بالآخر حکمرانوں کو عوام پر رحم آگیا
ہمارے بعض محب وطن اور سمجھدار حکمرانوں کو بالآخر ان غیر قانونی تارکین وطن کی حالت زار پر رحم آگیا ہے
ہمارے بعض محب وطن اور سمجھدار حکمرانوں کو بالآخر ان غیر قانونی تارکین وطن کی حالت زار پر رحم آگیا ہے، جو اپنی اور اپنے گھر والوں کی جانیں خطرے میں ڈال کر ایک روشن مستقبل کی موہوم سی امید میں ترقی یافتہ اور خوشحال مغربی ملکوں کا رخ کررہے ہیں۔
یہ بد نصیب اور مہم جو افراد ایک انجانی منزل تک پہنچنے کے لیے پہلے کسی انسانی اسمگلرکو فی کس ایک خطیر رقم ادا کرتے ہیں اور پھر ایک خوفناک خطرناک اور پر اسرار سفر پر روانہ ہوجاتے ہیں۔ اس کے لیے وہ سب سے پہلے کسی انٹرسٹی یا انٹرکنٹری بس میں بیٹھتے ہیں۔ سرحدیں پھلانگتے ہیں کسی سرحدی محافظ کی بندوق کی گولی لگنے کا خطرہ مول لیتے ہیں، انھیں پورے راستے لٹ جانے اور زاد راہ سے محروم ہوجانے کا خطرہ بھی لاحق رہتا ہے۔
ان کے اس خفیہ سفر کا سب سے خطرناک مرحلہ وہ ہوتا ہے جب انھیں سمندر پارکرانے اور کسی یورپی منزل تک پہنچانے کے لیے کسی لانچ یا بحری جہاز میں بٹھایا جاتا ہے وہ اچھی طرح جانتے ہیں، انھیں ایک نئی زندگی کی طرف لے جانے والی کشتی ڈوب بھی سکتی ہے اور وہ موت سے بھی ہمکنار ہوسکتے ہیں۔ وہ غیر ملکی فوجیوں اور پولیس گارڈز کی گولیوں کا نشانہ بھی بن سکتے ہیں۔
انتہائی سرد موسم میں وہ کسی جان لیوا بیماری میں بھی مبتلا ہوسکتے ہیں، لیکن ان کے نزدیک جو زندگی وہ پاکستان میں گزار رہے ہیں وہ موت سے بھی بد تر ہے اور وہ افلاس اور بے روزگاری سے بچنے کے لیے موت کا خطرہ مول لے سکتے ہیں، ان کے بعض رشتے دار ان کا دکھ درد محسوس کرتے ہوئے ان کی مالی مدد کرتے ہیں۔
یہ ان رشتے داروں کے لیے ایک قسم کی سرمایہ کاری بھی ہے کیو نکہ اگر اس نامعلوم سفر پر جانے والا کسی طرح (جس کے ففٹی ففٹی چانسز ہیں) اپنی منزل مقصود تک پہنچ گیا تو وہ نہ صرف خود اپنے لیے بلکہ گھر والوں کے لیے بھی ایک خوشحال زندگی کا بندوبست کرسکتا ہے اس طرح اس کا یہ خواب گھر کے کئی لوگ شیئر کرتے ہیں۔
ہمارے بعض حکمرانوں کو بظاہر ایسے ہی ''ڈسپریٹ'' پاکستانیوں کی حالت زار پر رحم آیا ہے اور انھوں نے یہ عزم کیا ہے کہ وہ پاکستان کو ہی اتنا ترقی یافتہ،خوشحال اور سنہری موقعوں والا ملک بنادیںگے کہ کسی پاکستانی کو اچھی زندگی کی جستجو میں قانونی یا غیر قانونی طور پر پاکستان سے باہر جانے کی ضرورت نہیں رہے گی اور یہ نوجوان تارکین وطن میں شامل ہوکر اور اس سفر کے دوران پکڑے جانے پر پاکستان کی بدنامی کا بھی باعث نہیں بنیں گے۔
ہمارے حکمران بجا طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ خدائے بزرگ وبرتر نے انھیں اس بات کا موقع بھی دیا ہے اور صلاحیت بھی اور خود اس ملک میں اتنی گہرائی اور وسائل ہیں کہ وہ دنیا کے ترقی یافتہ اور خوشحال ملکوں میں شمولیت کی درخواست دے سکتا ہے ،کچھ یہ بات بھی ہے کہ خیر سے ہمارے بعض حکمرانوں کا ضمیر بھی جاگا ہے، وہ سوچ رہے ہیں۔ ہم نے ملک وقوم کو فریب دینے کے سارے کھیل کھیل لیے اپنے اور اپنی آئندہ کئی نسلوں کے لیے محل بھی بنالیے، انڈسٹریل امپائر بھی کھڑی کرلی۔
بینک بیلنس بھی بنالیا اور سوئس بینکوں میں اتنی رقم بھی جمع کرالی جو برابر بڑھ رہی ہے اور آیندہ کئی نسلوں کے لیے کافی ہے تو کیوں نہ اب عوام کے لیے کچھ کیا جائے اور ان کی زندگیوں میں اتنی خوشحالی اور فراوانی لائی جائے کہ کوئی پاکستانی ایک لمحے کے لیے بھی باہر جانے کا نہ سوچے بلکہ سمندر پار پاکستانی بھی واپس آنے کی آرزو کرنے لگیں۔مگر پاکستان یا ایسے ہی دوسرے ممالک کو جو تارکین وطن کی کھیپ پیدا کررہے ہیں۔
اپنے یہاں ایسا انقلاب لانے کے لیے قدرتی طور پر اس بات کی ضرورت ہوگی کہ دنیا کے کرتا دھرتا سپر پاورز یورپ اور امریکا کے حکمران نہ صرف اس کی منظوری دیں بلکہ اس کام میں ان کی پوری پوری مدد بھی کریں۔اس سلسلے میں ہمارے حکمران خاصے پر امید بھی ہیں اور پر اعتماد بھی کہ وہ یورپ اور امریکا کے ناعاقبت اندیش حکمرانوں کو سمجھانے میں کامیاب ہوجائیںگے، ان کوتاہ اندیشوں کو صرف اتنا سمجھانا ہے کہ تم نے تارکین وطن کی آمد پر آخرکیوں اتنا بڑا طوفان برپا کر رکھا ہے۔
تم لوگ اس مسئلے کو اس کی جڑ سے کیوں نہیں پکڑتے اگر تم ذرا سی دانشمندی سے کام لے کر ان ملکوں کو خود ان کے اپنے قدموں پر کھڑا کردو اور وہاں بزور طاقت اپنے ایجنٹ حکمرانوں کے ذریعے وہی ترقی اور خوشحالی لے آؤ جو تم نے اپنے عوام کو دے رکھی ہے، تو کون احمق تمہار ے ملکوں کا رخ کرے گا اور لانچوں میں بیٹھ کر اپنی جانیں جوکھوں میں ڈالے گا، ہمیں معلوم ہے تم آسانی سے یہ کام کرسکتے ہو اور تم نے دنیا کے بعض خوش نصیب تیسری دنیا کے بعض منظور نظر ملکوں کو دوسری دنیا میں لانے کے لیے یہ کام کیا بھی ہے۔
فی الحال تو تم پر ان افیونیوں کی مثال صادق آتی ہے جو گنا بونے کا سوچ رہے تھے مگر ایک افیونی نے ڈرایا اگر ہم نے گنے بوئے تو یہ سامنے بستی والے کھا جایا کریںگے ان کا تو میں آج رات ہی علاج کرتا ہوں، دوسرا افیونی بولا پھر اس نے اسی رات بستی میں آگ لگادی اور جب بستی والے گھبراکر آنکھیں ملتے ہوئے بھاگے تو افیونی چیخنے لگے اور کھاؤ گے گنے؟ اب تیسری دنیا کے یہ بے چارے لوگ اپنے آگ میں جلتے ملکوں سے گھبراکر مغربی ملکوں کا رخ کررہے ہیں تو یہ ترقی یافتہ ممالک بھی ان افیونیوں جیسا واویلا کررہے ہیں۔
بہرکیف ہمارے حکمرانوں کو یقین ہے کہ بہتر سینس کا غلبہ ہوگا اور مغربی ممالک کے حکمران اس نسبتاً آسان راستے کی افادیت سمجھ لیںگے کہ تیسری دنیا خاص طور پر اسلامی ملکوں میں ترقی و خوشحالی، امن و استحکام، روزگار اور بہتر مستقبل کے مواقعے پیدا کرلیے جائیں توکون پاگل ہوگا کہ اپنا اچھا خاصا وطن چھوڑ کر سمندر پارکرکے دیارغیرکا رخ کرے گا؟ہمارے ایک دوست کے الفاظ میں ہمارا ملک چھٹے سب سے بڑے انسانی وسائل سے مالا مال ہے (مگر انسانی وسائل کی مقدار کی نہیں، معیارکی بھی ملک کی ترقی کے لیے ضرورت ہوتی ہے) بحر عرب کے ساتھ بڑا خوبصورت ساحل بھی ہے۔
بہتے دریا میں بلند وبالا پہاڑ ہیں، قیمتی معدنیات ہیں، دنیا کا سب سے بڑا آبپاشی نظام پھلتا پھولتا زرعی نظام، محنتی مزدور بھی ہیں اور قدرتی وسائل بھی بدقسمتی سے ہم کرپشن، خواندگی کی کم تر شرح، غیر ملکی امداد پر انحصار، لا قانونیت، دہشت گردی، بے پناہ آبادی اور مالدار اور طاقتور کے ہاتھوں غریب اورکمزور کے استحصال کے باعث ان اثاثوں کا استعمال نہیں کرپائے ہیں۔دنیا کے کئی ممالک ہیں جن کے وسائل ہم سے کم ہیں اوراس کے باوجود انھوں نے زبردست ترقی کی ہے اور انسانی تاریخ کے عظیم کارنامے انجام دیتے ہیں۔
ان ملکوں میں سوئٹزرلینڈ، جاپان، جنوبی کوریا، ملائیشیا، انڈونیشیا، سنگا پور اور تھائی لینڈ شامل ہیں۔دریں اثنا حکومت کے ایک ترجمان نے بعض حکمرانوں کا دفاع کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ماہرین، مشیروں اور میڈیا ایکسپرٹس نے بہت سی چیزیں ان سے چھپائی ہیں۔
مثلاً انھیں معلوم ہی نہیں ہے کہ کم از کم آدھی آبادی ملک و قوم کے کام آسکتی ہے، ساحلوں سے اسمگلنگ کے علاوہ بھی کوئی کام لیا جاسکتا ہے، انھیں یہ بھی نہیں بتایاگیا کہ ہمارے یہاں دنیا کا سب سے بڑا آبپاشی نظام ہے انھیں بالکل اندھیرے میں کھاگیا ہے اور یہ بھی نہیں بتایاگیا کہ ہمیں تعلیم اور صحت پر جی ڈی پی کا کتنا حصہ خرچ ہونا چاہیے۔ انھیں اگر یہ ساری باتیں پتہ ہوتیں تو ملک و قوم کو ترقی دینے میں ان کا کیا جاتا تھا؟