بھارتی بورڈ کے پیچھے کشکول لیکر بھاگنے کا پی سی بی کو فائد نہ ہوا
پاکستانی بورڈ نے ڈالرزکے لالچ میں قومی وقارکو ٹھیس پہنچائی مگر اس کے ہاتھ کچھ بھی نہ آیا
بھارتی کرکٹ بورڈ کے پیچھے کشکول لیکر بھاگنے کا پی سی بی کوکوئی فائدہ نہ ہو سکا حسب توقع اس نے سیریز کھیلنے پر حامی نہ بھری، پاکستانی بورڈ نے ڈالرزکے لالچ میں قومی وقارکو ٹھیس پہنچائی مگر اس کے ہاتھ کچھ نہ آیا، شائقین کو اندھیرے میں رکھ کرجھوٹی آس دلائی گئی۔
بھارت ابتدا سے ہی کھیلنے کے حق میں نہ تھا، کبھی سنجیدگی سے پاکستان کو سیریزکے حوالے سے کوئی جواب نہ دیا گیا، ہر بار کرکٹ میں سیاست کو شامل کر کے ملک کا تعلق دہشت گردی سے جوڑا گیا، جون میں میلبورن میں منعقدہ میٹنگ کے دوران بطور چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی نے بگ تھری کی حمایت پرآمادگی ظاہرکردی تھی، وطن واپسی پر انھوں نے ہوائی قلعے بناتے ہوئے دعویٰ کیاتھاکہ آئندہ8 برس میں بھارت سے6 سیریزکا معاہدہ کیا ہے۔
ان میں سے4کی میزبانی پاکستان کوکرنے سے300 ملین ڈالرزکا فائدہ ہوگا،مگر اس غبارے سے6ماہ میں ہی ہوا نکل گئی،اس معاہدے کی بھی خاص قانونی حیثیت دکھائی نہیں دیتی، آئی سی سی ویسے ہی اسے دو بورڈزکا باہمی معاملہ قرار دے کر دامن بچاتی رہی ہے، اس لیے پی سی بی کو خالی ہاتھ ہی رہنا پڑے گا،بھارتی بورڈ نے ہمارے کرکٹ حکام کوکئی بار بے عزت کیا۔
سابق سفارت کار ہونے کے باوجود شہریارخان کو ایک بار کولکتہ ایئرپورٹ پر اہلیہ کے ہمراہ کئی گھنٹے زیر حراست رکھا گیا، پھر وہ جب نجم سیٹھی کے ساتھ ششانک منوہر سے ملاقات کیلیے گئے تب شیوسینا نے بی سی سی آئی ہیڈکوارٹر پردھاوا بول دیا اور کسی آفیشل نے ان سے فون پر بھی حال نہ پوچھا، پی سی بی ڈیڈ لائن پر ڈیڈ لائن دیتا رہا، بھارت نے کوئی مثبت جواب نہ دیا، جب پاکستان نے آئندہ برس بھارت میں شیڈول ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے بائیکاٹ کا عندیہ دیا توبھارتی بورڈ نے اپنا دامن بچانے کیلیے کچھ مثبت باتیں کیں۔
مگر اندر سے اسے پتا تھا کہ اجازت نہیں ملنے والی، تمام معاملے کے بعد اب پی سی بی کے سربراہ شہریار خان اور ایگزیکٹو کمیٹی چیف نجم سیٹھی کے پاس عہدے پر برقرار رکھنے کا کوئی اخلاقی جواز باقی نہیں رہا،حکومت کو بھی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں پاکستانی شرکت کے حوالے سے کوئی سخت فیصلہ کرنا چاہیے، ان دنوں بھارت میں پاکستان مخالف جذبات عروج پر ہیں، اگر ٹیم وہاں گئی تو کھلاڑیوں کی سیکیورٹی پر سنگین خطرات لاحق ہوں گے۔
بھارت ابتدا سے ہی کھیلنے کے حق میں نہ تھا، کبھی سنجیدگی سے پاکستان کو سیریزکے حوالے سے کوئی جواب نہ دیا گیا، ہر بار کرکٹ میں سیاست کو شامل کر کے ملک کا تعلق دہشت گردی سے جوڑا گیا، جون میں میلبورن میں منعقدہ میٹنگ کے دوران بطور چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی نے بگ تھری کی حمایت پرآمادگی ظاہرکردی تھی، وطن واپسی پر انھوں نے ہوائی قلعے بناتے ہوئے دعویٰ کیاتھاکہ آئندہ8 برس میں بھارت سے6 سیریزکا معاہدہ کیا ہے۔
ان میں سے4کی میزبانی پاکستان کوکرنے سے300 ملین ڈالرزکا فائدہ ہوگا،مگر اس غبارے سے6ماہ میں ہی ہوا نکل گئی،اس معاہدے کی بھی خاص قانونی حیثیت دکھائی نہیں دیتی، آئی سی سی ویسے ہی اسے دو بورڈزکا باہمی معاملہ قرار دے کر دامن بچاتی رہی ہے، اس لیے پی سی بی کو خالی ہاتھ ہی رہنا پڑے گا،بھارتی بورڈ نے ہمارے کرکٹ حکام کوکئی بار بے عزت کیا۔
سابق سفارت کار ہونے کے باوجود شہریارخان کو ایک بار کولکتہ ایئرپورٹ پر اہلیہ کے ہمراہ کئی گھنٹے زیر حراست رکھا گیا، پھر وہ جب نجم سیٹھی کے ساتھ ششانک منوہر سے ملاقات کیلیے گئے تب شیوسینا نے بی سی سی آئی ہیڈکوارٹر پردھاوا بول دیا اور کسی آفیشل نے ان سے فون پر بھی حال نہ پوچھا، پی سی بی ڈیڈ لائن پر ڈیڈ لائن دیتا رہا، بھارت نے کوئی مثبت جواب نہ دیا، جب پاکستان نے آئندہ برس بھارت میں شیڈول ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے بائیکاٹ کا عندیہ دیا توبھارتی بورڈ نے اپنا دامن بچانے کیلیے کچھ مثبت باتیں کیں۔
مگر اندر سے اسے پتا تھا کہ اجازت نہیں ملنے والی، تمام معاملے کے بعد اب پی سی بی کے سربراہ شہریار خان اور ایگزیکٹو کمیٹی چیف نجم سیٹھی کے پاس عہدے پر برقرار رکھنے کا کوئی اخلاقی جواز باقی نہیں رہا،حکومت کو بھی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں پاکستانی شرکت کے حوالے سے کوئی سخت فیصلہ کرنا چاہیے، ان دنوں بھارت میں پاکستان مخالف جذبات عروج پر ہیں، اگر ٹیم وہاں گئی تو کھلاڑیوں کی سیکیورٹی پر سنگین خطرات لاحق ہوں گے۔