دہشت گردی کی نئی لہر

اسی لیے تخریب کاری کا خاتمے کے لیے جانوں کا نذرانہ شہادت کی شکل میں پیش کیا جارہاہے


Naseem Anjum December 13, 2015
[email protected]

اسلامی تعلیمات کا دوسرا نام انسانیت ہے، لیکن اگر غورکیا جائے تو دنیا بھر کے مذاہب میں نیکی اور بھلائی کی ترغیب دی جاتی ہے، لیکن تمام لوگوں نے اپنی مذہبی تعلیم کو یکسر فراموش کردیا ہے، آٹے میں نمک کے برابر ایسے لوگ ہیں، جنھوں نے انسانیت کی بقا کے لیے فلاحی کام کیے ہیں اورکررہے ہیں، انسان کو اس کے عمل کے مطابق اچھا برا انعام ملتا ہے بویا جاتا ہے وہ ہی کاٹنا پڑتا ہے، سچائی کے راستوں سے بھٹکنے والوں کے انجام گوکہ عبرت ناک ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود کانٹوں کے بیجوں کی نشوونما کرنیوالوں کی کمی ہرگز نہیں ہے۔

اسی لیے تخریب کاری کا خاتمے کے لیے جانوں کا نذرانہ شہادت کی شکل میں پیش کیا جارہاہے۔المیہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں تعلیم کا فقدان ہے، اچھے اساتذہ کی کمی ہے، قوم کا درد رکھنے والے علماء ودانشور نہ جانے کہاں گم ہوگئے ہیں یا خواب غفلت کے مزے لوٹ رہے ہیں اپنی ذمے داریوں سے چشم پوشی کرنیوالے دولت کے حصول کے لیے مختلف حربے آزمارہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارا ملک انارکی کا شکار ہے۔

تخریب کار نت نئے انداز سے سامنے آتے ہیں اور کبھی اہم لوگوں کی جانیں لے کر نقصان پہنچاتے ہیں، تو کبھی معصوم بچوں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں، ان کے مستقبل اور ان کے گھرانے کو آگ اور دھوئیں میں جھونک دیتے ہیں، پورا گھرانہ ان کی امیدیں اور خوشیاں خاک میں مل جاتی ہیں، عزت وآبرو کو داؤ پر لگانے کا سامان کیا جاتا ہے جو بچے اور بچیاں سمجھ دار ہوتے ہیں وہ تمام واقعات سے اپنے والدین کو آگاہ کردیتے اور والدین پولیس سے مدد لیتی ہے۔

پچھلے دنوں بچوں کے حوالے سے قصور میں شرمناک واقعہ پیش آیا تھا۔ ملزمان رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں، ابھی تک تختہ دار پر نہیں چڑھایا گیا، ایسے لوگوں کو عبرتناک سزائیں دینی چاہئیں۔ تاکہ آئندہ اس طرح گھناؤنی اور غلط حرکتیں کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہ سکیں لیکن افسوس قانون کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ایک لمبا عرصہ (جوکہ سالوں پر محیط ہوتا ہے) درکار ہوتا ہے اگر فوراً سزا دے دی جائے تو جیل بھی ایسے بدکار جرائم پیشہ افراد سے آباد نہ ہو۔ ویسے تو جیل تو ہے ہی قاتلوں اور مجرموں کے لیے، لیکن خس کم جہاں پاک والا معاملہ زیادہ بہتر ہوتا ہے۔

لیجیے اب فیس بک پر بچوں کو ورغلانے، گمراہ کرنیوالا گروہ بھی آن دھمکا، اس نے معصوم اذہان کو ایک نئی راہ دکھادی اور جاگتی آنکھوں کو وہ خواب دکھائے جنھیں دیکھ کر وہ طلسماتی دنیا میں اترگئے۔ان تمام حالات کے ذمے دار والدین بھی ہیں، جو اپنے بچوں پر کڑی نگاہ نہیں رکھتے ہیں۔

بے جا آزادی اور خود مختاری سے قبل از وقت ہی نواز دیتے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ جب بھی اولاد اپنی مرضی سے والدین کو ناراض کرکے اپنی راہ کا انتخاب کرتی ہے وہ ہمیشہ رسوا ہی ہوتی ہے والدین کی نافرمانی گناہ کبیرہ ہے لیکن جب ثواب و گناہ کی اہمیت کو سمجھا ہی نہ جائے تب معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہوتا ہے اور بے شمار برائیاں جنم لیتی ہیں۔ گزشتہ دنوں میں ٹریفک پولیس والوں کو نشانہ بنایاگیا وہ بے چارے، بے قصور و معصوم فرشتوں کی طرح سفید لباس میں ملبوس سر راہ کھڑے اپنی ڈیوٹیاں موسموں کی شدت برداشت کرتے ہوئے دیتے ہیں۔

ان کی کسی سے دشمنی نہیں، ان کی ذات سے کسی کو ناجائز نقصان نہیں پہنچا سوائے اس کے کہ اکثر اوقات جب انھیں پیسوں کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ تب ان میں سے کچھ پولیس افسر اور ٹریفک پولیس کے اہلکار موٹر سائیکل سوار بسوں، گاڑیوں کے ڈرائیوروں کو روک کر کاغذات دیکھتے ہیں، کاغذات مکمل ہونے کے باوجود بھی کوئی نئی بات نکال کر چالان کردیتے ہیں کبھی اس قدر معمولی باتیں یا غلطیاں سرزد ہونے پر بھی جرمانہ لگادیا جاتا ہے۔

حالانکہ ایسی کوتاہیوں کو نظر انداز بھی کیا جاسکتا ہے لیکن ان کے حالات، کسمپرسی کی زندگی، قلیل تنخواہیں انھیں اس بات کی اجازت نہیں دیتی ہیں لہٰذا انھیں حیلے بہانے سے حقیر سی رقم بٹورنی ہی ہوتی ہے، لیکن سب ایسے ہرگز نہیں ہوتے، وہ فرض شناسی کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ ٹریفک پولیس کے حوالے سے کبھی بھی کوئی سنگین جرائم سامنے نہیں آئے۔

اغوا، ڈکیتی، منشیات فروشی، بھتہ خوری سے یہ بہت دور ہیں، رزق حلال پر یقین رکھتے ہیں، سچی بات تو یہ ہے کہ تمام اداروں میں جہاں بے شمار لالچی خوشامدی اور دولت کے بھوکے لوگ موجود ہیں وہاں اچھے اور بہت اچھے ہیں، ایسے بھی عالم ہیں جو سالک کے درجے پر پہنچ چکے ہیں، صبر و شکر اور رب کی رضا پر راضی رہنے والے اپنے کام کو عبادت کے درجے پر پہنچانیوالے ہیں۔

دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا انسانیت اور انسانی رویوں سے وہ نا آشنا ہوتا ہے کبھی خراب صحبت کی وجہ سے، کبھی اپنی حماقت کی وجہ سے، دہشتگردی کے بنائے ہوئے جال میں پھنس جاتا ہے اور پھر آنکھیں بند کرکے انجام سے بے خبر ہوکر تمام جرائم بڑی آسانی سے کرتا چلا جاتا ہے۔ ٹریفک کانسٹیبلوں کو شہید کرنیوالے انھیں ان کے ہی لہو سے نہلانیوالے قاتل نہایت ڈرپوک اور بزدل تھے بالکل اسی طرح ان پر حملہ کیا گیا جس طرح معصوم بچوں پر یا سوتے ہوئے انسان پر کیا جاسکتا ہے۔ حملہ آور کون ہیں۔

کہاں سے آتے ہیں، ان کا بیرون ملک سے تعلق ہوتا ہے یا اندرون ملک میں پروان اور پرورش پانیوالے تخریب کار قتل و غارت کو پروان چڑھاتے ہیں یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات سب کو معلوم ہے اور ضرب عضب کے ذریعے انھیں کیفر کردار تک پہنچایا جارہا ہے۔

لیکن صدمے کی بات یہ ہے کہ چھوٹے عہدوں پر کام کرنیوالے ایمان دار کارکنان کے خاندانوں کے ساتھ بڑا ظلم ہوجاتا ہے وہ تو سفر آخرت پر روانہ ہوجاتے ہیں لیکن ان کے اہل و عیال روٹی اور دوسری ضروریات زندگی کے لیے ترس جاتے ہیں نہ ان کے پاس رہنے کے لیے گھر ہوتا ہے نہ بچوں کی تعلیم میں خرچ ہونے والی رقم اور نہ علاج ومعالجے کی سہولت، ساتھ میں مزید زیادتی ہوجاتی ہے کہ شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں کے گھر والوں سے وہ مراعات بھی چھین لی جاتی ہیں جو انھیں میسر تھیں وہ بے سہارا رہ جاتے ہیں کوئی ان کے درد کا مداوا کرنیوالا نہیں، کوئی یتیم بچوں کے سروں پر ہاتھ رکھنے والا نہیں جب کہ قابل غور بات یہ ہے کہ شہید نے جس ادارے کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ اسے اس کے ادارے کی طرف سے کیا صلہ ملا؟ یہی نہ کہ اس کے ملک عدم جانے کے بعد اس کے وہ رشتے دار جنھیں وہ اپنی زندگی میں بے حد عزیز رکھتا تھا ان کی خاطر دکھ جھیلتا تھا، سخت محنت کرتا تھا وہ ہی بیوی بچے والدین در درکی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

رینجرزکے آپریشن کی کامیابی کے بعد آج کل پھر دہشت گردی نے منہ اٹھایا ہے۔چند روز پرانا ہی واقعہ ہے، جب ایم اے جناح روڈ پر ملٹری پولیس کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا، فائرنگ کے نتیجے میں دو اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا اس کے علاوہ بھی فائرنگ کے واقعات رونما ہونے لگے ہیں، لیکن انشاء اﷲ تعالیٰ جلد ہی اس پر قابو پالیا جائے گا۔

موبائل چھیننے کی بھی وارداتیں سامنے آرہی ہیں لیکن شہریوں کو اس بات کا اطمینان ہے کہ یہ وقتی مسئلہ ہے جلد ہی حالات پر قابو پالیا جائے گا۔ برے کا برا ہی انجام ہوتا ہے سانحہ پشاور کے واقعے میں بھی ملوث چار مجرموں کو کوہاٹ جیل میں پھانسی دی گئی، کل انھوں نے قیامت ڈھائی تھی اور آج خود دنیا سے منہ موڑ گئے، سوچنے کی بات یہ ہے کہ کسی کی موت عبرتناک ہے ؟ اورکن لوگوں نے شہادت کا عظیم مرتبہ پایا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں