کچھ خواب ادھورے رہتے ہیں

اک خواہش جو دل میں ہے بسی، بچوں کے سنہرے مستقبل کی۔


ارم فاطمہ December 08, 2015
تعلیم تھی جن کا فریضہ کبھی، اب سب کے لیے تجارت ہے بنی۔ فوٹو :فائل

''اُس کا کہنا تھا کہ اُس کی بیٹی بہت ہونہار ہے۔ وہ اُسے پڑھانا چاہتا ہے مگر زندگی کی تلخیوں کے سبب شاید اُس کے خواب دھورے ہی رہیں گے کیونکہ،
''تعلیم اب فریضہ نہیں تجارت ہے''

کیوں اپنی بات کریں ہم
زندگی سے شکوہ کریں ہم
کبھی سلجھی الجھی باتوں کا
کبھی چبھتے بکھرے خوابوں کا
کبھی دکھ دیتے لہجوں کا
کبھی ان کہی باتوں کا

آؤ،

ان کی بھی کچھ بات کریں
جو کبھی صابر شاکر رہتے ہیں
کبھی اپنے ٹوٹے خوابوں کا
اپنے رب سے شکوہ کرتے ہیں
پھر بھی ہر حال میں جینے کا
وہ دل میں حوصلہ رکھتے ہیں

اک خواہش جو دل میں ہے بسی
بچوں کے سنہرے مستقبل کی،
کیسے پورے وہ خواب کریں؟
علم کی حسرت ان آنکھوں کی
تعلیم تھی جن کا فریضہ کبھی
اب سب کے لئے تجارت ہے بنی

''کیسے ہم پائیں جینے کی راہ
کچھ خواب ادھورے رہتے ہیں''

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں