صدارتی امیدوار ٹرمپ کی ٹرائمف ممکن نہیں

ان کی عدم موجودگی میں میڈیا کو گھر میں جانے کی اجازت ملی اور تمام شواہد اکٹھے کیے گئے


Anis Baqar December 11, 2015
[email protected]

ISLAMABAD: سچ ہے سیاست دانوں کا کوئی دھرم نہیں ہوتا، چاہے وہ فیض آباد میں ایودھیا کی بابری مسجد کا معاملہ ہو یا امریکا کے شہر کیلیفورنیا کا وحشیانہ قتل، جس کے مرتکب مبینہ طور پر رضوان فاروق، تاشفین ملک ہوئے، اول تو یہ ڈرامہ عجیب و غریب ہے کہ یہ دونوں اپنے چھ ماہ کے بچے کو نانی کے سپرد کر کے خونی ڈرامے میں ایک کھلی جگہ پر حملہ آور ہوئے، جس میں 14 افراد ہلاک اور 17 زخمی ہوئے۔

ان کی عدم موجودگی میں میڈیا کو گھر میں جانے کی اجازت ملی اور تمام شواہد اکٹھے کیے گئے، مگر عجیب بات یہ ہے کہ لیپ ٹاپ کی ہارڈ ڈسک نکال لی گئی۔ بقول تمام شواہد اکٹھا کرنے والوں کے بیانات کے سب نے یہی کہا لیکن لیپ ٹاپ کی ڈسک عام آدمی کا بس نہیں جو نکال لے۔ پھر اتنا سمجھدار میاں بیوی کا دماغ اگر ہے تو پھر گھر میں تصویریں کیونکر پہلے سے ضایع نہ کی گئیں۔

لگتا ہے کہ اب معاملات کوئی سیاسی شکل اختیار کرنے کو ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے مدمقابل اب دوبارہ بعض سیاسی حلقے خصوصاً امریکا کا انتظامی ڈھانچہ ری پبلکن کو عروج پر لانا چاہتا ہے کیونکہ ری پبلکن کے امیدوار جن کا نام نامی ٹرمپ ہے یعنی ترپ کا پتہ، انھوں نے اس ایک واقعہ قتل کو ایک مذہبی جنونی نام سے منسلک کر دیا اور اس ہوشیاری سے یہ کام کیا گیا کہ دو ہفتہ قبل جو شکاگو میں ایک سیاہ فام نوجوان کا پولیس کے ہاتھوں بہیمانہ قتل ہوا تھا اس کا رخ ہی موڑ دیا گیا۔

شکاگو جو زبردست سفید اور سیاہ نسل کے لوگوں کا ایک اتحاد بنا تھا، اس میں دراڑ ڈال دی گئی اور ری پبلکن پارٹی کو ایک موضوع گفتگو مل گیا۔ گویا ٹرمپ کو ٹرائمف میں تبدیل کرنے کی ٹھان لی، یہ وہی چابکدستی ہے جس کو بھارتیا جنتا پارٹی اور بھارتیا ہندو پریشد نے سیاست چمکانے کے لیے فیض آباد کے مقام اجودھیا یوپی میں ایک معرکہ تیار کیا اور تاریخ کے صفحات کو قتل گاہ کی جانب لے گئے۔

اس جگہ کو ان لوگوں نے رام مندر کا خطاب دیا اور کہا کہ یہ بابری مسجد 15 ویں صدی ہجری میں بابر نے جو مندر تھا اس کو مسجد میں تبدیل کر دیا، بہرصورت 1853ء میں انگریز دور حکومت نے اس کا تصفیہ یوں کیا کہ 1853ء میں اس جگہ کو دو حصوں میں تبدیل کر دیا گیا ایک جگہ بابری مسجد اور دوسری جگہ رام مندر، یہ گیٹ 1948ء تک بند رہا۔ رام مندر کا مسئلہ اٹھا کر بھارتیا جنتا پارٹی نے 6 دسمبر 1992ء کو مسجد پر حملہ کر کے اپنی ایک نظریاتی اساس بنا لی اور پھر آج وہ پورے بھارت پر حکمران ہے۔ مذہب اور نسل پرستی کو اگر انسان چاہے تو بڑھا دے اور افہام و تفہیم کو ہٹا کر ایک زبردست عفریت کی شکل دے سکتا ہے۔

بعض اوقات نسل پرستی مذہبی انتہا پسندی کے مقابلے میں زیادہ ہیبت ناک ہو سکتی ہے، یعنی اس کا دائرہ تنگ ہو سکتا ہے، چونکہ مختلف رنگ و نسل کے لوگ ایک مذہب سے تعلق رکھ سکتے ہیں، جب کہ نسل پرستی میں تنگ نظری زیادہ ہو جاتی ہے، بھارت میں ہندو انتہاپسندوں نے ہندوؤں کے ہزاروں سال پرانے جذبات کو ابھار کر بھارت کو مذہبی تنگ نظری کے سپرد کر دیا، جس ملک کو گاندھی اور نہرو نے سیکولر بنا کر دنیا میں اپنی عالمگیریت کا لوہا منوایا اور بھارت سے جنوبی افریقہ تک آزادی کا جادو جگایا تھا اس کی دستوری حیثیت تو ختم نہ کر سکے مگر عملاً بھارت کو ایک مذہبی ریاست کی شکل دے دی۔

جس کی وجہ سے سفارتی محاذ پر بھارت کو شدید مشکلات درپیش ہیں، جس کی وجہ سے بھارت اسرائیل کے قریب ترین دوستوں میں سے ایک ہو گیا اور پچھلے دنوں روس نے بھارت جانے والے یاتریوں اور ٹورسٹوں کے لیے ایک خطرناک ملک قرار دے دیا، نتیجہ یہ ہوا کہ بھارت کے لیڈروں کو مذہبی انتہاپسندی کا لیبل لگا کر پھرنا پڑ رہا ہے۔

بالکل مذہبی انتہا پسندی نہ سہی امریکا کے صدارتی امیدوار ٹرمپ نے ایک جنونی اور تنگ نظری کا بیان دے مارا کہ امریکا میں مسلمانوں کو سفری ویزے بند کر دیے جائیں، یہ عمل بظاہر بھارت کے مذہبی انتہا پسندوں کے لیے بڑی تشفی کا باعث ہے مگر جدید دنیا بلکہ اس گلوبل ولیج میں ایک نہایت تنگ نظری کا بیان ہے اور یہ کم پڑھے لکھے امریکی جو ابھی بھی بلیک اینڈ وائٹ کی کشمکش میں پھنسے ہوئے تھے ایک مسلمان محاذ کھول دیا۔ درحقیقت بنیاد پرست اور کٹرپنتھی عیسائی جن کے یہودیوں سے اچھے تعلقات ہیں وہ امریکا سے مسلمانوں کو بھگانا چاہتے ہیں، کیونکہ امریکا میں پاکستانی ڈاکٹروں کی کافی اہمیت ہے۔

ان کے معاشی حالات اچھے ہیں، یہاں تک کہ اکثریت اپنے اسپتال چلا رہی ہے۔ ایسی تحریک ایک دن میں تو کامیاب نہیں ہوتی، بھارت میں 1980ء کی تحریک نے 6 دسمبر 1992ء میں بابری مسجد پر حملے کی قوت پائی، گویا بارہ برس تک چلنے والی تحریک نے آخرکار حملے کی صلاحیت پیدا کی۔ اب رہ گیا حملے کی صلاحیت اور مسلمانوں کی ملکیت کو آگ لگانے اور ان کی مساجد کو تاراج کرنے کی صلاحیت تو ٹرمپ میں فوراً پیدا نہ ہوئی مگر ٹرمپ یہ کارڈ کھیلنے کی کوشش ضرور کرے گا کیونکہ اس کے نعرے کا منطقی انجام اسی راستے کو جاتا ہے۔ مگر امریکا کی سیکولر جمہوریت جو ابراہم لنکن کی بنائی ہوئی ہے اتنی کمزور نہیں کہ ایک نعرہ زن اس کو توڑ پھوڑ دے۔

البتہ سستی شہرت کے لیے یہ نعرہ لگانا آسان ہے۔ ابھی تو صدر امریکا بارک حسین اوباما پر خود نام اور بعض کاموں کے اعتبار سے مسلمان کی چھاپ ہے، ان کی جوانی کے کئی برس پاکستان میں گزرے ہیں اور سندھ کی تہذیب کی چھاپ ان پر ہے، جو رواداری اور شدت پسندی کو برا تصور کرتے ہیں۔ شدت پسندی خواہ مسلمان کی ہو یا شدت پسندی امریکا کے کسی حلقے کی، وہ کہلائے گی شدت پسندی، لہٰذا یہ نعرہ تھوڑے عرصے کے لیے تو کسی حد تک مقبول ہو گا مگر یہ بھارت نہیں ہے کہ وہاں کا ایک لیڈر جو ماضی میں کئی ملکوں میں ناپسندیدہ تھا وہ وزیر اعظم بن کر ماضی کی روایات کی بنیاد پر اور دستور کی وجہ سے پشیمانی کے داغ نہ دھو سکیں گے، مگر اب خود بھارتی وزیر اعظم اپنے دامن پر لگے داغ دھونے کے لیے کوشاں ہیں۔

مگر امریکا خانہ جنگی سے گزر چکا ہے، مسٹر ٹرمپ نے جو شوشہ چھوڑا ہے جلد وہ اس کا شکار ہو جائیں گے اور جسٹس ڈپارٹمنٹ خود ان کی جلد تنبیہہ کرے گا یا عوام جلد ان کے حصار کو توڑ دیں گے۔ ابھی لوگ رجیم چینج یعنی دنیا کے خودمختار ملکوں پر حملہ کر کے وہاں دہشت گردی کی آگ لگائی جائے، اس کی وجہ سے آج یورپ خود مشکلات کا شکار ہے۔

مہاجرین لاکھوں کی تعداد میں یورپ جا رہے ہیں، خود ٹونی بلیئر اپنی غلطی کا اعتراف کر چکے ہیں، لہٰذا ٹرمپ اگر خود کو ترپ کا پتا سمجھ رہے ہیں تو یہ ان کی ناسمجھی ہے۔ ایسے میں انگریزی کی ایک مثل یاد آ رہی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ کومن سینس ایک ایسا رویہ ہے جو عام نہیں Common Sense is a Sense which is Most Uncommon. اگر یہ تحریک آگے چلی تو پھر اس کے نقصانات انھیں اٹھانے پڑیں گے کیونکہ دنیا یونی پولر نہیں رہی، روس ہر روز خلائی جنگ کی باتیں کر رہا ہے، غیر ملکی حکومت بدلنا آسان نہیں رہا اور اگر وہ ٹرمپ کو ٹرائمف (فتح) سمجھ رہے ہیں تو یہ ان کی نادانی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں