’’آج تو کریلے ہی پکیں گے‘‘

پیراندتہ میرا دوست اور کالج میں میرا ہوسٹل فیلو بھی تھا۔ اِدھر اس نے ایم اے کا امتحان پاس کیا

LONDON:
قریبی گاؤں کے چچا فقیر حسین کا ہمارے ہاں بہت آنا جانا تھا۔ گاؤں کے کئی لوگوں نے بتایا کہ اس کے ہا ں کئی سال تک اولاد نہ ہوئی تو وہ مختلف درگاہوں کے چکّر کاٹنے لگا۔ ایک پیر صاحب کا تعویز یادعا کارگر ثابت ہوئی اور چوہدری فقیر حسین کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی جس کا نام پیرصاحب کے تعویز کی کرامت کے حوالے سے پیراندتہ رکھا گیا۔ پیراندتہ شروع سے ہی ذہین اور محنتی تھا۔ میٹرک میں بہت اچھے نمبر لیے تو والد نے لاہور کے گورنمنٹ کالج میں داخل کرادیا ۔

پیراندتہ میرا دوست اور کالج میں میرا ہوسٹل فیلو بھی تھا۔ اِدھر اس نے ایم اے کا امتحان پاس کیا اور اُدھر قریبی گاؤں کے بڑے چوہدری خدابخش کی بیٹی کا رشتہ آگیا جو اُن سے بہت چھوٹے زمیندار چوہدری فقیرحسین نے بڑی خوشی سے قبول کیا اوردونوں کی شادی کردی۔ چوھدری خدا بخش کی بیٹی رشیدہ چھ جماعت سے زیادہ نہ پڑھ سکی تھی لیکن بڑی سمجھداراور خانہ داری کی ماہر تھی۔ پیراندتہ نے مجھ سے دو سال بعد سی ایس ایس کا امتحان دیا اور فارن سروس کے لیے منتخب ہوگیا۔ کئی دوستوں کا خیال ہے کہ فارن سروس اکیڈیمی میں پہنچ کر لیکن زیادہ شواہد بتاتے ہیں کہ سول سروسز اکیڈیمی میں جاتے ہی وہ پیراندتہ سے پی ڈی چوہدری ہوگیا تھا۔

سروس میں آنے کے بعد پیراندتہ زیادہ سنجیدہ اور Reserveہوگیا جب کہ اس کی بیگم بھابھی رشیدہ چوہدرانیوں کی طرح کھلے دل کی فراخ دل اور پر خلوص خاتون تھیں۔۔ دونوں کے درمیان انٹیلیکچول گیَپ خاصا تھا جسکی وجہ سے گھر میں چھوٹا موٹاجھگڑا یا اِٹ مٹکّا لگا رہتا تھا۔ ۔۔ دونوں ایک دوسرے کی شکایت مجھ سے بلاتکّلف کر لیتے تھے۔

پچھلے دنوںکا واقعہ ہے میں اُنکے گھر پہنچا تو عجیب نقشہ تھا یوں سمجھ لیںکہ جنگ کا سا سماں تھا، بیگم کے ہاتھ میں ڈوئی اور شوہر کے ہاتھ میںلوئی تھی جس کی مدد سے وہ بیگماتی جارحیّت سے بچنے کی کوشش کررہا تھا ۔ بیگم ڈوئی بکف اور شوہر لوئی بکف ۔ بیگم جارہانہ انداز میں پیشقدمی کر رہی تھی اور شوہر مدافعانہ انداز میں پسپائی اختیار کر رہا تھا، وہ مجھے دیکھتے ہی بآواز بلند بولا "بھائی صاحب فوراً Intervene کریں اور فریقِ مخالف کو disarm کرائیں"۔ میں نے مداخلت کی کوشش کی مگر ڈوئی بردار بھابی weapon رکھنے پر تیاّر نہ ہوئیں۔ وہ اپنے موقّف پر قائم تھیں اور اس کا دو ٹوک انداز میں اظہار کر رہی تھیں کہ "اج تے کریلے ای پکّن دے" (آج تو کریلے ہی پکیں گے )۔

اب ہمارا دوست چونکہ سفارتکار تھا، اس نے مذاکرات کی دہائی دیتے ہوئے کہا " کچھ بھی ہو فیصلہ مذاکرات کے ذریعے ہو نا چاہیے" میں نے پھر فریقِ اوّل کی طرف رجوع کیا اور انھیں اپنے مؤقف میں لچک پیدا کرنے پر آمادہ کر نے کی کوشش کی مگر یہ کوشش بھی ناکام رہی اور وہ ببانگ دہل کریلوں کے حق میں آوازبلند کرتی رہیں۔ اس پر فریقِ دوم نے اپنے مو قف کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا "میں بارہا آپ کی بھابی کو آگاہ کر چکا ہوں کہ مجھے اتوار کی میٹنگ، وِگ بردار سیاستدان اور کریلے بالکل پسند نہیں ہیں اس لیے انھیں میرے جذبات کا خیال کرنا چاہیے تھا" ۔

بھابی کہنے لگیں "بھائی جان یہ ہر روز بھنڈی کھاتا ہے۔ مجھے بھنڈی زہر لگتی ہے مگر میں نے کبھی اعتراض نہیں کیا " اس پر ہمارا دوست پی ڈی بولا"دراصل کبھی کسی نے بھنڈی کی اصل خوبیوں کو اجاگر نہیں کیا اسی لیے بھنڈی کو آج تک اس کا اصل مقام نہیں مل سکا " ۔ "تو تم بھنڈی کو تاج پہنا کر تخت پر بٹھانا چاہتے ہو یا اسے بیاہ کر گھر لانا چاہتے ہو؟ " بیگم نے ذرا غصّے سے کہا تو شوہر کہنے لگا "دیکھو شیدوکریلہ ِاشو کا کوئی out of Box حل بھی ڈھونڈا جا سکتا ہے مگر اس کے لیے فریقین کو مذاکرات کی میز پر آنا ہوگا تاکہ ایک دوسرے کاموقّف سمجھنے میں آسانی ہو"۔اس موقعے پر بھابی نے ڈوئی سیدھی کر کے پھر للکارا "تو پھر موقّف اچھی طرح سمجھ لو۔۔۔۔آج کریلے ہی پکیں گے"

ڈپلومیٹ شوہر پہلے ہی بہت محتاط تھا بیگم کی اونچی آواز سنکر مزید سہم گیا اور کہنے لگا" آہستہ بولیں ہمسایوں کی نظروں میں ہمارا soft image خراب ہو جائے گا" ۔ ہمسایوں کے نام سے بیگم اور غصّے میں آگئیں اور کہنے لگیں "ہمسائے کون ہوتے ہیں اعتراض کرنے والے۔ میں ان کے کرتوتوں سے بھی اچھی طرح واقف ہوں میں ان کی ایسی تیسی کردونگی" اس پر پی ڈی نے تشویشناک لہجے میں بیگم سے کہا "لگتا ہے تم ہمسایہ ملک کے وزیرِاعظم سے isnpireہو۔۔۔ مگر یہ یاد رکھو شیدو! مُودیانہ طرزِ عمل اس خطّے کے امن کے لیے بہت خطرناک ہوگا۔


خداراviolance سے پرہیز کرو، تاکہ خطّے کا امن خطرے میں پڑ نے سے محفوظ رہے" ۔ بھابی کہنے لگیں "میں کسی خطرے شَطرے سے نہیں ڈرتی " اس پر سفارتکار شوہر لجاجت پر اُتر آیا اور کہنے لگا " دیکھ شیدو ! یاد ہے ناںپودینے کی چَٹنی کے معاملے پر بھی ہمارا اختلاف ِ رائے تھا ، پھر مذاکرات ہوئے اور ٹوٹ گئے، پھر ہوئے پھر ٹوٹ گئے مگر مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق ہوا اور مذکرات کے کئی ادوا ر کے بعدconsensusہوگیا کہ ڈائیننگ ٹیبل پرکوئی اور چٹنی رکھی جاسکتی ہے مگر پودینے کی چٹنی نہیں رکھی جائے گی۔ لہٰذا جسطرح چٹنی اشو پر ہم آج ایک پیج پر ہیں اسی طرح کریلہ اشو پر بھی ہمیں ایک پیج پر ہونا چاہیے "۔

اس پر بھابی احتجاج کرتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہوئیں "دیکھیں بھائی جان ! اس سے پوچھیں یہ میرا نام پُٹھا کیوں بلاتا ہے "۔ "او ہ نو! please try to understand سمجھنے کی کوشش کرو__ Its out of love only ۔ میں تو پیار سے کہتا ہوں" پی ڈی نے وضاحت کی اور میں نے بھی اس کے موقف کی تائید کی تو بھابی کسی حد تک قائل ہوئیں مگر پھر کہنے لگیں "مگر یہ کیا پاگلوں والی بات کر رہا ہے کہ ایک پیج پر ہوں۔ اگر یہ کہے کہ ہم ایک بیڈ پر ہوں یا ایک صوفے پر ہوں تو پھر تو ٹھیک ہے مگر ایک صفحے پر ہم دونوںکیسے آسکتے ہیں۔ بھائی صاحب یہ کبھی کبھی بالکل پاگلوں والی باتیں کرنے لگتا ہے ۔ امریکا میں رہ کر یہ کچھ زیادہ ہی پڑھ لکھ گیا ہے جس سے اس کے پیچ ڈھیلے ہو گئے ہیں "۔

اس موقعے پر پی ڈی کا دوست ریٹائرڈ کرنل گھمن(دونوں امریکا میں اکٹھّے رہے تھے) آ پہنچا اور آتے ہی کہنے لگا "ڈیئر!میں پاس سے گذررہا تھا کہ تمہارے گھر سے جنگی طرز کی آوازیں آرہی تھیں اب جہاں جنگی ماحول ہو وہاں کرنل گھمن نہ پہنچے یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ اب بتاؤ وار سیچویشن کیا ہے تاکہ دونوں فریقوں کو جنگ جیتنے کے لیے بڑی موثّر اسٹرٹیجی بناکر دوں"۔ "اوہو کرنل تم ہروقت وار کرنے اور وار کروانے پر ہی تُلے رہتے ہو۔ یہاں کوئی جنگ نہیں ہورہی ایک چھوٹا سے اشو ہے اس پر فریقین میں بات چیت چل رہی ہے۔

مذاکرات سے مسئلہ حل ہوجائے گا" پی ڈی نے بات ختم کی تو میں نے اس چھوٹے سے اشو کے بار ے میں تھوڑا سا اشارہ کیا اس پر کرنل گھمن کہنے لگا" دیکھیں مجھے بینگن پسند نہیں ہیں آپکی بھابھی کو بتادیا تھا کہ بینگن پرپکّاکراس لگا دو۔ منع کرنے کے باوجودایک روزوہ بینگن پکانے سے باز نہ آئی۔۔ توپھر آپکے بھائی کرنل گھمن کا بھی میٹر گھوم گیا گھر پہنچ کر جاتے ہی اٹیک کردیا۔ میں نے پوچھا "بھابھی صاحبہ پر؟"۔۔ کہنے لگا "نہیں بینگن والی ہانڈی پر ۔۔ مگر پہلی اسٹرائیک نے ہی ٹارگٹ کو بالکل destroyکرکے رکھ دیا۔ بس اس کے بعد ایسی غلطی کرنے کی کسی کو جرآت نہیں ہوئی"۔ ـ"بس کرنل صاحب اَینٹرو پر زور رکھیں۔۔۔ اَینٹرو بڑا زبردست ہونا چاہیے باڈی کمزور بھی ہو تو کام چل جاتا ہے" ایک اجنبی نوجوان نے داخل ہوتے ہی بڑی بے تکلّفی سے کہا۔ کرنل گھمن نے اس کی بے تکلفّی پر حیران ہوتے ہوئے پوچھا "مگر اے کمزور باڈی والے تیز طرار نوجوان ! تم ہو کون؟" اس پر پی ڈی نے تعارف کراتے ہوئے کہا یہ ٹی وی اینکر ہے اور ہمارے دفتر کا ریگولر وزیٹر ہے۔

اچھا تو یہ ہیں وہ صاحب جو پرگرام کا آغاز کرتے ہیں۔۔۔تو کرنل صاحب نے فقرہ اچک لیا اور کہنے لگے پروگرام کے تعارف کے وقت تو ایسے لگتا ہے کہ یہ ابھی ایک طرف روسی صدر پیوٹن کو اور دوسری طرف تُرک صدرطیب اردوان کو بلائیں گے اور ان کے ساتھ درمیان میں جان کیری بیٹھا ہوگا۔۔۔ مگر مہمان سامنے آتے ہیں تو وہی گرہن زدہ چن،وہی ڈسکو داڑھی والے ولّی وہی ملال زدہّ چہرے۔۔۔ اینکر نے اس پر کرنل صاحب کا فقرہ پکڑ لیا اور کہنے لگا "کرنل صاحب آپ ٹھیک کہتے ہیں کہ ایسے چہرے دیکھ دیکھ کر خودہمارے سر میں درد ہونے لگتا ہے۔۔۔ ڈاکٹرتو دل اور گُردے کے مریضوں کو دوائی کے ساتھ ایسے چہرے دیکھنے سے پر ہیز لکھ کر دے رہے ہیں مگر ہمارے نالائق پروڈیوسروں کے پاس ایک تو فون نمبر بڑے محدود ہوتے ہیں دوسرے اب عوام بھی ہمارے پروگراموں سے تنگ آگئے ہیں اسلیئے معقول لوگ آتے بھی نہیں ہیں"

۔اس موقعے پر ایک بھاری بھرکم شخص داخل ہوا اور کہنے لگا دوسروں کا تو میں نہیں کہتا مگر ایک فارغ البال شخص کمال کا تجزیہ کرتا ہے ہر چیز کو سلیقے سے علیحدہ علیحدہ کرکے رکھ دیتا ہے۔۔۔ گرُدے علیحدہ ، چانپیںعلیحدہ ۔۔۔ دل الگ اور َمَغض علیحدہ "۔۔۔ اینکر سے نہ رہا گیا اس نے فوراً پوچھ لیا "بھا جی! آپ قصائی ہیں؟ "نہیں" اگر آپ قصائی نہیں تو پھرآپ گوجرانوالہ کے رہنے والے ہیں؟ " اس پر ہمارے دوست پی ڈی کو وضاحت کرنی پڑی کہ ہاں یہ قصائی نہیں گوجرانوالہ کے رہائشی ہیں وہاں کے معروف بزنس مین ہیں اور اُس دھرتی کے ہر سپوت کیطرح خوش خوراک ہیں۔"

پسِ تحریر:دنیا کی صفِ اوّل کی تین ایئر لائینز میں سے ایک پی آئی اے کی نجکاری کی خبر پڑھکر بہت دکھ ہوا ہے۔ کیا بابائے قوم محمد علی جناحؒ کی بنائی ہوئی ریاستِ پاکستان اپنے ایک انتہائی قیمتی اثاثے سے محروم ہوجائے گی؟ کاش ایسا نہ ہو۔۔اﷲکرے یہ خبر غلط ہو!!

نوٹ:سرگودھا میں روزنامہ ایکسپریس کے دفتر پر حملہ انتہائی قابلِ مذمّت ہے۔ پنجاب حکومت مجرموں کو گرفتار کرے اور میڈیا کے دفاتر کا تحفّظ یقینی بنائے۔
Load Next Story