ڈومیلی میں شکار اور جہلم کا اسپتال
اگر یہی حال رہا تو یہ شہر عنقریب اپنی پہچان کھو بیٹھے گا
پہاڑی علاقے کا شکار پر لطف ہونے کے ساتھ ساتھ کافی اذیت ناک بھی ہوتا ہے۔ ویسے تو تیتر کا سیزن یکم دسمبر سے شروع ہے مگر اجازت چونکہ صرف اتوار ہی کے روز ہوتی ہے اس لیے ہم نے 6 دن باقاعدہ انگلیوں پر گِنے اور ہفتے کی شام شکاری سازوسامان سے لیس ہو کر جہلم کا رخ کیا، ہماری منزل تھی تحصیل سوہاوہ کا خوبصورت مقام ڈومیلی۔ ڈومیلی کا شمار صوبہ پنجاب کی چند عمدہ شکار گاہوں میں ہوتا ہے جن کی نگہداشت محکمہ وایلڈ لایف نہایت عمدگی کے ساتھ کررہا ہے۔
ایک عرصے بعد جی ٹی روڈ پر سفر کا موقع ملا۔ گجرانوالہ میں سخت مایوسی ہوئی۔ شہر سے گزرتے ہوئے نہ تو ٹریفک جام سے پالا پڑا اور نہ ہی گندگی کا کوئی قابل ذکر ڈھیر دکھائی دیا۔اگر یہی حال رہا تو یہ شہر عنقریب اپنی پہچان کھو بیٹھے گا۔ ایک انتہائی طویل اوورہیڈ برج نے نجاست، غلاظت اور جہالت سمیت شہر کے دیگر آثارِ قدیمہ کی گویا ستر پوشی کر رکھی تھی۔ یہ پل ایک طرح کا بائی پاس تھا جس نے شہر کی جُون ہی بدل کر رکھ دی ہے۔ یا پھر یہ کہ وقت رات کا تھا اور ہماری قریب کی نظر اب کسی حد تک کمزور بھی ہو چکی ہے۔ پلک جھپکتے ہی شہر پیچھے رہ گیا اور ہم وزیر آباد کے آس پاس جا پہنچے۔
جہلم پہنچے تو خنکی خاصی بڑھ چکی تھی۔ سونے سے پہلے ہمارے مقامی گایڈ نے اطلاع دی کہ ہمیں 5 بجے یعنی علی الصباح اذان سے بھی پہلے ڈومیلی کیلیے نکلنا ہو گا کیونکہ شکار گاہ جو کہ موضع پھڈیال میں واقع ہے، جہلم شہر سے پورے 2 گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ سخت پریشانی ہوئی کیونکہ ہماری 3 رکنی شکار پارٹی میں ہمارا دوست بلال شاہ بھی شامل تھا اور صبح 5 بجے تو اس کے کھانسنے کا ٹائم ہوتا ہے۔ وہ 5 سے 6 بجے تک کا وقت تمباکو نوشی سے لطف اندوز ہونے اور کھانسی کی فضیلت بیان کرنے میں گزارا کرتا ہے اور پھر اس روز تو اس کے نظامِ ہضم نے بھی اسے خوب پریشان کر رکھا تھا۔ ہم خدا خدا کر کے ساڑھے 6 بجے کے قریب روانہ ہوئے اور یوں پورا ایک گھنٹہ تاخیر سے شکار گاہ پہنچے۔
ہمارا دوسرا شکاری دوست عمران میکن ہے تو بہت اچھا نشانہ باز مگر ہم اس کے نشانے سے زیادہ اس کے سٹیمنے سے خائف رہتے ہیں کہ نشانے کے حوالے سے اللہ کا ہم پر خصوصی کرم ہے۔ البتہ سٹیمنا (Stamina) کے معاملے میں یہ حضرت نہ صرف ہم سے بہت آگے ہیں بلکہ اپنی اس صلاحیت کا کافی ناجائز فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔
یعنی ہر شریف شکاری تیتر کا شکار صبح 7 سے 10گیارہ بجے تک اور پھر بعد دوپہر 3 بجے سے شام 5 بجے تک کرتا ہے کہ تیتر کے دانہ چگنے کے اوقات یہی ہیں۔ مگر عمران میکن کا اصلی شکار شروع ہی وقفے کے دوران ہوتا ہے اور یہی واحد وجہ ہے کہ اس کا بیگ دیگر ساتھیوں کے بیگ سے بھاری ہوتا ہے۔ اس کے پوائنٹر کتے قیلولہ کرتے تیتروں کو جھاڑیوں سے نکلنے پر مجبور کر دیتے ہیں اور اس کی خطرناک بندوق ان کی پرواز کو 20، 25 فٹ سے آگے نہیں جانے دیتی۔
پہاڑی شکار کی مصیبتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے عمران نے ہمارے لیے شکار کی جو کم سے کم تعداد مقرر کی وہ ایک اچھا بلکہ تگڑا ہدف تھا جو ہم نے بفضلِ تعالیٰ پہلے 2 گھنٹوں میں ہی حاصل کر لیا۔ اس کے بعد گزشتہ شب کارتجگااور اس پر مستزاد ادھیڑ عمر کی کوہ پیمائی ہمارا ایک ایک جوڑ دکھنے لگا۔ شکار گاہ سے قریباً 25منٹ کی مسافت پر گوڑا اتم سنگھ واقع ہے جہاں انگریز دور کا ایک خوبصورت مگر پر اسرار پہاڑی ریسٹ ہاؤس موجود ہے۔
سیاہ اور سلیٹی پتھر سے بنی یہ پر شکوہ عمارت پورے ماحول کو گھمبیر بنا رہی ہے۔ افسوس کہ ہمارا پیارا دوست کامران وجیہہ اس سفر میں ہمارے ساتھ شامل نہ ہو سکا ورنہ ہم گوڑا اُتم سنگھ کے اس قلعہ نما ریسٹ ہاؤس میں کم از کم ایک رات ضرور بسر کرتے کہ وہ اس قسم کے ماحول کا ہم سے بھی بڑا عاشق ہے۔ بھائی کی علالت کے سبب کامران شریکِ شکار نہ ہو سکا ورنہ اس مہم کی ایڈوانس بکنگ اس نے ایک ماہ پہلے ہی کروا رکھی تھی۔
تقریباً 3 گھنٹے کی ریسٹ نے ہمارے کھچکے ہوئے جوڑوں کی اچھی خاصی مرمت کر دی۔ سوکر اٹھے تو پائیں باغ میں مقامی دوستوں کے رش نے جنگل میں منگل کر رکھا تھا۔ سب سے ملکر دل بے حد خوش ہوا۔ لنچ سے پہلے اور بعد کی گپ شپ نے اتنا وقت لے لیا کہ شام کا شکار اب ہاتھ سے تقریباً نکل چکا تھا۔ تاہم سورج ڈھلتے ڈھلتے بھی ہم نے ایک مختصر مگر خوشگوار راؤنڈ مزید کھیلا۔
اندھیرا ہوتے ہی واپس جہلم روانہ ہوئے۔ یہاں پر ڈی سی او ذولفقار گھمن نے اپنے خوبصورت لان میں عدلیہ اور انتظامیہ کے چند آنے اور جانے والے افسروں کی دعوت کر رکھی تھی۔ اس دعوت میں نہایت مزید کھانے کے ساتھ ساتھ اچھی موسیقی بھی سننے کو ملی۔ ایک مقامی دوست سے دریافت کیا کہ تمہارے ڈی سی او کی کارکردگی کیسی ہے تو کہنے لگا کہ واپس جاتے ہوئے جب لاہور کیلیے نکلو تو راستے میں ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر اسپتال کا ایمرجنسی وارڈ ضرور دیکھتے جانا یہ جدید ترین یونٹ اس فردواحد کی ذاتی محنت کا ثمر ہے جس کا تقریباً تین چوتھائی حصہ اس شخص نے صرف مخیر حضرات کی مدد سے قائم کیا ہے۔
اس ضلع کے ہزاروں لوگ یہاں سے فیض حاصل کرتے ہیں اور ان کا علاج مفت کیا جاتا ہے۔ اس توصیفی تقریر کا ہمارے دل پر کچھ زیادہ ہی اثر ہوا اور ہم لاہور روانہ ہونے سے پہلے اسپتال کا ایمرجنسی وارڈ دیکھنے جا پہنچے۔ تحصیل سوہاوہ کی ذہین اسسٹنٹ کمشنر نرگس چوہدری نے اسپتال کے ایم ایس سمیت چند ڈاکٹروں کے ہمراہ ہمیں اس وارڈ کا ایک ایمان افروز ٹور کروایا۔ صوبے بھر میں 36اضلاع ہیں اور یہاں کے ہر ضلعی سربراہ سے ہماری درخواست ہے وہ بھی تعلیم اور صحت کے میدان میں کم ازکم ایک کام ذولفقار گھمن جیسا ضرور کر جائیں جو آپ کی عاقبت سنوار دے۔
ایک عرصے بعد جی ٹی روڈ پر سفر کا موقع ملا۔ گجرانوالہ میں سخت مایوسی ہوئی۔ شہر سے گزرتے ہوئے نہ تو ٹریفک جام سے پالا پڑا اور نہ ہی گندگی کا کوئی قابل ذکر ڈھیر دکھائی دیا۔اگر یہی حال رہا تو یہ شہر عنقریب اپنی پہچان کھو بیٹھے گا۔ ایک انتہائی طویل اوورہیڈ برج نے نجاست، غلاظت اور جہالت سمیت شہر کے دیگر آثارِ قدیمہ کی گویا ستر پوشی کر رکھی تھی۔ یہ پل ایک طرح کا بائی پاس تھا جس نے شہر کی جُون ہی بدل کر رکھ دی ہے۔ یا پھر یہ کہ وقت رات کا تھا اور ہماری قریب کی نظر اب کسی حد تک کمزور بھی ہو چکی ہے۔ پلک جھپکتے ہی شہر پیچھے رہ گیا اور ہم وزیر آباد کے آس پاس جا پہنچے۔
جہلم پہنچے تو خنکی خاصی بڑھ چکی تھی۔ سونے سے پہلے ہمارے مقامی گایڈ نے اطلاع دی کہ ہمیں 5 بجے یعنی علی الصباح اذان سے بھی پہلے ڈومیلی کیلیے نکلنا ہو گا کیونکہ شکار گاہ جو کہ موضع پھڈیال میں واقع ہے، جہلم شہر سے پورے 2 گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ سخت پریشانی ہوئی کیونکہ ہماری 3 رکنی شکار پارٹی میں ہمارا دوست بلال شاہ بھی شامل تھا اور صبح 5 بجے تو اس کے کھانسنے کا ٹائم ہوتا ہے۔ وہ 5 سے 6 بجے تک کا وقت تمباکو نوشی سے لطف اندوز ہونے اور کھانسی کی فضیلت بیان کرنے میں گزارا کرتا ہے اور پھر اس روز تو اس کے نظامِ ہضم نے بھی اسے خوب پریشان کر رکھا تھا۔ ہم خدا خدا کر کے ساڑھے 6 بجے کے قریب روانہ ہوئے اور یوں پورا ایک گھنٹہ تاخیر سے شکار گاہ پہنچے۔
ہمارا دوسرا شکاری دوست عمران میکن ہے تو بہت اچھا نشانہ باز مگر ہم اس کے نشانے سے زیادہ اس کے سٹیمنے سے خائف رہتے ہیں کہ نشانے کے حوالے سے اللہ کا ہم پر خصوصی کرم ہے۔ البتہ سٹیمنا (Stamina) کے معاملے میں یہ حضرت نہ صرف ہم سے بہت آگے ہیں بلکہ اپنی اس صلاحیت کا کافی ناجائز فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔
یعنی ہر شریف شکاری تیتر کا شکار صبح 7 سے 10گیارہ بجے تک اور پھر بعد دوپہر 3 بجے سے شام 5 بجے تک کرتا ہے کہ تیتر کے دانہ چگنے کے اوقات یہی ہیں۔ مگر عمران میکن کا اصلی شکار شروع ہی وقفے کے دوران ہوتا ہے اور یہی واحد وجہ ہے کہ اس کا بیگ دیگر ساتھیوں کے بیگ سے بھاری ہوتا ہے۔ اس کے پوائنٹر کتے قیلولہ کرتے تیتروں کو جھاڑیوں سے نکلنے پر مجبور کر دیتے ہیں اور اس کی خطرناک بندوق ان کی پرواز کو 20، 25 فٹ سے آگے نہیں جانے دیتی۔
پہاڑی شکار کی مصیبتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے عمران نے ہمارے لیے شکار کی جو کم سے کم تعداد مقرر کی وہ ایک اچھا بلکہ تگڑا ہدف تھا جو ہم نے بفضلِ تعالیٰ پہلے 2 گھنٹوں میں ہی حاصل کر لیا۔ اس کے بعد گزشتہ شب کارتجگااور اس پر مستزاد ادھیڑ عمر کی کوہ پیمائی ہمارا ایک ایک جوڑ دکھنے لگا۔ شکار گاہ سے قریباً 25منٹ کی مسافت پر گوڑا اتم سنگھ واقع ہے جہاں انگریز دور کا ایک خوبصورت مگر پر اسرار پہاڑی ریسٹ ہاؤس موجود ہے۔
سیاہ اور سلیٹی پتھر سے بنی یہ پر شکوہ عمارت پورے ماحول کو گھمبیر بنا رہی ہے۔ افسوس کہ ہمارا پیارا دوست کامران وجیہہ اس سفر میں ہمارے ساتھ شامل نہ ہو سکا ورنہ ہم گوڑا اُتم سنگھ کے اس قلعہ نما ریسٹ ہاؤس میں کم از کم ایک رات ضرور بسر کرتے کہ وہ اس قسم کے ماحول کا ہم سے بھی بڑا عاشق ہے۔ بھائی کی علالت کے سبب کامران شریکِ شکار نہ ہو سکا ورنہ اس مہم کی ایڈوانس بکنگ اس نے ایک ماہ پہلے ہی کروا رکھی تھی۔
تقریباً 3 گھنٹے کی ریسٹ نے ہمارے کھچکے ہوئے جوڑوں کی اچھی خاصی مرمت کر دی۔ سوکر اٹھے تو پائیں باغ میں مقامی دوستوں کے رش نے جنگل میں منگل کر رکھا تھا۔ سب سے ملکر دل بے حد خوش ہوا۔ لنچ سے پہلے اور بعد کی گپ شپ نے اتنا وقت لے لیا کہ شام کا شکار اب ہاتھ سے تقریباً نکل چکا تھا۔ تاہم سورج ڈھلتے ڈھلتے بھی ہم نے ایک مختصر مگر خوشگوار راؤنڈ مزید کھیلا۔
اندھیرا ہوتے ہی واپس جہلم روانہ ہوئے۔ یہاں پر ڈی سی او ذولفقار گھمن نے اپنے خوبصورت لان میں عدلیہ اور انتظامیہ کے چند آنے اور جانے والے افسروں کی دعوت کر رکھی تھی۔ اس دعوت میں نہایت مزید کھانے کے ساتھ ساتھ اچھی موسیقی بھی سننے کو ملی۔ ایک مقامی دوست سے دریافت کیا کہ تمہارے ڈی سی او کی کارکردگی کیسی ہے تو کہنے لگا کہ واپس جاتے ہوئے جب لاہور کیلیے نکلو تو راستے میں ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر اسپتال کا ایمرجنسی وارڈ ضرور دیکھتے جانا یہ جدید ترین یونٹ اس فردواحد کی ذاتی محنت کا ثمر ہے جس کا تقریباً تین چوتھائی حصہ اس شخص نے صرف مخیر حضرات کی مدد سے قائم کیا ہے۔
اس ضلع کے ہزاروں لوگ یہاں سے فیض حاصل کرتے ہیں اور ان کا علاج مفت کیا جاتا ہے۔ اس توصیفی تقریر کا ہمارے دل پر کچھ زیادہ ہی اثر ہوا اور ہم لاہور روانہ ہونے سے پہلے اسپتال کا ایمرجنسی وارڈ دیکھنے جا پہنچے۔ تحصیل سوہاوہ کی ذہین اسسٹنٹ کمشنر نرگس چوہدری نے اسپتال کے ایم ایس سمیت چند ڈاکٹروں کے ہمراہ ہمیں اس وارڈ کا ایک ایمان افروز ٹور کروایا۔ صوبے بھر میں 36اضلاع ہیں اور یہاں کے ہر ضلعی سربراہ سے ہماری درخواست ہے وہ بھی تعلیم اور صحت کے میدان میں کم ازکم ایک کام ذولفقار گھمن جیسا ضرور کر جائیں جو آپ کی عاقبت سنوار دے۔