خورد و برد یعنی کرپشن کا فن شریف

کہتے ہیں کہ امریکا کی دو بیمہ کمپنیوں کے ایجنٹ آپس میں بحثا بحثی کر رہے تھے


Saad Ulllah Jaan Baraq December 11, 2015
[email protected]

کہتے ہیں کہ امریکا کی دو بیمہ کمپنیوں کے ایجنٹ آپس میں بحثا بحثی کر رہے تھے۔ ایک نے کہا کہ میری کمپنی کلیم ادا کرنے میں اتنی مستعد ہے کہ کلائنٹ کی ابھی تدفین بھی نہیں ہو چکی ہوتی ہے کہ ہماری کمپنی کلیم کا چیک پہنچا دیتی ہے۔

دوسرے نے کہا یہ بھی کوئی بات ہے میری کمپنی پتہ ہے گزشتہ دنوں ہمارے ایک کلائنٹ پچاس منزلہ عمارت سے گرا تو دوسری منزل پر ہماری کمپنی نے اسے اپنی کھڑکی تک پہنچتے پہنچتے اس کا چیک تیار کر دیا تھا اور جب وہ گرتے ہوئے ہماری کھڑکی سے گزرنے لگا تو کلیم کا چیک اس کے ہاتھ میں پکڑا دیا گیا۔ یہ بات ہمیں اس خبر پر یاد آئی کہ زلزلہ زدگان کے امدادی سامان میں خورد برد کا انکشاف، اب مزید تفصیل بتانے کی کیا ضرورت ہے کیونکہ خورد برد بجائے خود ایک کھلی کتاب ہے۔

زلزلہ کے آفٹر شاک ابھی جاری ہیں تو ظاہر ہے کہ اسے بھی ایک طرح کا آفٹر شاک سمجھا جا سکتا ہے لیکن تکنیکی لحاظ سے آفٹر شاک سے ''بیفور شاک'' کہنا زیادہ مناسب ہو گا کیوں کہ ہمارے ماہرین خورد برد اس امریکی بیمہ کمپنی سے بھی تیز نکلے، اس خورد برد بلکہ خورد برد پر ایک حقیقہ یاد آیا، ہمارے پاس ایک افغان مہاجر کام کرتا تھا جو ریڈیو اور ٹی وی کی خبروں کا رسیا تھا۔ اس زمانے میں نواز شریف کی پہلی وزارت عظمیٰ تھی اور خبروں میں اکثر خورد برد کی باتیں ہوتی تھیں۔

وہ افغان مہاجر اردو تو زیادہ نہیں سمجھتا تھا لیکن خورد برد کے معنی جانتا تھا کیونکہ یہ فارسی کا لفظ ہے اور دوسرا اس کا تعلق ایک ایسے علاقے سے تھا جہاں شادی کے موقع پر گوشت نہ صرف وسیع پیمانے پر کھلانے کا رواج تھا بلکہ کھانے کے بعد ایک بڑی سی بوٹی گھر لے جانے کے لیے بھی دی جاتی تھی۔ لیکن بعض شادیاں ایسی بھی ہوتی تھیں کہ جن میں پکا ہوا گوشت تو کھلا دیا جاتا تھا لیکن کچے گوشت کی بوٹی نہیں دی جاتی۔

اس سے بھی کمزور لوگ صرف چاول کھلاتے تھے، چنانچہ جب وہ کسی شادی کا ذکر کرتے تھے تو کہتے بھئی کیا بات ہے کیا خرد تھا ساتھ برد بھی چھوٹی ہوتی تو کہتے ''خورد'' تو اچھا تھا لیکن ''برد'' کمزور تھا یا خورد تھا لیکن برد نہیں تھا اور جس شادی میں کچھ بھی نہ ہوتا تو کہتے چھوڑو یار نہ خورد ہے نہ برد، ایسی شادی میں جانے کا کیا فائدہ، خبروں میں ''خورد برد'' کے الفاظ اس افغان مہاجر کو بہت اچھے لگتے تھے جب بھی ''خورد برد'' کی خبر آتی اپنی ران پیٹ کر کہتا واہ خورد بھی اور برد بھی۔

وہ سمجھتا تھا کہ یہ کسی سرکاری شادی کا ذکر ہے جانتا تھا کہ سرکاری شادی میں نہیں بلکہ ''سرکاری غمی'' میں خورد برد کی بات ہو رہی ہے پھر وہ آہستہ آہستہ کچھ کچھ سمجھنے لگا تو کہتا یار تمہارا بڑا اچھا ملک ہے کہ یہاں خورد بھی ہے اور برد بھی پھر ہم نے اس کی چڑ بنا لی پوچھتے بھئی آغا جان خورد برد پسند ہے، کہتا ایسا خورد کروں گا اور ایسا برد کروں گا کہ عورتیں تندوروں پر اس کا ذکر کریں گی کبھی کبھی موڈ میں ہوتا تو کہتا تم لوگ بڑے ناشکرے ہو اتنی اچھی حکومت ملی ہے اتنا اچھا ملک ہے کہ جتنا چاہے خورد کرو جتنا چاہے برد کرو ہم تو وہاں خورد برد دونوں کو ترس جاتے ہیں، اس بے چارے کو پتہ نہیں تھا کہ ''ایں سعادت خورد برد'' ہمیں ''زور بازو'' سے ملی ہے وہ جو کسی نے کہا ہے کہ

برسماع راست ہر کس چیر نیست
طعمۂ ہر مرغکے انجیر نیست

یہ ہم آج جو ''خورد برد'' کے اعلیٰ مقام پر کھڑے ہیں یہ رتبہ بلند ہمیں آسانی سے نہیں ملا ہے اس کے پیچھے کم از کم ستر سالوں کی محنت اور ذہنی کاؤشوں کا ایک سلسلہ ہے۔ گونا گوں یہ حکومتوں کی ''محنت شاقہ'' ہے اور بے شمار لیڈروں کی ''جہد مسلسل'' ہے ورنہ ہم کہاں اور خورد برد کا یہ اعلیٰ مقام اللہ اللہ، بے چاری نرگس ہزاروں سال اپنی ''بے خوردی و بردی'' پر روتی رہی ہے تب کہیں جا کر اس چمن میں ''دیدہ ور'' پیدا ہوئے ہیں۔ آج اگر چار دانگ عالم میں ہمارے ''خورد برد'' کے چرچے ہیں تو اس ٹائٹل کے حاصل کرنے میں ہم نے نہ جانے کتنا خون پسینہ بہایا ہے اس لیے اب

لخت جگر سے ہے رگ ہر خار شاخ گل
تاچند باغبانی صحرا کرے کوئی

ایک زمانہ تھا جب ہمارے بزرگوں کو کچھ بھی نہیں آتا تھا صرف کام کرتے تھے اور دیانت داری کی سزا پاتے تھے پھر ہم نے اپنے لیے یہ الگ ''خورد برد فارم'' بنایا، خورد برد کی ہیچریاں اور نرسریاں لگائیں اور یہ تو آپ نے سنا ہی ہو گا کہ ہمت کرے انسان تو کیا نہیں ہوتا، اور اب ''خورد برد'' کے اس اعلیٰ مقام پر ہیں کہ زلزلہ سیلاب اور دوسری آفات سماوی و ارضی و سیاسی ابھی پردہ غیب میں ہوتی ہیں کہ ہم اپنے ''خورد برد'' کا سلسلہ چلا دیتے ہیں۔

ایسے لگتا ہے کہ جیسے اہل خورد برد کو پہلے ہی سے پتہ ہوتا ہے کہ خورد برد کی فکر کر ناداں مصیب آنے والی ہے، ہو سکتا ہے کہ حکومتوں کے پاس محکمہ موسمیات کی طرح کوئی خفیہ محکمہ آفات بھی ہو، چنانچہ چھینکا ٹوٹنے سے پہلے ہی ''بلیاں'' صحیح صحیح مقامات پر گھات لگا کر بیٹھ جاتی ہیں تقرر و تبادلوں کے ''تار'' کھنیچ کر خاص خاص مقامات پر خاص خاص ماہرین خورد برد بٹھا دیے جاتے ہیں جیسے کہ زلزلہ سے پہلے لوکل گورنمنٹ کے ذریعے جدی پشتی ماہرین کو کمین گاہوں میں بٹھا دیا گیا تھا اور جیسے ہی زلزلے کا پہلا جھٹکا لگا وہ متحرک ہوئے، خورد برد کی فیکٹری چل پڑی جو اب نہ جانے کہاں کہاں کتنا کتنا عرصہ چلتی رہے گی اور ''مال'' تیار کرتی رہے گی

اک تم کہ تم کو فکر نشیب و فراز ہے
اک ہم کہ چل پڑے تو بہرحال چل پڑے

لیکن ستر سال پہلے تو اس فن کو باقاعدہ سیاسی نصاب میں شامل کیا گیا تمام سیاسی پارٹیوں میں جو اس کے لیے یونیورسٹیوں کا درجہ رکھتی ہیں اسے لازمی مضمون کے طور پر مروج کیا گیا پوزیشن حاصل کرنے والوں کے لیے وزارتوں سفارتوں اور امارتوں کے ایوارڈ رکھے گئے سرکاری محکموں کو پابند کیا گیا کہ ان کی پہلی ترجیح یہی فن شریف ہونا چاہیے، بہرحال اس افغانی مہاجر کے ساتھ ساتھ اگر کوئی دوسرا بھی اس بات میں ہماری مہارت اور اس ملک میں اس کے ''مواقع'' پر رشک کرتا ہے تو اسے سوچنا چاہیے کہ

ہر مدعی کے واسطے دارو رسن کہاں؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں