لیہتاشفین اورکیلفورنیا

تاشفین اوران کے خاوندسیدرضوان نے کیلفورنیا کے قصبے سین برناڈینو(San Bernardino)میں جو قتلِ عام کیاہے

raomanzarhayat@gmail.com

تاشفین اوران کے خاوندسیدرضوان نے کیلفورنیا کے قصبے سین برناڈینو(San Bernardino)میں جو قتلِ عام کیاہے،مجھے اس پرکسی قسم کی کوئی حیرت نہیں ہوئی۔علم میں ہے کہ کچھ لوگ غیرمسلموں کومارناجہاداورثواب کاحصہ سمجھتے ہیں۔تیس برس سے پاکستانی قوم کوتشدداورانتہاپسندی کاوہ شربت پلادیاگیاہے کہ اکثرلوگ معقولیت اوردلیل پربحث کرنے کی طاقت سے محروم ہوچکے ہیں۔

مجموعی غلط فہمیاں اس حدتک ہیں کہ کئی بارسوچتے ہوئے بھی خوف محسوس ہوتاہے۔اسلامی دنیامیں بھی ہمارے متعلق بہت سے سوالیہ نشان ہیں۔اکثرمنفی طرزکے۔مجھے تو لاہور جیسے شہرمیں ہزاروں سیدرضوان اور ان کی اہلیہ تاشفین جیسی سوچ رکھنے والے انسان نظرآتے ہیں۔

امریکا میں ایف بی آئے(F.B.I)اورتمام سرکاری تفتیشی ادارے اس بات پرغورکررہے ہیں کہ چودہ بے قصور انسانوں کوقتل کرنے کی کیاوجہ ہے۔تاشفین جب لیہ سے سعودی عرب گئی تواس کے خیالات کیاتھے۔اس بارے میں کوئی مستندرائے موجودنہیں ہے۔لیکن جب واپس پڑھنے کے لیے ملتان آئی تو مکمل طورپرایک مضبوط رویہ کی حامل ہوچکی تھی۔بی فارمیسی میں سالوں تعلیم لینے کے باوجودیونیورسٹی کے کسی طالبعلم نے اس کی شکل نہیں دیکھی۔نقاب میں ملبوس رہتی تھی۔

ہوسٹل کے وارڈن سے لڑکیوں کے طرزِعمل کی شکایت کی۔ جواب نہ ملنے پر والدین نے علیحدہ رہائش کابندوبست کر دیا۔ یونیورسٹی کے ایام کے بعدایک ادارے سے وابستہ ہوگئی۔ اس کاعمل طرزِ عمل سخت سے سخت ترہوتاگیا۔میرے ذہن میں اس تنظیم یاادارے کے متعلق بھی سوالات ہیں۔پارلیمنٹ میں اس طرح کی تمام تنظیموں کے کردار پر ہرحوالے سے بات ہونی چاہیے۔کیایہ بنیادپرستی اورفرقہ واریت کومزیدبڑھاواتونہیں دے رہیں؟

بہرحال تاشفین تعلیم نہ مکمل کرپائی۔انٹرنیٹ کی ڈیٹنگ سروس پراس کی ملاقات سیدرضوان سے ہوئی جو امریکا میں پلابڑھااورایک سیدھاسادہ سانوجوان تھا۔شادی ہوئی، اور وہ اسلام آبادسے ویزہ لے کرامریکا چلی گئی۔ رضوان ایک مذہبی ذہن کاحامل تھا۔دنیاکے ہرملک میں لوگوں کو اپنے مذہبی رویوں کے مطابق زندگی گزارنے کاحق حاصل ہے۔چنانچہ اس جوڑے کوبھی یہ حق حاصل تھا۔ معلوم ہوتاہے کہ تاشفین نے اپنے خاوندکوانتہا پسندی کی طرف راغب کیاتھا۔

ان دونوں نے بینک سے قرضہ لے کرہتھیار خریدے جوبقول امریکی تحقیقی اداروں کے ان کے گھرسے برامد ہوئے۔ جوڑے نے جن لوگوں کوقتل کیا،انکاجائزہ لینا ضروری ہے۔میں نے کسی بھی پاکستانی جریدے یااخبارمیں مقتولین کی تفصیل نہیں پڑھی۔یہ میں آپکے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ صرف اس لیے کہ آپ کومعلوم ہوسکے کہ بے گناہ مرنے والے کون تھے اور انھیںزندگی سے محروم کرنا کتنا غیر انسانی فعل تھا۔

سیرہ کلے بورن(Sierra Clay Born)کی عمر ستائیس برس تھی۔زندگی سے بھرپورلڑکی۔2010ء میں اس نے یو۔سی ریورسائڈ(UC Riverside)سے گریجویشن کی تھی۔سیرہ کو سین برناڈنیوکاؤنٹی میں ماحولیات کے شعبہ میںسرکاری نوکری ملی تھی۔ اس کی زندگی کی پہلی نوکری تھی۔

نوجوان لڑکی اپنے کام سے بے انتہاخوش تھی۔اپنی فیس بک پر لکھاہواتھاکہ اپنے کام سے عشق کرتی تھی۔یہ بھی لکھ رکھا تھا کہ وہ"خداکی شکرگزارہے کہ زندگی کو بھرپورطریقے سے گزارنے کاموقع دیا"۔ہروقت مسکراتی رہتی تھی۔اپنے اردگرد لوگوں کی مددکرنے کی کوشش میں مصروف۔اسے زندگی سے محبت تھی۔سیرہ کوصرف یہ علم نہیں تھاکہ پہلی نوکری ہی آخری ثابت ہوگی۔اسے زندگی کی قیدسے آزادکردیاجائے گا۔

مائیکل وٹذل(Micheal Wetzel)تیس برس کا تھا۔اس کے چھ بچے تھے۔قدچھ فٹ سے زیادہ۔قوی ہیکل انسان تھا۔کاؤنٹی میں صحت اورماحولیات کے شعبہ میں کام کرتا تھا۔یہ جن نظرآنے والاانسان اندرسے بالکل ایک معصوم بچہ تھا۔اکثرچھوٹے چھوٹے بچوں کوفٹ بال کھیلنا سکھاتا تھا۔


پانچ برس کی بچیوں کی اسنوکرٹیم کاکوچ بھی تھا۔ہروقت لوگوں سے مذاق کرتارہتاتھا۔اپنی زندگی سے مطمئن انسان۔اپنے سب سے چھوٹے بچے کو سر پر بٹھا کر ناچتا رہتاتھا۔اسکاکسی بندے سے اختلاف نہیں تھا۔ اس میں صلاحیت ہی نہیں تھی کہ وہ کسی کوناراض کرسکے۔ایک امن پسندانسان۔جس وقت تاشفین اوررضوان نے فائرنگ کی اوریہ خبرٹی وی پر نشر ہوئی، تو اس کی اہلیہ رینی(Renee)نے فیس بک پرپیغام دیاکہ اس کا خاونداس جگہ پر موجود ہے۔ خداسے دعاکرتی ہے کہ محفوظ رہے۔رینی اپنے شوہرکے متعلق پریشان تھی۔فائرنگ کے وقت مائیکل نے اپنے آپ کونہیں بلکہ دوسروں کوبچانے کی کوشش کی۔اس کشمکش میں وہ گولیوں کانشانہ بن گیا۔

یویٹا ویلسکو(Yvetta Velasco) 21سال کی نوجوان لڑکی تھی۔کہتی تھی کہ اسے وہ کام کرناچاہیے جس سے خوشی ملے۔پیسہ کے لیے کام کرنااہم نہیں۔فارغ وقت میں خاندان کے نوجوان لڑکوں اورلڑکیوں کومشورہ دیتی تھی کہ انھیں اپنی زندگی میں کیسے توازن برقراررکھناہے۔اس کی تین بہنیں اور بھی تھیں۔اپنی بہنوں کے لیے ایک مثال بن چکی تھی۔بے لوث خدمت اورمہذب طرزِزندگی گزارنے کی ایک اچھی مثال۔ ایک رشتہ دارلڑکاجون ویلسکو(John Velasco) اس سے مشورہ کرنے آیاکہ زندگی میں اسے کس شعبہ میں کام کرنا چاہیے۔

پوچھتی رہی کہ اسے کون ساکام کرکے خوشی ملتی ہے۔ جان کے مطابق اسے کھانااورکیک بنانے کاشوق ہے۔ یویٹا کا مشورہ بالکل سادہ ساتھا۔تمہیں وہی کام کرناچاہیے جس میں تم خوش رہ سکو۔جان نے مشورہ پرعمل کیااورآج ایک بیکری میں کیک بناتاہے۔سب کوکہتاہے کہ اسے مشورہ اس کی رشتہ داریویٹی نے دیاتھااور اپنی زندگی میں بہت کامیاب ہے۔ جس دن سے یویٹی قتل ہوئی ہے،اس کے والدین مکمل طور پر خاموش ہیں۔

وہ اتنی تکلیف میں ہیں کہ کسی سے بات تک نہیں کرپاتے۔رابرٹ ایڈمز(Robert Adams) چالیس برس کا تھا۔بدقسمتی سے اسی کاؤنٹی میں کام کرتا تھا۔ اسکاکام تھاکہ گھروں میں پیراکی کے تالابوں (Swimming Pools)کوچیک کرے۔ اپناکام سوفیصد حد تک صحیح طریقے سے انجام دیتاتھا۔سرکاری نوکری کے علاوہ اسے خدمت خلق کا شوق تھا۔ایسے لوگوں کے لیے پیسے اکھٹے کرتاتھاجوکسی بھی ناگہانی آفت کاشکارہوگئے یا معذور ہو چکے ہوں۔مرنے سے ایک دن پہلے ایک مستحق بیوہ کوبیس ہزارڈالرعطیہ کرکے آیا تھا۔

اگر کسی خاندان کے ساتھ کوئی حادثہ ہوجاتاتو اپنے والدین کے ہمراہ ان کے گھر جاتا۔لوگوں کی دلجوئی کرتا۔ اور انھیں "سفید کبوتر"دے دیتاتھا۔کہتاتھاان پرندوں کوآزادکردیں۔انھیں فضامیں اڑتادیکھ کرآپ لوگ غم میں کمی محسوس کرینگے۔یہ تمام کام وہ اوراسکاخاندان بغیرکسی معاوضہ کے کرتے رہتے تھے۔

دفتر میں اگرکوئی بندہ غصے میں نظرآتاتوجون اس کے پاس خودبخود پہنچ جاتا۔پوچھتاکہ اس کی کیامددکرسکتاہے۔جب فقرہ کہتا تو غصے سے بھراانسان خوبخودمسکرانے لگتاتھا۔جون کی ایک چھوٹی سی بچی تھی۔ عمرصرف بیس مہینے تھی۔اپنی بچی کوروزانہ پارک میں لے جاتااور بے شمارتصاویرکھینچتاتھا۔ہررات کو بچی کی تصویریں فیس بک پرلگاتاتھا۔معصوم بچی کواحساس ہو چکا ہے کہ اب کوئی بھی اسے باغ میں نہیں لے جائے گا۔وہ ہر آواز پر اردگرددیکھتی ہے کہ شائداسکاوالدآجائے مگرجون اب کبھی واپس نہیں آئیگا۔

ٹن نگی ین(Tin Ngugen)صرف تیس برس کی نوجوان لڑکی تھی۔وہ بھی اسی کاؤنٹی میں سرکاری ملازمت کر رہی تھی۔ والدین ویت نام سے منتقل ہوکرامریکا آئے تھے۔ والدین کاخیال تھاکہ ویت نام میں ان کے بچے غیرمحفوظ ہیں لہذا بچوں کے مستقبل کے لیے امریکا منتقل ہو جانا چاہیے۔ انھوں نے امریکا آکربہت محنت کی تھی۔ اپنی اولاد کو تعلیم دی اورانھیں بہترانسان بنانے کی کوشش کی۔ٹِن کوشوق تھاکہ اپنے خاندان سے منسلک رہے۔ مشرقی اقداراس نوجوان لڑکی میں کوٹ کوٹ کربھری ہوئی تھیں۔

مہینے میں ایک دن پورے خاندان اوررشتہ داروں کی دعوت کرتی تھی۔اپنے اردگردخوشیاں اور آسانیاں بکھیرنے کاشوق تھا۔ اس کی منگنی ہوچکی تھی اور شادی کی تیاریاںکرنے میں مصروف تھی۔وہ اور اس کا منگیتر جگہ بھی دیکھ آئے تھے جہاں ان کی شادی ہونی تھی۔ یہ قصبہ کے نزدیک ایک چرچ تھا۔ نوجوان لڑکی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھاکہ جس جگہ اس کی شادی ہونی تھی،بعینہ ہی اسی جگہ اس کی زندگی کی آخری رسومات اداکی جائینگی۔

میڈیا کی اطلاعات کے مطابق تاشفین نے اس لرزہ خیزقدم سے پہلے داعش کے رہنما ابوبکربغدادی سے کمپیوٹرکے ذریعے بیعت کی تھی۔ اس شام رضوان ہتھیارلے کرجب موقع پرپہنچاتواپنے ساتھیوں اور دوستوں پرگولی چلانے میں ہچکچاہٹ محسوس کر رہاتھا۔تاشفین نے فائرنگ میں پہل کی اور پھر چند لمحوں میں چودہ انسان بغیر کسی وجہ کے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ستائیس زخمی ہوگئے۔

میں بالکل نہیں سمجھ پا رہاکہ اس اقدام سے ہمارے دین کی کونسی خدمت کی گئی ہے؟ہم مہذب دنیاکوکیاپیغام دے رہے ہیں؟ رہنماؤں کے بے جان سے مذمتی بیانات سے کیا دنیا قائل ہوجائے گی کہ ہم واقعی دہشت گردی کے خلاف ہیں؟ مجھے اسلامی دنیامیں شدت پسندی بڑھتی ہوئی محسوس ہورہی ہے۔میری دعاہے کہ آنے والاوقت مجھے غلط ثابت کردے۔
Load Next Story