متحدہ اپوزیشن کی ضرورت

اعداد کے حساب سے پیپلز پارٹی پارلیمنٹ میں اپوزیشن کا کردار ظاہر کرتی آئی ہے

پارلیمنٹ میں موجود چھ سیاسی جماعتوں کی طرف سے حکومت کے خلاف متحد ہو کر اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کا اعلان کیا گیا ہے جو اگر درست ہے تو یہ وقت کی ضرورت اور اہم فیصلہ ہے۔ متحدہ اپوزیشن میں ملک کی دو بڑی سیاسی پارٹیاں تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی بھی شامل ہیں جو کہ ملک کے دوسرے بڑے صوبے سندھ اور تیسرے بڑے صوبے کے پی کے میں برسر اقتدار ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی مسلم لیگ (ن) نے اپنے سیاسی مفاد کی خاطر چوتھے مگر رقبے میں سب سے بڑے صوبے بلوچستان کو اپنے ساتھ رکھا ہوا ہے، جہاں (ن) لیگ کی وجہ سے مخلوط حکومت ہے اور یہ حکومت بلوچستان کے علیحدگی پسند عناصر کے علاوہ متعدد مسائل کے حل کے لیے مکمل طور پر وفاقی حکومت کے رحم و کرم پر ہے۔

اعداد کے حساب سے پیپلز پارٹی پارلیمنٹ میں اپوزیشن کا کردار ظاہر کرتی آئی ہے، جسے پی ٹی آئی فرینڈلی اپوزیشن قرار دیتی آئی ہے اور خود کو اصل اپوزیشن سمجھتی ہے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین اب تک تنہا اڑان کے عادی رہے ہیں اور من مانیوں کے عادی عمران خان ڈھائی سال تک حکومت کے خلاف دھرنوں اور ہر ضمنی انتخابات اور سندھ و پنجاب کے بعد اب اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات میں ناکامی کے بعد دھاندلی، دھاندلی کے شور اور احتجاج میں مصروف رہے ہیں۔

عمران خان (ن) لیگ، پیپلز پارٹی، جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمن کو اپنی کڑی تنقید کا نشانہ بناتے آئے ہیں اور کے پی کے تک محدود سابق حکمران جماعت اے این پی پر بھی تنقید کرتے آ رہے ہیں اور کراچی اور حیدر آباد کے شہری علاقوں کی نمایندہ جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے بھی سخت خلاف ہیں جس کے خلاف پی ٹی آئی نے کے پی کے کے بعد کراچی میں جماعت اسلامی سے اتحاد کر رکھا ہے اور ماضی کے حالات کے برعکس پی ٹی آئی اور متحدہ کا ایک ساتھ چلنا بھی ممکن نظر نہیں آ رہا۔

پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت (ن) لیگ کے لیے نرم گوشہ رکھتی تھی کیونکہ (ن) لیگ پی پی کی فرینڈلی اپوزیشن تھی جس کے جواب میں (ن) لیگ نے اپنی حکومت بنتے ہی اپوزیشن لیڈر کا عہدہ پیپلز پارٹی کو دے دیا تھا۔ دونوں پارٹیوں کی باہمی مفاہمت پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے طویل مگر بے مقصد دھرنوں میں نمایاں رہی مگر نیب نے جب سندھ میں کارروائی شروع کی تو پی پی نے مزاحمت کا اعلان کیا۔ سابق صدر آصف علی زرداری کئی ماہ سے ملک سے باہر بیٹھے ہیں اور سندھ حکومت دبئی سے چلائی جا رہی ہے۔

آصف علی زرداری کے دست راست ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری کے بعد پی پی کے حلقے وزیر اعظم سے ناراض ہیں۔ متحدہ کراچی میں جاری آپریشن سے متعلق تحفظات کے باوجود وفاقی حکومت کی کھل کر حمایت کر رہی ہے نہ سندھ میں پیپلز پارٹی کے ساتھ ہے مگر متحدہ نے چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں پی پی کے امیدوار کو ووٹ دیے اور حال ہی میں قومی اسمبلی کے اسپیکر کے انتخاب میں دوبارہ بھی (ن) لیگ کا ساتھ دیا۔


وزیر اعظم نواز شریف عملاً پنجاب ہی کے وزیر اعظم بنے ہوئے ہیں اور وہ محض دکھاوے کے لیے سندھ خصوصاً کراچی، کے پی کے اور بلوچستان کا دورہ سرکاری پروگراموں کے باعث کر لیتے ہیں مگر ان کی ترجیح پنجاب ہے اور وزیر اعظم کے غیر ملکی دوروں میں اب تک صرف پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہی ساتھ گئے ہیں اور کسی وزیر اعلیٰ کو ساتھ لے جانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ ملک کے اہم معاملات میں وزیر اعظم دیگر سیاسی رہنماؤں کے ساتھ مشاورت ضرور کرتے ہیں، مگر فیصلے ان کے اپنے ہوتے ہیں جس کا ثبوت قومی راہداری منصوبہ ہے جو اب بھی متنازعہ چلا آ رہا ہے اور حکومت مخالف حلقے حکومت سے مطمئن نہیں کیونکہ راہداری منصوبے پر عمل پنجاب کی حد تک ہو رہا ہے۔

وزیر اعظم نواز شریف کی گزشتہ دو حکومتوں میں ان کی کچن کیبنٹ مشہور تھی جو چند وزرا تک محدود تھی جو اب مزید محدود ہو گئی ہے اور وزیر خزانہ اسحق ڈار عملی طور پر وزیر اعظم سے بھی زیادہ بااختیار ڈپٹی وزیر اعظم نظر آتے ہیں جن کی کوئی بات رد نہیں ہوتی اور اب چالیس ارب روپے کے ٹیکسوں کا بوجھ بھی وزیر خزانہ نے عوام پر لاد دیا ہے جسے حکومت کا منی بجٹ قرار دیا گیا ہے اور ہر سیاسی جماعت وزیر خزانہ کے فیصلے کی مخالفت کر رہی ہے اور حکومت نے اپنے من مانے فیصلوں سے اپنے مخالفین کو متحد ہونے کا موقع خود فراہم کر دیا ہے۔

عمران خان نے کہا ہے کہ وزیر اعظم خود ہی سیاسی خودکشی کسی بھی وقت کر سکتے ہیں۔ سیاسی حلقوں کے مطابق وزیر اعظم اپنے حلیفوں کو کھو رہے ہیں اور حکومت سے ناراض سیاسی پارٹیاں اپنے باہمی اختلافات بالائے طاق رکھ کر ایک ہونا چاہ رہی ہیں۔ پی پی سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ پی پی کی طرف سے حکومت سے مفاہمت ختم ہونے کے بعد سے نہ صرف حکومت اور وزیر اعظم پر کڑی تنقید کر رہے ہیں وہ متحدہ اپوزیشن کے قیام کے لیے بھی کوشش کر رہے تھے جو اب کامیاب ہوئی ہے۔

پیپلز پارٹی کی ناراضگی وزیر اعظم مول لینا نہیں چاہ رہے تھے مگر ان کی مرضی کے خلاف کیے جانے والے بعض اقدامات اور پی پی دور کے دونوں سابق وزرائے اعظم کے خلاف کرپشن کے مقدمات عدالتوں میں چلے جانے کے معاملے میں وہ پی پی کی مدد نہیں کر سکے جس کی وجہ سے پی پی اپنی مفاہمتی پالیسی ختم کر کے حکومت پر دباؤ بڑھا رہی ہے اور اپوزیشن لیڈر چالیس ارب روپے کے ٹیکس عاید کیے جانے کی بھی سخت مخالفت کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم سمجھ رہے تھے کہ وزیر خزانہ کی من مانی پر اپوزیشن خاموش رہے گی مگر ایسا نہیں ہوا اور چھ مختلف جماعتیں متحدہ اپوزیشن کے لیے متفق ہو گئی ہیں اور حکومت سے ناراض آزاد ارکان اسمبلی بھی متحدہ اپوزیشن کی حمایت کریں گے۔

حکمران مسلم لیگ (ن) خود بھی باہمی اختلافات کا شکار ہے، مگر وزیر اعظم کو اس کی کوئی فکر نہیں ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ پنجاب ان کے کنٹرول میں ہے۔ وزیر اعظم اپنے ارکان اسمبلی کو اہمیت نہیں دے رہے ہیں نہ ارکان اسمبلی سے ملنا پسند کرتے ہیں۔

قومی اسمبلی میں بھی وزیر اعظم بہت کم آتے ہیں جس کی وجہ سے خود (ن) لیگ کے ارکان اسمبلی بھی نالاں ہیں اور یہ وہی پنجاب ہے جو نواز شریف کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے ان سے منحرف ہو گیا تھا اور غلام حیدر وائیں کی وزارت اعلیٰ چلی گئی تھی۔حکومت کے اہم فیصلے قومی اسمبلی یا کابینہ کے اجلاس سے بالاتر ہو کر کیے جاتے ہیں اور وزیر خزانہ حقائق چھپانے میں کامیاب رہتے ہیں۔ ضروری ہے کہ حکومت پر دباؤ کے لیے اپوزیشن متحد ہو کر مل جل کر اہم فیصلے کرے تا کہ حکومت کی من مانیوں کو روکا جا سکے۔ اکثریت کی حامل حکومت صرف جمہوریت کا نام لیتی ہے، مگر اہم فیصلے جمہوری طور پر نہیں کیے جا رہے۔
Load Next Story