کراچی میں بدامنی چیف سیکریٹری سندھ ممبر ریونیو بورڈ اور ڈائریکٹر لینڈ کو توہین عدالت کا نوٹس جاری

92 کے آپریشن حصہ لینے والے254افسران واہلکارمارے گئے،239کے ورثاکومعاوضہ دیدیا،وسیم احمد


Staff Reporter October 26, 2012
کراچی20لاکھ غیرقانونی تارکین وطن کابوجھ کیسے برداشت کرسکتاہے؟تارکین وطن سے متعلق پالیسی اورپے رول پررہاقیدیوںکاریکارڈ طلب،سماعت 31 اکتوبرتک ملتوی۔ فوٹو: راشد اجمیری/فائل

سپریم کورٹ آف پاکستان نے چیف سیکریٹری سندھ،سینئرممبربورڈآف ریونیو،اور ڈائریکٹر لینڈ اینڈسیٹلمنٹ سروے کوتوہین عدالت کے الزام میں اظہاروجوہ کانوٹس جاری کردیاہے۔

فاضل بینچ نے وفاقی و صوبائی حکومتوں سے تارکین وطن کے متعلق پالیسی طلب کرلی،حکومت سندھ نے اعتراف کیاکہ کراچی میں تارکین وطن کی بستیوںکی بستیاں آبادہیں تاہم ان کے بارے میں کوئی واضح پالیسی نہیں،جسٹس انورظہیرجمالی کی سربراہی میں جسٹس خلجی عارف حسین،جسٹس سرمدجلال عثمانی، جسٹس امیرہانی مسلم اورجسٹس گلزاراحمدپرمشتمل5رکنی لارجربینچ نے کراچی آپریشن میں حصہ لینے والے ان پولیس اہلکاروں کے بارے میں بھی رپورٹ طلب کی ہے جودہشتگردی کانشانہ بنے لیکن ان کے ورثا کومعاوضہ ادانہیں کیا گیا ،فاضل بینچ نے پے رول پررہاقیدیوںکاریکارڈبھی طلب کر لیاہے۔

فاضل بینچ نے جمعرات کوکراچی بدامنی کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پرعملدرآمدکے متعلق سماعت کرتے ہوئے اپنے ریمارکس میںکہاکہ کسی کواجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ غیر قانونی طور پرہماری سرحدیں پار کرکے ہمارے ملک آئے،روزگار حاصل کرے اورپھرقتل وغارتگری کرے، دنیا کاکوئی ایساملک نہیں جس کا بھگوڑاکراچی میں موجودنہ ہولگتا ہے کہ حکومت کی پالیسی تارکین وطن کے لیے بھی ایسے ہی ہے جیسا کہ وقتاًفوقتاًکالادھن سفیدکرنے سے متعلق پالیسیاں آتی رہتی ہیں۔جسٹس انورظہیرجمالی نے کہاکہ پاکستان بالخصوص کراچی پہلے آبادی کی زیادتی کاشکارہے یہاں 20لاکھ غیرقانونی تارکین وطن کابوجھ کیسے برداشت کیاجاسکتاہے ۔

ایڈیشنل چیف سیکریٹری ہوم وسیم احمدنے یہ کہہ کرکمرہ عدالت میں موجودہرشخص کوحیرت زدہ کردیاکہ72ء کے لسانی فسادات ، 85 میں بشری زیدی کی ہلاکت کے بعدہونیوالے فسادات سمیت1997سے پہلے ہونیوالی کسی جوڈیشل انکوائری کاریکارڈ محکمہ داخلہ کے پاس نہیں۔جسٹس انور ظہیر جمالی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ حکومت کامفاد اسی میں ہے کہ زمینوں پرقبضے ہوتے رہیں، عدالت کے استفسار پر ایڈووکیٹ جنرل نے بتایاکہ کراچی میں 20لاکھ غیرملکی مقیم ہیں،اس حوالے سے نادراکے حکام نے بتایاہے کہ انھیں غیرملکیوں کو رجسٹرڈ کرنیکی اجازت نہیں دی گئی۔آئی جی سندھ فیاض لغاری نے بتایا کہ اس حوالے سے نادراحکام سے ساتھ کئی اجلاس منعقدہوئے ہیں اور یہ طے شدہ پالیسی ہے کہ نیشنل ایلین رجسٹریشن اتھارٹی(نارا)اسپیشل برانچ کی مدد سے مختلف علاقوں کا سروے کرکے تارکین وطن کو رجسٹرڈ کرے۔

جسٹس انور ظہیرجمالی نے پولیس کی رپورٹ پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیاکہ اب تک20لاکھ میں سے صرف 2236غیرملکیوں کی شناخت کرکے انھیں رجسٹرڈ کیا گیا ہے ، کراچی کے مضافات میں آئے ہوئے لاکھوں تارکین وطن بیٹھے ہیں،جنھوں نے پلازہ تعمیر کرلیے اور کاروبار چلارہے ہیں،انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔عدالت نے اپنے فیصلے میں نشاندہی کردی تھی مگر اب تک کوئی واضح پالیسی نہیں بنائی گئی،کیا ان کیلیے بھی کالے دھن کو سفید کرنیوالی پالیسی اپنائی جائیگی ۔

چیف سیکریٹری راجہ عباس نے عدالت کے استفسار پر بتایا کہ غیرملکیوں کی رجسٹریشن کے حوالے سے نارا کام کررہا ہے ،جسٹس خلجی عارف حسین نے ریمارکس میں کہا کہ غیرملکیوں کو کیسے اجازت دے دی جائے کہ وہ سرحدپارکرکے یہاں آئیں اور لوگوں کو قتل کریں ،جسٹس انور ظہیرجمالی نے کہا کہ بدامنی کی اہم وجہ غیر قانونی تارکین وطن بھی ہیں،یہاں رہنے والوں کے اہل خانہ بھی ہیں انہیں سب کا خیال ہوتا ہے مگر غیر ملکی کا یہاں کوئی نہیں اسلیے وہ واردات کرتے ہوئے کسی کا نہیں سوچتا،تاجکستان،ازبکستان اور برما جیسے ممالک سے آکر یہاں رہ رہے ہیں اور کوئی پوچھنے والانہیں۔عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کوہدایت کی کہ تارکین وطن کے حوالے سے وفاقی حکومت کی پالیسی پیش کی جائے،عدالت کے حکم پر ریونیو بورڈ اورکے ایم سی کی جانب سے کراچی کے اختیاراتی تقسیم کے حوالے سے نقشہ پیش کیا گیا۔

عدالت کو بتایا گیا کہ کمپیوٹرائزیشن سہولت کے ذریعے اراضی کے مالکان کو رجسٹرڈ کیا جارہا ہے،جس پر جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ اس طرح تو نیا پنڈورابکس کھل جائے گا،نئے مالکان پیدا کرنیکی کوشش کی جارہی ہے،کراچی میں زمینوں کے اندراج جعلی ہیں ،ایک ایک انچ پر قبضے کا مقدمہ چل رہا ہے،کھاتوں میں ایک بھی اصل مالک کااندراج نہیں، بینچ کو بتایا گیا کہ کراچی کے پانچ اضلاع ہیں اور انہیں 20 ٹائونزمیں تقسیم کیا گیا ہے۔فاضل بینچ نے استفسار کیا کہ سندھ ہائیکورٹ نے 2005 میں سرکاری زمینوں کا سروے کرانے کی ہدایت کی تھی اس فیصلے پر کتنا عمل درآمد ہوا، ممبر بورڈ آف ریونیو شہادت شمعون نے عدالت کو بتایا کہ سروے میں6ماہ لگ سکتے ہیں ،جسٹس امیرہانی مسلم نے ریمارکس میں کہا کہ 4 افسروں کو جیل بھیج دیا جائے تو ایک دن میں سروے کرلیا جائے گا۔

لارجر بینچ نے عدالتی حکم پر عمل درآمد نہ کرنے پر چیف سیکریٹری، سینئر ممبربورڈآف ریونیو اور ڈائریکٹر لینڈ انڈ سیٹلمنٹ کوتوہین عدالت کے الزام میں اظہار وجوہ کے نوٹس جارتے ہوئے 31 اکتوبر کوجواب طلب کرلیا،ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم وسیم احمد نے بینچ کو بتایا کہ کراچی آپریشن میں حصہ لینے والے 254 افسران و اہلکاردہشت گردی کا نشانہ بنے ، ان میں سے 239 کے ورثاکومعاوضے کی ادائیگی کردی گئی ، تاہم 8 کوپولیس کی کمیٹی نے شہید قرار نہیںدیااور تین ملازمت سے فارغ ہو چکے تھے۔

سرمدجلال عثمانی نے استفسارکیاکہ300سے زائد ملزمان کوپے رول پررہاکردیاگیاہے اس کی تفصیلات پیش کی جائیں کہ انہیںکیوں رہاکیاگیاہے۔ آئی جی سندھ فیاض لغاری نے عدالت کوبتایا کہ جرائم پر قابو پانے کیلیے پولیس میں تین خصوصی سیل قائم کیے گئے ہیں ۔فاضل بینچ نے مزیدسماعت عید کی تعطیلات کے بعد30اکتوبرکیلیے ملتوی کی تاہم ایڈووکیٹ جنرل سندھ عبدالفتاح ملک نے بینچ کو بتایا کہ 30اکتوبر کو انہیں ذاتی کام ہے اس لیے سماعت 31 اکتوبر تک ملتوی کی جائے ،بینچ نے ان کی درخواست منظورکرتے ہوئے سماعت31جولائی کیلیے ملتوی کردی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں