وہ پرامن لاہور
لاہور ہمارے یہاں آنے پر جتنی آبادی کا ایک بڑا شہر تھا اب وہ اس سے دگنی آبادی کا شہر ہے
LONDON:
لاہور کی راتیں اور اس شہر کے دن برسوں تک اپنی صحافت کے سفر میں گزرے۔ رات کے پچھلے پہر نصف شب کے بعد جب اخبار کی خبروں کی آخری کاپی پریس چلی جاتی تو ہم لوگ سکھ کا سانس لیتے کہ آج جو کچھ ہمارے بس میں تھا وہ ہم نے مکمل کر لیا۔
دلچسپ معمول یہ تھا کہ ہمارا دفتر جو مال روڈ کے چیئرنگ کراس پر واقع تھا جو اس شہر کی ایک بہت ہی خوبصورت اور کھلی جگہ ہے ہم سب دن بھر کی تھکن اتارنے کے لیے دفتر سے نکل کر اپنی سائیکلوں سمیت یہاں ایک بس اسٹاپ پر جمع ہو جاتے اور سب ساتھی مل کر قومی ترانہ گاتے جس کے بعد اپنی تالیوں کے شور میں ہم گھروگھر روانہ ہو جاتے۔ اس وقت رات گئے آس پاس انسان تو کم ہی دکھائی دیتے البتہ بے نام آوارہ کتے ہمارے ساتھ دوڑنا شروع کر دیتے جو ریگل چوک تک ہمارا ساتھ دینے کے بعد ادھر ادھر ہو جاتے۔
میں جو اپنے کرائے کے کمرے بدلنے کی عیاشی کرتا رہتا تھا کئی کتے میرے شناسا بن جاتے لیکن اپنی عادت سے باز نہ آتے اور کسی بھی سائیکل پر حملہ آور رہتے البتہ جارحیت سے باز رہتے اور کچھ فاصلے تک بھونک ٹونک کر کے ادھر ادھر بکھر جاتے۔ ہمارا راتوں کا یہ معمول جاری رہتا اور اس مشق میں یعنی کتوں سے بچنے کی کوشش ایسی دلچسپ ہوتی کہ وہ دن بھر کی تکان محسوس نہ ہوتی اور یک گونہ تازہ دم ہو کر اپنے بستر پر لیٹ جاتے اور نیند میں گم ہو جاتے گرمیوں سردیوں میں یہ معمول جاری رہتا۔
میں رپورٹر تھا دن بھر خبروں کے پیچھے مارا مارا پھرتا رہتا اور کوئی خبر رہ نہ گئی ہو کے اندیشے میں رات کا آغاز کرتا اور صبح سب سے پہلا کام دوسرے اخباروں کی خبروں پر سرسری سی نظر ڈالنی ہوتی اور ان میں کوئی خاص خبر نہ پا کر نئے دن کا آغاز اطمینان سے ہوتا۔ ہر روز کا یہ تھکا دینے والا معمول زندگی بن گیا۔ شاعر کے بقول تیرے کوچے میں ہمیں ہے یونہی صبح شام کرنا۔ کبھی اس سے بات کرنا کبھی اس سے بات کرنا۔ مجھے یہ شعر یاد نہیں آ رہا اس لیے میں نے اس کی نثر کر دی ہے کہ اس کا مفہوم یاد ہے لیکن اب جب مصحفی کے اس خوبصورت شعر کی نثر کر چکا ہوں تو لگتا ہے کہ اصل شعر بھی ایسا ہی تھا۔
صحافت کے صبح و شام سیاستدانوں اور پولیس کی سرگرمیوں کی رپورٹ کرنے میں گزر جاتے سیاستدان جو سب کے سب ہمارے دوست ہوا کرتے تھے ہمیں ایک آدھ دن پہلے ہی اپنی ذہنی بے چینی سے آگاہ کر دیتے تھے اور پھر ایک آدھ دن میں پریس کانفرنس رکھ دی جاتی ایسی پریس کانفرنسوں کے لیے لیڈر حضرات خبر بنانے والی دو چار باتیں بھی اپنے پاس بچا کر رکھ لیتے جو وہ پریس کانفرنس میں ظاہر کرتے اور یہی خبر کی سرخی بن جاتیں جس اخبار میں مجھے کام کرنے کا موقع حاصل تھا اس کا نیوز ایڈیٹر ایک مانا ہوا صحافی تھا اگر کسی سیاستدان کا کوئی تیز جملہ اور بات خبر میں لکھ دی جاتی تو وہ کہتے کہ اس سے پوچھ لو خطرہ ہے اخبار میں چھپنے کے بعد وہ مکر نہ جائے۔
کئی بار ایسا ہوا کہ جب لیڈر کی کسی خطرناک بات کی طرف توجہ دلائی گئی تو وہ بار بار شکریہ ادا کرتے رہتے کہ واقعی یہ بات یوں نہیں کہنی چاہیے تھی آپ کی توجہ دلانے کی مہربانی اسمبلی کی رپورٹنگ میں تو اکثر ایسا ہوتا کہ اسمبلی کے اندر کا جوش و خروش بہت کچھ کہلوا دیتا جو ہماری مہربانی سے خبر بننے سے پہلے ہی درست کر دیا جاتا اور رکن اسمبلی کسی خفت سے بچ جاتا۔
رات گھر جانے سے پہلے شہر کے اہم تھانوں کو فون کر کے قتل وغیرہ کی خبر لے لی جاتی اور ایک چکر ڈیڈ باڈی کے دفتر یعنی میو اسپتال کا بھی لگانا پڑتا جہاں لاہور کے گرد و نواح کی قتل کی وارداتیں بھی جمع ہو جاتی تھیں لیکن میو اسپتال کا یہ شعبہ عموماً ناخوش ہی رہتا۔ یہ امن کا زمانہ تھا لوگ ایک دوسرے کو قتل نہیں کیا کرتے تھے۔ لڑائی جھگڑا تو عام تھا لیکن حد کے اندر۔ بات بات پر قتل کا زمانہ نہیں تھا جو ہماری بدقسمتی سے اب عام ہو گیا ہے۔ امن کے اس زمانے میں ہی ہم رات گئے شہر میں سائیکل پر لمبا سفر بلاخوف و خطر کر لیتے تھے اور یہ ایک روز مرہ کا معمول تھا۔ اس میں کتوں کے کاٹنے کا خطرہ تو ہوتا تھا مگر کسی انسان کے کاٹنے کا نہیں۔ یہ سزا اور جزا کا زمانہ تھا۔
قاتل پکڑا جاتا تھا اور سزا پاتا تھا۔ پولیس کسی بڑے جرم پر سمجھوتہ نہیں کرتی تھی اس کا نتیجہ یہ تھا کہ لاہور ایک پرامن شہر تھا۔ اس شہر میں رات ہو یا دن بدامنی کا خطرہ نہیں ہوا کرتا تھا ویسے ایک بڑے شہر میں جس کی آبادی لاکھوں میں ہو اور جس میں ہر مزاج اور قبیلے کے لوگ آباد ہوں اس میں کچھ نہ کچھ ہوتا تو رہتا ہی ہے جس سے زندگی میں کچھ ہل چل رہتی ہے اور شہر کو زندہ رکھتی ہے لیکن اب تو اس ہل چل کی حد ہو گئی ہے اور شہر کی رونق ہر حد پار کر گئی ہے لوگ گھروں کے اندر بھی ڈرے سہمے رہتے ہیں۔
ایسی خبریں عام چھپتی ہیں کہ بند گھر میں ڈاکو گھس گئے گھر والوں کو بند کر کے گھر کو لوٹ لیا پھر پولیس تفتیش کرتی رہی مگر جو ہونا تھا وہ ہو گیا ایک ہرا بھرا گھر خالی ہو گیا اور گھر کے لوگوں پر خوف و ہراس الگ چھا گیا۔ گھر بھی ایک غیر محفوظ جگہ بن گئی اور وہ لاہور کہیں گم ہو گیا ہے جہاں زندگی بے خوف و خطر گزرتی تھی۔ اس لاہور کی ایک مدت سے تلاش ہے یہاں تو اب بادشاہوں شہنشاہوں کے محل بھی محفوظ نہیں اور ان کی موٹی دیواروں کی اینٹیں بھی نکال لی جاتی ہیں کہ ان کی مضبوطی پر تاریخ گواہ ہے۔
لاہور بہر حال لاہور تو ہے لیکن وہ نہیں جہاں ہم کبھی گاؤں سے آ کر آباد ہوئے تھے سب کچھ تھا مگر چوری چکاری نہیں تھی جیب کترے تھے مگر ڈاکو نہیں تھے۔ ہم گاؤں سے آنے والے پریشان رہتے کہ جو چند روپے پاس ہیں انھیں حفاظت کے لیے کہاں چھپائیں کیونکہ گاؤں میں ایسی کسی حفاظت کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ لاہور ہمارے یہاں آنے پر جتنی آبادی کا ایک بڑا شہر تھا اب وہ اس سے دگنی آبادی کا شہر ہے اور بڑے شہروں کی تمام خرابیاں بھی اس شہر میں در آئی ہیں اسی لیے تو حضورؐ نے فرمایا تھا کہ شہر بڑے نہ بناؤ اور لاہور تو اب بڑا شہر بن ہی گیا ہے۔ ہم نئے لاہوری کیا کر سکتے ہیں۔ البتہ اس پرامن لاہور کی تلاش میں ہیں جہاں صرف جیب کترے ہوتے تھے ڈاکو نہیں۔