جمہوریت کے حتمی ولازمی نتائج
وطن عزیز میں بہت سے لوگوں کو ملک میں ’’حقیقی جمہوریت‘‘ کے فقدان کا دکھ اندر ہی اندر کھائے جا رہا ہے۔
وطن عزیز میں بہت سے لوگوں کو ملک میں ''حقیقی جمہوریت'' کے فقدان کا دکھ اندر ہی اندر کھائے جا رہا ہے۔ ان کے لیے لولی، لنگڑی، اندھی، کانی جمہوریت ملک کے دکھوں کا درماں ہے۔
اس لیے یہ حضرات جمہوریت کا نام لیتے تو ان کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑ جاتے۔ ان کی سوچ میں جمہوریت وہ لیلیٰ ہے جو اگرکسی ملک کو نہ ملی تو وہ ملک قیس سے مجنوں بن کر خاک بسر و صحرا نشین بن جائے گا، لیکن گزشتہ سولہ برسوں سے ملک میں جمہوریت ہونے کے باوجود (خواہ کہ جنرل سید پرویزمشرف کا ٹائم پیریڈ آدھی ادھوری جمہوریت ہی گردانا جائے پھر بھی) جو نتائج آج سب کے سامنے ہیں اس سے جمہوریت کا حسن سب کے سامنے مکمل طور پر جلوہ افروز ہو چکا ہے۔
کیونکہ ملکی تاریخ میں پہلی بار جب ایک منتخب سیاسی حکومت نے اپنی مدت کے پانچ سال مکمل کر لیے اورجمہوری انداز میں انتخابات کے ذریعے ملکی اقتدار دوسری سیاسی جماعت کے سپرد کر کے ملک کی جمہو ری تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا تو ان کے اس قدم کے باعث یہ ممکن ہوا کہ پاکستان کے چاروں صوبوں میں جماعتی بنیادوں پر منتخب ہونے والی حکومتوں نے پہلی بار جماعتی بنیادوں پر ہی بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کروانے جیسا جمہوری معراج کو چھونے والا ''قابل تعریف'' قدم اٹھایا، جب کہ عملی طور پر ہوا کچھ یوں کہ جہاں جس جماعت کی حکومت تھی وہاں ان کی جماعت اکثر یت میںجیت کر آئی۔
تو پھر یہ بھی لازمی بات تھی کہ ان ہزار دوہزار ووٹوں پر یوسی چیئرمین یا کونسلرکے انتخابات جیت کر آنیوالوں کو ساٹھ ہزار سے لے کر ایک لا کھ ووٹوں کے دم پر رکن اسمبلی بننے والوں اور ان کی جماعتوں کا مستقل طور پر تابعدار رکھنے کے لیے کسی نہ کسی حکو متی وفاداری کا دم بھرنے والے ریاستی عہدیدار (ڈپٹی کمشنر سے لے کر سیکریٹری تک) کے پاس ان کو کسی بھی ناخوشگوار صورتحال میں نااہل قرار دیے جانے کے ''حفظ ماتقدم'' کا اختیار تو ملنا ہی تھا۔ جس پر اتنی واویلا اور چیخنا چلانا سمجھ میں آنی والی بات بھی ہے۔
ویسے بھی پاکستان میں جمہوری تاریخ بہت ہی مختصر رہی ہے۔ جب کہ اس مختصر رقم ہونے والی تاریخ کو بھی اگر بغور نظر دیکھا جائے تویہ صاف نظر آ جائے گا کہ یہاں جس کسی نے بھی جمہوری بننے کی کوشش کی ہے وہ پہلے سے کہیں زیادہ سیاسی طور پرکمزور ہوا ہے۔ اس بات میں اختلاف کی گنجائش نکالی جا سکتی ہے لیکن معروضی حالات کے پیش نظر جو واقعات و حقائق ہماری قومی سیاسی و جمہوری تاریخ میں رقم کیے جا چکے ہیں، ان سے انکار کرنا ممکن ہی نہیں۔
چاہے پہلے پہل بلدیاتی انتخابات کروانے والے پاکستان کے مضبو ط ترین حکمران جنرل محمد ایوب خان کی بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے پہلے اور بعد کی حکومتی گرفت ہو یا جنر ل ضیاء الحق سے لے کر جنرل پرویز مشرف کی جانب سے عام انتخابات اور لوکل گو ر نمنٹ کے انتخابات کا انعقاد کروانے سے پہلے اور بعد کی پوزیشن اور ان کے حتمی نتائج ہی کو اٹھا کر دیکھ لیں۔ آپ کو اس میں ہر ایک شخص جمہوریت کی جانب بڑھانے والے اپنے ہر ایک قدم پر خود کو کمزور کرتا ہوا دکھائی دے گا۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں سول سروسز نصاب کے پاکستان اسٹڈی کے رائج موضوع میں تفصیل کے ساتھ اس کے تمام معروضی حالات و اسباب کو ان کی تمام تر باریکیوں کے ساتھ بیان کرنے کے بعد پاکستان میں جمہوریت کو ناقابل عمل نظام قرار دیا گیا ہے، جب کہ اس نکتے کی مضحکہ خیز تصدیق یہ ا مر ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کو ناقابل عمل نظا م سمجھنے والے ہی اس نظام کو چلانے والوں کو اہل یا نا اہل قرار دیے جانے پر مقرر کیے جا رہے ہیں۔
پاکستانی مزاج کا کمال کہیں یا نظریہ پاکستان کی تاثیر کہ مغربی جمہوریت اتنے کم عرصے کے دوران مملکت خداداد میں اپنے مکروہ چہرے کے ساتھ آشکار ہو گئی ہے۔ مزیدار بات کہ عہد طفلی میں ہی بابائے قوم کا سایہ اٹھ جانے کے سبب انتظامی قیادت کا وہ سنگین بحران پیدا ہو گیا کہ جس میں مولوی تمیزالدین کی قربانی نے جتا دیا کہ اس ملک کا مقصود و منتہاء مغربی جمہوریت نہیں ہے۔ یہاں تو سیاسی لوگوں سے مغربی جمہوریت کی CowGril سنبھالے نہیں سنبھلنے پا رہی تھی تو غلام محمد، اسکندر مرزا، جنرل یحییٰ خان اور جنرل ایوب خان جیسے خالص سول و فوجی بیروکریٹک مائنڈ رکھنے والے افراد جمہوریت کے مقدس بوجھ کو کیا سنبھالتے۔ قوم کی آنکھیں تو تب کھلی جب اگر تلہ سازش سامنے آئی۔
تب تک پانی سر سے اونچا ہو چکا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوریت نے بھی عالمی حالات کے پیش نظر استحکام پاکستان میں معاون و مددگار پالیسیاں ترتیب دینے کے باوجود ریاستی اداروں کو تاریخ کے خاموش اوراق میںرقم کی جانیوالی جو کمزوری بخشی تھی اس کی حقیقی و عملی صورت کو صرف اس وقت کے ڈی ایم جی گروپ کے افسران ہی جانتے ہونگے۔
یا پھر پیپلز پارٹی کے وہ نظریاتی کارکن ہونگے جنہوں نے اس لوٹ کھسوٹ میں حصہ نہ لیا تھا اور جن کی اولاد آج بھی محنت مزدوری کرتے ہوئے بھٹو سے اپنے دلی لگاؤ کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔ یہی وہ وقت تھا جس میں ملک کے اندر عمومی اور سندھ کے اندر خصوصی طور پر مصنوعی طریقوں سے یعنی میرٹ کو ڈبل کراس کر کے وہ متوسط اور سیاسی طبقہ پیدا کیا گیا جس نے آگے بڑھ کر جاگیردارانہ بود وباش اور سیاسی روایات کو دوام بخشا۔ موجودہ پیپلز پارٹی میں وہ تمام چہرے اہم عہدوں پر براجمان دیکھے جا سکتے ہیں۔
عالمی حالات کے پیش نظر سوویت یونین کو گرم پانیوں تک پہنچنے سے روکنے کے لیے ایران میں آیت اللہ خمینی کے انقلاب کے ساتھ پاکستان میں جنرل محمد ضیاء الحق کے مذہبی اقتدار کے عرصے میں تو جیسے ہماری تمام تر پالیساں افغان جنگ کی تابع فرمان رہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے اقتدار کو مضبوط رکھنے والے عالمی حالات و اسباب کے باوجود ان کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد ان کے اقتدار کو کمزوری لاحق ہو جانے کا خطرہ اس حد تک محسوس کیا گیا کہ جونیجو حکومت کی برطرفی عمل میں لائی گئی۔ اس کے بعد بتدریج اور مرحلہ وار جمہوری حسن کے جلوؤں کی برکات ریاستی اداروں کی گرفت میں لغزش کو بڑھاوا دینے کا سبب بنتی رہیں۔
جنرل ضیاء الحق کے بعد سیاسی جماعتوں نے دس سال تک ملک میں جو کچھ کیا، اس سے مقدس ایوانوں سمیت سپریم کورٹ پر حملے کی صورت میں نہ صرف ان کا تقدس پامال ہوتا رہا بلکہ ان کے نام نہاد جمہوری رویے ریاستی اداروں کی ساکھ اور معاشرے پر ان کے ثمرات کی فراہمی کے تسلسل کو اساسی طور پر ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا سبب بھی بنتے رہے۔ جن کے حتمی نتیجے کے طور پر ان کی حکومتوں کی برطرفیوں کی ایک داستان رقم ہوتی رہی اور اسی عر صے میں پہلی بار یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ ملک کی سیاسی جماعتوں میں بھی عسکری ونگز بن چکے ہیں۔
جن سے علیحدگی کا سب سے پہلا اعلان اس وقت کی وزیر اعظم محترمہ بینیظیر بھٹو نے الذوالفقار جیسی تنظیم سے اپنی لاتعلقی کے اظہار میں کر دیا لیکن دیگر جماعتیں آج تک ان ونگز سے ''جمہوری'' کام لینے کے باوجود ان سے اپنی لاتعلقی کا اظہار بھی کرتی رہتی ہیں اور ساتھ ساتھ ان کی''پرورش'' میں بھی جتی ہوئی ہیں۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں نائن الیون کے سبب ایک بار پھر افغان جنگ نے ہماری پالیسیوں کو اپنے حصار میں جکڑ لیا۔ اس کے باوجود ان برسوں میں جمہوریت کی مکمل آبیاری کی گئی، لیکن اس کے باوجود ریاستی اداروں کا جو حال جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہوا وہ پاکستانی تاریخ کے بدترین اور سیاہ باب کے طور پر رقم کیا جا چکا ہے۔ جس کے نتیجے میں آرمی کے ریڈ زونز میں بھی دہشتگردی کی وارداتیں ہونے لگیں۔ اس کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کے صدقے پیپلز پارٹی کو ملنے والی منتخب جمہوری حکو مت اور اس کے بعد موجودہ حکومتوں کی کارکردگی بھی سب کے سامنے ہے کہ آج ریاستی اداروں کے افسران اور حکومتی عہدیداران کلرک اور ذاتی سطح کے ملازم جیسی حیثیت میں ''بہنوں کے پرس'' اور ''صاحبوں'' کے دفتری کاغذات کے پلندے اٹھا کر ان کے پیچھے پیچھے چلنے میں مصروف ہیں۔ جیلوں پر حملے کر کے خطرناک مجرموں کو چھڑوا کے ریاستی اداروں کو کھلا چیلنج دیا جانے لگا تھا۔ شہروں میں بوری بند لاشیں ملنے لگیں۔
افسران کو ان ہی کے دفاتر میں زد وکوب کیا جانے لگا، پولیس افسران نجی محفلوں میں سیاسی جماعتوں کے ''بدمعاشوں'' کے آگے گھٹنے ٹیکنے میں کوئی شرمندگی محسو س نہیں کرتے تھے۔ خطرناک دہشتگردوں کے مقدمات پینڈنگ میں چلے گئے۔ ایسی بھیانک صورتحال کو ملک میں سول ریاستی اداروں کے مکمل طور پر ناکام ہو جانے کے خاموش اعلان سے تعبیرکیا جانے لگا۔ اگر ایسی صورتحال میں فوجی عدالتوں کا قیام، آپریشن ضرب عضب اور رینجرز آپریشن عمل میں نہ لائے جاتے تو یہ ''خارجی اور داخلی دہشتگرد'' ملک کے سول اداروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے۔ قابل غور بات کہ ایسی خطرناک صورتحال کا سبب ''جمہوریت کو خطرہ'' بتایا جانے لگا تھا۔
کیونکہ یہ سب علامات مغربی جمہوری بیماری کے حتمی و لازمی نتائج تھے جو پاکستان میں بہت کم عرصے میں ظاہر ہوئے حالانکہ یورپ میں جمہوریت کو اس روپ میں پہنچنے تک کے عرصے میں دو صدیاں لگ گئیں۔ یورپی جمہوریت کی سب سے بڑی مثال فرانس میں ایمرجنسی کا اطلاق ان کے ریاستی اداروں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جو کہ استعماری قوتوں کی جانب سے دیے جانیوالی جمہوریت کا لازمی و حتمی نتیجہ ہے۔