حفیظ ہمارا ہیرو ہے ’’ولن‘‘ نہیں

عامر پر اس وقت وہ مثال ثابت آتی ہے کہ ’’رسی جل گئی مگر بل نہیں گیا

عامر پر اس وقت وہ مثال ثابت آتی ہے کہ ’’رسی جل گئی مگر بل نہیں گیا۔ فوٹو: اے ایف پی

''عامر نے ملک کا نام خراب کیا اس کے ساتھ نہیں کھیل سکتا''

حفیظ نے جب یہ بیان دیا تو ان کے وہم وگمان میں بھی نہ ہو گا کہ بعض حلقے ان کیخلاف طوفان برپا کر دیں گے، کوئی اور ملک ہوتا تو وہاں ایسی سچی بات کرنے والے کو سراہا جاتا مگر ہمارے یہاں تو آوے کاآوا ہی بگڑا ہوا ہے، جو لوگ غلط کاموں میں ملوث رہے وہ اب بھی ہیرو اور جو ملکی مفاد مقدم رکھیں وہ ولن، یہ کلچر کسی صورت درست نہیں ہے۔

عامر نے اسپاٹ فکسنگ سے ملک کا نام خراب کیا، وہ جیل گئے پھر پابندی بھی مکمل کرلی، اب وہ کرکٹ کھیل رہے ہیں اس میں کوئی قباحت نہیں، مگر میں بھی ان لوگوں میں شامل ہوں جو انھیں قومی ٹیم کی نمائندگی کرتا نہیں دیکھنا چاہتے، ماضی میں بھی جب اس حوالے سے اظہار خیال کیا اور ٹی وی پروگرام میں بھی بات کی تو بعض حلقوں نے تنقید کا نشانہ بنایا، مگر میرا پوائنٹ صرف یہ ہے کہ کرکٹرز ملک کے سفیر ہوتے ہیں، انھیں کھیلنے کیلیے بھاری رقم دی جاتی اور جائز طریقے سے بھی کروڑوں روپے کما لیتے ہیں، اس کے باوجود وہ اگر غلط سرگرمیوں میں ملوث ہوں تو انھیں نشان عبرت بنا دینا چاہیے۔

افسوس ہم نے شروع سے ہی عامر کو کم عمری کی وجہ سے رعایت دی،جو لوگ 10روپے چرانے پر ملازم کے ہاتھ پاؤں توڑ دیتے ہیں وہ بھی بڑھ چڑھ کر ان کی حمایت میں بول رہے ہیں،پیسر ڈومیسٹک کرکٹ اور لیگز کھیلیں کوئی مسئلہ نہیں مگر پاکستان کیلیے کھیلتے ہوئے بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا، اس کی پہلی مثال حفیظ کا بیان ہے، انھیں شوکاز نوٹس دینے تک پر غور کیا گیا، اس سے بڑا مذاق کیا ہو گا،کل کو کوئی اور کھلاڑی بھی اٹھ کر کہہ دے گا کہ میں عامر کے ساتھ نہیں کھیلوں گا تو بورڈ کیا کرے گا؟ میں حفیظ کو زیادہ جاننے کا دعویٰ تو نہیں کرتا مگر اتنا اندازہ ضرور ہے کہ وہ اپنے ملک اور کرکٹ کے ساتھ مخلص ہیں، ساتھ ہی ایک حساس طبیعت کے بھی مالک ہیں۔

بعض اوقات ایسا بھی ہوا کہ میں نے 2 ہزار الفاظ کا ایک مضمون لکھا مگر اس کی دو لائنز حفیظ کے خلاف تھیں تو انھوں نے اس کا شکوہ کردیا، ہونا یہ چاہیے تھا کہ بورڈ انھیں بلا کر سمجھاتا مگر الٹا آنکھیں دکھانا شروع کر دیں، بعض دیگر لوگ بھی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر وہ اتنے سچے ہیں تو عامر کیخلاف میچ کیوں کھیلا ، میں ایسے لوگوں سے یہ کہنا چاہوں گا کہ حریف ٹیم پر آپ کا بس نہیں چلتا، اس میں کوئی بھی شامل ہو سکتا ہے۔


حفیظ کا عامر کے ساتھ کھیلنے سے انکار پر اختیار تھا تو انھوں نے ایساکیا،ممکن ہے کل کو بورڈ پیسر کو ٹیم میں شامل کر لے تو وہ سب کچھ بھول کر ساتھ کھیل رہے ہوں،اس پر انھیں برا کہنے کا کیا جواز ہے، بعض لوگ اب الٹا حفیظ کو بے عزت کررہے ہیں کہ عامر نے آؤٹ کر دیا، اس میںکیا بڑی بات ہوگئی، کرکٹ میں اکثر ایسا ہوتا رہتا ہے، کبھی بولر تو کبھی بیٹسمین حاوی ہو جاتا ہے،اس وقت پی سی بی کے بڑے عامر کو قومی ٹیم میں لانے کیلیے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہیں، وجہ ورلڈ ٹوئنٹی 20ہے، تاریخ گواہ ہے کہ ہر میگا ایونٹ سے قبل بدنام زمانہ کھلاڑیوں کی اچانک قومی ٹیم میں واپسی ہو جاتی ہے۔

اس کی وجہ کیا ہے یہ مجھے بتانے کی ضرورت نہیں، عامر پر اس وقت وہ مثال ثابت آتی ہے کہ ''رسی جل گئی مگر بل نہیں گیا'' حفیظ کو آؤٹ کرنے کے بعد انھوں نے ان کی جانب ٹانگ لہرا کر لات مارنے جیسا اشارہ دیا، ایک سابق کپتان کے ساتھ سزا یافتہ کرکٹر کی اس حرکت کو کون درست قرار دے گا؟ اسی طرح مصباح الحق کو آؤٹ کرنے پر بھی انھوں نے عجیب انداز میں خوشی منائی تھی، البتہ شاہد آفریدی کو آؤٹ کر کے ایسے کسی ایڈونچر سے گریز کیا کیونکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ''لالا' 'کو غصہ آیا تو فیلڈ میں ہی حساب برابر ہو جائے گا، عامر کے حمایتی ان کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملائے ہوئے ہیں۔

ان کا بس نہیں چل رہا انھیں فوراً ہی ٹیم میں شامل کرا دیں، پیسرز کی خراب کارکردگی نے کوچ وقار یونس اور چیف سلیکٹر ہارون رشید کو بھی عامر کی واپسی کیلیے کوشش پر مجبور کر دیا، مگر انھیں سوچنا چاہیے کہ ایک کھلاڑی ٹیم کو نہیں جتوا سکتا، اگر ایسا ہوتا تو بنگلہ دیش لیگ میں عامر کی ٹیم سیمی فائنل سے قبل ہی باہر نہ ہوتی، میگا ایونٹ جیتنے کیلیے سچے دل سے کوششوں کی ضرورت ہے جو نہیں کی جا رہیں، آپ کسی کھلاڑی کو ٹیم میں سیٹ نہیں ہونے دے رہے، جو کوچ کو سلام کرنا بھول جائے اسے وہ نشان عبرت بنا دیتے ہیں، ایک سابق کھلاڑی نے مجھے چند برس قبل بتایا کہ فلاں کرکٹر مجھے سخت ناپسند تھا مگر میچ ونر اور ٹیم کیلیے کھیلنے کی وجہ سے میں نے ہمیشہ اس کی صلاحیتوں سے مکمل استفادہ کیا۔

اب معاملہ الٹ ہے، کوچ ٹیم پر ذاتی پسند ناپسند کو ترجیح دیتے ہیں، وہ عامر کو لانے کی بات کر رہے ہیں مگر انھیں تمیز تو سکھائیں کل کو وہ کسی اور کھلاڑی سے لڑ پڑیں گے، ڈومیسٹک میچ میں بھی ایک سابق ٹیسٹ اسٹار سے الجھ بیٹھے تھے جس نے انھیں کسی بات کے جواب میں ''چور'' کہہ دیا تھا، یہ سلسلہ رکنے والا نہیں ہے، کل کو اگر چاہنے والے عامر کو قومی ٹیم میں واپس لے آئے تو حریف ٹیموں کے کھلاڑی بھی انھیں ایسے ہی القابات سے نوازیں گے۔

اس وقت بورڈ کیا کرے گا؟ کیا وہ بھارتی اور آسٹریلوی کرکٹرز کو بھی حفیظ کی طرح شوکاز نوٹس دینے کی دھمکی سے ڈرائے گا؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ عامر کے رویے کو بہتر بنایا جائے، چیئرمین پی سی بی شہریارخان بھی اس حوالے سے پریشان ہیں اور کئی بار برملا اظہار بھی کرچکے،عامر اس وقت بھی بچہ نہیں تھا جب اسپاٹ فکسنگ کی، اب تو وہ اور بڑا ہو چکا، ویسے بھی اگر کوئی '' بچہ'' کسی بڑے سے بدتمیزی کرے تو سرزنش کی جاتی ہے، ورنہ آگے چل کر وہ مزید مسائل کا باعث بنتا ہے، بورڈ پہلے تمام منفی باتوں کو ذہن میں رکھے پھر عامر کی واپسی کا سوچا جائے۔
Load Next Story