مہنگائی بے روزگاری بڑھناکیا اٹل ہے پہلاحصہ
کسی بھی ملک میں حکومتی غیر پیداواری اخراجات ’’عوامی ترقیاتی پیداواری اخراجات‘‘ سے جوں جوں بڑھتے جاتے ہیں
کسی بھی ملک میں حکومتی غیر پیداواری اخراجات ''عوامی ترقیاتی پیداواری اخراجات'' سے جوں جوں بڑھتے جاتے ہیں توں توں اسی نسبت سے عوام میں مہنگائی، بیروزگاری بڑھتی جاتی ہے۔ عوام کی قوت خرید سکڑتی (کم) جاتی ہے۔ نفع، سود، کرپشن سے اشرافیہ کی طرف سرمائے کا بہاؤ تیزی سے ہوتا چلا جاتا ہے۔ جاگیردار اور سرمایہ کار ورکرز کا معاشی استحصال کرتے اور قانون جو انھوں نے بنایا ہے۔
اشرافیہ کا ہی تحفظ کرتا ہے۔ عوام سے حاصل کیے گئے ٹیکسوں کا استعمال غلط کیا جاتا ہے۔ کتاب ''پاکستان اکنامک سروے برائے 2014-15'' کے صفحہ نمبر 58 پر دیے گئے اعداد و شمارکے مطابق 2011-12 میںکل اخراجات، 39 کھرب 36 ارب 21 کروڑ 80 لاکھ روپے (3936218.0 ملین روپے) تھے اور ترقیاتی اخراجات 7 کھرب 31 ارب 86 کروڑ 40 لاکھ روپے (731864.0ملین روپے) تھے۔
یہ کل اخراجات کا 18.59 فیصد تھا۔ مالی سال 2012-13 میں کل اخراجات 48 کھرب 16 ارب 30 کروڑ (4816300.0 ملین روپے) تھے اور ترقیاتی اخراجات 7 کھرب 77 ارب 9کروڑ60 لاکھ (777096.0 ملین روپے) تھے۔ یہ کل اخراجات کا 16 فیصد تھا۔ مالی سال 2013-14 کے کل اخراجات 50 کھرب 26 ارب ایک کروڑ 60 لاکھ (5026016.0 ملین روپے ) تھے اور ترقیاتی اخراجات 11 کھرب 35 ارب 91 کروڑ 80 لاکھ (1135918.0ملین روپے) تھے۔ یہ کل اخراجات کا 22.60 فیصد تھا۔
یہ رقوم بھی ایسی تھیں کہ جن کا عوام کی بنیادی ضروریات زندگی سے تعلق نہیں تھا۔ یہ حکومتی پروگرام تھے۔ جن پر کمیشن زیادہ اورکام برائے نام ہوتے ہیں۔ عوام سے لیے گئے ٹیکسوں کو اگر ''عوامی پیداواری'' ذرایع و شعبوں پر ایمانداری سے 50 فیصد بھی خرچ کیا جاتا تو آج ملک خودکفیل ہوتا، صنعتی وزرعی کلچر فروغ پاتا، مہنگائی، بے روزگاری کا خاتمہ ہوچکا ہوتا۔ سامراجی درآمدات میں اضافے کی بجائے کمی ہوجاتی اور ایکسپورٹ بڑھ جاتیں۔ 29 نومبر 2015 کو پنجاب ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین نے میڈیا کے سامنے کہا ''گزشتہ 4 ماہ (اگست 2015) سے ٹیکسٹائل انڈسٹریزکی برآمدات (ایکسپورٹ) میں مسلسل کمی ہوتی جا رہی ہے۔
حکومت اس انڈسٹری کو صرف چار گھنٹے رو پیٹ کر گیس فراہم کر رہی ہے۔ بجلی کے بڑھتے بلوں نے انڈسٹری کو مزید تباہی سے دوچار کیا ہوا ہے۔'' پاکستان کی تمام انڈسٹریزکو حکمرانوں نے جان بوجھ کر سامراجی اشارے پر تباہی کی طرف دھکیلنا شروع کیا ہوا ہے۔ زرعی شعبے میں کسانوں کے نام پر اربوں اور کروڑوں روپے قرضے لے کر بڑے جاگیردار لے کر کھا جاتے ہیں اور بعد میں یہ قرضے معاف کرائے جاتے ہیں۔
ماہر قانون دان اور فلسفی خادم تھیم کا کہنا ہے کہ ''اگر ملکی اشرافیہ (جاگیردار+ سرمایہ کار) پاکستانی عوام کے ہمدرد ہوتے توکافی حد تک بیروزگاری پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ جہاں اور جس جگہ بھی ان کے اداروں، نجی شعبوں، ورکرز سے 16,16 گھنٹے کام لیا جاتا ہے وہاں ہر ورکر سے 6 گھنٹے کام لیا جائے تو بارہ گھنٹوں میں دو ورکرزکو روزی مل سکتی ہے، لیکن افسوس تو یہ ہے کہ آج ہر سطح کی قومی و صوبائی اسمبلیوں میں اشرافیہ کا قبضہ ہے یہ عوام اور ملک سے زیادہ اپنے معاشی مفاد کے لیے ملک اور عوام کو تباہ کرنے پر تلے ہیں۔
اگر ملکی صنعتی کلچر اور زرعی کلچر کو ماڈرنائزیشن کردیا جاتا تو آج ملک ''بھکاری ملک'' کے زمرے میں نہ آتا۔''راقم کے مطابق حقیقت یہ بھی ہے کہ جہاں 1947 سے 2015 تک ملکی اشرافیہ نے 68 سالوں سے عوامی خزانے (عوام سے لیے گئے ٹیکسوں) کو جس طرح لوٹا ہے اور سامراجی اداروں کے ساتھ مل کر عوام کو عوام اور سامراجیوں کا ''معاشی غلام'' بنانے کا کردار ادا کیا ہے۔ اس کی ہزاروں سالوں قبل ''غلام داری سماج'' میں بھی مثال نہیں ملتی ہے۔ باہر کا دشمن کتنا ہی مضبوط ہو۔ کسی بھی ملک اور عوام کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے۔
جب تک اسے ملک کے ''اندر'' سے غدار نہ مل جائیں۔ اگر جنرل ایوب خان امریکا پرست نہ ہوتا تو امریکا کو کبھی بھی بڈابیر کا ہوائی اڈہ استعمال کرنے کی اجازت نہ دیتا۔ جنرل ضیا الحق عوام اور وطن پرست ہوتا تو کبھی بھی افغانستان میں امریکی کمانڈ تلے جہادی فوج نہ تیار کرتا۔ امریکی، سابقہ سوویت یونین اور افغان جنگ میں جہادیوں نے ہی امریکا کو شکست سے دوچار کیا تھا۔ ضیا الحق کے دور سے قبل پاکستان میں چند سو دینی مدرسے بھی تھے اس کے بعد مدارس کی تعداد ہزاروں تک جا پہنچی تھی۔
پرویز مشرف نے پاکستان کے ہوائی اڈوں کو امریکی استعمال میں دے کر ان امریکی پیدا کردہ جہادیوں کو ختم کرنا شروع کیا۔ امریکا درپردہ جہادی گروپوں کو فنڈنگ کرکے آج پوری دنیا میں دہشت گردی کرا رہا ہے۔ایک طرف سامراجی ''معاشی غلام'' ملکوں کو لوٹ رہا ہے دوسری طرف ان ملکوں کی اشرافیہ ''معاشی اور جمہوری غلام'' عوام کو لوٹ رہی ہے۔
کتاب ''پاکستان اکنامک سروے برائے 2014-15'' کے باب ''اقتصادی اور سماجی اعشاریے'' کے صفحہ نمبر 58 پر دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2012-13 حکومت نے عوام سے ریونیو (ٹیکس) 29 کھرب 82 ارب 43 کروڑ 60 لاکھ روپے وصول کیا تھا اور اخراجات 48کھرب 16 ارب 30کروڑ روپے تھے۔ بجٹ خسارہ 18 کھرب 33 ارب 86 کروڑ 40 لاکھ روپے دکھایا گیا ہے۔ اسی کتاب کے صفحہ نمبر 119 پر حکومت نے سامراجی ملکوں سے 2012-13 میں طویل مدتی قرضہ 2 ارب 48 کروڑ 60 لاکھ ڈالر منظور کرایا۔
اس میں سے بروقت اصل زر کی مد میں ایک ارب 90 کروڑ 30 لاکھ ڈالر، سود کی مد میں 70 کروڑ 90 لاکھ ڈالر بھی بروقت کٹوایا۔ دونوں کا مجموعی (ٹوٹل) 2 ارب 61 کروڑ 20 لاکھ ڈالر بنتے ہیں۔ اس طرح حکومت نے اپنے پاس سے 12 کروڑ 60لاکھ ڈالر ادا کیے۔ اس قرضہ فارمولے کے مطابق عوام کے ذمے اسی مدت کے دوران بغیر کچھ لیے قرضے کی مقدار 58 کروڑ 30 لاکھ ڈالر سامراجی ادارے نے چڑھا دی۔
مالی سال 2011-12 کو عوام پر مجموعی قرضہ 48 ارب 53 کروڑ90 لاکھ ڈالر تھا۔ 2012-13 میں اپنے پاس سے قرض کی ادائیگی کے باوجود کچھ ہاتھ آئے بغیر قرض کی مقدار بڑھ کر 49 ارب 12 کروڑ 20 لاکھ ڈالر ہوگئی۔ اسی کتاب کے صفحہ نمبر 114 پر ڈالر کے ایکسچینج ریٹ 2012-13 کو اوسطاً96.7272 روپے کا ڈالر تھا۔ سامراج کو ادائیگی 12 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کے حساب 12 ارب 18 کروڑ 76 لاکھ روپے کا خسارہ ہوا تھا۔
ملکی مجموعی مالیاتی پوزیشن کا اگر تجزیہ کیا جائے تو حکومتی متذکرہ کتاب کے صفحہ نمبر 58 کے مطابق ٹیبل 4.2 ...Summary of Public Finance (Consolidated Federal and Provincial Governments) حکومت نے بجٹ خسارہ 1833864.0 ملین روپے دکھایا ہے۔ صفحہ 61 پر حکومت نے ملکی اور غیر ملکی قرض ادائیگی کے نام پر ٹوٹل 1223670.0 ملین روپے (12 کھرب 23 ارب 67 کرور روپے) عوام سے وصول کیا۔ یہ خسارے کی مد کی رقم ہے اور بجٹ خسارے میں شامل ہے۔ متذکرہ کتاب کے صفحہ 101 پر تجارتی خسارہ 2012-13 میں 20 ارب 49 کروڑ ڈالر اور پاکستانی کرنسی روپے میں یہ خسارہ 19 کھرب 83 ارب 40 کروڑ 10 لاکھ روپے ہے۔
اس طرح بجٹ خسارہ 1833864.0 ملین روپے اور تجارتی خسارے کا ٹوٹل 38 کھرب 17 ارب 26 کروڑ 50 لاکھ (3817265.0ملین روپے) بنتا ہے اب آپ حکومت کے پاس آنے والی رقوم کا ٹوٹل دیکھیں۔ بیرونی ملکوں میں کام کرنے والے ورکرز کا زرمبادلہ Workers Remittance ۔(1)۔سال 2012-13 میں 13 ارب 92 کروڑ 36 لاکھ 60 ہزار ڈالر حکومتی خزانے میں آئے۔ 2012-13 میں ایک ڈالر کی قیمت 96.7272 روپے تھی۔
اس طرح حکومت کے پاس 13 کھرب 46 ارب 79 کروڑ 66 لاکھ 45 ہزار 5 سو 50 روپے کا اضافہ ہوا۔ (2)۔مالی سال حکومت سے مقامی، ملکی بینکوں سے متذکرہ کتاب کے صفحے 152کے مطابق 2012-13 میں حکومت نے 18 کھرب 84 ارب روپے حاصل کیے تھے۔
(3)۔مالی سال 2012-13 کو حکومت کے پاس فارن ایکسچینج ریزرو 15 ارب 28 کروڑ 86 لاکھ ڈالر تھے (متذکرہ کتاب کے صفحہ نمبر 136 کے مطابق) اب مجموعی طور پر حکومت کے ہاتھ میں اسی ڈالر رقم کے پاکستانی روپے 14 کھرب 78 ارب 82 کروڑ 34 لاکھ 69 ہزار 9 سو 20 روپے بنتے ہیں اور حکومتی ہاتھ میں اس طرح مجموعی آمدنی 3 مدوں میں 47 کھرب 9 ارب 62 کروڑ ایک لاکھ 15 ہزار 4 سو 70 روپے ہوئی تھی۔ (جاری ہے ۔)
اشرافیہ کا ہی تحفظ کرتا ہے۔ عوام سے حاصل کیے گئے ٹیکسوں کا استعمال غلط کیا جاتا ہے۔ کتاب ''پاکستان اکنامک سروے برائے 2014-15'' کے صفحہ نمبر 58 پر دیے گئے اعداد و شمارکے مطابق 2011-12 میںکل اخراجات، 39 کھرب 36 ارب 21 کروڑ 80 لاکھ روپے (3936218.0 ملین روپے) تھے اور ترقیاتی اخراجات 7 کھرب 31 ارب 86 کروڑ 40 لاکھ روپے (731864.0ملین روپے) تھے۔
یہ کل اخراجات کا 18.59 فیصد تھا۔ مالی سال 2012-13 میں کل اخراجات 48 کھرب 16 ارب 30 کروڑ (4816300.0 ملین روپے) تھے اور ترقیاتی اخراجات 7 کھرب 77 ارب 9کروڑ60 لاکھ (777096.0 ملین روپے) تھے۔ یہ کل اخراجات کا 16 فیصد تھا۔ مالی سال 2013-14 کے کل اخراجات 50 کھرب 26 ارب ایک کروڑ 60 لاکھ (5026016.0 ملین روپے ) تھے اور ترقیاتی اخراجات 11 کھرب 35 ارب 91 کروڑ 80 لاکھ (1135918.0ملین روپے) تھے۔ یہ کل اخراجات کا 22.60 فیصد تھا۔
یہ رقوم بھی ایسی تھیں کہ جن کا عوام کی بنیادی ضروریات زندگی سے تعلق نہیں تھا۔ یہ حکومتی پروگرام تھے۔ جن پر کمیشن زیادہ اورکام برائے نام ہوتے ہیں۔ عوام سے لیے گئے ٹیکسوں کو اگر ''عوامی پیداواری'' ذرایع و شعبوں پر ایمانداری سے 50 فیصد بھی خرچ کیا جاتا تو آج ملک خودکفیل ہوتا، صنعتی وزرعی کلچر فروغ پاتا، مہنگائی، بے روزگاری کا خاتمہ ہوچکا ہوتا۔ سامراجی درآمدات میں اضافے کی بجائے کمی ہوجاتی اور ایکسپورٹ بڑھ جاتیں۔ 29 نومبر 2015 کو پنجاب ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین نے میڈیا کے سامنے کہا ''گزشتہ 4 ماہ (اگست 2015) سے ٹیکسٹائل انڈسٹریزکی برآمدات (ایکسپورٹ) میں مسلسل کمی ہوتی جا رہی ہے۔
حکومت اس انڈسٹری کو صرف چار گھنٹے رو پیٹ کر گیس فراہم کر رہی ہے۔ بجلی کے بڑھتے بلوں نے انڈسٹری کو مزید تباہی سے دوچار کیا ہوا ہے۔'' پاکستان کی تمام انڈسٹریزکو حکمرانوں نے جان بوجھ کر سامراجی اشارے پر تباہی کی طرف دھکیلنا شروع کیا ہوا ہے۔ زرعی شعبے میں کسانوں کے نام پر اربوں اور کروڑوں روپے قرضے لے کر بڑے جاگیردار لے کر کھا جاتے ہیں اور بعد میں یہ قرضے معاف کرائے جاتے ہیں۔
ماہر قانون دان اور فلسفی خادم تھیم کا کہنا ہے کہ ''اگر ملکی اشرافیہ (جاگیردار+ سرمایہ کار) پاکستانی عوام کے ہمدرد ہوتے توکافی حد تک بیروزگاری پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ جہاں اور جس جگہ بھی ان کے اداروں، نجی شعبوں، ورکرز سے 16,16 گھنٹے کام لیا جاتا ہے وہاں ہر ورکر سے 6 گھنٹے کام لیا جائے تو بارہ گھنٹوں میں دو ورکرزکو روزی مل سکتی ہے، لیکن افسوس تو یہ ہے کہ آج ہر سطح کی قومی و صوبائی اسمبلیوں میں اشرافیہ کا قبضہ ہے یہ عوام اور ملک سے زیادہ اپنے معاشی مفاد کے لیے ملک اور عوام کو تباہ کرنے پر تلے ہیں۔
اگر ملکی صنعتی کلچر اور زرعی کلچر کو ماڈرنائزیشن کردیا جاتا تو آج ملک ''بھکاری ملک'' کے زمرے میں نہ آتا۔''راقم کے مطابق حقیقت یہ بھی ہے کہ جہاں 1947 سے 2015 تک ملکی اشرافیہ نے 68 سالوں سے عوامی خزانے (عوام سے لیے گئے ٹیکسوں) کو جس طرح لوٹا ہے اور سامراجی اداروں کے ساتھ مل کر عوام کو عوام اور سامراجیوں کا ''معاشی غلام'' بنانے کا کردار ادا کیا ہے۔ اس کی ہزاروں سالوں قبل ''غلام داری سماج'' میں بھی مثال نہیں ملتی ہے۔ باہر کا دشمن کتنا ہی مضبوط ہو۔ کسی بھی ملک اور عوام کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے۔
جب تک اسے ملک کے ''اندر'' سے غدار نہ مل جائیں۔ اگر جنرل ایوب خان امریکا پرست نہ ہوتا تو امریکا کو کبھی بھی بڈابیر کا ہوائی اڈہ استعمال کرنے کی اجازت نہ دیتا۔ جنرل ضیا الحق عوام اور وطن پرست ہوتا تو کبھی بھی افغانستان میں امریکی کمانڈ تلے جہادی فوج نہ تیار کرتا۔ امریکی، سابقہ سوویت یونین اور افغان جنگ میں جہادیوں نے ہی امریکا کو شکست سے دوچار کیا تھا۔ ضیا الحق کے دور سے قبل پاکستان میں چند سو دینی مدرسے بھی تھے اس کے بعد مدارس کی تعداد ہزاروں تک جا پہنچی تھی۔
پرویز مشرف نے پاکستان کے ہوائی اڈوں کو امریکی استعمال میں دے کر ان امریکی پیدا کردہ جہادیوں کو ختم کرنا شروع کیا۔ امریکا درپردہ جہادی گروپوں کو فنڈنگ کرکے آج پوری دنیا میں دہشت گردی کرا رہا ہے۔ایک طرف سامراجی ''معاشی غلام'' ملکوں کو لوٹ رہا ہے دوسری طرف ان ملکوں کی اشرافیہ ''معاشی اور جمہوری غلام'' عوام کو لوٹ رہی ہے۔
کتاب ''پاکستان اکنامک سروے برائے 2014-15'' کے باب ''اقتصادی اور سماجی اعشاریے'' کے صفحہ نمبر 58 پر دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2012-13 حکومت نے عوام سے ریونیو (ٹیکس) 29 کھرب 82 ارب 43 کروڑ 60 لاکھ روپے وصول کیا تھا اور اخراجات 48کھرب 16 ارب 30کروڑ روپے تھے۔ بجٹ خسارہ 18 کھرب 33 ارب 86 کروڑ 40 لاکھ روپے دکھایا گیا ہے۔ اسی کتاب کے صفحہ نمبر 119 پر حکومت نے سامراجی ملکوں سے 2012-13 میں طویل مدتی قرضہ 2 ارب 48 کروڑ 60 لاکھ ڈالر منظور کرایا۔
اس میں سے بروقت اصل زر کی مد میں ایک ارب 90 کروڑ 30 لاکھ ڈالر، سود کی مد میں 70 کروڑ 90 لاکھ ڈالر بھی بروقت کٹوایا۔ دونوں کا مجموعی (ٹوٹل) 2 ارب 61 کروڑ 20 لاکھ ڈالر بنتے ہیں۔ اس طرح حکومت نے اپنے پاس سے 12 کروڑ 60لاکھ ڈالر ادا کیے۔ اس قرضہ فارمولے کے مطابق عوام کے ذمے اسی مدت کے دوران بغیر کچھ لیے قرضے کی مقدار 58 کروڑ 30 لاکھ ڈالر سامراجی ادارے نے چڑھا دی۔
مالی سال 2011-12 کو عوام پر مجموعی قرضہ 48 ارب 53 کروڑ90 لاکھ ڈالر تھا۔ 2012-13 میں اپنے پاس سے قرض کی ادائیگی کے باوجود کچھ ہاتھ آئے بغیر قرض کی مقدار بڑھ کر 49 ارب 12 کروڑ 20 لاکھ ڈالر ہوگئی۔ اسی کتاب کے صفحہ نمبر 114 پر ڈالر کے ایکسچینج ریٹ 2012-13 کو اوسطاً96.7272 روپے کا ڈالر تھا۔ سامراج کو ادائیگی 12 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کے حساب 12 ارب 18 کروڑ 76 لاکھ روپے کا خسارہ ہوا تھا۔
ملکی مجموعی مالیاتی پوزیشن کا اگر تجزیہ کیا جائے تو حکومتی متذکرہ کتاب کے صفحہ نمبر 58 کے مطابق ٹیبل 4.2 ...Summary of Public Finance (Consolidated Federal and Provincial Governments) حکومت نے بجٹ خسارہ 1833864.0 ملین روپے دکھایا ہے۔ صفحہ 61 پر حکومت نے ملکی اور غیر ملکی قرض ادائیگی کے نام پر ٹوٹل 1223670.0 ملین روپے (12 کھرب 23 ارب 67 کرور روپے) عوام سے وصول کیا۔ یہ خسارے کی مد کی رقم ہے اور بجٹ خسارے میں شامل ہے۔ متذکرہ کتاب کے صفحہ 101 پر تجارتی خسارہ 2012-13 میں 20 ارب 49 کروڑ ڈالر اور پاکستانی کرنسی روپے میں یہ خسارہ 19 کھرب 83 ارب 40 کروڑ 10 لاکھ روپے ہے۔
اس طرح بجٹ خسارہ 1833864.0 ملین روپے اور تجارتی خسارے کا ٹوٹل 38 کھرب 17 ارب 26 کروڑ 50 لاکھ (3817265.0ملین روپے) بنتا ہے اب آپ حکومت کے پاس آنے والی رقوم کا ٹوٹل دیکھیں۔ بیرونی ملکوں میں کام کرنے والے ورکرز کا زرمبادلہ Workers Remittance ۔(1)۔سال 2012-13 میں 13 ارب 92 کروڑ 36 لاکھ 60 ہزار ڈالر حکومتی خزانے میں آئے۔ 2012-13 میں ایک ڈالر کی قیمت 96.7272 روپے تھی۔
اس طرح حکومت کے پاس 13 کھرب 46 ارب 79 کروڑ 66 لاکھ 45 ہزار 5 سو 50 روپے کا اضافہ ہوا۔ (2)۔مالی سال حکومت سے مقامی، ملکی بینکوں سے متذکرہ کتاب کے صفحے 152کے مطابق 2012-13 میں حکومت نے 18 کھرب 84 ارب روپے حاصل کیے تھے۔
(3)۔مالی سال 2012-13 کو حکومت کے پاس فارن ایکسچینج ریزرو 15 ارب 28 کروڑ 86 لاکھ ڈالر تھے (متذکرہ کتاب کے صفحہ نمبر 136 کے مطابق) اب مجموعی طور پر حکومت کے ہاتھ میں اسی ڈالر رقم کے پاکستانی روپے 14 کھرب 78 ارب 82 کروڑ 34 لاکھ 69 ہزار 9 سو 20 روپے بنتے ہیں اور حکومتی ہاتھ میں اس طرح مجموعی آمدنی 3 مدوں میں 47 کھرب 9 ارب 62 کروڑ ایک لاکھ 15 ہزار 4 سو 70 روپے ہوئی تھی۔ (جاری ہے ۔)