مذہبی دہشت گردی اور اس کے نتائج حصہ اول

دہشتگردی کی مہلک وباء نے پاکستان، افغانستان اور مغربی ایشیا سے باہر نکل کر پوری دنیا کو اپنی لپیٹ لے لیا ہے۔


Babar Ayaz December 12, 2015
[email protected]

دہشتگردی کی مہلک وباء نے پاکستان، افغانستان اور مغربی ایشیا سے باہر نکل کر پوری دنیا کو اپنی لپیٹ لے لیا ہے۔ پیرس میں ہونے والا حالیہ حملہ،اس رد عمل کا تسلسل ہے جوکئی دہائیاں قبل فلسطین میں اسرائیل کی ریاستی دہشتگردی کی وجہ سے شروع ہوا تھا۔بدترین صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب 1970 اور80 کے عشروں میں افغانستان میں سوویت یونین کی حمایت یافتہ سوشلسٹ حکومت کو ختم کرنے کے لیے عالمی طاقتوں نے پاکستان کے ساتھ مل کرسیاسی اسلام کو جنگجو اسلام میں تبدیل کردیا۔

امریکی کانگریس کے رکن چارلی ولسن نے بڑے فخر کے ساتھ کہا تھاکہ امریکیوں نے روسیوں کے خلاف لڑنے کے لیے ٹیکنوگوریلاز تیارکردیے ہیں۔ ان باغیوں کو''مجاہدین'' کا نام دیکر ان کی شان بڑھائی گئی اور ایک سپر پاور سوویت یونین کو نیست ونابودکرنے کا سہرا غلط طور پر ان کے سر باندھا گیا۔

جب افغانستان میں لڑائی ختم ہوگئی تو یہ ٹیکنوگوریلاز مغربی ملکوں کی طرف سے کیے جانے والے اس پروپیگنڈا کے فریب کا شکار ہو گئے کہ انھوں نے واقعی تنہا یہ کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ انھیں یقین ہوگیا کہ چونکہ اسلامی انقلاب آگے بڑھ رہا ہے اس لیے اب ساری دنیا پر اسلامی خلافت قائم کرنا ان کی منزل ہے، جیسا کہ وعید تھی۔چونکہ مسلمانوں کے وسیع تر اتفاق رائے سے ایسا ہونا ممکن نہیں ہے اس لیے یہ تربیت یافتہ مجاہدین/ دہشتگرد اب بندوق کی نال سے خلافت قائم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

مغرب کی سنگین ترین غلطی یہ تھی کہ افغانستان میں بغاوت کو جہاد قرار دینے کے لیے مذہبی جوش و جذبے کو ابھارا گیا۔ عام طور سے ساری دنیا اور بالخصوص عرب ملکوں کے جہادیوں کے لیے اسلامی تحریک قائم کی اور دل کھول کر اس کی مدد کی گئی۔

طالبان اور ان کے '' القاعدہ'' کے جگری دوستوں نے جو''عظیم دہشتگرد یونیورسٹی'' قائم کی تھی اس نے نہ صرف مغربی ملکوں میں (جنھیں یہ کافر سمجھتے ہیں) بلکہ مسلمان ملکوں میں بھی تباہی مچائی ہے۔ پاکستان اور افغانستان نے سب سے زیادہ نقصان اٹھایا ۔

اسامہ،اس دنیا میں نہیں رہا مگر اس کے نظریے کا بھوت اب بھی زندہ ہے اور دنیا پر منڈلا رہا ہے۔نظریاتی اعتبار سے وہ ایک ایسی جدوجہد کو جاری رکھنے کے داعی تھے جو پوری دنیا میں اسلامی خلافت کے قیام تک جاری رہے اور اس خلافت کے قیام کے لیے دہشتگرد حربوں کے استعمال کو جائز سمجھتے تھے چنانچہ اسامہ متنازع سوچ رکھنے والے اسلامی اکابرین کا ٹراٹسکی ہے۔ (ٹراٹسکی، روسی انقلابی اورکمیونسٹ مفکر تھے جو پوری دنیا میں سوشلسٹ حکومتوں کے قائم ہونے تک انقلاب جاری رکھنا چاہتے تھے۔)

مغربی ایشیائی دہشت گردی، مذہبی انتہا پسندی کی دین ہے۔ یہ اسی انتہا پسندانہ سوچ کا نتیجہ ہے کہ کوئی فرد یا لوگوں کا کوئی گروہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ صرف وہی سچے مسلمان ہیں اور باقی سب کافر ہیں۔وہ ایک سے زیادہ نظریات والے کسی ایسے معاشرے پر یقین نہیں رکھتے جو تمام مذاہب کو یکساں حقوق کی ضمانت دے اور جہاں ایک عقیدے کے ماننے والے دوسرے مذاہب یا فرقوں پر جبر نہ کر سکیں۔اس نظریے نے انتہا پسندوں کو'' اسلامی ریاست'' کے قیام اور شریعت کی بنیاد پر سرکاری و نجی قوانین بنانے کی خاطر جنگ کرنے کے لیے خاصی گنجائش مہیا کی ہے۔

تمام بڑے مذاہب میں مذہبی انتہا پسندی بڑھ رہی ہے۔ مسلم ملکوں کے حوالے سے فرق یہ ہے کہ بیشتر دوسرے معاشروں کے مقابلے میں یہ پُر تشدد ہے۔ صرف انتظامی اور فوجی اقدامات سے معاشرے میں انتہا پسندی کم نہیں ہو گی، ہمیں ہر محاذ پر ان نظریات کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے جو انتہا پسندی کو جنم دیتے ہیں۔

یہ سوچنا غلط ہے کہ مذہبی انتہا پسندی صرف مسلمانوں ہی کا مخصوص مسئلہ ہے۔عیسائیت میں بھی آسام اور امریکا میں بعض چھوٹے چھوٹے تشدد پسند گروہ ہیں۔ایک عیسائی انتہا پسند نے ناروے میں 151 افراد کو قتل کردیا۔آئرلینڈ کو ایک طویل فرقہ وارانہ لڑائی کا سامنا رہا ہے۔ہندو دھرم میں اب انتہا پسند ہندوتوا اورRSS کے جھنڈے تلے کام کر رہے ہیں اور مسلم دشمن اور عیسائی مخالف فسادات میں حصہ لیتے ہیں۔

بودھوں میں بھی تشدد کرنیوالے انتہا پسند موجود ہیں جنھوں نے چند ماہ قبل سیکڑوں روہنگیا مسلمانوں کو قتل کیا ۔اسرائیل صیہونی وطن کے طور پر قائم کیا گیا تھا۔اسے بھی مذہبی انتہا پسندی کا سامنا ہے کیونکہ مذہبی انتہا پسند قوانین کو صیہونی شریعت (Halakha) کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں۔

صیہونیت کی طرح اسلام میں بھی یہ تصور ہے کہ یہ مکمل ضابطہ حیات ہے چنانچہ اُن انتہا پسندوں ،جو تمام قوانین کو حقیقی معنوں میں لفظی و معنوی طور پر مذہب کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں اور جدت اور جمہوریت پسندوں کے درمیان جو قوانین کے ارتقاء پر یقین رکھتے ہیں اور سماجی حالات کو اہمیت دیتے ہیں، ایک مسلسل کشمکش جاری ہے، مگر مذہبی انتہا پسندی کا منطقی نتیجہ ، جمہوریت پسندوں کی بجائے انتہا پسندوں کو زیادہ گنجائش فراہم کرتاہے۔

مغربی ایشیا میں جن بڑے خارجی محرکات نے دہشت گردی کی آگ کو ہوا دی ہے،وہ یہ ہیں:اول، فلسطینی عوام کے رِستے ہوئے زخم۔اسرائیل نے ریاستی دہشتگردی کے برخلاف فلسطینیوں کو استبدادکا نشانہ بنایا جنھوں نے جواباً50 کی دہائی میںدہشتگردی کی کارروائیاں کیں مگر کیا اس طرح انھیں اپنے جائز حقوق حاصل کرنے میں مدد ملی؟ نہیں، ایسا نہیں ہوا۔ دوئم، مشرق وسطیٰ میں امریکا کے سازشی کردار نے دہشتگرد گروپوں میں نوجوانوں کی بھرتی کے لیے زرخیز زمین تیار کی۔

امریکا اور تیل پیدا کرنیوالے امیر ملکوں کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ انھوں نے سیکولر آمروں کو ہٹانے کے لیے لیبیا اور شام میں عسکریت پسند گروپوں کو پیسہ اورہتھیاردیے۔ امریکا، بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو پکڑنے کے بہانے ڈھٹائی کے ساتھ عراق میں داخل ہوا اور جب وہاں کوئی نہ مل سکا تو واشنگٹن نے دنیا سے معافی مانگنے کی بجائے صدام کو ہٹاکر جمہوریت لانے کی خواہش ظاہر کی۔یہ احمقانہ حرکت تھی۔فضا سے بم گرانے اور فوج بھیج دینے سے جمہوریت نہیں لائی جا سکتی۔

امریکی مداخلت سے شیعہ سنی تنازع کو مزید ہوا ملی جو پہلے ہی مسلم معاشروں کو لہو لہان کیے ہوئے تھا۔اسلامی تاریخ میں پہلی شیعہ مُلائی ریاست کے قیام سے اس علاقے میں یہ تنازع اور زیادہ شدید ہوگیا۔اس خوف کے مارے کہ خلیجی سلطنتوں کی سنی آبادی ایران میں مذہبی انقلاب سے جوش وولولہ حاصل کر رہی ہے، حکمرانوں نے سنی عسکریت پسندوں کو پیسہ دینا شروع کر دیا۔ایران بھی اسی راستے پر چل رہا تھا اور اُس نے اپنے بچاؤ کے لیے علاقے میں عسکریت پسندوں کو پیسہ اور ہتھیاردیے۔دہشتگردی کے لیے یہ بہترین حالات تھے۔

Bruce Hoffman (سیاسی و دفاعی تجزیہ کار)نے رینڈ کارپوریشن رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ '' دہشتگردی کے لیے مذہبی التزام دور ِحاضر کی دہشتگرد سرگرمیوں کی فیصلہ کُن خاصیت ہے۔جس انقلاب نے1979 میں ایران کو اسلامی جمہوریہ میں تبدیل کیا،اُسی انقلاب نے مذہبی دہشتگردی کی جدید شکل ایجادکرنے میںاہم کردار ادا کیا مگر یہ صرف ایران یا مشرق وسطیٰ تک محدود نہیں رہااور نہ یہ اسلام تک محدود رہا۔ 1980 کے عشرے سے اس ابھار میں دنیا بھر کے اہم مذاہب کے عناصر اور بعض چھوٹے چھوٹے مذہبی گروہ بھی ملوث رہے ہیں۔''

مگرکیا یہ کہنا مبالغہ آرائی ہے کہ مذہبی انتہا پسندی فروغ پذیراور مستحکم ہورہی ہے؟ ایسا نہیں ہے۔لوگ زیادہ مذہبی دکھائی دے سکتے ہیں مگر وہ انتہا پسندی کی طرف مائل نہیں ہیں۔ انتہا پسند اس لیے تشدد کرتے ہیں کہ ان کی بات سنی جائے کیونکہ یہ لوگ کسی جمہوری نظام میں اکثریت کی حمایت حاصل نہیں کرسکتے۔ (جاری ہے)

(کالم نگار'' پاکستان،خرابی اور اس کے اثرات'' کے مصنف ہیں، رسائی کے لیے [email protected] )

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں