دسمبر اور مزاجوں کا موسم
موسم انسانی نفسیات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اِسی لیے گرمی میں لوگ چڑ چڑے جبکہ موسمِ بہار میں مزاج پُربہار ہوجاتے ہیں۔
خوبصورت موسم اور طویل راتوں والے دسمبر کا آغاز ہوتے ہی نہ جانے کہاں سے سرد آہیں بھرتے اور اپنی دل سوزی اور آہ زاریوں سمیت اپنی ناکام محبت کا الزام دسمبر پر دھرتے، ناکام عاشق ہر کونے سے برآمد ہوکر موسم کے ساتھ وابستہ اپنی یادوں پر کڑھتے اور زندہ دل افراد کو جلاتے رہتے ہیں۔
اُداس شاموں اور سرد طویل راتوں والا دسمبر جس طرح انسانی نفسیات پر اثر انداز ہوکر لہجوں کو نمناکی اور دل کو حُزن میں مبتلا کرتا ہے، حقیقت اس سے کچھ مختلف بھی نہیں، اردو ادب کے نامور شعراء نے اپنی شاعری کا جو حصہ دسمبر کے نام کیا اُس کی کچھ جھلیکیاں ملاحظہ کیجئے،
برفیلی سرد راتوں والے دسمبر اور ماضی کو یاد کرتے ہوئے ایک شاعر اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کرتے نظر آئے،
آمدِ دسمبر کے ساتھ کہر آلود دن اور سُرمگیں شاموں کا تصور ہی عجب ہے،
(عنبرین جمیل خان)
اور اگر اِس پر دسمبر کی بارش بھی آن پہنچے تو مزاجوں پر حاوی ہوجانے والی سرد مہری شاعری میں بھی اتر آتی ہے،
اس دسمبر کے مارے افراد نے جب سوشل میڈیا کو پایا تو وہاں بھی اپنے سرد شاعری سے کسی کو نہ بخشا،
تو دسمبر کے ٹھٹھرتے دنوں، اُداس شاموں اور سیاہ راتوں کے برعکس دسمبر کی سنہری دھوپ اور اِس ماہ میں کھلنے والے خوش رنگ پھولوں، دلکش رنگ برنگ پیراہنوں، خوشبوؤں اور موسم کی مزیدار سوغاتوں فش فرائی، سوپ، کافی، مونگ پھلی اور چلغوزوں سے لطُف اٹھانے والے افراد جی بھر کر بدمزہ ہوئے اور دسمبر کو الزام دینے والوں سے دوبدو ہوگئے۔
اور کراچی میں رہنے والے بخوبی جانتے ہی ہیں کہ یہاں دسمبر کی سردی کا کیا عالم ہوتا ہے، اگر دسمبر کو اہلیان کراچی دم توڑتی گرمی کا مہینہ کہیں تو بے جا نہ ہوگا، حال تو یہ ہے کہ پنکھے کی ہوا بنا گذارہ نہیں، کہاں کے سوئیٹر اور آتش دان، بس گلیات میں ہونے والی برف باری اور اسلام آباد کی کُہر زدہ شاموں سے ہی موسم کی شدت محسوس کرتے ہیں۔ اِس کے لئے اردو ادب کے عظیم مزاح نگار ''مشتاق یوسفی صاحب'' نے اپنے مخصوص اور منفرد انداز میں جو نقشہ پیش کیا ہے آپ بھی پڑھیئے،
(زرگذشت)
خیر تذکرہ تھا دسمبر کے بے قراروں کا، ایسے ہی ایک آہ و فُغاں سے بیزار فیس بُکی شاعر، جناب ''امجد اسلام امجد صاحب'' سے معذرت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ،
اور اسی پر بس نہیں خوش خوراک حضرات کو تو سرد موسم خوب بھاتا ہے، طرح طرح کے لذیذ پکوان اور بھاپ اڑاتے کھانوں کی روغنی مہک انہیں بہت مرغوب ہے اور وہ اس پر کسی قسم کا سمجھوتا کرنے اور کسی بھی نرم، گرم جذبے کو ترجیح دینا پسند نہیں کرتے۔
تو بھئی موسم اور رُتیں انسانی نفسیات پر لازمی اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مئی، جون میں لوگ بلا کے چڑ چڑے ہوجاتے ہیں جبکہ موسمِ بہار کے ساتھ ہی مزاج بھی پُر بہار ہوجاتے ہیں۔ شوخ رنگ ملبوسات، گھومنا پھرنا اور طرح طرح کے ذائقوں سے لطف اندوز ہونا۔ یہ تو انسان کے دل کے موسم پر منحصر ہے کہ دسمبر سوگوار کرتا ہے کہ جون جوبن پر ہوتا ہے۔
[poll id="821"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
اُداس شاموں اور سرد طویل راتوں والا دسمبر جس طرح انسانی نفسیات پر اثر انداز ہوکر لہجوں کو نمناکی اور دل کو حُزن میں مبتلا کرتا ہے، حقیقت اس سے کچھ مختلف بھی نہیں، اردو ادب کے نامور شعراء نے اپنی شاعری کا جو حصہ دسمبر کے نام کیا اُس کی کچھ جھلیکیاں ملاحظہ کیجئے،
تیس دن تک اسی دیوار پر لٹکے گا یہ عکس
ختم ایک دن میں دسمبر نہیں ہونے والا
( دانیال طریر)
برفیلی سرد راتوں والے دسمبر اور ماضی کو یاد کرتے ہوئے ایک شاعر اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کرتے نظر آئے،
دسمبر کی سرد راتوں میں اک آتش داں کے پاس
گھنٹوں تنہا بیٹھنا بجھتے شرارے دیکھنا
جب کبھی فرصت ملے تو گوشہ تنہائی میں
یاد ماضی کے پرانے گوشوارے دیکھنا
آمدِ دسمبر کے ساتھ کہر آلود دن اور سُرمگیں شاموں کا تصور ہی عجب ہے،
دسمبر آرہا ہے
ٹھٹھرتے روز و شب لے کر
نہ دن کو دن نکلتا ہے
نہ شب تاریک ہوتی ہے
عجب سی، دودھیا سی دھند میں۔۔۔۔ہر ایک شے لپٹی رہتی ہے
صبح سے شام تک بس شام سا عالم ہی رہتا ہے
ہر ایک شے کھوئی کھوئی سی
ہر ایک شے سوئی سوئی سی
دسمبر کی کہر میں ایک عجب سا جادو ہوتا ہے
(عنبرین جمیل خان)
اور اگر اِس پر دسمبر کی بارش بھی آن پہنچے تو مزاجوں پر حاوی ہوجانے والی سرد مہری شاعری میں بھی اتر آتی ہے،
آج دسمبر کی پہلی بارش تھی۔۔۔
مجھے یاد ہے ابھی تک
جب برستی ٹپ ٹپ کرتی رم جھم میں۔۔۔
ہاں دسمبر کی اِس ٹھٹھرتی
سرد رات کی پہلی بارش میں
اُس نے مجھ سے کہا تھا
مجھے بارشیں سرد موسم کی بہت پسند ہیں،
سرد موسم کی بارشوں سے انسیت رکھنے والا
میرے لہجے میں سرد پن اتار گیا ہے
اس دسمبر کے مارے افراد نے جب سوشل میڈیا کو پایا تو وہاں بھی اپنے سرد شاعری سے کسی کو نہ بخشا،
تو دسمبر کے ٹھٹھرتے دنوں، اُداس شاموں اور سیاہ راتوں کے برعکس دسمبر کی سنہری دھوپ اور اِس ماہ میں کھلنے والے خوش رنگ پھولوں، دلکش رنگ برنگ پیراہنوں، خوشبوؤں اور موسم کی مزیدار سوغاتوں فش فرائی، سوپ، کافی، مونگ پھلی اور چلغوزوں سے لطُف اٹھانے والے افراد جی بھر کر بدمزہ ہوئے اور دسمبر کو الزام دینے والوں سے دوبدو ہوگئے۔
کیوں ہر بات پہ کوستے ہو دسمبر کو
کیا دسمبر نے کہا تھا محبت کرو..؟
اور کراچی میں رہنے والے بخوبی جانتے ہی ہیں کہ یہاں دسمبر کی سردی کا کیا عالم ہوتا ہے، اگر دسمبر کو اہلیان کراچی دم توڑتی گرمی کا مہینہ کہیں تو بے جا نہ ہوگا، حال تو یہ ہے کہ پنکھے کی ہوا بنا گذارہ نہیں، کہاں کے سوئیٹر اور آتش دان، بس گلیات میں ہونے والی برف باری اور اسلام آباد کی کُہر زدہ شاموں سے ہی موسم کی شدت محسوس کرتے ہیں۔ اِس کے لئے اردو ادب کے عظیم مزاح نگار ''مشتاق یوسفی صاحب'' نے اپنے مخصوص اور منفرد انداز میں جو نقشہ پیش کیا ہے آپ بھی پڑھیئے،
''کراچی میں سردی اتنی ہی پڑتی ہے جتنی مری میں گرمی۔ اس سے ساکنان کوہِ مری کی دل آذاری نہیں، بلکہ عُروس البلاد کراچی کی دلداری مقصود ہے۔ کبھی کبھار شہر خوباں کا درجہ حرارت جسم کے نارمل درجہ حرارت یعنی 98.4 سے دو تین ڈگری نیچے پھسل جائے تو خوبان شہر لحاف اوڑھ کر ائیرکنڈیشنر تیز کردیتے ہیں۔ اِس حُسنِ تضاد کو کراچی کے محکمہ موسمیات کی اصطلاح میں ''کولڈ ویو'' (سردی کی لہر) کہتے ہیں۔ یہ خوبی صرف کراچی کے متلون موسم میں دیکھی کہ گھر سے جو لباس بھی پہن کر نکلو، دو گھنٹے بعد غلط معلوم ہوتا ہے۔ لوگ جب اخبار میں لاہور اور پنڈی کی سردی کی شدید خبریں پڑھتے ہیں تو اُن سے بچاؤ کے لیے بالو کی بُھنی مونگ پھلی اور گجک کے پھنکے مارتے ہیں، کراچی میں پنڈی سے تین لحاف کم سردی پڑتی ہے۔ نووارد حیران ہوتا ہے کہ اگر یہ جاڑا ہے تو اللہ جانے گرمی کیسی ہوتی ہوگی''۔
(زرگذشت)
خیر تذکرہ تھا دسمبر کے بے قراروں کا، ایسے ہی ایک آہ و فُغاں سے بیزار فیس بُکی شاعر، جناب ''امجد اسلام امجد صاحب'' سے معذرت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ،
اوّلیں چند دن دسمبر کے
ہر برس ہی عجب گذرتے ہیں
انٹرنیٹ کے نگار خانے سے
کیسے کیسے ہنُر گذرتے ہیں
بے تکے بے وزن کلاموں کی
محفلیں کئی ایک سجتی ہیں
میڈیا کے سماج سے دن بھر
کیسی پوسٹیں پکارتی ہیں مجھے
کس قدر پیارے پیارے لوگوں کے،
بدشکل بدقماش کچھ مصرعے
ٹائم لائن پہ پھیل جاتے ہیں
شاعروں کے مزار پر جیسے
فن کے سوکھے ہوئے نشانوں پر
بدوضع شعر ہنہناتے ہیں
پھر دسمبر کے پہلے دن ہیں اور
ہر برس کی طرح سے اب کے بھی
بے طرب صفیں باندھتے ہیں یہ
اور اسی پر بس نہیں خوش خوراک حضرات کو تو سرد موسم خوب بھاتا ہے، طرح طرح کے لذیذ پکوان اور بھاپ اڑاتے کھانوں کی روغنی مہک انہیں بہت مرغوب ہے اور وہ اس پر کسی قسم کا سمجھوتا کرنے اور کسی بھی نرم، گرم جذبے کو ترجیح دینا پسند نہیں کرتے۔
دسمبر کی سردی میں۔۔۔۔۔
پیار، عشق، مہرو وفا
اور یہ غزال آنکھیں، گھٹا زُلفوں سے،
ابُلا ہوا انڈا اور مُرغ یخنی کہیں ذیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔
تو بھئی موسم اور رُتیں انسانی نفسیات پر لازمی اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مئی، جون میں لوگ بلا کے چڑ چڑے ہوجاتے ہیں جبکہ موسمِ بہار کے ساتھ ہی مزاج بھی پُر بہار ہوجاتے ہیں۔ شوخ رنگ ملبوسات، گھومنا پھرنا اور طرح طرح کے ذائقوں سے لطف اندوز ہونا۔ یہ تو انسان کے دل کے موسم پر منحصر ہے کہ دسمبر سوگوار کرتا ہے کہ جون جوبن پر ہوتا ہے۔
[poll id="821"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔