سیاست کو دولت کا تڑکا
آج سے کوئی 24 برس قبل کا ذکر ہے کہ ایک نجی ٹی وی چینل سے ایک ڈرامہ پیش کیا گیا تھا
PESHAWAR:
آج سے کوئی 24 برس قبل کا ذکر ہے کہ ایک نجی ٹی وی چینل سے ایک ڈرامہ پیش کیا گیا تھا، اس ڈرامے کا نام تھا ''چاندگرہن'' اس ٹی وی ڈرامے کی خاص بات یہ تھی کہ اس ڈرامے میں سماجی برائیوں کی بڑی خوبصورتی سے عکاسی کی گئی تھی۔ اس ڈرامے میں جو سماجی برائیوں کے پہلو پیش کیے گئے ان میں ایک پہلو منفی سیاست کا بھی تھا، چنانچہ اس ڈرامے میں ایک سیاسی کردار لال حسین شاہ کا بھی ہوتا ہے جوکہ ایک بہت بڑا زمیندار یعنی وڈیرہ ہوتا ہے، واضح رہے کہ اس ڈرامے میں وڈیرہ لال حسین شاہ کا کردار مرحوم اداکار شفیع محمد شاہ نے ادا کیا تھا۔
چنانچہ اس ڈرامے کے ایک سین میں لال حسین شاہ کا ایک ملازم روایتی انداز اختیار ہوئے کہتا ہے کہ سائیں بڑے افسوس کی بات ہے کہ آپ الیکشن ہار گئے ہیں۔ اس کے جواب میں وڈیرہ لال حسین شاہ کہتا ہے کہ ہمارے ملک میں سیاست کو دولت کا تڑکا لگ چکا ہے۔ لہٰذا اب یہ ممکن ہی نہیں رہا کہ کوئی سیاست دان بنا خرچ کیے الیکشن جیت سکے۔
خیال رہے کہ یہ کوئی 24 برس قبل کا ذکر ہے اور اس وقت قومی اسمبلی کی نشست پر جو الیکشن لڑنے کا تخمینہ تھا وہ تھا 15 سے 20 لاکھ روپے جب کہ صوبائی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑنے پر اخراجات کا تخمینہ تھا 8 سے 10 لاکھ روپے۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ الیکشن کے عمل پر آنے والے اخراجات بڑھتے گئے، البتہ لوکل گورنمنٹ کے الیکشن میں حصہ لینے والا اپنا الیکشن لڑنے کا شوق ہزاروں روپے کے اخراجات برداشت کرکے پورا کرلیتا تھا۔ جس کا میرے پاس ایک واضح ثبوت یہ ہے کہ جب 2001 میں کراچی میں لوکل گورنمنٹ کے الیکشن ہوئے تو میری ایک قریبی عزیزہ نے ان لوکل گورنمنٹ کے الیکشن میں حصہ لیا اورکامیابی بھی حاصل کرلی مگر الیکشن کے عمل سے گزرنے کے بعد میں نے اپنی ان عزیزہ سے سوال کیا کہ آپ کے ان لوکل گورنمنٹ کے الیکشن میں حصہ لینے پر کس قدر اخراجات آئے؟
تو انھوں نے بتایاکہ کل ملاکر 80 ہزار روپے خرچ ہوئے ہیں گویا بات یوں ہوئی کہ 2001 تک لوکل گورنمنٹ کے الیکشن میں حصہ لینے والا ہزاروں روپے خرچ کرکے چھوٹ جاتا تھا اگرچہ سیاست کو دولت کا تڑکا 1985 میں ہونے والے غیر جماعتی الیکشن میں ہی لگ چکا تھا مگر پھر آنے والے ہر انتخابات میں یہ اخراجات کا تخمینہ بڑھتا ہی چلا گیا ان بڑھتے ہوئے اخراجات کے ذمے دار وہ سیاست دان بھی تھے جنھوں نے 1985 میں ہونے والے الیکشن میں حصہ لیا تھا۔ اور خوب فوائد بھی حاصل کیے تھے اور ان فوائد کا ہی ثمر تھا۔
1985 کے بعد ایک نیا طبقہ نودولتیے وجود میں آیا۔ جس کا اظہار اس وقت کے آمر حکمران جنرل ضیا الحق نے جونیجو حکومت کو 29 اپریل 1988 کو برطرف کرتے ہوئے کیا تھا اور 1985 کے غیر جماعتی الیکشن میں کامیاب ہونے والے ممبران قومی و صوبائی پر سنگین الزامات بھی لگائے گئے تھے، آمر جنرل ضیا الحق کی جانب سے ایک کرپشن کا الزام بھی تھا جوکہ قومی و صوبائی حکومتوں پر بھی لگایا گیا تھا یہ الزامات آمر جنرل ضیا الحق نے 29 اپریل 1988 کو ریڈیو ٹیلی ویژن سے خطاب کے دوران لگائے تھے یہ خطاب انھوں نے قوم سے کیا تھا۔ بہرکیف سیاست میں زرکا استعمال شروع ہوچکا تھا جس کا مظاہرہ نومبر 1988 کو عام الیکشن میں دیکھنے میں آیا تھا۔ چنانچہ ان عام الیکشن کے نتیجے میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہوئی اور محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ وزیر اعظم پاکستان منتخب ہوئیں۔
مگر قومی اسمبلی میں عددی اعتبار سے یہ ایک کمزور حکومت تھی جسے رُجعت پسند نو جماعتی اسلامی جمہوری اتحاد کا سامنا تھا جوکہ قومی اسمبلی میں ایک مشکل حزب اختلاف ثابت ہورہاتھا، یہ اتحاد حصول اقتدار کے لیے اس قدر بے صبری کا مظاہرہ کررہاتھا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہوئے فقط 11 ماہ ہی ہوئے تھے کہ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف اسلامی جمہوری اتحاد نے پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کردی ۔
اس موقعے پر قومی اسمبلی ممبران کی چاندی ہوگئی اور ووٹ حاصل کرنے کے لیے ایک ایک ممبر قومی اسمبلی کی قیمت ایک ایک کروڑ مقرر ہوئی، چنانچہ اس خرید و فروخت کو ہارس ٹریڈنگ کا نام دیاگیا چنانچہ یکم نومبر 1989کو تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری ہوئی ،اس رائے شماری میں حزب اختلاف کے حق میں 107 ووٹ آئے جب کہ حکومت کے حق میں 130 ووٹ پڑے کیوں کہ اس وقت قومی اسمبلی کا ایوان 237 ممبران پر مشتمل تھا۔ ان قومی اسمبلی کے ممبران میں 207 مسلم 10 اقلیتی ممبران جب کہ 20 خواتین ارکان شامل تھیں۔ مقصد یہ کہ یہ وہ وقت تھا جب ملکی سیاست میں بے دریغ دولت استعمال و کرپشن کا بازار گرم ہوچکا تھا چنانچہ کرپشن سے حاصل کردہ دھن سیاست میں خوب استعمال ہونا شروع ہوا۔
دوسری جانب سندھ و پنجاب کے حالیہ ہونے والے لوکل گورنمنٹ الیکشن میں جس طرح زر کا استعمال دیکھنے میں آرہا ہے، بلاشبہ کہا جاسکتا ہے کہ ملکی تاریخ کے مہنگے ترین لوکل گورنمنٹ الیکشن ہورہے ہیں، ان لوکل گورنمنٹ الیکشن میں جو مناظر دیکھنے میں آئے ہیں وہ کچھ اس طرح کے ہیں کہ امیدواروں کی جانب سے کم سے کم 15 یوم الیکشن سے قبل ہی ووٹروں کے لیے کھانے کھلانے کا سلسلہ شروع کردیاگیا تھا اور ووٹروں کو ووٹ کی ترغیب دینے کے لیے انواع و اقسام کے کھانے کھلائے گئے اور جہاں جہاں لوکل گورنمنٹ الیکشن ہونے والے ہیں۔
وہاں وہاں کھانا کھلانے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے جب کہ پنجاب کے ایک شہر سے یہ مصدقہ اطلاعات ہیں کہ وہاں پر ایک امیدوار کا انتخابی نشان چونکہ بالٹی تھا اسی باعث ان صاحب نے اپنے حلقہ انتخاب میں ہر ایک گھر میں راشن سے بھری ہوئی بالٹیاں تقسیم کیں۔ جب کہ ان کے مد مقابل جو امیدوار تھے ان کا انتخابی نشان بلا تھا چنانچہ ان صاحب نے اپنے حلقے کے ہر ایک گھر میں ایک ایک بلا و ایک ایک کرکٹ گیند تقسیم کروائی، ان حقائق کے باوجود اگر کوئی اس غلط فہمی میں ہے کہ یہ لوکل گورنمنٹ میں حصہ لینے والے امیدواران قومی خدمت کے جذبے کے تحت الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں تو وہ اپنی غلط فہمی دورکرلے۔
اب سوال یہ ہے کہ سب کیوں ہورہا ہے یعنی سیاست میں دولت کا بے دریغ استعمال تو اس سوال کا عام فہم جواب یہ ہے کہ اعلیٰ ایوانوں میں جاگیردار و سرمایہ دار طبقہ کبھی ایسی قانون سازی نہیں کرے گا جوکہ عوام کے مفاد میں ہو جاگیردار و سرمایہ دارطبقہ مفادات سے متصادم ہو، چنانچہ کوئی ایسا قانون کیسے پاس ہوسکتا ہے جوکہ انتخابی اخراجات کی حد بندی کرے اور اگر پہلے سے انتخابی اخراجات پر کوئی قانون موجود ہے تو اس قانون پر عمل در آمد سے بھی جاگیردار و سرمایہ دار طبقہ خسارے میں رہے اور ممکن ہے۔
انتخابی اخراجات پر حد بندی سے عام لوگ بھی ایوانوں میں جا بیٹھیں، بہرکیف موجودہ صورتحال میں عام لوگوں کا فرض بنتا ہے کہ محض کھانے کھانے و راشن کے عوض اپنا قیمتی ووٹ نہ دیں بلکہ ایسے امیدواران کو ووٹ دیں جوکہ حکومتی ایوانوں میں جاکر عوام کی حقیقی خدمت کرسکیں ایسا وہ امیدواران کریں گے جو عوام کے مسائل سے حقیقی آگہی رکھتے ہوںگے اور ان امیدواران کا تعلق بھی عام لوگوں سے ہوگا تاکہ جاگیردار و سرمایہ دار طبقے سے، چنانچہ عوام کسی بھی موقعے پر اپنے ووٹ کی قیمت جانیں اور سوچ و بچار کے بعد اپنا ووٹ استعمال کریں تاکہ سیاست سے دولت کے استعمال کا کلچر ختم ہوسکے۔