جسٹس افتخار صاحب آپ کو اب ہوش آیا

ملک کی غالب آبادی سسک سسک کر اور چھوٹی چھوٹی آرزوؤں کا گلا گھونٹ کر جی رہی ہے۔


رحمت علی راز December 13, 2015
[email protected]

LOS ANGELES: جسٹس افتخار نے ہمارے نام ایک خط بھیجا ہے جس کا حرف حرف چنگاری، لفظ لفظ دُھواں ہے مگر اس نامۂ حسرت کی تحریر پڑھتے ہی دل کچھ بجھ سا گیا ہے۔ نیرنگیٔ دوراں بھی کیا خوب تماشہ ہے! کبھی وہ چیف جسٹس پاکستان تھا، اب سابق چیف جسٹس بن چکا ہے، ہمارے اور آپ کے جیسا ایک عام آدمی، جو محض حفظ ِمراتب کی خوش فہمیوں پر زندہ ہے۔ اس ملک میں کسی شخص کی عزت و عظمت کا پیمانہ بھی کیا عجب ہے کہ جب تک وہ بڑے عہدہ و مسند پر براجمان رہتا ہے تب تک ہی وہ بڑا آدمی ہوتا ہے۔

افتخار محمد کی چودھراہٹ بھی تاآں وقتے ہی تھی جب تک کہ وہ ملک کی سب سے بڑی کچہری کا سرپنچ تھا۔ پاکستان کی عدالتی تاریخ اسے ایک درخشندہ باب کے طور پر اسلیے بھی یاد رکھے گی کہ اس نے معاشرے کے خواص کو امر و نہی کا ایسا درسِ عام دیا کہ وہ خوب و زِشت میں تمیز کرنا اپنی مجبوری سمجھنے لگ پڑے تھے۔ ہزار آندھیوں کے درمیان بھی اس مردِ استقلال کی رجائیت کے بادبان سدا کھلے رہے اور شکستہ کشتیاں بے خوف و خطر اپنے ساحلوں کی سمت رواں دواں رہیں۔ اس سالک کی راہ میں کئی کٹھن مقامات بھی آئے لیکن وہ کبھی دل گرفتہ نہیں ہوا۔

اس کی ذات پر تنقید و تنقیص بھی ہوئی اور تحسین و تحمید بھی، لیکن اس کے اثر کا رقبہ سکڑنے کے بجائے تادمِ آخر پھیلتا رہا۔ تقلید ِ عُمریؓ میں انصاف کی جو روِش افتخار محمد چوہدری نے اختیار کی، لاریب اسے ''عدلِ افتخاری'' ہی کا نام دینا پڑیگا۔ عوامی جج کا لقب پانے والے اس قاضی القضاۃ نے پاکستان کی عدلیہ میں ایک ایسے انقلاب آفریں ماحول کو جنم دیا جسکے پس و پیش میں اس کے مداحین کی تعداد ناقدین سے کہیں زیادہ رہی۔

سر عبدالرشید سے لے کر عبدالحمید ڈوگر تک سپریم کورٹ کے تمام قاضیانِ اعلیٰ نے پے در پے جمہوری تو کبھی فوجی ادوار دیکھے مگر ان میں نہ تو کسی کو یہ جرأت ہوئی کہ سیاسی بتوں کی پوجا سے تائب ہو سکے، نہ ہی کسی کو یہ تاب کہ آمریت کے خداؤں کا انکار کر سکے۔

عدلیہ پر یلغاریں بھی ہوئیں، اسے معتوب بھی کیا گیا، قانون کے ہاتھ پاؤں بھی توڑے گئے، آئین کو بھی یرغمال بنایا گیا مگر ماسوائے جسٹس چوہدری کے کلمۂ حق کہنے کی توفیق کسی نوشیروان کو نہ ہوئی۔ وہ عدلیہ کو آزاد کرانے کا عزم ہی تھا جس نے ایک نَوبیدار ضمیر میں روحِ بدر پھونک دی تھی اور فردِ واحد کی مشعل کے پیچھے زندگی کا ہر شعبہ کھنچتا چلا آیا اور کشاں کشاں کارواں بن گیا، جس کی دھاک سے رَن ایسا کانپا کہ آمریت کو زمین چاٹنا پڑ گئی۔

مقدس گائے کے عقیدے کو باطل قرار دینا اور اَنہونے تنازعات کے خارزار عبور کرنا افتخار محمد چوہدری کا ہی کام تھا جو تکیۂ عدل پر بیٹھ کر سماج کے ٹھیکیداروں کو لعن طعن کیا کرتا تھا، اس کی تشنیع کی زد پر آنیوالوں نے تو اپنی محافل میں اسے کوسنے ہی دیے تاہم اس کی یہ درُشت زبانی عوام کا تزکیۂ نفس بھی کرتی رہی۔ جسٹس افتخار نے حکومتی و سرکاری اداروں میں ہونے والی بدعنوانیوں اور بے قاعدگیوں کو پیہم ہدفِ تنقید بنایا اور بیشمار جرائم کو ازخود نوٹسز کے ذریعے بھونچال برپا کر دینے والے مقدمات میں تبدیل کر کے سیاستدانوں اور افسرشاہوں کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔

ایسے متعدد کیسز ہیں جن کا غلغلہ رہ رہ کر اٹھتا رہا تاہم ان میں جو مقدمات شہ سرخیوں کے مدارج تک پہنچے اور جن کی خلش حکومتی، کاروباری اور ملازم شاہی حلقوں کو کانٹے کی طرح چبھتی رہی ان میں حسبہ بل کیس، پاکستان اسٹیل مل کیس، حج کرپشن (سوؤموٹو)، وزیر اعظم شوکت عزیز کی دوہری شہریت اور وزارتِ عظمیٰ کے لیے اہلیت کا مقدمہ، کراچی بدامنی کیس، میمورنڈم کے خلاف آئینی پیٹیشن، ذوالفقار علی بھٹو نظر ثانی کیس، سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا توہینِ عدالت کیس، رینٹل پاور پراجیکٹ، این آئی سی سکینڈل، آر پی پی سکینڈل، وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف 47 ارب کا گھپلا کیس، بینظیر ایئرپورٹ کی تعمیر کا مقدمہ، لاپتہ افراد اور این آر او کیس وغیرہ قابلِ تذکرہ ہیں۔

بشمول و علاوہ ازیں بھی ایسے بہت سے مقدمات و نوٹسز ہیں جن میں شاہانہ تمکنت رکھنے والے معاشرتی فرعونوں کو سرِ عدالت مجاور بنا دیا گیا۔ یہ کہانی کافی جلاء بخش ہے کہ ایک معمولی سے پولیس کانسٹیبل کا بیٹا قانون کے پائیدان پھلانگتا ہوا ایوانِ عدل کی نشستِ عظمیٰ تک کیسے جا پہنچا۔ چوہدری جان محمد ایک نیک صفت اور بھلاکار انسان تھے، وہ انگریز پولیس کے ملازم ہوتے ہوئے بھی سامراج کے خلاف بغاوت آمیز احساسات کا گاہ بہ گاہ اظہار کرتے رہتے تھے۔

کھتری حسب و نسب کے باوجود کسان دوستی اور مزدور پروری ان کا شعار تھا۔ پاکستان بنا تو وہ کوئٹہ سے اپنے خاندان کو لے کر فیصل آباد کے آبائی گاؤں جا بسے اور بعدازاں بلوچستان کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی خوشی میں جزوی طور پر دوبارہ کوئٹہ کو مسکن بنایا۔ افتخار محمد بھی 12 دسمبر 1948ء کو کوئٹہ شہر ہی میں تولّد ہوئے۔ تمام تر محاسن کے باوجود جسٹس افتخار محمد چوہدری کا ایک کارنامہ ایسا بھی ہے جسکا سب سے بڑا ناقد ہم سے بڑھ کر اور کوئی نہ ہو گا۔ یہ کار ِنمایاں ایک ایسا داغ ہے۔

جس نے ان کے سارے ماضی کو کلنکی کر دیا، جس طرح ڈکٹیٹر کے سامنے ڈٹ جانیوالی ایک خوبی ان کے ساتوں عیوبِ شرعی پر بھاری پڑ گئی تھی بعینہٖ پی سی او اور ظفر علیشاہ کیس کی ایک ہی خامی نے ان کی ساری تپسیا کو نشٹ کر ڈالا۔ انھوں نے نہ صرف پی سی او کے تحت حلف اٹھایا بلکہ پرویز مشرف کی غیر آئینی حکومت (آمریت) پر مہر تصدیق بھی ثبت کی اور مزید ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کو قانون سازی اور آئین میں ترمیم کی اجازت بھی دیدی۔

نواز شریف حکومت کا تختہ الٹنے کے خلاف ظفر علی شاہ کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو رانا بھگوان داس اور افتخار محمد چوہدری کو سندھ و بلوچستان ہائیکورٹس سے منتخب کر کے سپریم کورٹ میں متعین کیا گیا اور بنچ کے 12 ارکان پورے کر کے چیف جسٹس ارشاد حسن خان کی سربراہی میں کیس کی سماعت کی گئی، یہی وہ بارہ ''گنہگار'' تھے جنھوں نے ایک آمر کے غیر آئینی اقدام کو درست قرار دیکر پاکستان کی عدلیہ کو شہنشاہ اکبر کے دربار کا درجہ دیدیا۔

ایسے میں حالات کو پورا یقین ہو گیا تھا کہ اس دوران پرویز مشرف جلال الدین محمد اکبر کے ''دینِ اکبری'' کی طرح کا کوئی ''دینِ مشرفی'' بھی لے آتے تو یہ بارہ ''گنہگار'' قاضی شریعتِ محمدی کو بھی طاق پر رکھ کر اسے جائز قرار دے دیتے۔ مشرف نے بھی اپنے ان درباریوں کو شاہی صلہ یہ دیا کہ لیگل فریم آرڈر کے ذریعے پی سی او کورٹس کا سب حلال حرام برابر کر دیا۔ جسٹس افتخار نے یہ تقصیر کر تو لی مگر اس کی خلش ان کے ضمیر سے ریٹائرمنٹ تک نہ جا سکی اور اس کا کفارہ ادا کرنے کی انھوں نے بارہا کوششیں کیں، ان کا ضمیر جب جاگا تو ایسا جاگا کہ انھوں نے پوری حکومتی مشینری اور بیوروکریسی کے دَر و دیوار ہلا دیے۔

زِچ ہونے پر جنرل نے جسٹس پر ایسا خودکش وار کیا جس میں جسٹس صاحب تو بری طرح زخمی ہوئے لیکن جنرل صاحب بھی دست و پا اور دل و دماغ سے معذور ہو گئے۔ ہارے ہوئے آمر نے بدحواسی میں آخری حربہ آزمایا اور چیف جسٹس پر بداخلاقی کا مقدمہ بنا کر سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوا دیا۔ وہ معطل ہوئے، پھر بحال ہوئے، دوسری مرتبہ پھر معطل ہوئے اور پابند ِ سلاسل ہوئے۔

پھر اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے اور خلقت جانتی ہے کہ کیسے وکلاء تحریک چلی اور کیسے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے نفوس اس قافلۂ مظلومیت سے شِدہ شِدہ جڑتے گئے اور پھر عوامی طاقت کا ایسا طوفان اٹھا کہ خس و خاشاک کے بے مایہ بند اسے کیا روک پاتے، عدلیہ بحالی تحریک سوکھے دھانوں مینہ برسنے سے کم نہ تھی کہ میزان نے بندوق پر فتح پا لی تھی۔ بہ حالِ حاضر افتخار محمد چوہدری ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں تاہم انہیں پاکستان کے مجروح طبقہ کا درد برابر ستائے جا رہا ہے جس کا اظہار انھوں نے ہمارے نام اپنے ایک خط میں کیا ہے۔ خط ھٰذا عین العین نذرِ قارئین ہے:۔

''محترم رحمت علی رازی صاحب! السلام علیکم! اُمید ہے خیرت سے ہونگے۔ یہ تو ہم سب کو بخوبی معلوم ہے کہ قیامِ پاکستان ہماری آرزوؤں اور خوابوں کی ایک تعبیر تھی جس میں تابناک مستقبل کی بھی نوید تھی لیکن ایسا ہو نہ سکا کیونکہ جیسے ہی ہمارے قائد محمد علی جناحؒ نے آنکھیں موندیں سارے کے سارے سپنے ٹوٹ گئے، اگرچہ آج ٹوٹے ہوئے سپنوں کی حدّت ہے لیکن یہ حدّت حاصلِ غم بھی ہے اور اُمید کی کرن بھی۔ دیمک لگے کواڑ بھی اتنے کم مایہ نہ ہونگے جتنی ایک پاکستانی کی زندگی بنا دی گئی ہے۔

اشرافیہ کی مثال اس شخص کی سی ہے جو دریا کے کنارے بیٹھا ہو، ایسے شخص کو ان لوگوں کے متعلق کیا معلوم جنہیں پیاس بجھانے کے لیے ہر پہر ایک کنواں کھودنا پڑے اور ان کی زندگی کتنی بے معنی ہے۔ ایک عام آدمی آج ایک گیلا کاغذ بن کر رہ گیا ہے جو نہ جلانے کے کام آتا ہے نہ اس پر کوئی حرفِ غلط رقم کیا جا سکتا ہے۔ حیاتِ اجتماعی پر نگاہ ڈالیے اور چشمِ نور سے دیکھئے آج ایک مزدور کی، ایک کسان کی، ایک ڈرائیور، ایک چپڑاسی اور ایک کلرک کی زندگی میں خوشیوں کی کوئی رَمق اس نظام نے باقی نہیں چھوڑی۔ ملک کی غالب آبادی سسک سسک کر اور چھوٹی چھوٹی آرزوؤں کا گلا گھونٹ کر جی رہی ہے۔

ان کے لیے بوڑھی ماں کے علاج کی سہولت نہیں، چھوٹے بچے بیمار پڑ جائیں تو ڈھنگ کا علاج دستیاب نہیں اور تعلیم پر ساہو کاروں کے پہرے ہیں۔ دستورِ پاکستان تعلیم و صحت ریاست کی ذمے داری قرار دیتا ہے لیکن ہمارے ہاں یہ بنیادی شعبے پرائیویٹ ہاتھوں میں جا چکے ہیں۔ تعلیم ایک کاروبار ہے اور صحت بھی۔کیا ایک فلاحی ریاست ایسی ہوتی ہے؟ اس گھن چکر سے بھی جو کامیاب نکل آئے اسے ایک دوسرے امتحان کا سامنا ہوتا ہے۔

ڈگری تو ہے ملازمت نہیں، مواقع اول تو ہیں ہی کم اور جو ہیں ان پر رشوت اور سفارش کے منحوس سائے ہیں۔ کوئی نفسیاتی مطالعہ ہو تو معلوم پڑے کہ انتہا پسندی کے فروغ میں یہ عوامل کس شدت سے بروئے کار آ رہے ہیں۔ استحصال اپنے کمال پر ہے۔ ایک غریب ہاری اور کسان ساری عمر ہل تو چلا سکتا ہے لیکن زمین کا مالک نہیں بن سکتا۔ اہلِ اقتدار نے کامیابی سے برسوں پہلے زرعی اصلاحات کو بے روح اور بے معنی کر دیا ہوا ہے۔ اقبالیات کے ماہر سے نہیں ان ہاریوں کے ناتواں وجود سے اقبال کے شعر کی تشریح پوچھئے جو انھوں نے کہا:

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو

اب ان تمام احباب کو جو صاحبِ درد ہیں یہ سوچنا ہے کہ کیا ہم نے اسی نظام کے ساتھ زندگی گزارنا ہے یا اس کو بہتر بنانے میں اپنی توانائیاں صرف کرنی ہیں۔ ہم کب تک پھٹی آنکھوں سے مغربی سماج کے قصے سنیں گے۔ عدلِ اجتماعی اور فلاحِ انسانیت پر مبنی معاشرہ آخر ہماری قسمت میں کیوں نہیں؟ حقائق دیوار پہ لکھے ہیں، بالکل عیاں اور واضح۔ عدل کی راہ میں قانونی موشگافیاں ہیں، احتساب چونکہ مبینہ اشرافیہ کو گوارا نہیں اس لیے اسے مذاق بنا دیا گیا ہے۔

آئین، کتاب میں لکھے حروف کی صورت جگمگا تو رہا ہے مگر اہلِ اقتدار نے کبھی اس پر عمل نہیں کیا۔ انہیں آئین کی صرف ان شقوں سے رغبت ہے جو ان کے اقتدار کے خدوخال سنوارنے میں کام آ سکیں۔ ہر دور میں یہی لوگ حکومت میں رہے ہیں، کبھی فوجی طالع آزما کا ساتھ دیکر تو کبھی جمہوریت کے سائے میں بیٹھ کر اس کے پیرہن بدلتے ہیں۔ ان کی خو نہیں جاتی ان کا نعرہ بدلتا ہے لیکن طریقۂ واردات ایک ہے۔

دستورِ پاکستان کی روح کے مطابق مساواتِ اجتماعی کی انھوں نے عملاً ہر جگہ نفی کی، قائد اعظم کے افکار اور دستور پاکستان کے اقلیتوں کو دیے گئے حقوق کبھی بروئے کار نہیں آنے دیے، وہ 'معاہد، ہیں مگر انہیں 'ذمی' ہی سمجھا گیا۔ پولیس کو ہمدرد اور خیرخواہ بنانے کے بجائے ایک طاغوت کا روپ دیدیا گیا اور اہلِ اقتدار نے ہمیشہ اس طاغوت کی سرپرستی کی کیونکہ ان کا اقتدار اسی جبر، ظلم اور خوف کی بیساکھیوں پر کھڑا ہے۔

سماج کا عالم یہ ہے کہ اس کی کسی نے تہذیب ہی نہیں کی، وہ آج بھی ناتراشیدہ ہے۔ سہولیات سے محروم ہے، گیس، بجلی، صاف پانی یہ سب چیزیں ایک خواب بنتی جا رہی ہیں۔ علاج معالجہ کی سہولت نہیں، سستا انصاف میسر نہیں، اسکول ویران ہیں یا اہلِ ثروت کے جانوروں کا باڑہ بن چکے ہیں۔ قیمتی ریاستی اداروں کو بہتر کرنے کے بجائے پرائیویٹائز کیا جا رہا ہے۔ اسٹیل مل ہو، پی آئی اے ہو، ریلوے ہو یا واپڈا ہر طرف ایک انحطاط ہے۔ یہ انحطاط نہیں، یہ انحطاطِ مسلسل ہے۔ یہ لمحہ عرفانِ ذات کا لمحہ ہے۔

ہمیں سوچنا ہے کہ یہ نظام کب تک؟ یہ محرومیاں، یہ ٹوٹتے خواب، یہ آرزوؤں کی کٹیا کب تک؟ میں مایوس نہیں کیونکہ میں جانتا ہوں مجھے آپ جیسے احباب کی رفاقت میسر ہے۔ ہمیں سوچنا ہے کہ ہم کب تک پارلیمانی جمہوریت کے نام پر اس نام نہاد اشرافیہ کی غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈالے رکھیں گے۔ ہم غلام کیوں رہیں؟ سیدنا عمرؓ نے صدیوں پہلے کہہ دیا تھا کہ ''تمہیں تمہاری ماؤں نے آزاد جنا ہے''۔ ہمیں یہ آزادی لینا ہے، ہم لے کے رہیں گے۔ اب جو بنیادی سوال ہے وہ ایک متبادل جمہوری نظام کی تلاش ہے۔

پارلیمانی جمہوریت کے نام پر ہمارے ساتھ جو ہوا وہ ہم نے دیکھ لیا۔ اب کیوں نہ قائداعظم کی فکر کی روشنی میں ایک ایسے نظام کی طرف بڑھا جائے جو صدارتی نظامِ حکومت اور اعلیٰ جمہوری قدروں پر کھڑا ہو۔ عوامی نمائندگان صرف قانون سازی تک محدود رہیں اور دیگر اختیارات عوام الناس کو نچلی سطح پر منتقل کر دیے جائیں؟ یہی سوالات مجھے آپ کے سامنے رکھنے تھے۔ آپ یقینا ان اُمور پر پہلے ہی غور و فکر کرتے ہونگے، اس لیے آپ اپنے تجربے کی روشنی میں اپنے خیالات سے آگاہ فرمایئے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین! آپ کا خیر اندیش: جسٹس افتخار محمد چوہدری (سابق چیف جسٹس آف پاکستان)،،۔

ہمیں افتخار چوہدری کے اس خط کے متن اور پون دو صدی قبل لکھے گئے اشتراکیت کے مینی فیسٹو میں کچھ خاص فرق نظر نہیں آتا جس کا ایک اقتباس پیش ہے: ''ہر تاریخی عہد میں اقتصادی پیداوار اور اس سے پیدا ہونے والا سماجی ڈھانچہ لازمی طور پر اس عہد کی سیاسی اور ذہنی تاریخ کی بنیاد فراہم کرتا ہے جسکے نتیجے میں (زمین کی ابتدائی مشترکہ ملکیت کے منتشر ہونے کے بعد) ساری تاریخ طبقاتی جدوجہد کی تاریخ ہے۔

یہ جدوجہد استحصال کرنیوالوں اور استحصال کا شکار ہونیوالوں، حاکم و محکوم طبقوں کے درمیان سماجی ارتقا کی مختلف منزلوں پر ہوتی رہی ہے تاہم یہ جدوجہد ایسی منزل پر پہنچ گئی ہے جہاں وہ طبقہ جو استحصال اور جبر کا شکار ہے (یعنی پرولتاریہ) استحصال اور جبر کرنیوالوں (یعنی بورژوا طبقے) سے اس وقت تک نجات نہیں پا سکتا جب تک کہ وہ اپنے ساتھ پورے سماج کو ہمیشہ کے لیے استحصال، جبر اور طبقاتی جدوجہد سے چھٹکارا نہ دلا دے۔ آج تک ہر سماج کی بنیاد جابر اور مجبور طبقوں کے تصادم پر رہی ہے لیکن کسی طبقے پر جبر کرنے کے لیے بھی ایسے حالات مہیا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جن میں وہ کم از کم اپنی غلامانہ زندگی کو برقرار رکھ سکے۔

مزدور جدید صنعت کے فروغ کے ساتھ اوپر اٹھنے کے بجائے اپنے طبقے کے موجودہ معیارِ زندگی سے بھی نیچے گرتا جا رہا ہے، وہ نادار ہوتا جاتا ہے اور اس طبقہ کی ناداری آبادی اور دولت کی نسبت زیادہ تیزی سے بڑھتی ہے جس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ سرمایہ دار طبقہ اب اس قابل نہیں رہا کہ سماج پر حکمرانی کر سکے اور اپنے طبقے کے حالاتِ زندگی کو ہمہ گیر قانون کا درجہ دیکر پورے سماج پر چسپاں کر سکے، وہ حکومت کرنے کا اہل نہیں رہا کیونکہ وہ اپنے غلاموں کو غلامی میں بھی زندگی کی ضمانت نہیں دے سکتا، وہ انہیں اس قدر نیچے گرنے سے نہیں بچا سکتا کیونکہ اسے انکو خود کھلانا پڑ رہا ہے، سماج اب اس بورژوا طبقے کے تحت زندہ نہیں رہ سکتا کیونکہ اب اس کے وجود کی سماج کے ساتھ کوئی مطابقت نہیں رہی،،۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سرمایہ داری نظام اس قابل کبھی نہیں رہا کہ سماج کے تمام طبقوں کے ساتھ انصاف کر سکے، اسے بہت پہلے مر جانا چاہیے تھا مگر یہ مرتے مرتے ایک بار پھر زندہ ہو گیا اور مزید ڈیڑھ صدی کا عرصہ نگل گیا۔ غریب ممالک کیپیٹل اِزم کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ پاکستان کا المیہ بھی یہی ہے کہ یہ ابتدا ہی سے اس سسٹم کے شکنجے میں آ گیا جس نے آج اس کی ہڈیوں کا پنجر بنا کر رکھ دیا ہے۔

اس ناسور کا واحد حل اسلامی سوشلزم میں ہے جس کی بنیاد اسلام کے سنہری اُصولوں نے چودہ سو سال پہلے فراہم کر دی تھیں، جسٹس صاحب بھی کچھ ایسا ہی متبادل جمہوری نظام چاہتے ہیں۔ پاکستان کو جو مسائل درپیش ہیں ان سب کا نچوڑ چیف جسٹس نے پیش کر دیا ہے، اب ان پر مزید تبصرے کی ضرورت نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ محض بیان کر دینے سے تو مسائل حل نہیں ہوتے، میدانِ عمل میں اترے بغیر ان تلخ مباحث کا فائدہ ہرگزنہ ہو گا۔ یہ رنج و آلام سب نچلے طبقے کے ہیں جنھوں نے پاکستان کی ترقی کا پہیہ پنکچر کر رکھا ہے۔

جب تک کوئی مردِ انقلاب استحصال زدہ طبقے سے نہیں اٹھے گا تب تک بات نہیں بن سکتی۔ ہمیں افتخار چوہدری کی عقل پر حیرت ہو رہی ہے کہ جب وہ اس قابل تھے کہ پاکستان کے لیے کچھ کر سکیں تب انھوں نے کوئی ایسی حکمتِ عملی نہیں اپنائی اور اب جب کہ وہ ایک عام آدمی ہیں تو انہیں پاکستان اور اس کے عوام کے دُکھ کا احساس ہونا شروع ہوا ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ جب وہ چیف جسٹس تھے انھوں نے عدالتِ عظمیٰ کو جوڈیشل انکوائری سینٹر بنائے رکھا اور ماسوائے اشرافیہ کے چند افراد کی جھاڑ پونچھ کے کسی بڑے مگرمچھ کو عبرتناک سزا تک نہیں سنائی۔

وہ کوئی ایسا قابلِ قدر کارنامہ بھی انجام نہ دے پائے جو پاکستان کی تاریخ کا دھارا موڑ دیتا۔ اگر وہ چیف جسٹس کی کرسی پر بیٹھ کر کچھ کر گزرنے سے عاجز تھے تو وکلاء تحریک کے دوران اس سے بڑا اور نادر موقع انہیں کیا ہاتھ لگ سکتا تھا کہ وہ ذرا بھی سُدھ بُدھ سے کام لیتے تو آج حالات مختلف ہوتے۔ مانا کہ انھوں نے اعلیٰ عدلیہ کو ایک ولولۂ تازہ عطا کیا مگر یہ حباب ان کے رخصت ہوتے ہی ختم ہو گیا اور ان کا کوئی جانشیں ان کے سفر کو جاری نہ رکھ سکا اور اعلیٰ عدلیہ اپنے ''پُر عافیت دور'' میں واپس لوٹ گئی۔

ماتحت عدلیہ ان کے دور میں بھی پرلے درجے کی کرپٹ تھی، آج بھی ہے، وہ اگر اس کے کس بل ہی درست کر دیتے تو بھی غنیمت ہوتی۔ عوام کی ان سے جو اُمیدیں بندھی تھیں وہ بھی موہومیت کی نذر ہو گئیں۔ چیف جسٹس نے عدالتی کیریئر کے دوران تو جو غلط اقدام اٹھائے ان کا صلہ بھی انہیں اپنے فوجی محسن کی طرف سے مل گیا مگر معطلی سے چنداں پہلے اور بحالیوں کے بعد ان سے کچھ ایسی کوتاہیاں اور غلطیاں بھی ہوئیں جن کے چھینٹے ان کے دامن سے کبھی دُھل نہیں پائیں گے۔

شاید ان ہی وجوہ پر وکلاء تحریک میں ہراوّل دستے کا کردار ادا کرنیوالے بیشتر بہی خواہ بحالی کے فوراً بعد ان کے مخالفین کی صف میں جا کھڑے ہوئے۔ انہیں سب سے پہلے پاکستان کے بزرگ سیاستدان اصغر خان نے تنقید کا نشانہ بنایا، اصغر خان کا شکوہ تھا کہ فوج اور اس کی خفیہ ایجنسی کے انتخابی سیاست میں کردار کے خلاف ان کا مقدمہ 90ء کی دہائی سے سپریم کورٹ میں زیر التوا تھا اور انھوں نے کیس کی پیشرفت کے لیے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بارہا خطوط لکھے لیکن برسوں بعد بھی انھوں نے جواب دینا گوارا نہ کیا، علیٰ الآخر 2012ء میں انہیں اس کیس کا فیصلہ سنا کر اس الزام سے دامن واگزار کرا لیا۔

انہیں سیاسی اور عوامی حلقوں میں اپنے صاحبزادے ارسلان افتخار کی وجہ سے بھی آڑے ہاتھوں لیا گیا، ارسلان افتخار پر ملک کے ایک تعمیراتی ٹائیکون سے کروڑوں وصول کرنے کا الزام تھا، موصوف نے تعمیراتی کمپنی کے مالک کو بعض مقدمات میں اعانت دلوانے کا وعدہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ چوہدری افتخار کے سمدھی کا کیس بھی ان کی زیرمنصفی آ گیا، اس کیس پر بھی ان پہ تیر و سناں کی ہر سمت سے بوچھاڑ ہوئی کیونکہ جس برخوردار سے ان کی دخترِ نیک اختر کی نسبت طے پائی تھی اس کے والد ایک تعمیراتی گروپ کے مالک تھے جن پر مالی بدعنوانیوں کے مقدمات تھے۔ 2013ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کا کیس دائر ہوا تو بھی چیف جسٹس نے اکثریتی جماعت پر لگے دھاندلی کے الزامات کی تحقیق کرانے سے انکار کر دیا ۔

جس سے اس دیرینہ شک کی وضاحت ہو گئی کہ چونکہ نواز شریف نے ججز بحالی میں نمایاں کردار ادا کیا تھا چنانچہ افتخار چوہدری نے ہمیشہ ہی ان کی طرفداری کی اور رہ رہ کر پیپلز پارٹی ہی کو عتاب کا نشانہ بنایا جس کی زد سے اس کے دو وزرائے اعظم اور صدر تک بھی نہ بچ سکے۔ جو صحافی ان کی بحالی کے لیے پولیس کے ڈنڈوں اور شیلنگ کا شکار ہوئے انہیں چیف جسٹس سے ہمیشہ شکایت رہی کہ ان کے سادہ سے مقدمہ کا فیصلہ بارہ برس میں ہوا جس سے ان کا آٹھواں، نواں دو ایوارڈ ضایع ہو گئے۔

ان کے پٹواری اور کلرک کے کرنیوالے کاموں پر خواہ مخواہ از خود نوٹس لینے پر بھی بعض سماجی اور قانونی حلقوں نے تنقید روا رکھی خواہ عوامی حلقے ایسے نوٹسز پر ان کے مداح بھی تھے۔ جس نظریۂ ضرورت کے بانی جسٹس منیر تھے اس میں جسٹس افتخار کا اتنا ہی کردار ہے جتنا جسٹس ڈوگر کا ہے۔ اپنے خط میں جس قابض و غاصب ٹولے کا انھوں نے ذکر کیا ہے اس کے ذمے دار بھی وہ خود ہی ہیں کیونکہ فخرالدین جی ابراہیم کے زیر سایہ جو الیکشن ہوئے تھے ان میں عوام کو اُمید تھی کہ اب باکردار لوگ ہی اسمبلیوں میں پہنچیں گے مگر نہ تو ان کے کھاتے چیک کیے گئے نہ ہی نادہندہ قرار دیا گیا۔

ایسے میں بھی چیف جسٹس نے کوئی ازخود نوٹس نہ لیا اور وہی لوگ ملک کے سیاہ و سفید کے دوبارہ مالک بن گئے جو قومی بینکوں سے اربوں روپے قرض لے کر کھا جاتے ہیں اور اپنی یہاں کی ناجائز کمائی باہر کے بینکوں میں پس انداز کرتے ہیں۔ پاکستان کے عوام کو جسٹس افتخار سے یہی گلہ ہے کہ انھوں نے سنہرے خواب دکھا کر آخر میں سیاسی جج ہونے کا ثبوت دیا اور فوجی آمر کی عدلیہ، جمہوری آمر کی عدلیہ، پیپلزپارٹی کی عدلیہ، ایم کیو ایم کی عدلیہ کی طرح مسلم لیگ (ن) کی عدلیہ ہونے کا ثبوت دیا۔

کس منہ سے تم کو ''منصفِ اعلیٰ'' کوئی کہے
تم نے امیر ِوقت کے ہاتھوں پہ کر کے بیعت
انصاف کا جنازہ نکالا ہے شہر سے
کس منہ سے خود کو عادل و منصف کہو گے تم
ہر سمت انتشار ہے ہر سمت ابتلاء
اب ہو چکی عوام کی ذلت کی انتہا
لیکن یہ سچ ہے تم ہی تھے طاقت امیر کی
قائم تمہارے دَم سے حکومت امیر کی
یہ جان لو کہ اس کی سزا بھی سہو گے تم
کس منہ سے خود کو عادل و منصف کہو گے تم

سچ تو یہ ہے کہ جسٹس صاحب سے حُب و رغبت رکھنے والوں کو ان کی اس سرجیکل تبدیلی سے بدرجہ انتہا مایوسی ہوئی، اس کا کفارہ صرف ایک ہی صورت میں ادا ہو سکتا ہے کہ افتخار چوہدری پریس کانفرنس کے ذریعے پاکستان کے عوام سے ہاتھ جوڑ کر اپنے ''گناہوں'' کی مجموعی معافی مانگیں، عوام سادہ لوح ہیں، ترس خواہ ہیں، کوئی وجہ نہیں کہ وہ انہیں معاف نہ کر دیں۔ اس کے بعد اگر وہ صدقِ دل سے ایک نیا پرکشش، مثالی، ٹھوس اور قابل عمل نظام متعارف کروانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ممکن ہے کہ لوگ ایک بار پھر ان کے کارواں کا حصہ بن جائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں