کیا لیاری بدل رہا ہے

لیاری شہرکراچی کا ایک قدیمی علاقہ ہے لیکن حالات کی ستم ظریفی کہیں یا کہ نشیب و فراز


Shabbir Ahmed Arman December 08, 2015
[email protected]

لیاری شہرکراچی کا ایک قدیمی علاقہ ہے لیکن حالات کی ستم ظریفی کہیں یا کہ نشیب و فراز۔ لیاری کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہ شہر کراچی کا ایک حصہ ہوتے ہوئے بھی اسے شہر کراچی سے الگ علاقہ بھی جانا جاتا ہے۔گزشتہ دس پندرہ سالوں کے طفیل لیاری کا جو خوب صورت چہرہ تھا بگڑ گیا۔

پوری دنیا میں لیاری کی جو رسوائی ہوئی اس پر لیاری کے شریف النفس مکینوں نے اپنی آنکھیں کبوترکی طرح بند کیے رکھیں یہ سوچ کر کہ شاید انھیں کوئی نہیں دیکھ رہا ہے اور چپ رہنے کے سوا ان کے پاس چارہ بھی کوئی نہیں تھا کہ ''حکومتیں بھی بے بس تھیں اور ادارے بھی مفلوج تھے، یہ ایک فیصد عناصر کی کارستانیاں تھیں جن کی ڈوری کہیں اور سے ہلائی جا رہی تھی، لیکن بدنام پورا لیاری ہوگیا۔ اب بھی لوگ لیاری والوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ لیاری انسانوں کی بستی نہیں ہے۔ یہ جملے 99 فیصد اہل لیاری کے سینوں میں تیر بن کر لگتے ہیں۔اس تیر کا تعلق سیاسی ''تیر'' سے نہیں ہے۔

جو داغ لیاری کے ماتھے پر لگا دیے گئے ہیں جو الزامات عائد کرکے ان کی بنیاد پر پورے لیاری کو بدنام کیا گیا اس سے لیاری کے سنجیدہ نوجوانوں میں ایک تڑپ پیدا کردی ہے۔ یوں سمجھیں لیاری کے نوجوان ایک طوفان سے آشنا ہوئے اب لیاری کے یہ نوجوان اپنی مدد آپ کے تحت سماجی سطح پر وہ کارہائے نمایاں سر انجام دے رہے ہیں جن کے ذریعے لیاری کی نیک نامی ہو رہی ہے لیکن لیاری کے نوجوانوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ میڈیا ان کی کوریج نہیں کر رہا ہے۔

اگر بھولے سے لیاری میں کسی جگہ ناخوشگوار واقعہ ہوجائے تو پورے میڈیا کا رخ لیاری کی طرف ہوجاتا ہے۔ جب سے لیاری پھر امن کا گہوارہ بن گیا ہے لیاری کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی مثبت سرگرمیاں ایک بار پھر عروج پر ہیں۔جنھیں دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ''لیاری بدل رہا ہے۔''

گزشتہ دو سالوں سے لیاری کے نوجوان کامیابی کے جھنڈے گاڑھ رہے ہیں۔ کبھی پیس آف لیاری کے نام پر مجلس مذاکرہ کرتے رہے ہیں۔ کبھی فٹبال، باکسنگ کے ٹورنامنٹ منعقد کرتے رہتے ہیں، کبھی لیاری کی تاریخ کو کتابی صورت دیتے ہیں،کبھی لیاری کی عکس بندی کرتے ہیں، کبھی لیاری کے طلبا وطالبات کے مابین تقریری، مصوری، فوٹوگرافی ونعت گوئی کے مقابلے کراتے ہیں، کبھی شارٹ فلموں کی نمائش کرتے ہیں، تعلیمی میدان میں اچھی ڈویژن میں پاس ہو رہے ہیں، سماجی سطح پر بیرون ممالک کا دورہ کر رہے ہیں وہاں تعلیمی، سماجی تربیت حاصل کر کے لوٹ رہے ہیں۔

ابھی حال ہی میں لیاری کی تاریخ میں پہلی بارگرلز اسکاؤٹ گروپ اورگرلز فٹبال ٹیم کی تشکیل ہوئی ہے۔ خبر جاری کرنے کے باوجود ان کی کوریج نہیں کی گئی۔ ان کی تفصیلات ملاحظہ کریں! روز ایجوکیشنل سوسائٹی (لیاری) کی سرپرستی میں لیاری میں گرلزاسکاؤٹ گروپ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔

روز ایجوکیشنل سوسائٹی کے ڈائریکٹر انورعلی بھٹی کی قیادت میں یہ گرلز اسکاؤٹ گروپ لیاری کراچی سندھ کی نمایندگی کرتے ہوئے 23 نومبر تا یکم دسمبر 2015 تک اسلام آباد میں قائم پاکستان بوائز اینڈ گرلز اسکاؤٹ کے نیشنل ہیڈکوارٹر میں اسکاؤٹ کی تربیت حاصل کی۔ اس دوران لیاری سے آنے والے گرلز اسکاؤٹس کے وفد نے صدر مملکت جناب ممنون حسین سے ایوان صدر میں ملاقات کی۔ وفد کی قیادت چیف کمشنر پاکستان بوائے اسکاؤٹس ایسوسی ایشن اور رکن بلوچستان اسمبلی راحیلہ خان درانی اور روز اسکاؤٹس گروپ لیاری کے ڈائریکٹر انورعلی بھٹی نے کی۔ دیگر اراکین میں کورس لیڈر عبدالحئی خان، نجمہ جبیں، صغیر الدین، ارشد آرائیں اور محمد ایوب شامل تھے۔

لیاری کی گرلزاسکاؤٹس گروپ نے بنیادی اسکاؤٹنگ، ابتدائی طبی امداد، حادثات سے بچاؤ کے طریقے، قدرتی آفات کے وقت نقصانات کو کم سے کم کرنے کے اصول سیکھے۔ علاوہ ازیں اسلام آباد کے تعلیمی اداروں کا مطالعاتی دورہ کیا اور تفریحی مقامات کی سیر بھی کی۔ لیاری کے اس پہلے گرلز اسکاؤٹ گروپ کو اسلام آباد جانے سے قبل روز یوتھ پوائنٹ کے ڈائریکٹر شبیر حسین بلوچ کی جانب سے ایک استقبالیہ دیا گیا ۔

جس میں ایم پی اے ثانیہ ناز، کراچی پورٹ ٹرسٹ کے انجینئر امام بخش بلوچ، سابق ٹاؤن ناظم لیاری محمود ہاشم، پی پی پی کراچی ڈویژن کے نائب صدر حبیب حسن، بلوچ اتحاد تحریک کے چیئرمین عابد حسین بروہی، رمضان بلوچ، ڈسٹرکٹ فٹبال ایسوسی ایشن ساؤتھ کراچی کے رہنما ناصرکریم بلوچ، ڈی ٹی او ایجوکیشن ساؤتھ گل محمد خاص خیلی، القادر اسکول کے پرنسپل دوست محمد دانش، ماسٹر حسین علی، راقم الحروف کے علاوہ طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور لیاری کے اس پہلے گرلز اسکاؤٹ گروپ (اسکاؤٹنگ ٹریننگ) کے اقدام کو سراہا اور اس کو سنگ میل قرار دیا ہے۔

لیاری فٹبال کھیلوں کی نرسری ہے اس مرتبہ یہاں ایک اور فٹبال کا بیج بویا گیا ہے یعنی مردوں کے علاوہ اب خواتین فٹبال ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔ گزشتہ دنوں ڈسٹرکٹ فٹبال ایسوسی ایشن ساؤتھ کراچی کی جانب سے جانب سے نیشنل بینک ڈسٹرکٹ ساؤتھ فٹبال چیمپئن شپ (وومن) کا اہتمام کیا گیا۔ جس میں 8 ٹیموں نے شرکت کی۔ فائنل کھیل کراچی یونائیٹڈ نے 7 گول سے جیتا جب کہ مدمقابل ٹیم ایس ایم بی فاطمہ کوئی گول نہ کرسکی اور صفر پر ہار گئی۔

جیتنے والی ٹیم کی کھلاڑی ثریا نے ہی یہ 7 گول تن تنہا کیے جب کہ خدیجہ مین آف دی میچ قرار پائی۔ اول، دوم اور سوئم آنے والی ٹیموں کو ٹرافی کے علاوہ نقد انعامات بھی دیے گئے۔بچیوں کی اس فٹبال ٹیم میں لیاری سے تعلق رکھنے والی 13 سالہ حدیہ، 13 سالہ شگفتہ اور 13 سالہ آمنہ نے شرکت کی اور اپنے بہترین کھیل کی وجہ سے خوب داد حاصل کی۔ جن کا تعلق القادر اسکول سے ہے۔

کے ایم سی فٹبال اسٹیڈیم کے سبزہ زار پر شروع ہونے والے نیشنل بینک وومن فٹبال چیمپئن شپ کی ابتدائی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈسٹرکٹ فٹبال ایسوسی ایشن ساؤتھ اور سندھ کے فٹبال کھیل کے سرگرم رہنما ناصر کریم بلوچ نے کہا کہ اب سندھ اور بالخصوص ساؤتھ و کراچی فٹبال میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ ضرور حاصل کرے گا کیونکہ اب میرٹ کو بنیاد بناکر بلاتفریق صلاحیت کو موقع فراہم کیا جا رہا ہے۔ ہم مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین فٹبال کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں۔

خواتین میں فٹبال کھیل کو فروغ دینے کے لیے ڈسٹرکٹ ساؤتھ کا یہ تیسرا پروگرام ہے۔ اس سے قبل انڈر 16 کی یوتھ کھلاڑیوں کے درمیان لیگ کے مقابلے کروائے اور اب نیشنل بینک کے تعاون سے کراچی کی آٹھ ٹیموں کے درمیان چیمپئن شپ کا انعقاد اس بات کا ثبوت ہے کہ بلاتفریق فٹبال کھیل کی خدمت کو اپنا شعار سمجھتے ہیں۔ ابتدائی میچ کے مہمان خاص پاکستان رینجرز 61 ونگ کے لیفٹیننٹ کرنل شاہد خان اور لیفٹیننٹ کرنل عنایت درانی اور نیشنل بینک کے اسپورٹس آفیسر اویس اسد خان تھے۔

اس موقعے پر پاکستان فٹبال کے سابق کپتان صدارتی ایوارڈ یافتہ فرزند لیاری علی نواز بلوچ، کوچ احمد جان اور ڈسٹرکٹ ساؤتھ کے قائم مقام صدر جمیل احمد ہوت نے بھی خطاب کیا۔

علی نواز نے کہا کہ فٹبال کھیل بہتر جا رہا ہے، نیشنل بینک اور ڈسٹرکٹ ساؤتھ بہت بہتر کام کر رہے ہیں۔ پاکستان فٹبال فیڈریشن کے کام بند نہیں جب تک فیڈریشن پاکستان کے انتخابات نہیں ہوں گے تب تک سرگرمیاں ممکن نہیں ہیں۔ اس وقت ساؤتھ کراچی ایسوسی ایشن سرگرم عمل ہے جو اس کھیل کو آگے لے جا رہا ہے۔ انھوں نے انٹرنیشنل کھلاڑی پیدا کیے ہیں اور پاکستان کی نمایندگی کی ہے۔ مستقبل قریب میں مزید 400 ٹیمیں سامنے آنے والی ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ لیاری میں فٹبال اکیڈمی قائم کرے۔ اس طرح اسپورٹس کو فروغ ملے گا اور یہی لڑکے آگے چل کر پاکستان کا نام روشن کریں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں