بچھڑ گیا ہے کوئی مجھ کو چاہنے والا
اس وقت میں جس دکھ، کرب اور تنہائی کی اذیت سے گزر رہی ہوں، اس کا ادراک ان سب کو ہے
PESHAWAR:
اس وقت میں جس دکھ، کرب اور تنہائی کی اذیت سے گزر رہی ہوں، اس کا ادراک ان سب کو ہے، جو میرے اور میرے اکلوتے بیٹے کے غم میں شریک ہیں۔۔۔۔ وہ تمام احباب، ایکسپریس کے تمام لوگ، میرے ساتھی کالم نگار، جن میں سے بعض گھر آئے اور بیشتر نے فون کر کے تعزیت کی۔
میں ان سب کے فرداً فرداً نام لکھنے بیٹھوں تو کئی کالم درکار ہوں گے۔ وہ تمام لوگ جنھوں نے پورے پاکستان سے اور پاکستان کے باہر سے رابطے کیے، کسی نے ''او'' نیگیٹیو(O Negative) خون کی پیشکش کی بے شمار لوگوں نے خود کو ڈونر کے طور پہ پیش کیا۔ خدا کا شکر کہ قاضی اختر میرے شریک حیات کو فوری طور پر خون بھی مل گیا، مگر صرف ایک رات اسپتال میں گزار کر وہ اس دیس سدھار گئے، جہاں سے آج تک کوئی واپس نہیں آیا۔
جس دن انھیں اسپتال لے جایا جا رہا تھا، اس وقت معراج جامی ہمارے گھر پر ان کی عیادت کو آئے تھے۔ اختر نے اپنے عزیزوں سے ان کا تعارف بہت بھرپور طریقے سے کرایا، لیکن اسپتال کی ایمبولینس میں سفر سے پہلے اچانک بولے ''ہماری اننگ ختم ہو گئی'' قریب ہی موجود لوگوں نے ڈھارس بندھائی، لیکن مسکرا کر رہ گئے۔ جیسے خود اپنے شعر یاد کر رہے ہوں:
کھلتا ہے میری آنکھ پہ منظر وہ خاک کا
یعنی میں ایک حرفِ فنا کا اسیر ہوں
......
اب بہت دن نہ جی سکیں گے ہم
زندگی کی لکیر کہتی ہے
......
مجھے شرمندہ کرتے جا رہے ہیں
مرے احباب مرتے جا رہے ہیں
آخر تک کوئی ایسی علامت نہیں تھی کہ ان کی زندگی کا چراغ گل ہونے والا ہے۔ جمعرات کی شام میں اور میرا بیٹا وہیں تھے۔ بے چارہ بیٹا تو بدھ کو ڈیڑھ بجے کراچی پہنچا ہے۔ اسے بہت یاد کرتے تھے۔ منگل کو اچانک کہا کہ ''اپنی زندگی میں اپنے بیٹے کو دیکھنا چاہتا ہوں۔'' ان کے ہمدردوں جنید اشرف اور ان کے ماموں زاد بھائی منہاج غوثی نے ان کا جی بہلایا، تسلی دی اور خاموشی سے راحیل کو معاملہ بتا دیا، لیکن ان دونوں عظیم لوگوں نے اس بات کی بھنک میرے کانوں میں نہیں پڑنے دی کہ قاضی اختر حوصلہ ہار چکے ہیں۔
اسی لیے انھوں نے بیٹے کو خبر کر دی۔ وہ پورے وقت مسلسل باپ کے ساتھ رہا۔ او نیگیٹیو کتنا کمیاب گروپ ہے لیکن فوراً اس کا انتظام ہو گیا۔ میرے پرانے پڑوسیوں کا بیٹا دانیال راشد جو کراچی یونیورسٹی میں شعبہ کمپیوٹر سائنس سے منسلک ہے۔ پہلی اطلاع میں نے ایڈیٹر طاہر نجمی کو دی اور دوسری دانیال کو۔ اور یہ سن کر حیران رہ گئی کہ اس کا خود کا گروپ وہی ہے۔ اس نے صبح آٹھ بجے خون دے دیا۔ سب کچھ ٹھیک تھا۔ شام سات بجے تک میں وہیں رہی۔ باتیں کرتے رہے۔ کھچڑی اور ساگودانہ بھی کھایا، لیکن اگلے دن جو سی ٹی اسکین ہونا تھا تا کہ نقاہت اور ہیموگلوبین کم ہونے کی وجوہات کا پتہ چلایا جائے۔ اس کی نوبت ہی نہیں آئی۔
میں نے یکم دسمبر کے بعد سے اب تک کمپیوٹر نہیں کھولا ہے، لیکن میں جانتی ہوں کہ کن کن احباب نے اپنی دوستی اور تعلقات نبھائے ہیں۔ اس مشکل وقت میں عقیل عباس جعفری، راشد اشرف، معراج جامی، احسن سلیم، پروفیسر سحر انصاری اور طارق رئیس فروغ نے حق دوستی ادا کر دیا۔
جبار مرزا نے کئی بار اسلام آباد سے فون کر کے ہمت بندھائی، انھوں نے قاضی اختر کے لیے دو لاکھ بار درود شریف پڑھوا کر فاتحہ کروائی۔ زاہدہ حنا، نسیم انجم، عذرا اصغر، مقتدا منصور، انیس باقر، اقبال خورشید کے علاوہ لاہور سے عطا الحق قاسمی، شاہین زیدی اور شاہد علی خاں نے بھی اس قیامت کو محسوس کیا جو مجھ پر گزر گئی اور مسلسل گزر رہی ہے۔ دل کو کسی صورت قرار نہیں، موت برحق ہے۔ جانا سب کو ہے لیکن جس طرح آناً فاناً اختر نے زندگی ہاری وہ سب کے لیے ناقابل برداشت ہے۔
آج جب میں یہ کالم لکھ رہی ہوں۔ چند منٹ پہلے شام چھ بجے معراج جامی میری نئی کتاب ''فنون لطیفہ کی لازوال ہستیاں'' کی بیس کاپیاں لائے تو دیر تک اشکبار رہے۔ اختر کی خواہش تھی کہ اس چودھویں کتاب کی تقریب اجرا آرٹس کونسل میں ضرور کریں گے جب کہ میں نے ابتدائی تین کتابوں کی رونمائی خود شیرٹن ہوٹل میں کی تھی اور ہم دونوں کے بھارت کے سفر ناموں کی تقریب پریس کلب کی ادبی کمیٹی نے کی تھی۔
اختر نے سارا پروگرام لکھ کر ترتیب دے دیا تھا۔ کون صدارت کرے گا، کون مضمون پڑے گا اور کون نظامت کے فرائض انجام دے گا۔ میرے سامنے وہ لسٹ اب بھی رکھی ہے، لیکن پتہ نہیں اب حوصلہ کر پاؤں گی کہ نہیں۔
میرا اور اختر کا ساتھ بہت پرانا تھا۔ سحر انصاری بخوبی واقف ہیں۔ انجمن ترقی اردو اور غالب لائبریری والے بھی جانتے تھے کہ ہمارا تعلق کتابوں نے جوڑا تھا۔ 1964ء میں جب میں فرسٹ ایئر میں کراچی کالج فار ویمن کی طالبہ تھی تو اردو آرٹس کالج کے ایک حصے میں انجمن کا دفتر تھا، جہاں سے مولوی عبدالحق اور نامور محقق اور عالم قاضی احمد میاں جوناگڑھی کی یادیں بھی وابستہ تھیں، جو ہفت زباں کہلاتے تھے اور مولوی صاحب سے بہت قریب تھے۔ ہم جب بھی لائبریری میں ملتے تو نسیم احمد ہمیں کتابیں نکال کر دیتے۔
پہلا تعارف اختر سے نسیم احمد ہی نے کروایا تھا۔ انتقال والے دن بھی وہ صبح ہی پہنچ گئے۔ مجھے نہ صرف تسلی دی بلکہ ان کا چہرہ اس بات کا غماز تھا کہ انھیں کتنا گہرا صدمہ پہنچا تھا۔ اختر کا دل بہت بڑا تھا۔ وہ ہر ایک کو معاف کر دیا کرتے تھے اور کسی کے تکلیف دہ رویے کی شکایت نہیں کرتے تھے، لیکن اسی خوبی نے انھیں تنہا کر دیا۔ وہ عزیزوں، رشتے داروں کی بے رخی سہتے رہے اور چپ سادھ لی کہ اس دنیا میں خون کے رشتے ہی سب سے زیادہ تکلیف دیتے ہیں۔ ان رویوں کی شکایت بھی نہیں کی جا سکتی اور انھیں بھلایا بھی نہیں جا سکتا۔ جس پر قیامت گزرتی ہے وہی اندر سے ٹوٹتا ہے۔
لیکن اختر اور میں اس لحاظ سے بہت خوش قسمت تھے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے حلقہ احباب بہت اچھا اور مخلص دیا ہے۔ اختر کے آخری وقت میں بھی ہمارے پرانے پڑوسی راشد بھائی ان کے پاس تھے خدا انھیں اس کا اجر دے۔
1964ء سے دسمبر 2015ء تک کا ساتھ دو دوستوں کا ساتھ تھا۔ میں نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ہم آیندہ زندگی میں ہم سفر بنیں گے، لیکن قدرت کو نجانے کیوں یہ ملاپ منظور تھا جب کہ ان کا تعلق کاٹھیاواڑ کی ریاست جوناگڑھ سے اور میرا تعلق بائیس خواجہ کی چوکھٹ دلی سے۔ پہلی بار 2005ء میں جب ہم انڈیا گئے تو اختر نے جامع مسجد کی سیڑھیوں پہ کھڑے ہو کر، شاہی قلعے میں گھوم کر، مٹیا محل میں کریم ہوٹل اور جواہر ہوٹل کا کھانا کھا کر، چاندنی چوک میں جگہ جگہ تقسیم کی قیامت کے نشانات دیکھ کر، حضرت نظام الدین اولیاء کے مزار مبارک پہ گھنٹوں بیٹھ کر دلی کو دیکھا ہی نہیں بلکہ محسوس بھی کیا اور کہا کہ ''آج مجھے احساس ہو رہا ہے کہ جیسے میں نے جنم تو جونا گڑھ میں لیا تھا۔
لیکن میرے خمیر میں مٹی دلی کی تھی۔'' پھر ہم دو بار مزید گئے اور گھومے اور اس بار پھر بھارت کے سات شہروں میں جانے والے تھے۔ بطور خاص ممبئی حاجی علی کی درگاہ پہ حاضری دینے۔ ہمارا ارادہ دسمبر کے پہلے ہفتے میں نکلنے کا تھا۔ الٰہ آباد، بنگلور اور دلی کے احباب کو بتا بھی دیا تھا۔ نند کشور وکرم ہمارے منتظر تھے کہ اچانک بیمار پڑے اور چٹ پٹ ہو گئے۔ خدا جانے کیوں بار بار یہ بات کہتے تھے کہ ''کہیں تمہیں انڈیا سے اکیلا واپس نہ آنا پڑے، اگر کچھ ہو جائے تو مجھے وہیں دفن کر دینا۔''
ایک بار پھر تمام احباب کا شکریہ ادا کرتی ہوں اور ان کے لیے ایک بار سورۂ فاتحہ اور سورۂ اخلاص پڑھ کر بخشنے کی دعا کی درخواست کرتی ہوں۔
چند وہ شعر جو انھوں نے بطور خاص میرے لیے کہے تھے:
میں ریگزار زیست پہ تنہا سفر میں تھا
منزل سے میری اس نے مجھے آشنا کیا
......
دل کے نگر میں تو یہ محبت تلاش کر
یہ جو خلوص ہے' نہیں ملتا دکان میں
......
میری آنکھوں میں بدلتے موسموں کے رنگ ہیں
تیرے چہرے پر حیا کی سرخیوں کے رنگ ہیں
میری سانسوں میں بھی سوندھی سوندھی خوشبو جاگ اٹھی
تیری باتوں میں بھی برکھا بادلوں کے رنگ ہیں
یہ زمین و آسماں بھی ایک ہو جانے کو ہیں
دوریوں کے دن گئے' اب قربتوں کے رنگ ہیں
......
مجھے سمیٹ کے رکھا ہے تیری چاہت نے
کوئی سوال نہیں تھا مرے سنبھلنے کا
......
ٹوٹ جاتا ہے بہت جلد نظر کا رشتہ
تجھ کو دیکھوں تو تری سمت برابر دیکھوں
اس وقت میں جس دکھ، کرب اور تنہائی کی اذیت سے گزر رہی ہوں، اس کا ادراک ان سب کو ہے، جو میرے اور میرے اکلوتے بیٹے کے غم میں شریک ہیں۔۔۔۔ وہ تمام احباب، ایکسپریس کے تمام لوگ، میرے ساتھی کالم نگار، جن میں سے بعض گھر آئے اور بیشتر نے فون کر کے تعزیت کی۔
میں ان سب کے فرداً فرداً نام لکھنے بیٹھوں تو کئی کالم درکار ہوں گے۔ وہ تمام لوگ جنھوں نے پورے پاکستان سے اور پاکستان کے باہر سے رابطے کیے، کسی نے ''او'' نیگیٹیو(O Negative) خون کی پیشکش کی بے شمار لوگوں نے خود کو ڈونر کے طور پہ پیش کیا۔ خدا کا شکر کہ قاضی اختر میرے شریک حیات کو فوری طور پر خون بھی مل گیا، مگر صرف ایک رات اسپتال میں گزار کر وہ اس دیس سدھار گئے، جہاں سے آج تک کوئی واپس نہیں آیا۔
جس دن انھیں اسپتال لے جایا جا رہا تھا، اس وقت معراج جامی ہمارے گھر پر ان کی عیادت کو آئے تھے۔ اختر نے اپنے عزیزوں سے ان کا تعارف بہت بھرپور طریقے سے کرایا، لیکن اسپتال کی ایمبولینس میں سفر سے پہلے اچانک بولے ''ہماری اننگ ختم ہو گئی'' قریب ہی موجود لوگوں نے ڈھارس بندھائی، لیکن مسکرا کر رہ گئے۔ جیسے خود اپنے شعر یاد کر رہے ہوں:
کھلتا ہے میری آنکھ پہ منظر وہ خاک کا
یعنی میں ایک حرفِ فنا کا اسیر ہوں
......
اب بہت دن نہ جی سکیں گے ہم
زندگی کی لکیر کہتی ہے
......
مجھے شرمندہ کرتے جا رہے ہیں
مرے احباب مرتے جا رہے ہیں
آخر تک کوئی ایسی علامت نہیں تھی کہ ان کی زندگی کا چراغ گل ہونے والا ہے۔ جمعرات کی شام میں اور میرا بیٹا وہیں تھے۔ بے چارہ بیٹا تو بدھ کو ڈیڑھ بجے کراچی پہنچا ہے۔ اسے بہت یاد کرتے تھے۔ منگل کو اچانک کہا کہ ''اپنی زندگی میں اپنے بیٹے کو دیکھنا چاہتا ہوں۔'' ان کے ہمدردوں جنید اشرف اور ان کے ماموں زاد بھائی منہاج غوثی نے ان کا جی بہلایا، تسلی دی اور خاموشی سے راحیل کو معاملہ بتا دیا، لیکن ان دونوں عظیم لوگوں نے اس بات کی بھنک میرے کانوں میں نہیں پڑنے دی کہ قاضی اختر حوصلہ ہار چکے ہیں۔
اسی لیے انھوں نے بیٹے کو خبر کر دی۔ وہ پورے وقت مسلسل باپ کے ساتھ رہا۔ او نیگیٹیو کتنا کمیاب گروپ ہے لیکن فوراً اس کا انتظام ہو گیا۔ میرے پرانے پڑوسیوں کا بیٹا دانیال راشد جو کراچی یونیورسٹی میں شعبہ کمپیوٹر سائنس سے منسلک ہے۔ پہلی اطلاع میں نے ایڈیٹر طاہر نجمی کو دی اور دوسری دانیال کو۔ اور یہ سن کر حیران رہ گئی کہ اس کا خود کا گروپ وہی ہے۔ اس نے صبح آٹھ بجے خون دے دیا۔ سب کچھ ٹھیک تھا۔ شام سات بجے تک میں وہیں رہی۔ باتیں کرتے رہے۔ کھچڑی اور ساگودانہ بھی کھایا، لیکن اگلے دن جو سی ٹی اسکین ہونا تھا تا کہ نقاہت اور ہیموگلوبین کم ہونے کی وجوہات کا پتہ چلایا جائے۔ اس کی نوبت ہی نہیں آئی۔
میں نے یکم دسمبر کے بعد سے اب تک کمپیوٹر نہیں کھولا ہے، لیکن میں جانتی ہوں کہ کن کن احباب نے اپنی دوستی اور تعلقات نبھائے ہیں۔ اس مشکل وقت میں عقیل عباس جعفری، راشد اشرف، معراج جامی، احسن سلیم، پروفیسر سحر انصاری اور طارق رئیس فروغ نے حق دوستی ادا کر دیا۔
جبار مرزا نے کئی بار اسلام آباد سے فون کر کے ہمت بندھائی، انھوں نے قاضی اختر کے لیے دو لاکھ بار درود شریف پڑھوا کر فاتحہ کروائی۔ زاہدہ حنا، نسیم انجم، عذرا اصغر، مقتدا منصور، انیس باقر، اقبال خورشید کے علاوہ لاہور سے عطا الحق قاسمی، شاہین زیدی اور شاہد علی خاں نے بھی اس قیامت کو محسوس کیا جو مجھ پر گزر گئی اور مسلسل گزر رہی ہے۔ دل کو کسی صورت قرار نہیں، موت برحق ہے۔ جانا سب کو ہے لیکن جس طرح آناً فاناً اختر نے زندگی ہاری وہ سب کے لیے ناقابل برداشت ہے۔
آج جب میں یہ کالم لکھ رہی ہوں۔ چند منٹ پہلے شام چھ بجے معراج جامی میری نئی کتاب ''فنون لطیفہ کی لازوال ہستیاں'' کی بیس کاپیاں لائے تو دیر تک اشکبار رہے۔ اختر کی خواہش تھی کہ اس چودھویں کتاب کی تقریب اجرا آرٹس کونسل میں ضرور کریں گے جب کہ میں نے ابتدائی تین کتابوں کی رونمائی خود شیرٹن ہوٹل میں کی تھی اور ہم دونوں کے بھارت کے سفر ناموں کی تقریب پریس کلب کی ادبی کمیٹی نے کی تھی۔
اختر نے سارا پروگرام لکھ کر ترتیب دے دیا تھا۔ کون صدارت کرے گا، کون مضمون پڑے گا اور کون نظامت کے فرائض انجام دے گا۔ میرے سامنے وہ لسٹ اب بھی رکھی ہے، لیکن پتہ نہیں اب حوصلہ کر پاؤں گی کہ نہیں۔
میرا اور اختر کا ساتھ بہت پرانا تھا۔ سحر انصاری بخوبی واقف ہیں۔ انجمن ترقی اردو اور غالب لائبریری والے بھی جانتے تھے کہ ہمارا تعلق کتابوں نے جوڑا تھا۔ 1964ء میں جب میں فرسٹ ایئر میں کراچی کالج فار ویمن کی طالبہ تھی تو اردو آرٹس کالج کے ایک حصے میں انجمن کا دفتر تھا، جہاں سے مولوی عبدالحق اور نامور محقق اور عالم قاضی احمد میاں جوناگڑھی کی یادیں بھی وابستہ تھیں، جو ہفت زباں کہلاتے تھے اور مولوی صاحب سے بہت قریب تھے۔ ہم جب بھی لائبریری میں ملتے تو نسیم احمد ہمیں کتابیں نکال کر دیتے۔
پہلا تعارف اختر سے نسیم احمد ہی نے کروایا تھا۔ انتقال والے دن بھی وہ صبح ہی پہنچ گئے۔ مجھے نہ صرف تسلی دی بلکہ ان کا چہرہ اس بات کا غماز تھا کہ انھیں کتنا گہرا صدمہ پہنچا تھا۔ اختر کا دل بہت بڑا تھا۔ وہ ہر ایک کو معاف کر دیا کرتے تھے اور کسی کے تکلیف دہ رویے کی شکایت نہیں کرتے تھے، لیکن اسی خوبی نے انھیں تنہا کر دیا۔ وہ عزیزوں، رشتے داروں کی بے رخی سہتے رہے اور چپ سادھ لی کہ اس دنیا میں خون کے رشتے ہی سب سے زیادہ تکلیف دیتے ہیں۔ ان رویوں کی شکایت بھی نہیں کی جا سکتی اور انھیں بھلایا بھی نہیں جا سکتا۔ جس پر قیامت گزرتی ہے وہی اندر سے ٹوٹتا ہے۔
لیکن اختر اور میں اس لحاظ سے بہت خوش قسمت تھے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے حلقہ احباب بہت اچھا اور مخلص دیا ہے۔ اختر کے آخری وقت میں بھی ہمارے پرانے پڑوسی راشد بھائی ان کے پاس تھے خدا انھیں اس کا اجر دے۔
1964ء سے دسمبر 2015ء تک کا ساتھ دو دوستوں کا ساتھ تھا۔ میں نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ہم آیندہ زندگی میں ہم سفر بنیں گے، لیکن قدرت کو نجانے کیوں یہ ملاپ منظور تھا جب کہ ان کا تعلق کاٹھیاواڑ کی ریاست جوناگڑھ سے اور میرا تعلق بائیس خواجہ کی چوکھٹ دلی سے۔ پہلی بار 2005ء میں جب ہم انڈیا گئے تو اختر نے جامع مسجد کی سیڑھیوں پہ کھڑے ہو کر، شاہی قلعے میں گھوم کر، مٹیا محل میں کریم ہوٹل اور جواہر ہوٹل کا کھانا کھا کر، چاندنی چوک میں جگہ جگہ تقسیم کی قیامت کے نشانات دیکھ کر، حضرت نظام الدین اولیاء کے مزار مبارک پہ گھنٹوں بیٹھ کر دلی کو دیکھا ہی نہیں بلکہ محسوس بھی کیا اور کہا کہ ''آج مجھے احساس ہو رہا ہے کہ جیسے میں نے جنم تو جونا گڑھ میں لیا تھا۔
لیکن میرے خمیر میں مٹی دلی کی تھی۔'' پھر ہم دو بار مزید گئے اور گھومے اور اس بار پھر بھارت کے سات شہروں میں جانے والے تھے۔ بطور خاص ممبئی حاجی علی کی درگاہ پہ حاضری دینے۔ ہمارا ارادہ دسمبر کے پہلے ہفتے میں نکلنے کا تھا۔ الٰہ آباد، بنگلور اور دلی کے احباب کو بتا بھی دیا تھا۔ نند کشور وکرم ہمارے منتظر تھے کہ اچانک بیمار پڑے اور چٹ پٹ ہو گئے۔ خدا جانے کیوں بار بار یہ بات کہتے تھے کہ ''کہیں تمہیں انڈیا سے اکیلا واپس نہ آنا پڑے، اگر کچھ ہو جائے تو مجھے وہیں دفن کر دینا۔''
ایک بار پھر تمام احباب کا شکریہ ادا کرتی ہوں اور ان کے لیے ایک بار سورۂ فاتحہ اور سورۂ اخلاص پڑھ کر بخشنے کی دعا کی درخواست کرتی ہوں۔
چند وہ شعر جو انھوں نے بطور خاص میرے لیے کہے تھے:
میں ریگزار زیست پہ تنہا سفر میں تھا
منزل سے میری اس نے مجھے آشنا کیا
......
دل کے نگر میں تو یہ محبت تلاش کر
یہ جو خلوص ہے' نہیں ملتا دکان میں
......
میری آنکھوں میں بدلتے موسموں کے رنگ ہیں
تیرے چہرے پر حیا کی سرخیوں کے رنگ ہیں
میری سانسوں میں بھی سوندھی سوندھی خوشبو جاگ اٹھی
تیری باتوں میں بھی برکھا بادلوں کے رنگ ہیں
یہ زمین و آسماں بھی ایک ہو جانے کو ہیں
دوریوں کے دن گئے' اب قربتوں کے رنگ ہیں
......
مجھے سمیٹ کے رکھا ہے تیری چاہت نے
کوئی سوال نہیں تھا مرے سنبھلنے کا
......
ٹوٹ جاتا ہے بہت جلد نظر کا رشتہ
تجھ کو دیکھوں تو تری سمت برابر دیکھوں