شجرکاری مہم اور حقائق
جنگلات کی کمی اور شہروں میں اور قصبوں میں درختوں کی کمی سے ماحولیاتی آلودگی کا حجم بہت بڑھ جاتا ہے
KARACHI:
ملک کی صوبائی حکومتیں شجر کاری کر رہی ہیں' خیبرپختونخوا حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے صوبے میں بڑے پیمانے پر شجرکاری کی ہے' پنجاب میں بھی 70 لاکھ سے زائد پودے لگانے کا دعویٰ کیا گیا ہے' ماحول کو صاف رکھنے کے لیے شجرکاری اور جنگلات کا تحفظ انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں جنگلات کا رقبہ انتہائی کم ہے' اس وجہ سے جنگلی حیات بھی کم ہورہی ہے ۔
جنگلات کی کمی اور شہروں میں اور قصبوں میں درختوں کی کمی سے ماحولیاتی آلودگی کا حجم بہت بڑھ جاتا ہے' جنگلات جہاں آکسیجن پیدا کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں ' وہاں سیلاب کو بھی روکتے ہیں اور لکڑی کی شکل میں سستے ایندھن کی ضرورت بھی پوری کرتے ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کو جنگلات کی اشد ضرورت ہے۔ صوبائی حکومتیں ہر سال شجرکاری مہم شروع کر دیتی ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں پودے لگانے کا دعویٰ کرتی ہیں۔
اس مہم پر کروڑوں روپے کے اخراجات آتے ہیں اور یہ رقم قومی خزانے سے خرچ کی جاتی ہے لیکن ملک بھر میں درخت پھر بھی کم ہوتے جا رہے ہیں' ضرورت اس امر کی ہے کہ جو پودے لگائے جائیں ان کی دیکھ بھال کی جائے اور انھیں درخت بنایا جائے۔ اگر ہر سال لگائے جانے والے پودوں کا حساب لگایا جائے تو آج ملک کا ہر شہر سرسبزوشاداب نظر آتا لیکن دیکھنے میں یہ آ رہا ہے کہ بڑے شہروں میں درخت مسلسل کم ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے گرمیوں کے موسم میں درجہ حرارت بہت زیادہ بڑھ رہاہے' کراچی ، لاہور اور راولپنڈی اسلام آباد میں موسمی تبدیلی کی ایک وجہ درختوں کی کمی بھی ہے ۔
اس طرح سندھ' بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں بھی جنگلات ختم ہو رہے ہیں۔بلوچستان میں صنوبر کے جنگلات ختم ہورہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جنگلات کو بچایا جائے اور نئے جنگل اُگائے جائیں۔ ماہرین نے پاکستان کے لیے موسمیاتی تبدیلیوں کو دہشت گردی سے بھی خطرناک قرار دیا ہے جن کے اثرات کا سامنا کرنے کے لیے حکومت نے ابھی تک سنجیدہ کوششیں شروع نہیں کی ہیں۔
وفاقی حکومت کی طرف س موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے تشکیل دی گئی ٹاسک فورس کی رپورٹ کی مطابق پاکستان گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے حوالے سے دنیاکے195ممالک میں سے 135ویں نمبر پر رہے لیکن عالمی سطح پر درجہ حرارت میں اضافہ سے جو ممالک سب سے زیادہ متاثر ہوں گے ان میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے اور پاکستان پر ان تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے درجہ حرارت میں اضافہ سے گلیشیئر تیزی سے پگھلیں گے جن سے چند سال دریاؤں میں معمول سے زیادہ پانی آئے گا اور شدید سیلاب آئیں گے۔
گلیشیر پگھلنے کے بعد پانی کے ذخائر کم ہونے سے ملک کو خشک سالی اور پانی کی کمی کا سامنا ہوگا جس سے زراعت، معشیت متاثر ہوگی۔ ملک میں جتنے زیادہ درخت اور جتنا زیادہ جنگلات کا رقبہ ہو گا ماحولیاتی مسائل پر اتنی ہی تیزی سے قابو پایا جا سکتا ہے۔ صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت کو بھی اس معاملے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر عملی کام کا آغاز کرنا چاہیے۔
ملک کی صوبائی حکومتیں شجر کاری کر رہی ہیں' خیبرپختونخوا حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے صوبے میں بڑے پیمانے پر شجرکاری کی ہے' پنجاب میں بھی 70 لاکھ سے زائد پودے لگانے کا دعویٰ کیا گیا ہے' ماحول کو صاف رکھنے کے لیے شجرکاری اور جنگلات کا تحفظ انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں جنگلات کا رقبہ انتہائی کم ہے' اس وجہ سے جنگلی حیات بھی کم ہورہی ہے ۔
جنگلات کی کمی اور شہروں میں اور قصبوں میں درختوں کی کمی سے ماحولیاتی آلودگی کا حجم بہت بڑھ جاتا ہے' جنگلات جہاں آکسیجن پیدا کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں ' وہاں سیلاب کو بھی روکتے ہیں اور لکڑی کی شکل میں سستے ایندھن کی ضرورت بھی پوری کرتے ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کو جنگلات کی اشد ضرورت ہے۔ صوبائی حکومتیں ہر سال شجرکاری مہم شروع کر دیتی ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں پودے لگانے کا دعویٰ کرتی ہیں۔
اس مہم پر کروڑوں روپے کے اخراجات آتے ہیں اور یہ رقم قومی خزانے سے خرچ کی جاتی ہے لیکن ملک بھر میں درخت پھر بھی کم ہوتے جا رہے ہیں' ضرورت اس امر کی ہے کہ جو پودے لگائے جائیں ان کی دیکھ بھال کی جائے اور انھیں درخت بنایا جائے۔ اگر ہر سال لگائے جانے والے پودوں کا حساب لگایا جائے تو آج ملک کا ہر شہر سرسبزوشاداب نظر آتا لیکن دیکھنے میں یہ آ رہا ہے کہ بڑے شہروں میں درخت مسلسل کم ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے گرمیوں کے موسم میں درجہ حرارت بہت زیادہ بڑھ رہاہے' کراچی ، لاہور اور راولپنڈی اسلام آباد میں موسمی تبدیلی کی ایک وجہ درختوں کی کمی بھی ہے ۔
اس طرح سندھ' بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں بھی جنگلات ختم ہو رہے ہیں۔بلوچستان میں صنوبر کے جنگلات ختم ہورہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جنگلات کو بچایا جائے اور نئے جنگل اُگائے جائیں۔ ماہرین نے پاکستان کے لیے موسمیاتی تبدیلیوں کو دہشت گردی سے بھی خطرناک قرار دیا ہے جن کے اثرات کا سامنا کرنے کے لیے حکومت نے ابھی تک سنجیدہ کوششیں شروع نہیں کی ہیں۔
وفاقی حکومت کی طرف س موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے تشکیل دی گئی ٹاسک فورس کی رپورٹ کی مطابق پاکستان گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے حوالے سے دنیاکے195ممالک میں سے 135ویں نمبر پر رہے لیکن عالمی سطح پر درجہ حرارت میں اضافہ سے جو ممالک سب سے زیادہ متاثر ہوں گے ان میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے اور پاکستان پر ان تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے درجہ حرارت میں اضافہ سے گلیشیئر تیزی سے پگھلیں گے جن سے چند سال دریاؤں میں معمول سے زیادہ پانی آئے گا اور شدید سیلاب آئیں گے۔
گلیشیر پگھلنے کے بعد پانی کے ذخائر کم ہونے سے ملک کو خشک سالی اور پانی کی کمی کا سامنا ہوگا جس سے زراعت، معشیت متاثر ہوگی۔ ملک میں جتنے زیادہ درخت اور جتنا زیادہ جنگلات کا رقبہ ہو گا ماحولیاتی مسائل پر اتنی ہی تیزی سے قابو پایا جا سکتا ہے۔ صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت کو بھی اس معاملے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر عملی کام کا آغاز کرنا چاہیے۔