا ادارہ پہلی بار فعال ہونے جا رہا ہے۔ کچھ نام پہلے سے زبانِ زد عام ہیں، کچھ اور نام ایسے سامنے آنے والے ہیں جو سب کو حیران کر دیں گے۔ پارسائی کا دعویٰ کرنے والے بے نقاب ہونے والے ہیں۔نقاب میں چھپے ہوئے چہروں کو بھی صورت حال کا اندازہ ہے ۔وہ نقاب کو زیادہ گہرا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں لیکن یہ کوششیں زیادہ دیر کامیاب ہوتی نظر نہیں آ رہیں۔عوام یہ بے نقاب چہرے دیکھنے کے لیے بے تاب ہیں۔
ڈیل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اب ڈھیل کا وقت بھی گزر گیا۔ گورننس کے حوالے سے آئی ایس پی آر کا جواب دے کر حکومت نے اپنی گورننس کو گڈ قرار دے کر جس اطمینان کا اظہار کیا تھا وہ کب کا ہوا ہو چکا۔ چیف جسٹس آف پاکستان کئی بار اس گڈ گورننس کا پردہ چاک کر چکے ہیں ۔ آئی ایم ایف سے معاہدے کے تحت 40ارب روپے کے نئے ٹیکس لگ چکے ہیں، ان ٹیکسوں کے نفاذ کی وجہ سے ''عام آدمی'' بالکل متاثر نہیں ہوا۔ میرے اور آپ جیسے ''خواص'' البتہ مزید مشکل میں پڑ گئے ہیں۔
پٹرولیم مصنوعات پر لیا جانے والے بے تحاشا ٹیکس اس سے الگ ہے۔ 40ارب روپے کے ٹیکسوں کا جواز بھی خوب پیش کیا گیا' آپریشن ضربِ عضب۔ کشکول توڑنے کے دعوے کرنے والے کشکول ہاتھ میں پکڑے ہوئے فخر سے عالمی اداروں سے ''بھیک'' مانگ رہے ہیں۔ معیشت کی مضبوطی اگر بالواسطہ ٹیکسوں کے نفاذ سے ہی ممکن ہے تو حضور! دیر نہ کریں۔ سو ڈیڑھ سو ارب کے مزید ٹیکس لگا دیں۔ جب ''عام آدمی'' کو فرق نہیں پڑتا تو پھر تاخیر کیسی؟
تازہ ترین یہ ہے کہ ڈاکٹر عاصم نے خود پر لگائے گئے تمام الزامات مسترد کر دیے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جھگڑا کسی اور کا ہے مگر پھنسا یا انھیں جا رہا ہے۔ سندھ حکومت نے ایک بار پھر رینجرز کے اختیارات کی مدت میں توسیع کے موقع پر تاخیری حربہ استعمال کیا ہے۔ کچھ عرصہ ہوا آصف زرداری ایس جی ایس کوٹیکناکیس میں بیگناہ قرار پا چکے ہیں۔ سیاستدان اور ان کے حواری بظاہر بہت مضبوط نظر آ رہے ہیں۔ بلدیاتی الیکشن میں کامیابی نے ان کی ''پاپولیرٹی'' پر مہر لگا دی ہے۔ تاحال سب اچھا کی رپورٹ ہے لیکن یہ سلسلہ تادیر نہیں چلے گا۔
آنے والا کل گزرے ہوئے کل سے مختلف بھی ہو گا اور مشکل بھی۔ ماضی سے سبق سیکھنے کی باری اب سیاسی قیادت کی ہے۔ سسٹم کو چلانے کے لیے ضروری ہے کہ سب اپنے اپنے حصے کا کام کریں۔ ایسا نہ کیا گیا تو پھر حرف شکایت کا کوئی فایدہ نہیں ہو گا۔
اس یقین کی وجہ یہ تھی کہ پہلے دونوں مراحل میں بھی ماضی کی کوئی روایت نظر نہیں آئی۔ پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی الیکشن کے تینوں مراحل مکمل ہو چکے ہیں، ان کے نتائج سے ایک بات ثابت ہو گئی کہ اسٹیبلشمنٹ نے ماضی سے سبق سیکھ لیا ہے۔ میں نے اپنی ہوش میں پہلی بار دیکھا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے بالکل مداخلت نہیں کی، جس پارٹی اور حکومت کا جہاں زور تھا وہاں جیت گئی۔ کیا ماضی میں ایسا ممکن تھا کہ کراچی میں آپریشن بھی چل رہا ہوتا اور ایم کیو ایم کو جیتنے بھی دیا جاتا۔ متحدہ نے کراچی سے پہلے بلدیاتی الیکشن کے دوسرے مرحلے میں حیدر آباد میں بھی واضح برتری حاصل کی تھی۔
پنجاب میں ن لیگ نے کسی سیاسی حریف کو اپنے نزدیک تک نہیں آنے دیا، اگر کسی نے چیلنج کیا تو وہ آزاد امیدوار تھے۔ آزاد امیدواروں کی اکثریت کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ وہ ن لیگ سے ہی تعلق رکھتے ہیں، کئی جگہ شیر کو بالٹی ہوتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
دونوں بڑے صوبوں کے بلدیاتی الیکشن کی تکمیل کے بعد یہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے عدم مداخلت کی پالیسی پر عمل کیا ہے، اسٹیبلشمنٹ نے ماضی سے سبق سیکھ لیا ہے۔ اب سیاستدانوں کی باری ہے کہ وہ بھی اپنی ترجیحات کو درست کر لیں۔ الیکشن میں عدم مداخلت سے یہ نہ سمجھا جائے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ اب محض خاموش تماشائی بن کر رہے گی۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ، آپریشن ضربِ عضب ابھی جاری ہے، اس حوالے سے کچھ معاملات پر اتفاق ہوا تھا، ان پر عملدرآمد ہونا باقی ہے۔
دہشتگردوں کی فنڈنگ کرنے والے اور ان کے سرپرست ابھی نہیں پکڑے گئے، کرپشن کرنے والے خود کو معصوم قرار دیتے نہیں تھکتے، ان کو مہلت دی گئی تھی۔ مہلت سے مطلب اخذ کیا گیا کہ اب انھیں کچھ نہیں ہو گا، یہ تاثر درست نہیں ہے۔ پاک فوج کا موقف واضح ہے، وہ کہتے ہیں آپریشن ضربِ عضب میں اپنے حصے کا کام وہ کر چکے، اب سیاسی قیادت کی باری ہے۔ یہ مان لیتے ہیں کہ ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا۔۔۔۔۔۔اب اور نہیں، زیادہ دیر نہیں۔
موسم تبدیل ہونے لگا ہے، ابھی دھند چھائی ہوئی ہے، دسمبر کا مہینہ اسی طرح گزرے گا ، کبھی دھند چھائے گی اور کبھی سورج نکلے گا، دھند اور سورج کی یہ آنکھ مچولی 31دسمبر تک جاری رہے گی، یکم جنوری کا سورج سیاسی ماحول میں تبدیلی کی کرنیں لا رہا ہے۔ کرپشن کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز نئے سال کی شروعات کے ساتھ منسوب ہو چکا ہے۔
دھند چھٹنا شروع ہو گئی تو ایسے مناظر سامنے آئیں گے کہ دیکھنے والے دنگ رہ جائیں گے۔ تاثر یہ ہے کہ اختلافات کے باوجود سیاسی جماعتیں اکٹھی ہیں، وہ سمجھتی ہیں کہ ایک کی کمزوری دوسری کی کمزوری ہو گی۔ ایک گر گئی تو دوسری کو گرانا آسان ہو گا۔ آپ کو یاد ہو گا جب کراچی میں آپریشن شروع ہوا، ایم کیو ایم کے بعد پیپلز پارٹی کے لوگوں کا نام آنے لگا تو پنجاب میں آپریشن کا مطالبہ شدت سے ہونے لگا تھا۔ پھر اچانک کیا ہوا کہ یہ آوازیں خاموش ہو گئیں، نئے سال میں کوئی مطالبہ ہونہ ہو، کام شروع ہو جائے گا۔ سیاسی قیادت نے جتنی کامیابیاں سمیٹنی تھی سمیٹ لیں، اب حساب بے باک ہونے کی باری ہے۔
کون انکار کر سکتا ہے کہ کرپشن اور دہشتگردی میں گہرا گٹھ جوڑ ہے۔ دہشتگردی کرپشن کے پیسے سے فروغ پاتی ہے۔ ماضی قریب میں بعض اہم شخصیات کی طرف سے دہشت گردوں کو اپنی اور اپنے خاندان کی حفاظت کے لیے بھتہ تک جاتا رہا۔ یہ باتیں گراس روٹ لیول پر عام ہیں۔
یہ بھی گلی محلے کی باتیں ہیں کہ بعض حلقے دہشت گردوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور انھیں بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔زیرو ٹالرنس صرف دہشتگردی کے بارے میں ہی نہیں کرپشن کے بارے میں بھی ہے۔ نیب کا ادارہ پہلی بار فعال ہونے جا رہا ہے۔ کچھ نام پہلے سے زبانِ زد عام ہیں، کچھ اور نام ایسے سامنے آنے والے ہیں جو سب کو حیران کر دیں گے۔ پارسائی کا دعویٰ کرنے والے بے نقاب ہونے والے ہیں۔نقاب میں چھپے ہوئے چہروں کو بھی صورت حال کا اندازہ ہے ۔وہ نقاب کو زیادہ گہرا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں لیکن یہ کوششیں زیادہ دیر کامیاب ہوتی نظر نہیں آ رہیں۔عوام یہ بے نقاب چہرے دیکھنے کے لیے بے تاب ہیں۔
ڈیل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اب ڈھیل کا وقت بھی گزر گیا۔ گورننس کے حوالے سے آئی ایس پی آر کا جواب دے کر حکومت نے اپنی گورننس کو گڈ قرار دے کر جس اطمینان کا اظہار کیا تھا وہ کب کا ہوا ہو چکا۔ چیف جسٹس آف پاکستان کئی بار اس گڈ گورننس کا پردہ چاک کر چکے ہیں ۔ آئی ایم ایف سے معاہدے کے تحت 40ارب روپے کے نئے ٹیکس لگ چکے ہیں، ان ٹیکسوں کے نفاذ کی وجہ سے ''عام آدمی'' بالکل متاثر نہیں ہوا۔ میرے اور آپ جیسے ''خواص'' البتہ مزید مشکل میں پڑ گئے ہیں۔
پٹرولیم مصنوعات پر لیا جانے والے بے تحاشا ٹیکس اس سے الگ ہے۔ 40ارب روپے کے ٹیکسوں کا جواز بھی خوب پیش کیا گیا' آپریشن ضربِ عضب۔ کشکول توڑنے کے دعوے کرنے والے کشکول ہاتھ میں پکڑے ہوئے فخر سے عالمی اداروں سے ''بھیک'' مانگ رہے ہیں۔ معیشت کی مضبوطی اگر بالواسطہ ٹیکسوں کے نفاذ سے ہی ممکن ہے تو حضور! دیر نہ کریں۔ سو ڈیڑھ سو ارب کے مزید ٹیکس لگا دیں۔ جب ''عام آدمی'' کو فرق نہیں پڑتا تو پھر تاخیر کیسی؟
تازہ ترین یہ ہے کہ ڈاکٹر عاصم نے خود پر لگائے گئے تمام الزامات مسترد کر دیے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جھگڑا کسی اور کا ہے مگر پھنسا یا انھیں جا رہا ہے۔ سندھ حکومت نے ایک بار پھر رینجرز کے اختیارات کی مدت میں توسیع کے موقع پر تاخیری حربہ استعمال کیا ہے۔ کچھ عرصہ ہوا آصف زرداری ایس جی ایس کوٹیکناکیس میں بیگناہ قرار پا چکے ہیں۔ سیاستدان اور ان کے حواری بظاہر بہت مضبوط نظر آ رہے ہیں۔ بلدیاتی الیکشن میں کامیابی نے ان کی ''پاپولیرٹی'' پر مہر لگا دی ہے۔ تاحال سب اچھا کی رپورٹ ہے لیکن یہ سلسلہ تادیر نہیں چلے گا۔
آنے والا کل گزرے ہوئے کل سے مختلف بھی ہو گا اور مشکل بھی۔ ماضی سے سبق سیکھنے کی باری اب سیاسی قیادت کی ہے۔ سسٹم کو چلانے کے لیے ضروری ہے کہ سب اپنے اپنے حصے کا کام کریں۔ ایسا نہ کیا گیا تو پھر حرف شکایت کا کوئی فایدہ نہیں ہو گا۔