راج کرے سردار…
سماجیات وادبیات کے اولین نقوش بھی ہمیں یہیں سے میسر آئے۔
حرماں نصیب بلوچستان کی دیگرکئی محرومیوں میں سے ایک محرومی یہ بھی رہی ہے کہ یہاں کے عوام آج تک ووٹ کے ذریعے 'اپنی حکومت' منتخب کرنے سے محروم رہے ہیں۔ ہمارے خطے میں یوسف عزیز مگسی اور عزیزکرد کی قائم کردہ انجمن اتحادِ بلوچاں ہماری اولین سیاسی جماعت ثابت ہوئی۔
سماجیات وادبیات کے اولین نقوش بھی ہمیں یہیں سے میسر آئے۔ اسی کے بطن سے پھر قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی کا جنم ہوا توگویا یہ سرداری فرعون کے ہاں موسیٰ کی پیدائش تھی۔ اس پہلی انتخابی جماعت نے عوامی حمایت کا وہ ہوا کھڑا کیا کہ سردار و زردار بوکھلا اٹھے۔ خود کو حاکمِ کل سمجھنے والے سرداروں کو ایک منتخب ایوان کے سامنے جواب دہ ہوتے ہی، ان کے پیٹ میں عوام دشمنی کے مروڑ اٹھنا شروع ہوگئے۔
سرداری نظام میں یہ اولین دراڑ تھی۔ یہ ہمارے اکابرین کی جہد مسلسل ہی تھی جس نے خان قلات کو ایوانِ بالا وایوانِ زیریں نامی پارلیمنٹ تشکیل دینے پر مجبورکیا اور پھر جب ایوانِ زیریں کی تمام نشستیں قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی نے متفقہ طور پر عوامی ووٹ کے ذریعے جیت لیں تو غیر منتخب سرداروں نے اسے اپنی موت جانا۔ بس پھر کیا تھا، فرعونی خصلت ان سرداروں نے منتخب سیاسی ورکروں پہ حیات تنگ کردی۔
سن اُنیس سوچالیس کی دَہائی میں مستنگ میں ہونیوالے اولین عوامی جلسے پر سرداروں کے حواریوں کا حملہ، بلوچستان میں عوامی سیاست پہ پہلا وار تھا۔گزشتہ نصف صدی سے بلوچستان میں سیاسی ورکر اسی جنگ کو بھگتتے چلے آ رہے ہیں، تاریخ کا جبر یہ کہ مقتدر قوتیں بھی روزِ اول سے انھی سرداروں کی پشت پناہی کرتی چلی آ رہی ہیں۔ اس کا پس منظر بھی اسی تاریخ میں پوشیدہ ہے۔
یہ دراصل عوامی ایوان کی موجودگی کا ہی شاخسانہ تھا کہ خان قلات کو اپنی مملکت کے الحاق کا معاملہ ایوان میں لانا پڑا۔ وگرنہ ملک کو بیچ دینا اور ٹھیکے پر دے دینا،خان قلات سے لے کر بلوچستان کے اکثریتی زر پرست سرداروں کا وطیرہ رہا ماسوائے ایک آدھ سردار اور ایک آدھ قبیلے کے بلوچستان کی پوری تاریخ میں، جب سے سرداری نظام موروثیت میں ڈھلا، کوئی حریت پسند سردار نہیں ملتا۔ اکثریت نے طاقت کے سامنے گھٹنے ٹیکے اور اپنی دھرتی ماں پیسوں کے عوض اجارے پہ دے دی۔
مفلوک الحال عوام کی زندگیوں میں کسی تبدیلی سے نہ انھیں کبھی غرض رہی نہ ہی ان سے ساز باز کرنیوالی طاقتور بیرونی قوتوں کو۔عوام کی زندگیوں میں تبدیلی کا خواب ہمارے سیاسی اکابرین نے ہی دیکھا گو کہ اس کی سربراہی کا سہرا یوسف عزیز نامی ایک نواب کے ہی سر ٹھہرا مگر ایسا نواب جس نے عوامی جدوجہد کے آغاز میں ہی اپنے اس انگریزی خطاب کو 'کھر چ کھرچ کر مٹا ڈالا' اور پھر یہ مشعل بزنجو نامی روشن ستارے کے ہاتھ آئی۔
عوامی سیاست جس کی گھٹی میں پڑی تھی۔ سو' بلوچستان کے اولین عوامی ایوان میں جب الحاق کا معاملہ پیش ہوا تو اسی بزنجوکی سربراہی میں اسے اکثریت رائے سے مسترد کردیا گیا۔ یہی وہ 'خطا' تھی جسے مقتدر قوتوں نے کبھی نہ بخشنے کا فیصلہ کر لیا اور پھر جب زر پرست خان نے عوامی امنگ کے عین برعکس اپنی دہری شخصیت کے پیش نظر رات کی تاریکی میں الحاق کا فیصلہ سردار ی مزاج کے عین مطابق تن تنہا کر لیا تو یہ گویا نئی ریاست کی پالیسیوں کا بھی واضح اظہار تھا یعنی خان اور سردار کو پیسوں سے خریدو، عوامی کارکن کو حاشیے پہ رکھو اور عوام کو گمراہ کر دو۔
آیندہ برس اسی پالیسی کا تسلسل رہے۔ہمارے نہ بکنے نہ جھکنے والے اکابرین مگر سیاسی جدوجہد سے دستبردار نہ ہوئے۔ بدلے ہوئے نئے حالات میں نئی سیاسی حکمت عملی کے تحت ان کی اَنتھک جدوجہد ہی تھی جس نے ون یونٹ نامی دیوکو پچھاڑا اور بلوچستان کو بالآخر اپنی شناخت ملی۔ عوام کو انتخاب کا حق ملا تو انھوں نے ایک بار پھر اپنے حقیقی نمایندوں کو منتخب کر ڈالا۔ پورے بلوچستان میں عوامی نمایندوں کی، سیاسی کارکنوں کی جیت ہوئی۔ سرکاری سرداروں کو پھر مات ہوئی، یہ گویا واضح اعلان تھا کہ بلوچستان میں سیاست اور سردار، عوام اور نواب ایک ساتھ چل ہی نہیں سکتے۔ جب بھی عوام کوانتخاب کا حق ملے گا، وہ سرکاری سرپرستی والے سرداروں ، نوابوں کو اسی طرح رد کرتے رہیں گے۔
اس حقیقت کا ادراک فریقِ مخالف کو بھی تھا اسی لیے انھوں نے اپنی بقا کے لیے طاقت کے اصل ایوانوں کے سامنے سرنگوں ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ جو اپنی 'ریاست' میں فرعون بنے پھرتے تھے، طاقتوروں کے سامنے رِجھ گئے، بچھ گئے،اپنی فرعونی خدمات لیے۔ریاستی طاقت تو عوام دشمنی کا محور ہوتی ہے اسی لیے ہر عوام دشمن قوت ریاستی ڈھانچے میں باآسانی جگہ پا لیتی ہے۔ اسی لیے ریاستی طاقت کے ایوانوں میں عوام دشمن سرداروں کی پذیرائی ہوئی اور مخلص و منتخب سیاسی کارکن پس زنداں دھکیل دیے گئے۔
ان کی قوت کو مختلف حیلوں بہانوں سے توڑا گیا، تقسیم کیا گیا، بلوچستان کی منتخب حکومت کوگھر بھیج کر، عوام کو ایک غیر منتخب نواب کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا اور پھر یہی روایت ٹھہری۔ یہ روایت پھر ا س قدر مستحکم ہو گئی کہ اگر سرداری قبیلے میں سے کبھی کسی نے یوسف عزیز کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے عوامی قافلے کی ہم راہی کی، تو اس سے تعلق وہیں ختم کر دیا گیا، حاشیے پر ڈال دیا گیا،غدار ٹھہرا، موت کا حق دار ٹھہرا۔
اس سارے عرصے میں بلوچستان میں سرداروں کو اس قدر مضبوط بنا دیا گیا کہ کوئی عوامی سیاسی قوت سر ہی نہ اٹھا سکے۔ عوام، قبیلوں، علاقوں اور سرداروں میں بانٹ دیے گئے، اب یہی ہمارے حاکم ِ کل ٹھہرے، کوئی ووٹ ڈالے یا نہ ڈالے، انھوں نے ہر صورت ہمارے سروں پہ مسلط ہونا ہے۔ سیاسی حکومتوں اور سیاسی کارکنوں کی پسپائی کی صورت عوام کو یہ ذہن نشین کرا دیا گیا کہ اس خطے میں عوامی سیاست کے امکانات پر سوچنے کی بجائے ووٹ کے ذریعے سردار کی خوشنودی حاصل کرنا ہی ان کا مقدر ہے اورپھر انھی کو یہ طعنہ دیا جائے کہ تم لوگ تو سرداروں کو ووٹ دیتے ہو جو تمہاری ترقی میں رکاوٹ ہیں۔
اب کون پوچھے، اورکون بتائے کہ جب جب عوام نے سیاسی کارکنوں کو منتخب کیا ان کے ساتھ آپ نے کیا کیا؟ اور جو ہماری ترقی میں رکاوٹ ہیں، ان کی پشت پناہی کون کرتا ہے؟ انھیں فرش سے عرش پرکس نے پہنچایا؟ ان کے لیے بڑی بڑی حفاظتی گاڑیوں،عوام کو زیر رکھنے والے قیمتی اسلحے ، ان کی حفاظت پہ معمور باڈی گاڈز ، ان کی تعیشات اورمراعات کا انتظام واہتمام کون کرتا ہے؟...مگر، کون پوچھے، اور کون بتائے۔
اس سارے پس منظر میں نائن الیون والے ڈرامے سے شروع ہوئی، مار دھاڑ والے خون آشام بلوچستان میں جہاں ایک عرصے سے سیاست شجرِ ممنوعہ ٹھہری، کچھ اہلِ سیاست کسی نہ کسی طور بالآخر ایوان تک پہنچے۔ سیاسی جوڑ توڑ اور داؤ پیچ کے ذریعے اقتدارکا ہما اپنے سر بٹھانے میں فتح یاب ٹھہرے۔ بلوچستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار ایک سیاسی کارکن مسند اعلیٰ پہ بیٹھا، جس کے نام کے ساتھ سردار، نواب، میر ، خان کا کوئی سابقہ لاحقہ نہ لگتا تھا۔ سرداروں کی سیاست کو ایک بار پھر دھچکا پہنچا۔ انھوں نے محض اس خیال سے یہ کڑوا گھونٹ بہ امر مجبوری پی لیا کہ یہ سب 'عارضی' ہے، اور' حکم حاکم 'ہے۔
اس پورے عرصے میں مگر وہ ایک روز بھی چین سے نہ بیٹھے۔ کس قدر بیتابی سے انھوں نے اس 'عارضی عذاب'کے خاتمے کے متعین شدہ دن کا انتظارکیا جو ان کے اعلیٰ حاکموں کی جانب سے ان پر مسلط کر دیا گیا تھا۔ سو' اب ان کی جو بے چینی و بیتابی دیدنی تھی ختم ہوئی کیونکہ ہرگزرتا لمحہ ان پر قیامت بن کر گزرتا رہا۔
بلوچستان میں عوام کے ووٹ سے منتخب ہونے والی پہلی عوامی سیاسی حکومت کو ایک قائد ِ عوام نے مقتدر قوتوں کے ایما پر چلتا کردیا تھا۔اب سیاسی داؤ پیچ اور جوڑ توڑ کے نتیجے میں قائم ہونے والی ایک غیر سرداری حکومت کو سرداروں کی خوشنودی پر قربان کرنے کی تیاری پوری ہوگئی تاہم یہ فیصلہ ثابت کریگا کہ بلوچستان میں سردار آج بھی طاقتور ہے اور اہل سیاست کے لیے اس میں یہ سبق ہے کہ عوام پر حکومت کرنے کے لیے مقتدر قوتوں کا نہیں، عوام کا اعتبار جیتنا ضروری ہے ۔
داؤ پیچ اور جوڑ توڑ کے ذریعے چند روز ایوان میں سرداروں کے 'برابر' پر تو بیٹھا جا سکتا ہے، انھیں نیچا نہیں دکھا یاجا سکتا۔سرداروں کا مقابلہ صرف عوامی سیاست کر سکتی ہے۔ اور عوام کے دلوں تک جو راستہ جاتا ہے، اسے عوامی جدوجہد کہتے ہیں، داؤ پیچ نہیں۔
سماجیات وادبیات کے اولین نقوش بھی ہمیں یہیں سے میسر آئے۔ اسی کے بطن سے پھر قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی کا جنم ہوا توگویا یہ سرداری فرعون کے ہاں موسیٰ کی پیدائش تھی۔ اس پہلی انتخابی جماعت نے عوامی حمایت کا وہ ہوا کھڑا کیا کہ سردار و زردار بوکھلا اٹھے۔ خود کو حاکمِ کل سمجھنے والے سرداروں کو ایک منتخب ایوان کے سامنے جواب دہ ہوتے ہی، ان کے پیٹ میں عوام دشمنی کے مروڑ اٹھنا شروع ہوگئے۔
سرداری نظام میں یہ اولین دراڑ تھی۔ یہ ہمارے اکابرین کی جہد مسلسل ہی تھی جس نے خان قلات کو ایوانِ بالا وایوانِ زیریں نامی پارلیمنٹ تشکیل دینے پر مجبورکیا اور پھر جب ایوانِ زیریں کی تمام نشستیں قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی نے متفقہ طور پر عوامی ووٹ کے ذریعے جیت لیں تو غیر منتخب سرداروں نے اسے اپنی موت جانا۔ بس پھر کیا تھا، فرعونی خصلت ان سرداروں نے منتخب سیاسی ورکروں پہ حیات تنگ کردی۔
سن اُنیس سوچالیس کی دَہائی میں مستنگ میں ہونیوالے اولین عوامی جلسے پر سرداروں کے حواریوں کا حملہ، بلوچستان میں عوامی سیاست پہ پہلا وار تھا۔گزشتہ نصف صدی سے بلوچستان میں سیاسی ورکر اسی جنگ کو بھگتتے چلے آ رہے ہیں، تاریخ کا جبر یہ کہ مقتدر قوتیں بھی روزِ اول سے انھی سرداروں کی پشت پناہی کرتی چلی آ رہی ہیں۔ اس کا پس منظر بھی اسی تاریخ میں پوشیدہ ہے۔
یہ دراصل عوامی ایوان کی موجودگی کا ہی شاخسانہ تھا کہ خان قلات کو اپنی مملکت کے الحاق کا معاملہ ایوان میں لانا پڑا۔ وگرنہ ملک کو بیچ دینا اور ٹھیکے پر دے دینا،خان قلات سے لے کر بلوچستان کے اکثریتی زر پرست سرداروں کا وطیرہ رہا ماسوائے ایک آدھ سردار اور ایک آدھ قبیلے کے بلوچستان کی پوری تاریخ میں، جب سے سرداری نظام موروثیت میں ڈھلا، کوئی حریت پسند سردار نہیں ملتا۔ اکثریت نے طاقت کے سامنے گھٹنے ٹیکے اور اپنی دھرتی ماں پیسوں کے عوض اجارے پہ دے دی۔
مفلوک الحال عوام کی زندگیوں میں کسی تبدیلی سے نہ انھیں کبھی غرض رہی نہ ہی ان سے ساز باز کرنیوالی طاقتور بیرونی قوتوں کو۔عوام کی زندگیوں میں تبدیلی کا خواب ہمارے سیاسی اکابرین نے ہی دیکھا گو کہ اس کی سربراہی کا سہرا یوسف عزیز نامی ایک نواب کے ہی سر ٹھہرا مگر ایسا نواب جس نے عوامی جدوجہد کے آغاز میں ہی اپنے اس انگریزی خطاب کو 'کھر چ کھرچ کر مٹا ڈالا' اور پھر یہ مشعل بزنجو نامی روشن ستارے کے ہاتھ آئی۔
عوامی سیاست جس کی گھٹی میں پڑی تھی۔ سو' بلوچستان کے اولین عوامی ایوان میں جب الحاق کا معاملہ پیش ہوا تو اسی بزنجوکی سربراہی میں اسے اکثریت رائے سے مسترد کردیا گیا۔ یہی وہ 'خطا' تھی جسے مقتدر قوتوں نے کبھی نہ بخشنے کا فیصلہ کر لیا اور پھر جب زر پرست خان نے عوامی امنگ کے عین برعکس اپنی دہری شخصیت کے پیش نظر رات کی تاریکی میں الحاق کا فیصلہ سردار ی مزاج کے عین مطابق تن تنہا کر لیا تو یہ گویا نئی ریاست کی پالیسیوں کا بھی واضح اظہار تھا یعنی خان اور سردار کو پیسوں سے خریدو، عوامی کارکن کو حاشیے پہ رکھو اور عوام کو گمراہ کر دو۔
آیندہ برس اسی پالیسی کا تسلسل رہے۔ہمارے نہ بکنے نہ جھکنے والے اکابرین مگر سیاسی جدوجہد سے دستبردار نہ ہوئے۔ بدلے ہوئے نئے حالات میں نئی سیاسی حکمت عملی کے تحت ان کی اَنتھک جدوجہد ہی تھی جس نے ون یونٹ نامی دیوکو پچھاڑا اور بلوچستان کو بالآخر اپنی شناخت ملی۔ عوام کو انتخاب کا حق ملا تو انھوں نے ایک بار پھر اپنے حقیقی نمایندوں کو منتخب کر ڈالا۔ پورے بلوچستان میں عوامی نمایندوں کی، سیاسی کارکنوں کی جیت ہوئی۔ سرکاری سرداروں کو پھر مات ہوئی، یہ گویا واضح اعلان تھا کہ بلوچستان میں سیاست اور سردار، عوام اور نواب ایک ساتھ چل ہی نہیں سکتے۔ جب بھی عوام کوانتخاب کا حق ملے گا، وہ سرکاری سرپرستی والے سرداروں ، نوابوں کو اسی طرح رد کرتے رہیں گے۔
اس حقیقت کا ادراک فریقِ مخالف کو بھی تھا اسی لیے انھوں نے اپنی بقا کے لیے طاقت کے اصل ایوانوں کے سامنے سرنگوں ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ جو اپنی 'ریاست' میں فرعون بنے پھرتے تھے، طاقتوروں کے سامنے رِجھ گئے، بچھ گئے،اپنی فرعونی خدمات لیے۔ریاستی طاقت تو عوام دشمنی کا محور ہوتی ہے اسی لیے ہر عوام دشمن قوت ریاستی ڈھانچے میں باآسانی جگہ پا لیتی ہے۔ اسی لیے ریاستی طاقت کے ایوانوں میں عوام دشمن سرداروں کی پذیرائی ہوئی اور مخلص و منتخب سیاسی کارکن پس زنداں دھکیل دیے گئے۔
ان کی قوت کو مختلف حیلوں بہانوں سے توڑا گیا، تقسیم کیا گیا، بلوچستان کی منتخب حکومت کوگھر بھیج کر، عوام کو ایک غیر منتخب نواب کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا اور پھر یہی روایت ٹھہری۔ یہ روایت پھر ا س قدر مستحکم ہو گئی کہ اگر سرداری قبیلے میں سے کبھی کسی نے یوسف عزیز کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے عوامی قافلے کی ہم راہی کی، تو اس سے تعلق وہیں ختم کر دیا گیا، حاشیے پر ڈال دیا گیا،غدار ٹھہرا، موت کا حق دار ٹھہرا۔
اس سارے عرصے میں بلوچستان میں سرداروں کو اس قدر مضبوط بنا دیا گیا کہ کوئی عوامی سیاسی قوت سر ہی نہ اٹھا سکے۔ عوام، قبیلوں، علاقوں اور سرداروں میں بانٹ دیے گئے، اب یہی ہمارے حاکم ِ کل ٹھہرے، کوئی ووٹ ڈالے یا نہ ڈالے، انھوں نے ہر صورت ہمارے سروں پہ مسلط ہونا ہے۔ سیاسی حکومتوں اور سیاسی کارکنوں کی پسپائی کی صورت عوام کو یہ ذہن نشین کرا دیا گیا کہ اس خطے میں عوامی سیاست کے امکانات پر سوچنے کی بجائے ووٹ کے ذریعے سردار کی خوشنودی حاصل کرنا ہی ان کا مقدر ہے اورپھر انھی کو یہ طعنہ دیا جائے کہ تم لوگ تو سرداروں کو ووٹ دیتے ہو جو تمہاری ترقی میں رکاوٹ ہیں۔
اب کون پوچھے، اورکون بتائے کہ جب جب عوام نے سیاسی کارکنوں کو منتخب کیا ان کے ساتھ آپ نے کیا کیا؟ اور جو ہماری ترقی میں رکاوٹ ہیں، ان کی پشت پناہی کون کرتا ہے؟ انھیں فرش سے عرش پرکس نے پہنچایا؟ ان کے لیے بڑی بڑی حفاظتی گاڑیوں،عوام کو زیر رکھنے والے قیمتی اسلحے ، ان کی حفاظت پہ معمور باڈی گاڈز ، ان کی تعیشات اورمراعات کا انتظام واہتمام کون کرتا ہے؟...مگر، کون پوچھے، اور کون بتائے۔
اس سارے پس منظر میں نائن الیون والے ڈرامے سے شروع ہوئی، مار دھاڑ والے خون آشام بلوچستان میں جہاں ایک عرصے سے سیاست شجرِ ممنوعہ ٹھہری، کچھ اہلِ سیاست کسی نہ کسی طور بالآخر ایوان تک پہنچے۔ سیاسی جوڑ توڑ اور داؤ پیچ کے ذریعے اقتدارکا ہما اپنے سر بٹھانے میں فتح یاب ٹھہرے۔ بلوچستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار ایک سیاسی کارکن مسند اعلیٰ پہ بیٹھا، جس کے نام کے ساتھ سردار، نواب، میر ، خان کا کوئی سابقہ لاحقہ نہ لگتا تھا۔ سرداروں کی سیاست کو ایک بار پھر دھچکا پہنچا۔ انھوں نے محض اس خیال سے یہ کڑوا گھونٹ بہ امر مجبوری پی لیا کہ یہ سب 'عارضی' ہے، اور' حکم حاکم 'ہے۔
اس پورے عرصے میں مگر وہ ایک روز بھی چین سے نہ بیٹھے۔ کس قدر بیتابی سے انھوں نے اس 'عارضی عذاب'کے خاتمے کے متعین شدہ دن کا انتظارکیا جو ان کے اعلیٰ حاکموں کی جانب سے ان پر مسلط کر دیا گیا تھا۔ سو' اب ان کی جو بے چینی و بیتابی دیدنی تھی ختم ہوئی کیونکہ ہرگزرتا لمحہ ان پر قیامت بن کر گزرتا رہا۔
بلوچستان میں عوام کے ووٹ سے منتخب ہونے والی پہلی عوامی سیاسی حکومت کو ایک قائد ِ عوام نے مقتدر قوتوں کے ایما پر چلتا کردیا تھا۔اب سیاسی داؤ پیچ اور جوڑ توڑ کے نتیجے میں قائم ہونے والی ایک غیر سرداری حکومت کو سرداروں کی خوشنودی پر قربان کرنے کی تیاری پوری ہوگئی تاہم یہ فیصلہ ثابت کریگا کہ بلوچستان میں سردار آج بھی طاقتور ہے اور اہل سیاست کے لیے اس میں یہ سبق ہے کہ عوام پر حکومت کرنے کے لیے مقتدر قوتوں کا نہیں، عوام کا اعتبار جیتنا ضروری ہے ۔
داؤ پیچ اور جوڑ توڑ کے ذریعے چند روز ایوان میں سرداروں کے 'برابر' پر تو بیٹھا جا سکتا ہے، انھیں نیچا نہیں دکھا یاجا سکتا۔سرداروں کا مقابلہ صرف عوامی سیاست کر سکتی ہے۔ اور عوام کے دلوں تک جو راستہ جاتا ہے، اسے عوامی جدوجہد کہتے ہیں، داؤ پیچ نہیں۔