وہی کامیاب جو ہے ایکٹر

شیکسپیئر نے کیا خوب کہا تھا کہ یہ دنیا ایک اسٹیج ہے


یونس ہمدم December 12, 2015
[email protected]

شیکسپیئر نے کیا خوب کہا تھا کہ یہ دنیا ایک اسٹیج ہے اور دنیا کا ہر انسان ایک ایکٹر اس دنیا میں وہی انسان کامیاب ہے جو ایک اچھا ایکٹر ہے۔ آج زندگی کے جس شعبے پر بھی نظر ڈالو وہاں ایک سے ایک کاریگر موجود ہے، ایک سے بڑھ کر ایک ایکٹرکا روپ دھارے ہوئے ہے ، آج جو جتنا زبردست شاعر ہے وہ زبردست ایکٹر بھی ہے آج وہی شاعر کامیاب ہے جسے مشاعرہ لوٹنے کا فن آتا ہے۔

کالم میں اپنی چند ایسی پسندیدہ شخصیات کا تذکرہ کروں گا جن کے شعبے تو مختلف ہیں مگر فن اداکاری میں وہ سب ایک جیسے ہیں میری پہلی دو پسندیدہ شخصیات تو فلمی دنیا ہی سے تعلق رکھتی ہیں۔ مجھے اپنے بچپن کے دور میں جو سب سے زیادہ فلم پسند آئی وہ ''مغل اعظم'' تھی اور اداکار پرتھوی راج کپور اور دلیپ کمار میرے پسندیدہ اداکار تھے۔

پرتھوی راجکپور جب فلم کے سیٹ پر مکالمے بدلتے تھے تو ساؤنڈ کم کردیا جاتا تھا کیونکہ پرتھوی راج بہت لاؤڈ بولتے تھے ان کی آواز میں بادلوں کی سی گھن گرج تھی اور دلیپ کمار ڈائیلاگ بولتا تھا تو ساؤنڈ والے مائیک لیے دلیپ کمار کے پیچھے پیچھے پھرتے تھے۔ دلیپ کمار کے بولنے کا بڑا دھیما دھیما انداز تھا۔ یہی انداز مارلن برانڈو کا بھی تھا۔ ہدایت کار محبوب کی فلم انداز میں ایک سین کے دوران راجکپور اور دلیپ کمار کے درمیان سخت مکالموں کی سرد جنگ چل رہی تھی۔

دلیپ کمار نے غصہ بھرے انداز میں راجکپور سے کچھ کہا۔ لہجہ بڑا دھیما تھا۔ فلم بیں سمجھے کہ دلیپ کمار نے راجکپور کو گالی دی ہے پھر فلمی دنیا میں یہ بات مشہور ہوئی اور جنگل کی آگ کی طرح سارے ہندوستان میں پھیل گئی۔ پھر فلم بیں جوق درجوق وہ گالی سننے کے لیے فلم انداز دیکھنے جانے لگے مگر وہ اصل مکالمہ کسی کو بھی صاف سنائی نہیں دیتا تھا مگر گالی کی افواہ کافی عرصے تک فلم بینوں کی دلچسپی کا مرکز بنی رہی۔

اب میں آتا ہوں اپنی پسندیدہ ان شخصیات کی طرف جن کا سیاست اور شعر و ادب سے گہرا تعلق رہا ہے۔ ان شخصیات میں کچھ کو صرف سنا ہے ویڈیو میں دیکھا ہے اور بعض سے میری ملاقاتیں بھی رہی ہیں اور ان سے بہت سی باتیں بھی رہی ہیں۔ یہ ایک سیاسی شخصیت گاندھی جی کی تھی اور دوسری شخصیت ذوالفقار علی بھٹو کی ۔ ہندوستان کے مہاتما گاندھی جی جب سیاست میں آئے تو انھوں نے اپنا چولا ہی بدل دیا تھا۔

انھوں نے اپنے بدن کے کپڑے اتار کر صرف ایک دھوتی یا ایک لنگوٹی اور ہاتھ میں ایک لاٹھی پکڑ لی تھی اور وہ ساری ہندوستانی قوم کے باپو بن گئے تھے اور اتنے بڑے ایکٹر ہوگئے تھے کہ ان کے سامنے بڑے بڑے ایکٹر پانی بھرتے نظر آتے تھے۔ باپو نہ کھانے کے برابر کھانا کھاتے اور زیادہ تر بکری کے دودھ پر ہی گزارا کرتے تھے جب کہ میری دوسری پسندیدہ سیاسی شخصیت بھٹو صاحب کی تھی میں ان سے ملا بھی تھا۔

ان کو قریب اور دور سے خوب سنا بھی تھا وہ کھانا بھی خوب کھاتے تھے اور اپنا پسندیدہ مشروب بھی جی بھرکر پیتے تھے وہ سیاست کے میدان کے سب سے بڑے ایکٹر تھے ان کی ایکٹنگ اقوام متحدہ کے ایک اجلاس میں اس وقت عروج پر تھی جب انھوں نے قرارداد مقاصد کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے نعرہ مستانہ لگاتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ہمیں کشمیر کی آزادی کے لیے چالیس ہزار سال تک بھی لڑنا پڑا تو ہم لڑیں گے اس وقت کے بڑے اداروں کی اداکاری کے ریکارڈ توڑ دیے تھے اور پھر جب وہ پبلک کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے عوام سے کہتے تھے ''میرے ساتھ چلو گے۔

میرے ساتھ لڑو گے۔ میرے ساتھ مرو گے'' تو وہ عوام کے بے تحاشا شور میں آخر میں مائیک توڑ دیا کرتے تھے اور اس وقت ان کی اداکاری عروج پر ہوتی تھی وہ اپنی اس اداکاری کی بنا پر ہی عظیم سیاستدان بنے تھے۔

اب میں آتا ہوں اپنے پسندیدہ شاعروں جوش ملیح آبادی، صہبا اختر اور جون ایلیا کی طرف۔ جون ایلیا تو لگتے تھے کہ شاعر کے ساتھ وہ پیدائشی ایکٹر بھی ہیں ۔ سب سے پہلے جس شاعر نے مجھے متاثر کیا وہ جوش ملیح آبادی ہی تھے میں نے انھیں ویڈیوز میں دیکھا اور سنا تھا۔ جوش ملیح آبادی کو شاعر انقلاب بھی کہا جاتا ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ جوش نے شاعری کو نہ صرف ایک انقلابی رنگ دیا بلکہ شاعری کو نیا اسلوب بھی دیا۔

وہ ایک بڑے دبدبے کے شاعر تھے ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ الفاظ ان کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے رہتے تھے کہ حضور آپ جس طرح چاہیں جیسے چاہیں ہمیں استعمال کرسکتے ہیں ہم تو آپ کے نوکروں کے مصداق ہیں۔ جوش جب بھی کسی مشاعرے میں اشعار پڑھتے تھے مائیک پر ان کے آتے ہی اسٹیج کے منتظمین بھی اپنے ہوش وحواس بھول جاتے تھے۔

ان کے پڑھنے کا انداز ایسا پرجوش ہوتا تھا کہ بڑے بڑے ایکٹر ان کے سامنے پانی بھرتے نظر آتے تھے۔ جب یہ اشعار سناتے تھے بادل بھی اپنی گھن گرج بھول جاتے تھے۔ اس دور کے تمام شاعر جوش کی شخصیت کے زیر اثر رہتے تھے بس ایک بار جوش صاحب سے چوک ہوگئی انھوں نے اس دور کے نامور اور جواں سال بلا نوش شاعر اسرار الحق مجازکو ایک مشورہ دیتے ہوئے کہا تھا۔

مجاز تم ایک اچھے شاعر ہو۔ جواں سال اور جواں فکر ہو۔ سنا ہے بہت پیتے ہو۔ ارے بھئی پینے سے تمہیں کون منع کرتا ہے۔ پیو مگر ہر وقت نہیں ہماری طرح گھڑی رکھ کر پی لیا کرو تو یہ مشورہ سن کر مجاز نے کہا تھا۔ حضور آپ کا مشورہ سر آنکھوں پر مگر میری طبیعت کے برخلاف ہے۔ میرا بس چلے تو میں گھڑا رکھ کر پیوں اور پھر جوش صاحب نے کسی بھی شاعر کو ہمیشہ کے لیے مشورہ دینے سے توبہ کرلی تھی۔

مشہور شاعر صہبا اختر کی طرف۔ صہبا اختر سے میری بے شمار ملاقاتیں رہی ہیں۔ بہت خوبصورت باتیں بھی رہی ہیں۔ میں ان کی شاعری خاص طور پر ان کی نظموں کا بڑا شیدائی ہوں۔ وہ جب اسٹیج پر نظم پڑھنے کے لیے آتے تھے تو اسٹیج کا سارا نظم و ضبط کچھ دیر کے لیے درہم برہم ہوجاتا تھا اور وہ اس وقت ایک شاعر کم ایک کیریکٹر ایکٹر زیادہ نظر آتے تھے۔

صہبا اختر کے بعد جس شاعر کو پڑھنے کے لیے اسٹیج پر بلایا جاتا تھا کچھ دیر کے لیے اس شاعر کی دھڑکنیں خوف کی وجہ سے رک سی جاتی تھیں۔کیونکہ صہبا اختر کے اسٹیج پر آتے ہی کمزور قسم کے شاعروں میں ایک کپکپی کی لہر دوڑ جاتی تھی اور صہبا اختر کے فوراً بعد جس شاعر کو اسٹیج پر بلایا جاتا تھا۔ اس کے تو کچھ دیر تک ہوش اڑے رہتے تھے۔ صہبا اختر کے پڑھنے کا انداز کسی ایکٹر سے کم نہ تھا۔ میری صہبا اختر سے اکثر مشاہروں میں ملاقاتیں رہتی تھیں۔ پھر جب وہ بحیثیت گیت نگار ٹیلی ویژن اور فلموں سے وابستہ ہوئے تو کہیں ان کے مشاعرے والی عادت میں بتدریج کمی آگئی تھی۔

کام کے سلسلے میں کمرشل پروڈیوسر حسنین رضوی کے گھر بھی اکثر میرا جانا رہتا تھا ۔ ایک دن جب میں ان کے گھر گیا تو وہاں نئی نسل کے نمایندہ شاعر جون ایلیا بھی مل گئے۔جون ایلیا کی ایک منفرد لہجے کی شاعر کی حیثیت سے ہندوستان پاکستان میں بڑی شہرت تھی میرا پتہ چلا کہ میں کمرشل جنگلز بھی لکھتا ہوں اور فلمی شاعر بھی ہوں تو وہ مجھ سے مل کر بڑے خوش ہوئے۔ وہ بولے ہمدم میاں ! آپ کا کون سا ایسا کمرشل گیت ہے جو مشہور ہوا۔ میں نے بے ساختہ کہا:

آج کے دور میں دو بچے
پل جائیں تو ہیں اچھے
بچے دو ہی اچھے

وہ اس وقت بڑے موڈ میں تھے بولے۔ اچھا کہا ہے۔ اچھا ہے۔ میں نے کہا آج کل گزر اوقات کے لیے کمرشل شاعری بھی کرنی پڑتی ہے۔ مسکراتے ہوئے کہنے لگے یہ بات بھی آپ نے اچھی کہی ہے۔ سمجھدار آدمی لگتے ہو۔ گفتگو کے دوران حسنین رضوی کی بیگم صاحبہ چائے لے کر آگئیں۔

میں یہاں یہ وضاحت کرتا چلوں کہ حسنین رضوی کی بیگم جون ایلیا کی بھتیجی اور نامور ادیب صحافی اور نقاد سید محمد تقی کی صاحبزادی ہیں۔جون ایلیا کی دھیمے دھیمے لہجے میں خوبصورت گفتگو چل رہی تھی اور اس وقت مجھے ان کے وہ بے شمار مشاعرے بھی یاد آرہے تھے۔ جن میں ان کی پرفارمنس دیکھنے والی ہوتی تھی۔

ان کے پڑھنے کا انداز ان کے زلفیں سنوارنے کا انداز وہ شعر و ادب کے زبردست ایکٹر تھے مجھے اس وقت معین اختر کی ایک پیروڈی بھی یاد آگئی تھی جو معین اختر نے خود جون ایلیا بن کر ٹی وی پر پیش کی تھی اور کیا خوب پیروڈی کی تھی۔ جون ایلیا ایک مایہ ناز شاعر، شاندار شخصیت اور کلاس ون ایکٹر بھی تھے، مگر ان کی شخصیت میں ہمیشہ ایک ایسا معصوم بچہ بھی موجود ہوتا تھا، جس پر سب کو پیار آتا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔