میں نہیں جانتا میں نہیں مانتا
سب سے پہلے ہمیں اس بات کو سمجھ لینا چاہیے کہ ہم جمہوریت کہتے کس کو ہیں
KARACHI:
سب سے پہلے ہمیں اس بات کو سمجھ لینا چاہیے کہ ہم جمہوریت کہتے کس کو ہیں، جمہوریت کا نظام، جمہوریت کی فتح، جمہوریت کی مضبوطی سمیت لاتعداد ایسے نعرے ہیں جو ہم سیاست دانوں کے منہ سے سنتے رہتے ہیں۔ جمہوریت کی تعریف کچھ اس طرح کی جاتی ہے کہ بلا واسطہ جمہوریت صرف ایسی جگہ قائم ہو سکتی ہے، جہاں ریاست کا رقبہ بہت محدود ہو اور ریاست کے عوام یکجا جمع ہو کر غور و فکر کرنا ممکن بنا سکیں، اسی طرز کی حکومت قدیم یونان کے شہری مملکتوں میں موجود تھی، ان دنوں یہ طرز حکومت سوئٹرزلینڈ کے چند شہروں اور امریکا میں نیو انگلینڈ کی چند بلدیات تک محدود ہے۔
جب کہ جدید وسیع مملکتوں میں تمام شہریوں کا ایک جگہ جمع ہونا ناممکنات میں سے ہے اور اظہار رائے کرنا طبعاََ ناممکنات میں ہے، قانون سازی کیونکہ طویل اور پیچیدہ عمل ہے اس لیے تجارتی اور صنعتی زندگی قانون سازی کی جھگڑوں میں نہیں پڑتی اس لیے اس عمل کو سہل بنانے کے مجلس قانون ساز کا تصور عمل میں لایا گیا اور رائے دہندگان کے لیے ووٹ کے نام سے اظہار رائے کا ایک طریقہ وضع کیا گیا جس کے ذریعے نمایندے منتخب کر لیے جاتے ہیں اور یہی نمایندے نظام ریاست کا کام کرتے ہیں، لیکن عموماََ ایسا ہوتا نہیں ہے کہ عوام ایسے شخص کا درست انتخاب کریں جو قانون سازی کے عمل سے کماحقہ واقف ہو۔
اس لیے خاص طور پر ترقی پذیر معاشرے میں زبردستی، جبرا، طاقت جیسے عمل کے علاوہ دولت سے متاثر کر کے عوام کو سحر زدہ کر دیا جاتا ہے۔ علاقائی، لسانی، نسل پرستی، فرقہ واریت سمیت ووٹ کے لیے کسی بھی عمل کو جائز سمجھ لیا جاتا ہے۔ مغرب کے اس نظام پر بعض حلقے اعتراض بھی کرتے ہیں خاص طور پر علامہ اقبال خود بھی اس قسم کے نظام جمہوریت کو نہیں مانتے تھے کہ جہاں بندے گنے جا تے ہیں لیکن، تولے نہیں جاتے ہوں، وڈیرانہ، جاگیردارنہ اور خوانین کے اس نظام میں غریب عوام اپنا حق رائے کا درست استعمال ممکن ہی نہیں بنا سکتے۔ ریاست کا احترام عوام کے دلوں میں جب پیدا ہو گا جب وہ عوام کے لیے کام بھی کریں۔
یہاں عجیب صورتحال ہے کہ قانون ساز اسمبلی کے لیے منتخب ہونے والے گلیوں کے گٹر، ندی، نالے، سٹرکیں بنا نے پر زور دیتے ہیں اگر کسی قانون ساز اسمبلی کی یہی خصوصیت ہے تو پاکستان سمیت پوری دنیا میں تعمیراتی کمپنیوں کو امور سلطنت دے دینے چاہیے۔ جتنے بھی نمایندے منتخب ہوتے ہیں ان کی95 فیصد تعداد کو عوام کی اکثریت مسترد کر دیتی ہے، انھیں جو ووٹ پڑتے ہیں وہ مخالفین کے ووٹ سے کم ہوتے ہیں، اب یہ جمہوریت کا کونسا اصول ہے کہ جسے عوام کی اکثریت مسترد کر دے وہی وزیر با تدبیر بنا دیا جاتا ہے۔ ہم اپنے نظام حکومت کے لیے مغرب کی جانب دیکھتے ہیں، لبرل ازم اور سیکولرازم کی اصطلاح استعمال کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ جیسے اسلام نے دیگر مذاہب پر کوئی قدغن عاید کر رکھی ہے۔
جمہوریت آمریت کی ضد نہیں بلکہ دین اسلام کی ضد ہے، کیونکہ دین اسلام ایک حکمران کے لیے کچھ قوانین اور اصول وضع کرتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کو دنیا اسلام میں مرکزی حیثیت حاصل تھی آپ ﷺ مسلم امہ کے نہ صرف مذہبی پیشوا تھے بلکہ دنیاوی امور میں بھی ان کی رہنمائی فرماتے تھے، یہاں تک کہ افواج کی سپہ سالاری، بیت المال کی نگرانی اور نظم و نسق کے جملہ فیصلے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ہدایت اور دین اسلام کے قوانین اور اصولوں و قرآن کے آئین کے تحت کیے جاتے تھے۔
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا سے پردہ فرما لیا تو اس مرکزی نظام کو چلانے کے لیے اور اسلامی مرکزیت کو قائم رکھنے کے لیے مشاورت سے ایک طریقہ کار اختیار کیا گیا جسے ہم خلافت راشدہ کہتے ہیں۔ یہاں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ملوکیت کے فیصلوں کے بجائے مشاورت سے تما م عمل سر انجام دیے جاتے تھے اور اجتہاد کو استعمال کیا جاتا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا انتخاب حضرت عمر رضی اللہ تعالی سے مختلف تھا، حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کا انتخاب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی سے جدا تھا اور حضرت علی رضی اللہ تعالی کا جب انتخاب عمل میں لایا گیا تو شوری نے جداگانہ طریق وضع کیا، حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ انتخاب بھی اجتہاد پر تھا اس کی سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ یہاں پارٹی بازیاں نہیں تھیں۔
یہ بھی نہیں کہ سرزمین حجاز کی امور سلطنت محدود تھی بلکہ پوری دنیا مسخر ہو رہی تھی لیکن کسی میں سرتابی کی جرات نہیں تھی۔ نائبین رسول نے قرآن کریم اور اپنی زندگی میں نبی اکرم ﷺ کی سیرت کو دیکھتے ہوئے امور خلافت کو سر انجام دیا، سپہ سالار بھی رہے عنان حکومت بھی سنبھالی اور مذہبی ترویج کے کام کے ساتھ عوام کا بھی خیال رکھا، کوئی لشکر وزیروں کا نہیں تھا، اور نہ ہی کسی کا چناؤ مورثی تھا بلکہ اکابر صحابہ کی مشاورت کے بعد ان کا انتخاب کیا جاتا۔
خلافت راشدہ کی مدت 30 سال رہی لیکن ہم اسے محدود قرار نہیں دے سکتے کیونکہ تصور اسلام خلافت راشدہ کے بعد ختم نہیں ہوا تھا بلکہ خلافت بنوامیہ، بنوعباس، خلافت عباسیہ قائم ہوئیْ عالم اسلام پر تقریبا َ 90 سال بنوامیہ، بنو عباس 500 سال تک قائم رہی، گو کہ یہاں خلفیہ کا انتخاب مورثی بنیادوں پر ہونے لگا اور تفرقوں نے وحدت اسلامی میں دراڑ ڈالی خاندان بنو عباس کا خاتمہ انھی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے ہلاکو خان کے ہاتھوں ہوا۔ خلافت عثمانیہ 1517ء سے1924ء تک رہنے والی سب سے طاقتور مسلم سلطنت تھی، ان کے زمانے میں سوائے حسین بن علی جو شریف مکہ اور انگریزوں کے جال میں پھنسے تھے کسی نے خلافت کا دعوی نہیں کیا اور بالآخر خلافت عثمانیہ کا جمہوریت کی تلوار سے کمال اتا ترک نے 1924 ء میں خاتمہ کر دیا۔
خلیفہ عبدالمجید کو برطرف کر دیا گیا اور خلافت کو ختم کر کے ترکی میں یورپی نظا م سیاست سے متاثر ہو کر جمہوری حکومت قائم کر دی گئی۔ ویسے تو دنیا اسلام میں اندلس کی خلافت امویہ، مصر میں خلافت فاطمیہ اور مراکش میں خلافتیں اپنے مخصوص علاقوں میں قائم رہیں۔ خلافت عثمانیہ کے بعد یورپ نے جمہوریت کے نام پر مسلم ممالک کے حصے بخرے کر دیے اور مسلم امہ کی طاقت کو جمہوریت کے نام پر تقسیم کر دیا، یہیں بھی ان کی سازشیں کامیاب نہیں ہوئیں بلکہ جہاں جہاں نام نہاد جمہوری حکو متیں قائم ہوئیں وہاں اپنا اثرو رسوخ قائم کرتے چلے گئے۔
موضوع کی طوالت سے بچنے کے لیے صرف ان جمہوریت پسندوں سے یہی ایک سوال کرتا چلا جاتا ہوں کہ کہ ووٹ کے نام منتخب کرنے کا نظام صرف یورپ میں تھا، مسلم امہ ووٹ کے ذریعے نہیں کبھی آتی تھی لیکن سیکڑوں سال سے امور سلطنت چلاتے رہے، یورپ سرنگوں رہا، جزیہ دیتا رہا، زمانہ جاہلیت میں ڈوبا رہا، مسلم علما ایجادات کرتے رہے یورپ والے مسلمانوں کی کاوشوں کو چوری کرتے رہے، مسلمان کو تفرقوں میں ڈالا گیا آپس میں لڑیا گیا اور ان کے آپس کی نا اتفاقی میں مسلم امہ کو یورپ کا غلام بنانا شروع کر دیا، جمہوریت کا ہی تو نظام تھا کہ ایٹم بم بنا کروڑوں انسانوں پر گرا دیا گیا، جنگ عظیم اول و دوئم میں کروڑوں انسانوں کو بھینٹ چڑھا دیا گیا۔
یہی جمہوریت کا نظام ہے جس میں چند ممالک کے پاس ویٹو کا اختیار ہے اور مسلم امہ کے خلاف اسرائیل اور بھارت کی جارحیت اور قبضے کے خلاف قراردادوں کو ویٹو کر دیا جاتا ہے، تمام دنیا ایک طرف اور ویٹو پاور ایک طرف ہو جاتی ہے یہی جمہوریت ہے کہ اپنے مفادات کے لیے کسی بھی ملک پر حملہ کر کے اسے تہہ و بالا کر دیا جاتا ہے۔
اربوں انسان جمہوریت کے نام پر قربان ہو گئے، لیکن کیا مسلم حکمرانوں نے کبھی ایسا کیا، یہ ضرور ہے کہ ان کے آپس کے اختلاف رہے، لڑے بھی، بغاوتیں بھی ہوئیں لیکن جو جنگ و جدل جمہوریت کے ماننے والوں نے کیا، کیا وہ درست نظام ہے، لیکن جس نظام نے ترقی، ایجادات اور مرد و عورت و انسانیت کا احترام دیا آج الٹا لبرل اور سیکولرز اسے ظلم کا نظام کہتے ہیں، ایٹم بم گرانے والوں کو سر پر بٹھاتے ہیں اور جو اسلام کی اساس پر چلنا چاہتے ہیں اسے مورد الزام صرف اس لیے ٹھہراتے ہیں کیونکہ مغرب نے اپنے مفادات کے لیے القاعدہ بنائی۔
سب سے پہلے ہمیں اس بات کو سمجھ لینا چاہیے کہ ہم جمہوریت کہتے کس کو ہیں، جمہوریت کا نظام، جمہوریت کی فتح، جمہوریت کی مضبوطی سمیت لاتعداد ایسے نعرے ہیں جو ہم سیاست دانوں کے منہ سے سنتے رہتے ہیں۔ جمہوریت کی تعریف کچھ اس طرح کی جاتی ہے کہ بلا واسطہ جمہوریت صرف ایسی جگہ قائم ہو سکتی ہے، جہاں ریاست کا رقبہ بہت محدود ہو اور ریاست کے عوام یکجا جمع ہو کر غور و فکر کرنا ممکن بنا سکیں، اسی طرز کی حکومت قدیم یونان کے شہری مملکتوں میں موجود تھی، ان دنوں یہ طرز حکومت سوئٹرزلینڈ کے چند شہروں اور امریکا میں نیو انگلینڈ کی چند بلدیات تک محدود ہے۔
جب کہ جدید وسیع مملکتوں میں تمام شہریوں کا ایک جگہ جمع ہونا ناممکنات میں سے ہے اور اظہار رائے کرنا طبعاََ ناممکنات میں ہے، قانون سازی کیونکہ طویل اور پیچیدہ عمل ہے اس لیے تجارتی اور صنعتی زندگی قانون سازی کی جھگڑوں میں نہیں پڑتی اس لیے اس عمل کو سہل بنانے کے مجلس قانون ساز کا تصور عمل میں لایا گیا اور رائے دہندگان کے لیے ووٹ کے نام سے اظہار رائے کا ایک طریقہ وضع کیا گیا جس کے ذریعے نمایندے منتخب کر لیے جاتے ہیں اور یہی نمایندے نظام ریاست کا کام کرتے ہیں، لیکن عموماََ ایسا ہوتا نہیں ہے کہ عوام ایسے شخص کا درست انتخاب کریں جو قانون سازی کے عمل سے کماحقہ واقف ہو۔
اس لیے خاص طور پر ترقی پذیر معاشرے میں زبردستی، جبرا، طاقت جیسے عمل کے علاوہ دولت سے متاثر کر کے عوام کو سحر زدہ کر دیا جاتا ہے۔ علاقائی، لسانی، نسل پرستی، فرقہ واریت سمیت ووٹ کے لیے کسی بھی عمل کو جائز سمجھ لیا جاتا ہے۔ مغرب کے اس نظام پر بعض حلقے اعتراض بھی کرتے ہیں خاص طور پر علامہ اقبال خود بھی اس قسم کے نظام جمہوریت کو نہیں مانتے تھے کہ جہاں بندے گنے جا تے ہیں لیکن، تولے نہیں جاتے ہوں، وڈیرانہ، جاگیردارنہ اور خوانین کے اس نظام میں غریب عوام اپنا حق رائے کا درست استعمال ممکن ہی نہیں بنا سکتے۔ ریاست کا احترام عوام کے دلوں میں جب پیدا ہو گا جب وہ عوام کے لیے کام بھی کریں۔
یہاں عجیب صورتحال ہے کہ قانون ساز اسمبلی کے لیے منتخب ہونے والے گلیوں کے گٹر، ندی، نالے، سٹرکیں بنا نے پر زور دیتے ہیں اگر کسی قانون ساز اسمبلی کی یہی خصوصیت ہے تو پاکستان سمیت پوری دنیا میں تعمیراتی کمپنیوں کو امور سلطنت دے دینے چاہیے۔ جتنے بھی نمایندے منتخب ہوتے ہیں ان کی95 فیصد تعداد کو عوام کی اکثریت مسترد کر دیتی ہے، انھیں جو ووٹ پڑتے ہیں وہ مخالفین کے ووٹ سے کم ہوتے ہیں، اب یہ جمہوریت کا کونسا اصول ہے کہ جسے عوام کی اکثریت مسترد کر دے وہی وزیر با تدبیر بنا دیا جاتا ہے۔ ہم اپنے نظام حکومت کے لیے مغرب کی جانب دیکھتے ہیں، لبرل ازم اور سیکولرازم کی اصطلاح استعمال کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ جیسے اسلام نے دیگر مذاہب پر کوئی قدغن عاید کر رکھی ہے۔
جمہوریت آمریت کی ضد نہیں بلکہ دین اسلام کی ضد ہے، کیونکہ دین اسلام ایک حکمران کے لیے کچھ قوانین اور اصول وضع کرتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کو دنیا اسلام میں مرکزی حیثیت حاصل تھی آپ ﷺ مسلم امہ کے نہ صرف مذہبی پیشوا تھے بلکہ دنیاوی امور میں بھی ان کی رہنمائی فرماتے تھے، یہاں تک کہ افواج کی سپہ سالاری، بیت المال کی نگرانی اور نظم و نسق کے جملہ فیصلے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ہدایت اور دین اسلام کے قوانین اور اصولوں و قرآن کے آئین کے تحت کیے جاتے تھے۔
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا سے پردہ فرما لیا تو اس مرکزی نظام کو چلانے کے لیے اور اسلامی مرکزیت کو قائم رکھنے کے لیے مشاورت سے ایک طریقہ کار اختیار کیا گیا جسے ہم خلافت راشدہ کہتے ہیں۔ یہاں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ملوکیت کے فیصلوں کے بجائے مشاورت سے تما م عمل سر انجام دیے جاتے تھے اور اجتہاد کو استعمال کیا جاتا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا انتخاب حضرت عمر رضی اللہ تعالی سے مختلف تھا، حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کا انتخاب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی سے جدا تھا اور حضرت علی رضی اللہ تعالی کا جب انتخاب عمل میں لایا گیا تو شوری نے جداگانہ طریق وضع کیا، حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ انتخاب بھی اجتہاد پر تھا اس کی سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ یہاں پارٹی بازیاں نہیں تھیں۔
یہ بھی نہیں کہ سرزمین حجاز کی امور سلطنت محدود تھی بلکہ پوری دنیا مسخر ہو رہی تھی لیکن کسی میں سرتابی کی جرات نہیں تھی۔ نائبین رسول نے قرآن کریم اور اپنی زندگی میں نبی اکرم ﷺ کی سیرت کو دیکھتے ہوئے امور خلافت کو سر انجام دیا، سپہ سالار بھی رہے عنان حکومت بھی سنبھالی اور مذہبی ترویج کے کام کے ساتھ عوام کا بھی خیال رکھا، کوئی لشکر وزیروں کا نہیں تھا، اور نہ ہی کسی کا چناؤ مورثی تھا بلکہ اکابر صحابہ کی مشاورت کے بعد ان کا انتخاب کیا جاتا۔
خلافت راشدہ کی مدت 30 سال رہی لیکن ہم اسے محدود قرار نہیں دے سکتے کیونکہ تصور اسلام خلافت راشدہ کے بعد ختم نہیں ہوا تھا بلکہ خلافت بنوامیہ، بنوعباس، خلافت عباسیہ قائم ہوئیْ عالم اسلام پر تقریبا َ 90 سال بنوامیہ، بنو عباس 500 سال تک قائم رہی، گو کہ یہاں خلفیہ کا انتخاب مورثی بنیادوں پر ہونے لگا اور تفرقوں نے وحدت اسلامی میں دراڑ ڈالی خاندان بنو عباس کا خاتمہ انھی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے ہلاکو خان کے ہاتھوں ہوا۔ خلافت عثمانیہ 1517ء سے1924ء تک رہنے والی سب سے طاقتور مسلم سلطنت تھی، ان کے زمانے میں سوائے حسین بن علی جو شریف مکہ اور انگریزوں کے جال میں پھنسے تھے کسی نے خلافت کا دعوی نہیں کیا اور بالآخر خلافت عثمانیہ کا جمہوریت کی تلوار سے کمال اتا ترک نے 1924 ء میں خاتمہ کر دیا۔
خلیفہ عبدالمجید کو برطرف کر دیا گیا اور خلافت کو ختم کر کے ترکی میں یورپی نظا م سیاست سے متاثر ہو کر جمہوری حکومت قائم کر دی گئی۔ ویسے تو دنیا اسلام میں اندلس کی خلافت امویہ، مصر میں خلافت فاطمیہ اور مراکش میں خلافتیں اپنے مخصوص علاقوں میں قائم رہیں۔ خلافت عثمانیہ کے بعد یورپ نے جمہوریت کے نام پر مسلم ممالک کے حصے بخرے کر دیے اور مسلم امہ کی طاقت کو جمہوریت کے نام پر تقسیم کر دیا، یہیں بھی ان کی سازشیں کامیاب نہیں ہوئیں بلکہ جہاں جہاں نام نہاد جمہوری حکو متیں قائم ہوئیں وہاں اپنا اثرو رسوخ قائم کرتے چلے گئے۔
موضوع کی طوالت سے بچنے کے لیے صرف ان جمہوریت پسندوں سے یہی ایک سوال کرتا چلا جاتا ہوں کہ کہ ووٹ کے نام منتخب کرنے کا نظام صرف یورپ میں تھا، مسلم امہ ووٹ کے ذریعے نہیں کبھی آتی تھی لیکن سیکڑوں سال سے امور سلطنت چلاتے رہے، یورپ سرنگوں رہا، جزیہ دیتا رہا، زمانہ جاہلیت میں ڈوبا رہا، مسلم علما ایجادات کرتے رہے یورپ والے مسلمانوں کی کاوشوں کو چوری کرتے رہے، مسلمان کو تفرقوں میں ڈالا گیا آپس میں لڑیا گیا اور ان کے آپس کی نا اتفاقی میں مسلم امہ کو یورپ کا غلام بنانا شروع کر دیا، جمہوریت کا ہی تو نظام تھا کہ ایٹم بم بنا کروڑوں انسانوں پر گرا دیا گیا، جنگ عظیم اول و دوئم میں کروڑوں انسانوں کو بھینٹ چڑھا دیا گیا۔
یہی جمہوریت کا نظام ہے جس میں چند ممالک کے پاس ویٹو کا اختیار ہے اور مسلم امہ کے خلاف اسرائیل اور بھارت کی جارحیت اور قبضے کے خلاف قراردادوں کو ویٹو کر دیا جاتا ہے، تمام دنیا ایک طرف اور ویٹو پاور ایک طرف ہو جاتی ہے یہی جمہوریت ہے کہ اپنے مفادات کے لیے کسی بھی ملک پر حملہ کر کے اسے تہہ و بالا کر دیا جاتا ہے۔
اربوں انسان جمہوریت کے نام پر قربان ہو گئے، لیکن کیا مسلم حکمرانوں نے کبھی ایسا کیا، یہ ضرور ہے کہ ان کے آپس کے اختلاف رہے، لڑے بھی، بغاوتیں بھی ہوئیں لیکن جو جنگ و جدل جمہوریت کے ماننے والوں نے کیا، کیا وہ درست نظام ہے، لیکن جس نظام نے ترقی، ایجادات اور مرد و عورت و انسانیت کا احترام دیا آج الٹا لبرل اور سیکولرز اسے ظلم کا نظام کہتے ہیں، ایٹم بم گرانے والوں کو سر پر بٹھاتے ہیں اور جو اسلام کی اساس پر چلنا چاہتے ہیں اسے مورد الزام صرف اس لیے ٹھہراتے ہیں کیونکہ مغرب نے اپنے مفادات کے لیے القاعدہ بنائی۔