یہ شادی کتنے دن چلے گی
چلیں چھوڑیں اس بات کو اور سب لوگ کھڑے ہو کر اپنے ہاتھوں میں پھول تھام لیں
چلیں اُٹھیں، زوردار تالیاں بجا کر استقبال کریں سشما جی آ رہی ہیں۔ کسی نے مجھ سے پوچھا یہ وہ ہی سشما جی ہے نا کہ جس نے ایک لمبی چوڑی پریس کانفرنس کر کے کہا تھا کہ سرتاج عزیز اور پاکستان کی حکومت جھوٹ بول رہی ہے۔ اس لیے ہم مذاکرات نہیں کر رہے ہیں جس کے بعد ہم سب نے سشما کے پتلے جلانا شروع کر دیے تھے۔
چلیں چھوڑیں اس بات کو اور سب لوگ کھڑے ہو کر اپنے ہاتھوں میں پھول تھام لیں اور جیسے ہی سشما جی نظر آئے اُن پر نچھاور کرنا شروع کر دیں۔ آخر ہماری اتنی بڑی مہمان آئی ہے۔ کیا ضرورت ہے آپ کو یہ یاد کرنے کی کہ یہ وہ سشما ہے جس کے بارے میں ہم یہ کہہ رہے تھے کہ اُس کے اندر ہندوتوا بس رہا ہے۔ وہ پاکستان کو برداشت ہی نہیں کر سکتیں۔ ایسی عورت کو پاکستان کا نام بھی نہیں لینا چاہیے۔ کل تک جس کو ہم گالیاں دے رہے تھے۔ اُس کے لیے ہم آج بچھے جا رہے ہیں۔ ہم کل سچے تھے یا ہم آج جھوٹے ہیں؟
یہ جو ہاتھوں میں پتھر لیے منہ سے آگ برساتے رہتے ہیں وہ سب انڈیا میں کیوں خاموش ہیں۔ یہ ہی مودی کی جماعت کا سربراہ تھا، جو کہتا تھا کہ اگر بھارتیہ جنتا پارٹی ہار گئی تو سب سے زیادہ خوشی پاکستان میں منائی جائے گی۔ اُسی جماعت کی حکومت اب پاکستان کیوں آ رہی ہے؟ یہ لوگ پہلے اپنے مقاصد میں ٹھیک تھے یا پھر اب یہ ایک چال چل رہے ہیں۔ یہ تو اُسی جماعت کی حکومت ہے جو یہ کہتی ہے کہ سارے مسلمانوں کو پاکستان چلے جانا چاہیے۔
یہ لوگ یہ کہتے ہوئے ہمیں شرمندہ کر دیتے ہیں کیونکہ ہم نے تو آج تک اُن لوگوں کو پاکستانی نہیں مانا جو آج بھی بنگلہ دیش کے کیمپوں میں رہ کر پاکستان کا جھنڈا لگاتے ہیں۔ یہ وہ ہی بھارتیہ جنتا پارٹی کی رہنما پاکستان آ رہی ہے جو پاکستان کو ختم کر دینے کے نعرے پر ووٹ لیتی ہے۔ جس کے اندر موجود خامیوں کو وہ پاکستان پر ڈال کر اپنا دامن جھاڑتی رہتی ہے۔ آخر یہ لوگ اُس وقت اپنی جدوجہد میں سچے تھے جب یہ مسلمانوں کو زندہ جلا رہے تھے یا پھر یہ اب جھوٹے ہیں، جب اسلام آباد میں بیٹھ کر ساتھ چلنے کی باتیں کر رہے ہیں۔
ہر جگہ ایک تماشہ لگا ہوا ہے اور اس خطے کے ڈیڑھ ارب لوگ ہمیشہ سے تماشائی ہیں۔ جو ہر طرح کے تماشے میں شریک ہو کر نعرے لگاتے ہیں اور پھر تالیاں بجاتے ہوئے گھر چلے جاتے ہیں۔ یہ وہ خطہ ہے جہاں ہر طرح کے فنکار کو تماشہ کرنے کا پورا موقعہ ملتا ہے کیونکہ یہاں ہر طرح کے ٹیسٹ رکھنے والے تماشائی موجود ہیں جو نا صرف تالیاں بجاتے ہیں بلکہ اپنی جان و مال بھی قربان کر دیتے ہیں۔
یہ ایسے کھلاڑی ہیں جو انڈیا میں یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ کھانا نہیں کھانا چاہیے اور پھر اسلام آباد میں آ کر مسلمانوں کے ہاتھوں سے کھانا کھاتے ہیں۔ یہ جب یہ کہتے ہیں مسلمانوں کو جلا دو اُس وقت بھی انھیں تماشہ کرنے والے مل جاتے ہیں اور تالیاں بجانے والے بھی۔ اور جب یہ ہمارے ہاتھوں سے کھانا کھاتے ہیں تو انھیں اس عمل کی داد دینے والے بھی میسر آجاتے ہیں، دونوں جانب ایک تماشہ لگا ہوا ہے۔
یہاں آپ کو اس بات کا ہر وقت ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں ایسا نا ہو کہ آپ اپنے لیڈر کے کہنے پر اپنا گھر جلا دیں اور بعد میں وہ ہی لیڈر آپ کو گرفتار کرا دے۔ آپ کے خلاف اپنا گھر جلانے کا مقدمہ دائر کرے اور پھر آپ کی سزا پر خود ہی سوگوار کھڑا ہو، آپ کے گھر والوں کو تسلی دے رہا ہو۔ اور آپ کی رہائی کے لیے پرزور مہم چلا رہا ہو۔
اس خطے کے لوگوں کو ایک بار بتا دیجیے کہ انھیں جینا کیسے ہے اور مرنا کیسے ہے۔ کون ان کا حتمی دشمن ہے اور کون ہمیشہ ساتھ رہنے والا دوست ہے۔ یہ ہر گھنٹے میں بدلتی ہوئی صورتحال ختم کر دیجیے۔ دونوں طرف کے لوگوں کو ایک مخمصہ میں ڈالا ہوا ہے۔ ایک تازہ ترین خبر یہ آئی ہے کہ بھارت نے پاکستان کی سرحدوں پر گولہ باری کی اور کئی معصوم شہری جاں بحق ہو گئے۔ تھوڑی دیر بعد خبر آتی ہے کہ ہم بھارت کی جانب سے مذاکرات اور اچھے تعلقات کی پیشکش کو قبول کرتے ہیں۔ انڈیا کا میڈیا چلا چلا کر کانوں میں زہر بھر رہا ہوتا ہے کہ ''آتنگ وادیوں'' نے بڑا منصوبہ بنا لیا ہے اور یہ منصوبہ پاکستان میں بنایا گیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد اُن کے پاس بریکنگ نیوز یہ ہوتی ہے کہ مودی نے دوستانہ ماحول میں نواز شریف صاحب کے کان میں کہا کہ دشمنی ختم۔
آئیے آپ کو ایک شاندار واقعہ سُناتا ہوں۔ 80ء اور 90ء کے عشرے میں بھارت سکھوں کی تحریک سے بہت زیادہ پریشان تھا اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ انھوں نے چُن چُن کر سکھوں کو پکڑنا شروع کر دیا۔ بینظیر بھٹو کا دوسرا دور حکومت تھا۔ 13 فروری 1994ء کی بات ہے۔ بینظیر بھٹو نے وزیر اعظم کی حیثیت سے بی بی سی کو ایک انٹرویو دیا جس میں انھوں نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم بھارت سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ میرے پہلے دور حکومت میں جب راجیو گاندھی سکھوں کی شورش کی وجہ سے اپنا اقتدار کھونے والے تھے، اگر اس وقت ہماری حکومت اُن کی مدد نا کرتی تو معلوم نہیں آج وہ کہاں ہوتے۔
اس بیان کے بعد اُس وقت کے اپوزیشن لیڈر اور آج کے وزیر اعظم نواز شریف نے کہا تھا کہ بھارت کی مدد کا اعتراف کرکے نے بینظیر نے حق حکمرانی کھو دیا ہے۔ نواز شریف نے مزید کہا کہ ہمیں معلوم ہوا تھا کہ بینظیر کے پہلے دور میں اُن کے خصوصی ایلچی اعتزاز احسن نے یہ کام کیا تھا مگر اس بیان کے بعد یہ ثابت ہو گیا ہے وہ پاکستان کے مفاد کی بجائے بھارت کے مفاد کے لیے کام کرتی ہیں۔
انھوں نے بے نظیر کو ملک دشمن قرار دیتے ہوئے کہا ان کا وزیر اعظم کے عہدے پر رہنا ملک و قوم کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ ایسے سیزن میں جو چند موسمی جماعتیں نکل آتی ہیں انھوں نے لہو کو گرمانا شروع کر دیا اور مظاہرے بھی شروع ہو گئے۔ شہباز شریف نے تو جوش خطابت میں غداری کا مقدمہ بھی آفر کر دیا۔ بے نظیر نے بعد میں کہا کہ انٹرویو میں اس بات کے ذکر کا مقصد یہ تھا کہ ہم کسی بھی ملک میں عدم مداخلت کی پالیسی رکھتے ہیں۔
اب آپ خود سوچیں کہ کسے یہ بات پسند آ سکتی ہے کہ ہم خاص طور پر بھارت میں مداخلت نہیں کریں گے۔ کچھ چاہنے والوں نے بے نظیر کو ''را'' کا ایجنٹ قرار دے دیا۔ بات کچھ حلقوں کو پسند نہیں آئی، بات بڑھتی جا رہی تھی۔ ایک دن بعد یعنی 15 فروری کو وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے ریڈیو اور ٹی وی پر قوم سے خطاب کیا۔ انھوں نے تقریر میں سار ا ملبہ اپوزیشن پر ڈال دیا۔
19 فروری کو نواز شریف نے ایک کھلا خط وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے نام لکھا۔ جس میں بنیادی طور پر چار سوالات پوچھے گئے۔ پہلا سوال یہ تھا کہ آپ نے راجیو گاندھی کی کس نوعیت کی مدد کی۔ دوسرا سوال یہ تھا کہ یہ مدد کب کی۔ تیسرا سوال یہ تھا کہ راجیو گاندھی کو مدد فراہم کرنے سے قبل پارلیمنٹ، فوجی اور قومی سلامتی کے اداروں سے کوئی مشورہ کیا گیا؟ اور نواز شریف کا آخری سوال یہ تھا کہ آپ نے بھارتی حکومت کی جو مدد کی اُس کے صلے میں آپ کو کیا دیا گیا؟ اُس کے جواب میں پیپلز پارٹی کی طرف سے ایک دفتر کھول دیا گیا اور پھر دونوں طرف سے بیانات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
میرا موضو ع یہی تک ہے اس لیے میں اُس الزام تراشی کی طرف نہیں جانا چاہتا۔ مجھے نہیں معلوم کہ اگر بینظیر صاحبہ آج ہوتیں تو وہ بھی کیا کوئی کھلا خط نواز شریف صاحب کے نام لکھتیں۔ یہ مجھے نہیں معلوم، لیکن ہم جیسے کھلے ہوئے لوگوں کے کچھ اسی طرح کے بند سوالا ت ہیں۔
پہلا یہ کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان دشمنی میں عوام سے مشورہ کیا گیا ہے؟ دنوں ملکوں کو اپنے سیاستدانوں، اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کے مشورے پر کب لڑنا ہے اور کب ساتھ بیٹھنا ہے؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ اس دوستی اور دشمنی کے موسموں میں ہماری جھولی میں کون سا فروٹ گرتا ہے؟ اور آخری سوال یہ ہے کہ اس حالیہ ہنی مون کا دورانیہ کتنا ہے؟