ہمارے بچوں نے قوم کی خاطر قربانی دیحکومت نے کچھ نہیں کیا والدین
اسامہ نے آرمی پبلک اسکول میں داخلہ لیا لیکن فوج میں جانے سے قبل ہی جام شہادت نوش کرگیا
شہید اسامہ ظفر پاک فوج میں شامل ہو کر ملک و قوم کی خاطر جان قربان کرنا چاہتا تھا تاہم وہ بہت جلد جماعت دہم میں ہی شہادت کے رتبے پر فائز ہوگیا۔
شہید اسامہ ظفر 15 جون 1999 کو پیدا ہوا جو گلاس پینٹنگ کا ماہر جبکہ فٹبال کا بہترین کھلاڑی تھا، شہید نے ابتدائی تعلیم ایڈورڈز اسکول سے حاصل کی تاہم پاک فوج میں شمولیت کے شوق کے باعث اپنے والدین سے ضد کر کے آرمی پبلک اسکول میں داخلہ لیا مگر16دسمبر 2014 کو پاک فوج میں جانے سے قبل ہی میدان جنگ میں لڑنے والے شہید فوجی جوانوں کے برابر رتبہ حاصل کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرگیا۔
شہید اسامہ ظفر کے والد ظفر اقبال نے ایکسپریس سے گفتگو میں کہا کہ مجھے فخر ہے کہ میرا بیٹا ملک و قوم کی خاطر قربان ہوا تاہم ہمیں حکومت سے گلہ ہے کہ انھوں نے ہمارے بچوں کی قربانی کی خاطر کچھ بھی نہیں کیا، انھوں نے کہا کہ قانون و شریعت کے مطابق مقتول کے ولی کو حق حاصل ہے کہ وہ قاتل کے بارے میں فیصلہ کرے مگر حکومت نے ہمیں کسی بھی معاملے میں اعتماد میں نہیں لیا اور نہ ہی اب تک سانحہ آرمی پبلک اسکول کی ایف آئی آر درج کی گئی۔ اس لیے ہم حکومتی اقدامات سے مطمئن نہیں، شہدا کے لواحقین مطالبہ کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی زیر نگرانی جوڈیشل کمیشن بنایا جائے اور شہدا کے قاتلوں کو عبرت ناک سزا دی جائے۔
شہید اسامہ ظفر 15 جون 1999 کو پیدا ہوا جو گلاس پینٹنگ کا ماہر جبکہ فٹبال کا بہترین کھلاڑی تھا، شہید نے ابتدائی تعلیم ایڈورڈز اسکول سے حاصل کی تاہم پاک فوج میں شمولیت کے شوق کے باعث اپنے والدین سے ضد کر کے آرمی پبلک اسکول میں داخلہ لیا مگر16دسمبر 2014 کو پاک فوج میں جانے سے قبل ہی میدان جنگ میں لڑنے والے شہید فوجی جوانوں کے برابر رتبہ حاصل کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرگیا۔
شہید اسامہ ظفر کے والد ظفر اقبال نے ایکسپریس سے گفتگو میں کہا کہ مجھے فخر ہے کہ میرا بیٹا ملک و قوم کی خاطر قربان ہوا تاہم ہمیں حکومت سے گلہ ہے کہ انھوں نے ہمارے بچوں کی قربانی کی خاطر کچھ بھی نہیں کیا، انھوں نے کہا کہ قانون و شریعت کے مطابق مقتول کے ولی کو حق حاصل ہے کہ وہ قاتل کے بارے میں فیصلہ کرے مگر حکومت نے ہمیں کسی بھی معاملے میں اعتماد میں نہیں لیا اور نہ ہی اب تک سانحہ آرمی پبلک اسکول کی ایف آئی آر درج کی گئی۔ اس لیے ہم حکومتی اقدامات سے مطمئن نہیں، شہدا کے لواحقین مطالبہ کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی زیر نگرانی جوڈیشل کمیشن بنایا جائے اور شہدا کے قاتلوں کو عبرت ناک سزا دی جائے۔