حضرت کی آمد سے پہلے
اجازت تو ان کو چار کی بھی ہے لیکن بیرونی ممالک کے اپنے اپنے قوانین ہیں جو وہ کسی کے لیے نرم نہیں کر سکتے
تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ حضرت شیخ الاسلام جناب طاہر القادری مدظلہ جلد ہی اپنے دوسرے یا پہلے وطن مالوف کا ایک پھیرا لگانے والے ہیں۔ اس کی حتمی تاریخ طے کرنے کے لیے اعلیٰ حضرت یوں تو دسمبر کی 21 یا 22 تاریخ کو آنیوالے تھے لیکن انھیں ایک بار پھر اپنا میڈیکل چیک اپ کرانا پڑ گیا ہے۔
اس لیے اب ان تاریخوں کو ایک اجلاس ہو گا جس میں دورے کی حتمی تاریخ طے ہو گی تاہم 24 دسمبر کو عالمی میلاد کانفرنس میں وہ ضرور شریک ہونگے۔ میں نے اس وقت تک معلوم ان کا پروگرام لکھ دیا ہے تا کہ آپ خبردار ہو جائیں اور وعظ و نصیحت کی طویل مرصع تقریریں سننے کی تیاری کر لیں۔
اس دفعہ دھرنا نہیں ہو گا کیونکہ ان کا دھرنے کا جڑواں ساتھی اب خود ہی دھرنا بن چکا ہے اور ان کی جماعت اب اتنی تعداد میں ہو گئی ہے کہ وہ خود بھی اپنے لیڈر کے گرد دھرنا دیے رکھتی ہے۔ اگر ان کا لیڈر جلدی نہ کرتا اور کچھ صبر سے کام لیتا تو وہ دھرنے کی خصوصی رونق میں پہلے سے زیادہ خود کفیل ہو جاتا لیکن بہرحال اب بھی اس کے مداحوں کی کمی نہیں ہے اور ان کی جماعت چل نکلی ہے بشرطیکہ وہ خود بھی چلتے رہیں بیچ میں کہیں کسی مقام پر غیرسیاسی نہ ہو گئے۔ یہ حسین چہرے تو آنی جانی چیزیں ہیں۔
بات حضرت شیخ الاسلام کی ہو رہی تھی جو کافی دنوں تک یورپ میں آرام کرنے بلکہ اونگھنے سستانے اور لمبی تان کر سونے کے بعد اب پاکستان کا چکر لگانے والے ہیں۔ پاکستان ان کی اصل اور پہلی جنم بھومی ہے تو کینیڈا ان کا بعد کے جم پل کا وطن ہے۔ وہ ماشاء اللہ دو دو وطن رکھتے ہیں۔
اجازت تو ان کو چار کی بھی ہے لیکن بیرونی ممالک کے اپنے اپنے قوانین ہیں جو وہ کسی کے لیے نرم نہیں کر سکتے اس لیے مجبوراً صرف دو پر ہی گزارا کرنا پڑتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جو پاکستانی کسی دوسرے ملک کی شہریت بھی رکھتے ہیں ان کو پاکستانی کہنا ایک جرم ہے۔ کاغذوں میں وہ پاکستانی بھی ہوں لیکن ان کا وجود دو حصوں میں بٹ چکا ہے اور ان کی پاکستانیت نصف ہو کر رہ گئی ہے۔
یوں وہ قانوناً نصف پاکستانی ہیں مگر جذباتی لحاظ سے وہ کچھ بھی نہیں۔ پاکستان کو انھوں نے آدھا کر دیا اور باقی خالی جگہ پر کوئی دوسرا ملک بھر دیا۔ فرق یہ ہے کہ پاکستان تو کسی کا ایک موروثی ملک بھی ہو سکتا ہے اور کروڑوں کا ہے بھی لیکن دوسرا کوئی ملک بھی عارضی ہے۔ حضرت مولانا یوں سمجھیں یہ نکاح نہیں متعہ ہے جس پر پاکستانی شرعی قوانین نافذ نہیں ہوتے کیونکہ پاکستان تو بہرحال پیدائشی نکاح میں ہی ہے۔
جو ٹوٹ بھی جائے تب بھی جو کوئی ایک بار اس کے نکاح میں آ گیا اس پر پاکستان کا حق بن گیا سوائے خود اس کے اب کوئی بھی اسے اس نکاح سے الگ نہیں کر سکتا لیکن کوئی مولانا اور شیخ الاسلام ہو تو وہ چار تک بھی جا سکتا ہے اور ہمارے شیخ الاسلام تو ابھی دو تک ہی پہنچے ہیں۔ اگر وہ چاہیں تو دو مزید کی گنجائش بھی ہے اور یہ سب شرعی ہے۔ صاف ستھرا شرعی۔ اس میں حیلہ بازی اور حیلہ جوئی کا کوئی شائبہ تک نہیں۔
حضرت کا یہ پھیرا مجھے اپنے ہاں کے پیر صاحبان کی یاد دلاتا ہے جن کے پاس ایک گھوڑی ہوا کرتی تھی اور بوری کو دو حصوں میں بانٹ کر اسے گھوڑی کی پشت پر متوازن کر کے رکھا جاتا تھا اور آگے پیر صاحب خود بیٹھتے تھے۔ جب وہ شام کے وقت گھر لوٹتے تھے تو یہ بوری دانوں سے بھری ہوئی ہوتی تھی اور اس کا وزن صرف بے چاری گھوڑی کو ہی معلوم ہوتا تھا جس پر اس کا مالک بھی مریدوں کے لیے اپنی دعاؤں کے بوجھ کے ساتھ سوار ہوتا تھا۔ یہ گھوڑی فصلوں کے سیزن میں اپنی سرگرمیوں کو عروج تک لے جاتی تھی۔
جب کھیتوں میں اپنی تیار فصل کو جوں کا توں رکھ کر کسان پیر صاحب کا انتظار کرتے تھے۔ ادھر گھوڑی کھلواڑے میں داخل ہوئی اور ادھر بزرگ کسان اٹھ کر پیر صاحب کے پاؤں کو ہاتھ لگاتا اور اگر وہ جلد ی میں ہوتے تو ان کا حصہ گھوڑی پر لدی ہوئی بوری میں ڈال دیا جاتا اور پیر صاحب دعاؤں کے ساتھ آگے بڑھ جاتے۔ کاشتکاروں اور پیر صاحب کے لیے فصلوں کا یہ موسم گویا زندگی کو آگے بڑھانے کا موسم ہوا کرتا تھا۔ پیر صاحبان اپنی اس سالانہ زندگی بخش مصروفیت کو اصطلاحاً 'فصلوں پر جانا' کہا کرتے تھے۔
میں نے کاشتکاروں سے خود سنا کہ سال بھر محنت ہم کرتے ہیں اور جب فصل تیار ہوتی ہے تو مالک زمین کی فصل سے اپنا نصف حصہ لینے آ جاتا ہے اور ساتھ ہی گاؤں کے کمی کمینوں کے علاوہ پیر صاحب بھی لیکن پیر صاحب کم از کم دعا دے کر تو جاتے تھے جب کہ دوسروں کو خدا نے یہ توفیق بھی نہیں دی ہوتی۔ کاشتکاروں کی سال بھر کی جانفشانی اور واقعتاً خون پسینے کی کمائی کا جب نصف وہ لے جاتا ہے جس کی زمین کی صرف ملکیت ہوتی تو یہاں سے مارکسزم کا آغاز ہوتا ہے جو کچھ وقت بعد وہ خود بھی ایک 'مالک' بن جاتا ہے اور کسی سٹالین کو جنم دیتا ہے۔
زندگی کے یہ میلے یونہی چل رہے ہیں۔ ان دنوں ہم نے بلوچستان کے غیرسردار وزیر اعلیٰ کو چھٹی دے کر ان کی جگہ ایک سردار کو وزیر اعلیٰ بنا دیا ہے جب کہ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ پنجاب میں تو کاشتکار سال میں ایک دن روتا ہے لیکن بلوچستان میں مسلسل کیونکہ ہر ملکیت میں سردار کا حصہ ہوتا ہے۔
سال چھ ماہ میں جب مویشی نقل مکانی کرتے ہیں تو راستے میں کسی خاص اہم جگہ پر سردار کا آدمی کھڑا ہوتا ہے جو ہر گلے میں سے بہترین جانور کو الگ کر کے سردار کے لیے محفوظ کر لیتا ہے اور پہاڑوں جنگوں میں ان مویشیوں کے ساتھ مارا مارا پھرتا ایک گلہ بان یہ سب دیکھ رہا ہوتا ہے کہ اس کا سب سے پیارا جانور وہ جا رہا ہے لیکن وہ بے زبان ہے مگر زبان والا بھی اپنے حالات اور روایات پر چپ ہے، بولتا نہیں۔ بات تو حضرت شیخ الاسلام کی متوقع آمد سے شروع ہوئی تھی جو ادھر ادھر گھومتی پھرتی مویشیوں اور زراعت تک پہنچ گئی یعنی کاشتکاروں اور گلہ بانوں تک۔ بہرکیف حضرت آ رہے ہیں اپنے پہلے یا دوسرے وطن میں، آپ ان کے استقبال کے لیے تیار رہیں۔ میں نے تو حاضری لگوا دی ہے۔