مذہب لبرل ازم اور قتال و دہشت
حقیقت یہ ہے کہ عہد جدید میں مذہب کی رجعت پسندانہ تشریحات خود میں کوئی وجود نہیں رکھتیں
عہد وحوش سے قرون وسطیٰ اور پھرعہد حاضرکے جدید انسان کی ساری تاریخ قتل وغارت، دہشت و بربریت اور جبرو سفاکیت سے بھری ہوئی ہے۔ نوعِ انسانی کی تمام تاریخ کا بیسویں صدی کے جدید سرمایہ داری نظام کی تاریخ سے موازنہ کرنے سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ جدید سرمایہ داری کی تاریخ انسانی تاریخ کے کسی بھی اور عہد سے کہیں زیادہ بھیانک، سفاک اور دہشت و بربریت سے عبارت ہے۔ مذہب کے نام پر جو جرائم انسان نے کیے ہیں۔
ان سے کہیں زیادہ گھناؤنے جرائم کا ارتکاب سرمایہ داری کے پیدا کردہ 'مہذب' انسان نے جمہوریت، انصاف، آزادی، انفرادیت اور مساوات جسی اقدارکے نام پرکیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس کے باوجود سرمایہ داری نظام کے معذرت خواہ لبرل حضرات اس دہشت انگیز نظام اور اس کی تمام تر ہولناکیوں کا ذمے دار اس نظام اور اس کے تعقل پسند فلسفوں کو ٹھہرانے کی بجائے مذہب کی کسی رجعتی تشریح کو قرار دے کر بڑی آسانی سے بری الذمہ ہوجانا چاہتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ عہد جدید میں مذہب کی رجعت پسندانہ تشریحات خود میں کوئی وجود نہیں رکھتیں، یہ سرمایہ داری نظام کی برپا کردہ بربریت وسفاکیت اوراس کی گھناؤنی آئیڈیالوجی کے لازمی نتیجے کے طور پر ابھرکر سامنے آگئی ہیں۔یہ بیسویں صدی کی لبرل جنگوں اور دہشت کا عکس ہیں۔لبرل آئیڈیالوجی نے وہی متشدد پہلو ان کے اندر مجتمع کردیے ہیں جواس کے اپنے اندرموجود تھے۔اگر لبرل آئیڈیالوجی کے یہ متشدد ودہشت انگیز پہلو متحرک نہ ہوتے، مختلف سماجوں میں ارتقا وانقلابات کا عمل جاری رہتا تو ایسی تمام قدامت پسند تشریحات سماجی ارتقا سے عدم آہنگی کے باعث ختم ہوجاتیں۔ تاہم بیسویں صدی میں مذہب کی متشدد صورتیں سرمایہ داری کی ضرورت بن کرابھری ہیں۔
جدید دہشت پسندی کو دو سطحوں پر دیکھا جاسکتا ہے، پہلی وہ جو''سامراجی،مہذب، لبرل'' ممالک کی کمزور ممالک کے خلاف برپا کی گئی جنگوں، دہشت وبربریت اورسفاکیت کا حقیقی اظہار ہے۔ ظلم وبربریت کے خلاف ایسی مزاحمتیں ہمیشہ سے پیدا ہوتی رہی ہیں اور مستقبل میں بھی ظلم ودہشت کی کوکھ ہی سے جنم لیتی رہیں گی۔ اگرچہ ایسی مزاحمتوں کو سامراجی مہذب ممالک دہشتگردی سے تعبیرکرتے ہیں، لیکن حقیقت میں ان کا وجود پزیر ہونا فطری نوعیت کا ہوتا ہے۔
ان کے لیے مظلوموں کا مسلمان ہونا ضروری نہیں ہے اور نہ ہی کسی کتاب سے حوالے کی ضرورت ہے، بس انسان ہونا ہی ان کی تشکیل کے لیے کافی ہوتا ہے۔انتقام لینے کے لیے کسی حوالے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ ظلم وبربریت اوردہشت وسفاکیت ہی ان مزاحمتوں کا اصل حوالہ اوران کے خالق ہوتے ہیں۔
دوسری طرف وہ دہشت پسندی ہے، جسے مہذب لبرل ممالک براہِ راست پیدا کرتے ہیں۔ جیسا کہ امریکا نے 1989 میں القاعدہ جیسی تنظیم کی بنیاد رکھی،اس کی پرورش کی،ایک اندازے کے مطابق اس وقت''دہشت پسند'' تنظیم القاعدہ کے 33 دفاتر 'مہذب' ملک امریکا کے مختلف شہروں میں موجود تھے۔اس تنظیم کی تشکیل میں سی آئی اے نے تین بلین ڈالرزخرچ کیے۔
مختلف ممالک میں اس قسم کی آئیڈیولاجیکل مداخلت کی ایسی بے شمار مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں کہ جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دہشت پسندی کی تشکیل وارتقا 'مہذب، لبرل' ممالک کی پالیسیوں کا لازمی جزو ہے، جوسرمائے کی توسیع جیسی قوتِ محرکہ کے تحت متشکل ہوتا ہے۔ لبرل ممالک کو دہشت گردی کے خاتمے سے قطعی طور پرکوئی دلچسپی نہیں ہے، کیونکہ ان کا فائدہ دہشت گردی کے تسلسل میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کو پیدا کیا جاتا ہے۔
عہد حاضر کا دہشت گرد مہذب ممالک کا ایک اہم اثاثہ بن چکا ہے، جو ان کو ہر طرح کی بربریت وسفاکیت برپا کرنے کا جواز فراہم کرتا ہے۔ ان کی آئیڈیولاجیکل قوت، معاشی اورسیاسی غلبے کو دوام عطا کرنے میں ان کا اہم حریف ہوتا ہے۔ اس پس منظر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ظلم وبربریت اور دہشت و سفاکیت لبرل اخلاقیات کا لازمی جزو ہیں۔ جہاں تک انسانیت کا تعلق ہے تواس کی ضرورت محض ان انسانوں کو ہے جن کے سروں پر دہشت و بربریت کی بھینٹ چڑھنے کا خدشہ ہمہ وقت موجود رہتا ہے۔
لبرل اقدار کے حامل ممالک سازشوں کی آماجگاہ ہوتے ہیں۔ مختلف ممالک کے مابین جنگیں کرانا بھی لبرل اخلاقیات کا لازمی جزو ہوتا ہے۔سرد جنگ تو اس سلسلے میں کافی مشہور ہے۔ لیکن وہ جنگیں جو مسلمان ممالک کے درمیان ہوئیں، ان میں بھی فیصلہ کن کردار لبرل جمہوری ملک امریکا نے ادا کیا تھا۔ مثال کے طور پرعراق اورایران جنگ کے مابین تنازعہ کو ایک دوسرے کے خلاف غلط معلومات فراہم کرکے ہوا دی، صدام حسین جوکہ ایک سیکولرآمر تھا، اسے ایک مذہبی ریاست کے خلاف جنگ کے لیے تیارکیا۔
دونوں ممالک کو اسلحہ فراہم کرتا رہا،آخر کار سی آئی اے کی سازشوں کے ذریعے ان کو ایک گھناؤنی جنگ میں جھونک دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں ممالک کے درمیان ہولناگ جنگ ہوئی، جس میں تقریباََ پندرہ لاکھ کے قریب لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ دونوں ممالک کو اربوں کا نقصان ہوا، جب کہ امریکا نے اس جنگ میں اربوں ڈالرزکمائے اور اس خطے کو مستقل بدامنی میں دھکیل کرمستقبل میں اپنے مفادات کو تحفظ دینے کا راستہ ہموارکیا۔
یہ نکتہ بہت ہی زیادہ طفلانہ ہے کہ مذہب انسان سے بلاتفریق وامتیاز قتال کراتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کا وسیع پیمانے پرقتال کے لیے پہلے ہی ذہن تیارکرچکا ہوتا ہے اور اس کے بعد مذہب میں اس کا جواز تلاش کرتا ہے۔اگر انسان کا ذہن پہلے ہی سے تیار ہوچکا ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قتال کی حقیقی وجوہات مذہبی آئیڈیالوجی سے زیادہ اس سماجی، سیاسی اور معاشی نظام میں پیوست ہیں، جن میں اس کا ذہن کسی بھی عمل کے لیے تیارہوتا ہے۔
جب انسان خود پر مسلط دہشت وسفاکیت کا مسلسل شکار رہے اور ان کی سماجی، سیاسی اور معاشی بنیادوں کا سراغ لگانے میں ناکام ہوتو وہ اس کی وجوہات وجواز مذہب میں ہی دریافت کرنے کی کوشش کرتا ہے ، لیکن مسلسل غور کرنے سے یہ عیاں ہوجاتاہے کہ دہشت و قتال کی کا حقیقی جواز سماجی، سیاسی اور معاشی تضادات میں پیوست ہے، اس کے لیے مذہب کی حیثیت محض ایک ایسے ہتھیار کی سی ہوجاتی ہے، جسے سرمایہ داری نظام کے حمایتی لبرل نظریہ ساز اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے استعمال کرتے ہیں۔یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوتی ہے جب برطانیہ اور امریکا کی بڑی جامعات میں 'اعلیٰ' ذہن رکھنے والے پروفیسرخودکش حملہ آور کے بارے میں تمام تر محرکات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس کے ذہن کو پڑھنے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں۔
اسی طرح سرمایہ داری ذہن سماجی، سیاسی اورمعاشی تضادات کی وجہ سے ہولناک، انسانیت سوز قتال کے لیے پہلے ہی سے تیارہوچکا ہوتا ہے اور بعدازاں جمہوریت، انصاف، آزادی اور مساوات ، جیسی اقدار کو بطورِجواز پیش کرتا ہے۔ مذہبی اورسرمایہ داری اقدارکو بطورِقوتِ محرکہ تسلیم کرنے کے لیے دو الگ معیارات بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مذہب جواز فراہم کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ سماج میں سے مذہب کا خاتمہ کردیا جائے تو دہشت وبربریت اورغربت و افلاس کا خاتمہ ہو جائے گا، بیروزگاری کا نام و نشان مٹ جائے گا، سماجی طبقات میں سے ہر طرح کی تفریق و تضاد کا خاتمہ جائے گا اور نتیجے کے طور پر جمہوریت، انصاف، آزادی، مساوات اورانفرادیت جیسی اقدار کی بالادستی قائم ہوجائے گی۔ تاریخ اس عمل کی صداقت کی کوئی شہادت فراہم نہیں کرتی۔ اس لیے ایسی ہر تشریح کو ردکردینا ہی بہتر ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ سفاک سرمایہ داری ذہن کو حقیقی جواز جمہوریت، آزادی، انصاف اور انفرادیت جیسی اقدار سے نہیں، بلکہ سرمایہ داری کے ناقابلِ تحلیل تضادات سے ملتا ہے تو یہ بات حقیقت کے قریب ہوگی۔
انتہا پسند لبرل تمام سماجی عمل کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے سارا جواز کسی مذہبی کتاب میں تلاش کرتے ہیں ۔ وہ پہلے ہی سے تصورکرچکے ہوتے ہیں کہ دہشت گردی سماجی تضادات کا اظہار نہیں بلکہ آسمانی کتاب کے کسی حکم کا نتیجہ ہے۔ آسمانی کتابوں میں انسانیت کے حوالے سے بہت اعلیٰ قسم کے احکامات بھی موجود ہیں،ان کی طرف ذہن کیوں مائل نہیں ہوتا، جنت میں جانے کا واحد راستہ' صرف' خود کش حملہ نہیں ہے، ہزاروں نیک اعمال ہیں جو جنت کی بشارت دیتے ہیں۔ اسلام یہ بھی کہتا ہے کہ جس نے ایک معصوم انسان کو قتل کیا اس نے ساری انسانیت کو قتل کیا۔
توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ مسلمان اسلام کے اس حکم کے مطابق زندگی نہیں گزارتا، اس کے برعکس وہ کسی دوسرے حکم کو ترجیح دیتا ہے؟ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ذہن پہلے قتال کے لیے دیگر سماجی وجوہ کی بنیاد پر تیار ہوچکا ہوتا ہے، یہاں حکم کا کردار فیصلہ کن نہیں، جس سماجی، سیاسی، معاشی صورتحال سے حکم ہم آہنگ ہو، وہی اہم ہوتا ہے۔ دراصل سرمایہ داری کے معذرت خواہ لبرل حضرات کا ایسا نقطہ نظر اس دروغ گوئی کو تسلیم کرنے پر مجبورکرتا ہے کہ سماجی، سیاسی اور معاشی نظام مساوات کے حقیقی اصولوں پر قائم ہے، اور صرف مذہب ہے جو حالات کو خراب کرتا ہے۔
جب تک بربریت وسفاکیت دہشت پسند سرمایہ داری نظام سے جنم لیتی رہے گی ، جمہوری، لبرل ممالک جعلی جمہوری اقدارکوکمزور اقوام پر زبردستی مسلط کرتے رہیں گے،ان کے وسائل پر قبضے اور اپنے آئیڈیولاجیکل غلبے کو استحکام دینے کے لیے دہشت و جنگیں برپا کرنے کا سلسلہ ختم نہیں کریں گے، اس وقت تک حقیقی مزاحمتی تحریکیں بھی جنم لیتی رہیں گی۔