عامر کی واپسی

ایک ایسے کھلاڑی کے ساتھ کھیلنے میں کیا حرج ہے، جس نے اپنی سزا بھگت لی ہے اور وہ اپنے کئے پر نادم بھی ہے۔


Hassaan Khalid December 09, 2015
محمد عامر کو دوسرے کھلاڑیوں کے لئے ’’نشان عبرت‘‘ بنانا ہی تھا تو پی سی بی کو ماضی میں آئی سی سی سے رعایت کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیئے تھا۔ فوٹو:فائل

محمد عامر کی بین الاقوامی کرکٹ میں واپسی کے لئے پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) بہت محتاط ہے۔ پہلے کوچ، کپتان اور چیف سلیکٹر سے رائے جانی گئی۔ انہوں نے مثبت جواب دیا، لیکن بورڈ کی تسلی نہیں ہوئی۔ پھر چیئرمین پی سی بی شہریار خان کو سینئر کھلاڑیوں کی رضامندی کی فکر ستانے لگی۔ اس بابت روزنامہ ایکسپریس کے اسپورٹس ایڈیٹر سلیم خالق کی خبر کے مطابق،
''چیئرمین نے اسپن بولنگ کوچ مشتاق احمد کو اہم ٹاسک سونپ دیا ہے، وہ محمد عامر کی سب سے الگ الگ ملاقاتوں کے ذریعے گلے شکوے دور کرائیں گے''۔

لیکن سوال تو یہ ہے کہ کھلاڑیوں کے ''گلے شکوے'' دور ہوجانے کے بعد کیا بورڈ شانت ہوجائے گا؟ پی سی بی کی حساسیت دیکھتے ہوئے یہ مشکل نظر آتا ہے۔ ہوسکتا ہے آنے والے دنوں میں بورڈ اس نازک مسئلے پر آل پارٹیز کانفرنس بلائے یا ایک ریفرنڈم کے ذریعے پوری قوم کی رائے دریافت کرے۔ غیرملکی شائقین کرکٹ کے جذبات کو نظر انداز کرنا بھی مناسب نہیں۔ ان کی رائے جاننے کے لئے کوئی سبیل نکالنی پڑے گی۔ تب کہیں جا کر پی سی بی محمد عامر کے مستقبل کا فیصلہ کرسکے گا۔

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے رواں سال یکم ستمبر سے محمد عامر اور دیگر دو کھلاڑیوں پر عائد پابندی ختم کرتے ہوئے اُن کے لئے بین الاقوامی کرکٹ کے دروازے کھول دیئے تھے جبکہ اِس سے قبل پی سی بی کی خواہش پر رواں سال کے آغاز میں آئی سی سی نے محمد عامر کو ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے کی اجازت دے دی تھی۔ اُس وقت آئی سی سی کے فیصلے میں کہا گیا،
''اینٹی کرپشن یونٹ کے چیئرمین رونی فلینیگن (Ronnie Flanagan) نے آئی سی سی اینٹی کرپشن کوڈ کی شق 6.8 کے مطابق یہ فیصلہ دیا ہے، جو انہیں خصوصی اختیار تفویض کرتی ہے۔ عامر نے کمیٹی کے ساتھ ہر مرحلے پر مکمل تعاون کیا ہے، اور اس نے اینٹی کرپشن یونٹ کی آگاہی مہم کے لئے بھی پیغامات ریکارڈ کرائے ہیں۔ اس کے طرز عمل سے پوری طرح مطمئن ہونے کے بعد چیئرمین کمیٹی نے اسے ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے کی اجازت دی ہے''۔

اِس سے پہلے سابق چیئرمین پی سی بی زکاء اشرف کے بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں، جس میں آئی سی سی سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ محمد عامر کو رعایت دیتے ہوئے بین الاقوامی کرکٹ میں واپسی کی اجازت دی جائے۔

چنانچہ آئی سی سی سے اجازت ملنے کے بعد ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ محمد عامر کی ڈومیسٹک کرکٹ میں کارکردگی دیکھنے کے بعد، قومی ٹیم میں شمولیت یا عدم شمولیت کا فیصلہ کیا جاتا۔ لیکن پی سی بی نے ''اتفاق رائے'' حاصل کرنے کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے، معلوم نہیں اس کا اختتام کہاں جاکر ہوگا۔ محمد عامر کو دوسرے کھلاڑیوں کے لئے ''نشان عبرت'' بنانا ہی تھا۔ تو پی سی بی کو ماضی میں آئی سی سی سے رعایت کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیئے تھا۔



ایسا بھی سنا گیا کہ قومی ٹیم کے کچھ کھلاڑی، ایک ایسے کھلاڑی کے ساتھ نہیں کھیلنا چاہتے، جس نے قومی عزت کا سودا کیا ہو۔ موجودہ ٹیم اور انتظامیہ میں ایسے لوگ موجود ہیں، جو مختلف مواقعوں پر ہماری کرکٹ کے لیے نیک نامی کا باعث نہیں بنے۔ جب ہمارے قابل احترام کھلاڑیوں کو ان لوگوں کے ساتھ کھیلنے میں کوئی مسئلہ نہیں تو ایک ایسے کھلاڑی کے ساتھ کھیلنے میں کیا حرج ہے جس نے اپنی سزا بھگت لی ہے اور وہ اپنے کئے پر نادم بھی ہے۔ پی سی بی کو دوسرے کھلاڑیوں سے اجازت کا پروانہ حاصل کرنے کے بجائے اپنا فیصلہ سنانا چاہیئے۔ سابق ملکی اور غیر ملکی کرکٹرز محمد عامر کی حمایت میں بول رہے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ بھارت کے خلاف سیریز کا اعلان آج ہی ہوجائے اور شائقین کرکٹ عامر کا مقابلہ ویرات کوہلی کے ساتھ دیکھنا چاہتے ہیں۔ تو آخر مین ہمارا کرکٹ بورڈ کب تک اِس حوالے سے تذبذب کا شکار رہے گا؟

ابھی گزشتہ روز ہی ایک تحریر پڑھنے کا اتفاق ہوا جس میں عامر کو شامل نہ کرنے کے کچھ یہ دلائل پیش کیے گئے۔
''اگر ماضی میں مجرم کو نشان عبرت بنایا جاتا تو شاید 2010ء میں محمد عامر نے جو کیا، وہ قدم اٹھانے سے پہلے کئی مرتبہ سوچتے کہ اس کا انجام کیا ہو سکتا ہے۔ اس لئے آج محمد عامر کو عبرت کا نشان بنا دیں تاکہ آنے والی نسلیں گرین شرٹ بیچنے سے قبل کم از کم ایک مرتبہ ضرور اس انجام کے بارے میں سوچیں گی''۔

اِس تحریر پر میری ذاتی رائے تو یہی ہے کہ اب جو کھلاڑی سمجھدار ہوگا اور کسی بھی بُرائی سے بچنا چاہتا ہوگا تو اُس کے لیے محمد عامر کی 5 سالہ سزا کی مثال کافی ہے۔ لیکن جس نے طے کرلیا ہے کہ وہ بھی یہ ایڈونچر کرے گا تو پھر آپ چاہیں محمد عامر پر عمر بھر کے لئے ہی کیوں نہ پابندی لگالیں وہ نہیں رکنے والے۔

[poll id="820"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔