آپریشن گلاڈیو اٹلی میں کمیونزم کے روکنے کے لیے کھیلا جانے والا شیطانی کھیل
جب سی آئی اے نے اتحادی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ اطالوی سرزمین قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا
LONDON:
امریکا کے توسیع پسندانہ عزائم گذشتہ نصف صدی سے زاید عرصے پر پھیلے ہوئے ہیں، جس کے دوران نہ صرف وہ اپنے حریف ممالک کے خارجی بلکہ داخلی معاملات میں بھی گُھستا اور مختلف سازشوں کے جال بچھاتا رہتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ نہ صرف اپنے ایجنٹوں کے ذریعے اپنے حق میں حالات پیدا کرتا ہے بل کہ ان ممالک کے اہم اداروں کے سربراہوں کو بھی اپنے جال میں پھنسانے سے گریز نہیں کرتا، جس کی اہم ترین مثال اس کا ''آپریشن گلاڈیو'' ہے۔
سرد جنگ کے زمانے میں تشکیل پانے والا آپریشن گلاڈیو ایک ایسا مشن تھا جس میں امریکا کا خفیہ ادارہ ''سی آئی اے'' امریکا کے مختلف اتحادی ممالک کے خفیہ اداروں کے ساتھ مل کر اٹلی میں کمیونسٹ حکومت کے خلاف کارروائی کرنے میں شامل تھا۔ یہ انکشاف انیس سو ستر کی دہائی کے ان خفیہ کاغذات سے ہوتا ہے جو اب منظرعام پر آچکے ہیں۔
ان کاغذات کے مطابق سردجنگ کے زمانے میں انیس سو پچاس کی دہائی میں اٹلی کی اس وقت کی خفیہ فوجی ایجنسی''سائفار''(SIFAR) کے سربراہ ''جنرل گیوانی ڈی لورینزو'' کو امریکا نے اس امر پر راضی کرلیا تھا کہ وہ اٹلی میں کمیونسٹ نظریات کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکنے کے لیے سرگرم ہوں، لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ امریکا نے اٹلی کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ جنرل گیوانی ڈی لورینزو کو اس بات کا پابند کیا تھا کہ وہ اس منصوبے سے اپنی حکومت کو بے خبر رکھے۔
اس انکشاف پر اُس وقت مہر تصدیق ثبت ہوگئی جب انیس سو نوے میں ا ٹلی کے تین مختلف ادوار میں انیس سو بہتّر سے انیس سوبانوے تک وزیراعظم رہنے والے''جولیو آندریوتی'' نے ایک تحقیقاتی مشن کے سامنے اس حقیقت کا اظہار کیا کہ ان کے دور حکومت میں امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کی جانب سے اٹلی میں کمیونسٹ نظریات کی حامی سیاسی جماعتوں کی کام یابیوں کو روکنے کے لیے اٹلی کے عسکری ادارے کے خفیہ ونگ کے سربراہ کو استعمال کیا گیا تھا وزیر اعظم جولیو آندریوتی کی جانب سے اس منصوبے کے بارے میں دستاویزی ثبوت بھی فراہم کیے گئے۔
جن سے واضح ہوتا ہے کہ انہیں (جولیو آندریوتی) کو اس تمام عمل سے لاعلم رکھا گیا۔ بعدازاں انہوں نے اٹلی میں کام کرنے والی اس خفیہ آرمی کے بارے میں اٹلی کے سینیٹ میں بھی انکشافات کیے، جن کے بارے میں اخبارات نے سرخی لگائی،''دوسری جنگ عظیم سے لے کر اب تک یہ سب سے زیادہ خفیہ اور انتہائی خطرناک سیاسی اور عسکری راز تھے جنہیں انتہائی رازداری سے چھپایا گیا تھا۔''
امریکا اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے کس طرح اپنا اثرورسوخ استعمال کرتا ہے اور دوسرے ممالک کی داخلہ پالیسیوں پر اثرانداز ہوتا ہے، اس کا اندازہ اس چھوٹی سی مثال سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اٹلی کے خفیہ محکمہ ''سائفار'' (SIFAR) کے سربراہ جنرل گیوانی ڈی لورینزو کی اس عہدے پر تعیناتی اٹلی میں تعینات امریکا کے سفیر ''کلیر بوتھے لوئیس'' کے اشارے پر کی گئی تھی۔ سی آئی اے کے روم میں تعینات ڈپٹی چیف فیلٹن مارک نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں واضح طور پر کہا تھا کہ اٹلی میں آپریشن گلاڈیو کا مرکزی کردار اٹلی کے خفیہ محکمہ ''سائفار'' (SIFAR) کا سربراہ جنرل گیوانی ڈی لورینزو تھا۔
اطالوی زبان میں چھوٹی تلوار یا خنجر کو ''گلاڈیو'' کہا جاتا ہے۔ اس نسبت سے آپریشن گلا ڈیو کہلائے جانے والے منصوبے کے بارے میں اطالوی وزیراعظم جولیو آندریوتی کی جانب سے پیش کی جانے والی دستاویزات کے مطابق امریکا کا خفیہ ادارہ سی آئی اے اور اٹلی کے عسکری ادارے کے خفیہ ونگ ''سائفار'' دونوں نے نومبر انیس سو چھپن میں باہم منصوبہ بندی کی تھی کہ وہ پورے ملک میں ایک ہزار سے زاید گوریلا ٹریننگ یافتہ ایجنٹوں کے ذریعے کمیونسٹوں کے خلاف کارروائی کریں گے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے شمالی اٹلی میں واقع جزیرے ساردینا میں تربیت کے لیے بیس کیمپ قائم کیا تھا، جہاں سے بعد میں زمین میں دبایا گیا آتشیں مواد، گولہ بارود اور ایک سو انتالیس کی تعداد میں بھاری ہتھیار برآمد ہوئے تھے۔
جولیو آندریوتی کا اس ضمن میں یہ بھی کہنا تھا کہ اس حوالے سے ایک انتہائی منظم تنظیم بنائی گئی تھی، جس میں شامل کرکے نہ صرف بدعنوان سیاست داں، سرکاری ملازم، صنعت کار، فوجی افسران اور اہم صحافیوں کو بھاری ترغیبات دے کر آپریشن گلاڈیو کا حصہ بنایا جاتا تھا بل کہ روم شہر کی بدنام زمانہ زیر زمین گینگسٹر تنظیم ''باندا ڈی لامگلیانا'' کے کارندوں سے بھی قتل و غارت گری، لوٹ مار اور عوام میں سیاسی بے چینی اور انتشار پھیلانے کا کام لیا جاتا تھا۔ ایسے ہی ایک واقعے میں دو اگست انیس سو اسی کو بولانگا شہر کے مرکزی ریلوے اسٹیشن پر زور دار بم دھماکا ہوا جس میں اکیاسی افراد ہلاک اور دو سو سے زاید زخمی ہوئے تھے۔
اس بم دھماکے کے نشان بھی آپریشن گلاڈیو کے کارندوں تک گئے تھے۔ اس حوالے سے اس وقت کے اٹلی کے ملٹری انٹلیجینس کے سربراہ جنرل سینٹو رائٹو کا کہنا تھا کہ بم دھماکے کی منصوبہ بندی مناکو میں کام کرنے والی ''برٹش، سوئس، امریکن مونٹی کارلو کمیٹی'' نے کی تھی۔ بعدازاں اس وقت لگائے گئے اس الزام کی تصدیق انیس سو نوے میں وزیراعظم جولیو آندریوتی کی جانب سے سینیٹ میں کی گئی۔
واضح رہے کہ دستاویزات کے مطابق آپریشن گلاڈیو صرف اٹلی ہی میں نہیں انجام دیا گیا تھا بل کہ اس کی کارروائیاں ہر اس ملک میں کی جاتی تھیں جہاں پر سردجنگ کے زمانے میں کمیونسٹ نظریات کے حامی افراد پھل پھول رہے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ آپریشن گلاڈیو کو امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کی تنظیم نیٹو کی خفیہ منصوبہ بندی کمیٹی کی جانب سے فنڈز اور دیگر مراعات فراہم کی جاتی تھیں اور یہی کمیٹی اس کے تمام معاملات کی نگرانی کرنے کی مجاز تھی۔
واضح رہے کہ آپریشن گلاڈیو کے حوالے سے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی جانب سے بھی دستاویزی فلم بنائی گئی ہے، جس میں آپریشن گلاڈیو کی تیاری میں انیس سو نو سے قائم برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس اور انیس سو اکتالیس میں قائم ہونے والی برطانوی فوج کی ہوابازی کی رجمنٹ ''اسپیشل ائیر سروس'' اور امریکا کے خفیہ ادارے ''سی آئی اے '' کو اس خفیہ مشن کے مرکزی کردار قرار دیا گیا ہے۔ بنیادی طور پر آپریشن گلاڈیو انیس سو اٹھاون سے روبہ عمل رہا ہے۔
آپریشن گلاڈیو کے نتیجے میں قتل ہونے والے اٹلی کے وزیراعظم آلدو مورو کے قتل کی تحقیقات کے لیے بنائے جانے والے کمیشن نے انیس سو پچانوے میں تین سو ستر صفحات پر مشتمل رپورٹ شائع کی تھی، جس میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ انیس سو ساٹھ کی دہائی میں امریکا اور اس کی خفیہ تنظیم سی آئی اے نے اٹلی میں عدم استحکام پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
بعدازاں جون سن دو ہزار میں اٹلی کے سینٹر ''پیلیگرانی'' کی سربراہی میں بننے والی تحقیقاتی کمیٹی کا کہنا تھا کہ اٹلی میں گذشتہ دہائیوں میں ہونے والے بم دھماکے ، قتل عام اور فوجی ایکشن کے ذمہ دار ایسے فرد تھے جو بظاہر تو اطالوی تھے، لیکن ان کا تعلق امریکا کے انٹیلی جنس اداروں سے تھا اور وہ امریکا اور اس کے حواریوں کے لیے کام کررہے تھے۔
دیگر آپریشن گلاڈیو
چالیس برس تک پراسراریت کی گرد میں چُھپا آپریشن گلاڈیو دوسرے الفاظ میں ایک ایسا کثیرالاملکی فوجی مشن یا منصوبہ ہے، جسے مکمل طور پر نیٹو تنظیم، امریکا کا خفیہ ادارہ سی آئی اے اور برطانیہ کی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس کی پشت پناہی حاصل ہے اور اس پشت پناہی کے نتیجے میں اس کے مسلح کارندے بالعموم پوری دنیا اور بالخصوص پورے یورپ میں حکومتوں کو علم میں لائے بغیر امریکی مفادات کی نگہبانی کرتے ہیں۔
سوئٹزرلینڈ سے تعلق رکھنے والے مشہور صحافی ''ڈینیئل گینسر'' نے اپنی معرکتہ الآراء کتاب'' نیٹو، سیکرٹ آرمیز''(NATO's Secret Armies) میں تفصیل سے بیان کیا ہے کہ کس طرح امریکا کا محکمۂ دفاع پینٹاگون، برطانیہ کا ایم آئی سکس اور نیٹو کی خفیہ مشن کی کمیٹی دنیا بھر میں سازشیں پھیلا رہی ہیں۔
اس حوالے سے ڈینیئل گینسر کا کہنا ہے کہ نیٹو اور امریکہ کے خفیہ ادارے فرانس، اسپین، پرتگال، جرمنی، بیلجیئم، نیدرلینڈ، لکسمبرگ، ڈنمارک، ناروے، سوئیڈن، فن لینڈ، سوئٹزرلینڈ، آسٹریا، یونان اور ترکی میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے مصنوعی انتشار کے حالات پیدا کرنے کے لیے عرصۂ دراز سے سازشوں کا جال بچھائے ہوئے ہیں۔ ان سازشوں کے لیے وہ آپریشن گلاڈیو کا خفیہ نام استعمال کرتے ہیں، جسے اس کے علاوہ ''اسٹے بیہائنڈ آرمیز'' (Stay-behind)۔ بھی کہا جاتا ہے۔
اگر ہم آپریشن گلاڈیو کے حوالے سے اس کے کارندوں کے چیدہ چیدہ گھناؤنے کارناموں پر نظر ڈالیں تو علم ہوتا ہے کہ انیس سو ساٹھ میں آپریشن گلاڈیو کی خفیہ آرمی نے ترکی کے وزیر اعظم عدنان میندریس کو پھانسی دلوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انیس سو اکسٹھ میں فرانس میں موجود اس گروپ نے الجزائر کی حکومت کو ختم کرانے کی سازش کی، انیس سوسڑسٹھ میں یونان میں ڈکٹیٹر شپ قائم کرائی، انیس سو اکہتر میں ترکی میں فوجی انقلاب کی راہ ہموار کروا کے انتشار پھیل جانے کے باعث سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے۔
انیس سو ستتر میں اسپین کے دارالحکومت میڈرڈ میں قتل عام کروایا، انیس سو اسی میں ترکی میں ڈکٹیٹر شپ دوبارہ قائم کرائی، انیس سو پچاسی میں بیلجیئم کے چھوٹے سے شاپنگ سینٹر میں فائرنگ کرکے اٹھائیس دکانداروں کو قتل کیا، انیس سو نوے میں سوئٹزرلینڈ میں اس گروپ کے لیے کام کرنے والے سابق چیف ''ہربرٹ البوٹ'' نے اپنے گناہوں سے تائب ہو کر امریکا کے محکمۂ دفاع کو دھمکی دی کہ وہ اپنی گھناؤنی کارروائیوں سے باز آجائے مگر اگلے ہی روز ہربرٹ البوٹ اپنے فلیٹ میں مردہ پائے گئے۔ صحافی ڈینیئل گینسر کے مطابق یہ تمام سازشیں آپریشن گلاڈیو کے زیرانتظام انجام دی گئیں۔
اٹلی میں دیگر آپریشن
آپریشن گلاڈیو کے تحت اٹلی ہی میں آپریشن ''پیانو سولو'' بھی تخلیق کیا گیا۔ تھا یہ آپریشن اس وقت کیا جانا تھا جب اپریل انیس سو تریسٹھ کے عام انتخابات میں سوشلسٹ اور کمیونسٹ نظریات کے حامی افراد نے پچیس فی صد سے زاید نشستیں حاصل کیں تو ان فتوحات کا تسلسل روکنے کے لیے وزیراعظم آلدو مورو (Aldo Moro)کی قائم کردہ حکومت کو ختم کرنا تھا (آلدو موردو مرتبہ انیس سو تریسٹھ سے اڑسٹھ اور دوسری مرتبہ انیس سو چوہتر سے انیس سو چھییتر تک اٹلی کے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہے ہیں ) اس وقت اس مشن کا سربراہ کرنل رنزو روکا (Renzo Rocca) کو بنایا گیا۔
رونزا روکا کے منصوبے کے مطابق پورے ملک میں آلدو مورو کی سیاسی جماعت ''کرسچن ڈیموکریسی'' کے دفاتر اور کمیونسٹ نظریات کے مخالف اخبارات کے دفاتر میں بم دھماکے کرواکر ان کا الزام سوشلسٹوں پر لگایا جانا تھا، تاکہ وزیراعظم آلدومورو کی جانب سے سوشلسٹوں کے لیے نرم گوشے کو نفرت میں تبدیل کیا جاسکے۔ یاد رہے کہ وزیراعظم آلدومورو نے اپنی حکومت میں سوشلسٹوں کو بھی خاطر خواہ حصہ دینے کا عندیہ دے رکھا تھا۔ کرنل رینزو روکا سے اس سازش کے حوالے سے جب انیس سو اڑسٹھ میں تحقیقات کی جارہیں تھیں تو اس دوران اس نے خودکشی کرلی۔
کرنل رونزا روکا کی سازشوں اور منصوبہ بندی کے باوجود جب آلدومورو کی حکومت میں کوئی خاطر خواہ بے چینی نہیں پھیلی تو تو رنز و روکا اور اٹلی کے خفیہ محکمے ''سائفار'' (SIFAR) کے سربراہ جنرل گیوانی ڈی لورینزو نے پورے ملک میں انتشار پھیلانے کے لیے خفیہ طریقے سے اپنی خفیہ آرمی کے کارندوں کو استعمال کیا۔ انیس سو ستر میں جب آپریشن پیانو سولو کی حقیقت منظر عام پر آئی تو اٹلی پارلیمنٹ کی جانب سے جنرل گیوانی ڈی لورینزو کو آئین شکنی کا مرتکب قرار دیا گیا۔
اس کے علاوہ انیس سو ستر میں آپریشن ''تورا۔ تورا''(Tora-Tora) کرنے کی سازش کی گئی۔ تاہم اس آپریشن کو امریکی صدر رچرڈ نکسن کے کہنے پر آخری لمحات میں منسوخ کردیا گیا۔ امریکا کی بڑھتی ہوئی مداخلت کے باعث انیس سو ستر ہی میں آلدو مورو جو اس وقت سیکریٹری خارجہ کے عہدے پر فائز تھے، اور اطالوی صدر ''جیووانی لیؤن'' نے امریکا جاکر ہنری کسنجر کو متنبہ کیا کہ امریکا اٹلی میں اپنی پالیسیوں کو تبدیل کرے اور سازشی عناصر کی سرپرستی ختم کرے۔
تاہم امریکی حکومت کی جانب سے کوئی حوصلہ افزاء جواب نہیں ملا، بل کہ ان دونوں حضرات کی سرزنش کرتے ہوئے انہیں کمیونسٹوں کو حکومت میں شامل نہ کرنے کی ہدایت کی گئی۔ اس حوالے سے آلدو مور کی بیوی الینا نورا کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر سے جو الفاظ کہے گئے تھے وہ کچھ یوں تھے،''آپ اپنے ملک میں ہر قسم کی سیاسی قوتوں کو حکومت بنانے میں حصہ دینے کی پالیسیوں کو ختم کریں اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں بھاری خمیازہ بھگتنے کے لیے تیار رہیں۔''
امریکا کی جانب سے تنبیہ کے باوجود آلدو مورو نے حکومتی انتظامات اپنے انداز میں چلانے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں مارچ انیس سو اٹھتر میں انہیں نامعلوم افراد نے اغوا کرلیا اور پچپن دن بعد نو مئی انیس سو اٹھتر کو انہیں قتل کرکے لاش پھینک دی گئی۔ دو مرتبہ وزیراعظم اور انتہائی اہم مناصب پر فائز رہنے والے آلدو مورو کے قاتلوں کا آج تک سراغ نہیں مل سکا، بل کہ اٹلی کے محکمہ داخلہ کا کہنا ہے کے آلدو مورو کے قتل اور اغوا سے متعلق فائل پراسرار طور پر غائب ہوچکی ہے۔
امریکا کے توسیع پسندانہ عزائم گذشتہ نصف صدی سے زاید عرصے پر پھیلے ہوئے ہیں، جس کے دوران نہ صرف وہ اپنے حریف ممالک کے خارجی بلکہ داخلی معاملات میں بھی گُھستا اور مختلف سازشوں کے جال بچھاتا رہتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ نہ صرف اپنے ایجنٹوں کے ذریعے اپنے حق میں حالات پیدا کرتا ہے بل کہ ان ممالک کے اہم اداروں کے سربراہوں کو بھی اپنے جال میں پھنسانے سے گریز نہیں کرتا، جس کی اہم ترین مثال اس کا ''آپریشن گلاڈیو'' ہے۔
سرد جنگ کے زمانے میں تشکیل پانے والا آپریشن گلاڈیو ایک ایسا مشن تھا جس میں امریکا کا خفیہ ادارہ ''سی آئی اے'' امریکا کے مختلف اتحادی ممالک کے خفیہ اداروں کے ساتھ مل کر اٹلی میں کمیونسٹ حکومت کے خلاف کارروائی کرنے میں شامل تھا۔ یہ انکشاف انیس سو ستر کی دہائی کے ان خفیہ کاغذات سے ہوتا ہے جو اب منظرعام پر آچکے ہیں۔
ان کاغذات کے مطابق سردجنگ کے زمانے میں انیس سو پچاس کی دہائی میں اٹلی کی اس وقت کی خفیہ فوجی ایجنسی''سائفار''(SIFAR) کے سربراہ ''جنرل گیوانی ڈی لورینزو'' کو امریکا نے اس امر پر راضی کرلیا تھا کہ وہ اٹلی میں کمیونسٹ نظریات کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکنے کے لیے سرگرم ہوں، لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ امریکا نے اٹلی کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ جنرل گیوانی ڈی لورینزو کو اس بات کا پابند کیا تھا کہ وہ اس منصوبے سے اپنی حکومت کو بے خبر رکھے۔
اس انکشاف پر اُس وقت مہر تصدیق ثبت ہوگئی جب انیس سو نوے میں ا ٹلی کے تین مختلف ادوار میں انیس سو بہتّر سے انیس سوبانوے تک وزیراعظم رہنے والے''جولیو آندریوتی'' نے ایک تحقیقاتی مشن کے سامنے اس حقیقت کا اظہار کیا کہ ان کے دور حکومت میں امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کی جانب سے اٹلی میں کمیونسٹ نظریات کی حامی سیاسی جماعتوں کی کام یابیوں کو روکنے کے لیے اٹلی کے عسکری ادارے کے خفیہ ونگ کے سربراہ کو استعمال کیا گیا تھا وزیر اعظم جولیو آندریوتی کی جانب سے اس منصوبے کے بارے میں دستاویزی ثبوت بھی فراہم کیے گئے۔
جن سے واضح ہوتا ہے کہ انہیں (جولیو آندریوتی) کو اس تمام عمل سے لاعلم رکھا گیا۔ بعدازاں انہوں نے اٹلی میں کام کرنے والی اس خفیہ آرمی کے بارے میں اٹلی کے سینیٹ میں بھی انکشافات کیے، جن کے بارے میں اخبارات نے سرخی لگائی،''دوسری جنگ عظیم سے لے کر اب تک یہ سب سے زیادہ خفیہ اور انتہائی خطرناک سیاسی اور عسکری راز تھے جنہیں انتہائی رازداری سے چھپایا گیا تھا۔''
امریکا اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے کس طرح اپنا اثرورسوخ استعمال کرتا ہے اور دوسرے ممالک کی داخلہ پالیسیوں پر اثرانداز ہوتا ہے، اس کا اندازہ اس چھوٹی سی مثال سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اٹلی کے خفیہ محکمہ ''سائفار'' (SIFAR) کے سربراہ جنرل گیوانی ڈی لورینزو کی اس عہدے پر تعیناتی اٹلی میں تعینات امریکا کے سفیر ''کلیر بوتھے لوئیس'' کے اشارے پر کی گئی تھی۔ سی آئی اے کے روم میں تعینات ڈپٹی چیف فیلٹن مارک نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں واضح طور پر کہا تھا کہ اٹلی میں آپریشن گلاڈیو کا مرکزی کردار اٹلی کے خفیہ محکمہ ''سائفار'' (SIFAR) کا سربراہ جنرل گیوانی ڈی لورینزو تھا۔
اطالوی زبان میں چھوٹی تلوار یا خنجر کو ''گلاڈیو'' کہا جاتا ہے۔ اس نسبت سے آپریشن گلا ڈیو کہلائے جانے والے منصوبے کے بارے میں اطالوی وزیراعظم جولیو آندریوتی کی جانب سے پیش کی جانے والی دستاویزات کے مطابق امریکا کا خفیہ ادارہ سی آئی اے اور اٹلی کے عسکری ادارے کے خفیہ ونگ ''سائفار'' دونوں نے نومبر انیس سو چھپن میں باہم منصوبہ بندی کی تھی کہ وہ پورے ملک میں ایک ہزار سے زاید گوریلا ٹریننگ یافتہ ایجنٹوں کے ذریعے کمیونسٹوں کے خلاف کارروائی کریں گے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے شمالی اٹلی میں واقع جزیرے ساردینا میں تربیت کے لیے بیس کیمپ قائم کیا تھا، جہاں سے بعد میں زمین میں دبایا گیا آتشیں مواد، گولہ بارود اور ایک سو انتالیس کی تعداد میں بھاری ہتھیار برآمد ہوئے تھے۔
جولیو آندریوتی کا اس ضمن میں یہ بھی کہنا تھا کہ اس حوالے سے ایک انتہائی منظم تنظیم بنائی گئی تھی، جس میں شامل کرکے نہ صرف بدعنوان سیاست داں، سرکاری ملازم، صنعت کار، فوجی افسران اور اہم صحافیوں کو بھاری ترغیبات دے کر آپریشن گلاڈیو کا حصہ بنایا جاتا تھا بل کہ روم شہر کی بدنام زمانہ زیر زمین گینگسٹر تنظیم ''باندا ڈی لامگلیانا'' کے کارندوں سے بھی قتل و غارت گری، لوٹ مار اور عوام میں سیاسی بے چینی اور انتشار پھیلانے کا کام لیا جاتا تھا۔ ایسے ہی ایک واقعے میں دو اگست انیس سو اسی کو بولانگا شہر کے مرکزی ریلوے اسٹیشن پر زور دار بم دھماکا ہوا جس میں اکیاسی افراد ہلاک اور دو سو سے زاید زخمی ہوئے تھے۔
اس بم دھماکے کے نشان بھی آپریشن گلاڈیو کے کارندوں تک گئے تھے۔ اس حوالے سے اس وقت کے اٹلی کے ملٹری انٹلیجینس کے سربراہ جنرل سینٹو رائٹو کا کہنا تھا کہ بم دھماکے کی منصوبہ بندی مناکو میں کام کرنے والی ''برٹش، سوئس، امریکن مونٹی کارلو کمیٹی'' نے کی تھی۔ بعدازاں اس وقت لگائے گئے اس الزام کی تصدیق انیس سو نوے میں وزیراعظم جولیو آندریوتی کی جانب سے سینیٹ میں کی گئی۔
واضح رہے کہ دستاویزات کے مطابق آپریشن گلاڈیو صرف اٹلی ہی میں نہیں انجام دیا گیا تھا بل کہ اس کی کارروائیاں ہر اس ملک میں کی جاتی تھیں جہاں پر سردجنگ کے زمانے میں کمیونسٹ نظریات کے حامی افراد پھل پھول رہے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ آپریشن گلاڈیو کو امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کی تنظیم نیٹو کی خفیہ منصوبہ بندی کمیٹی کی جانب سے فنڈز اور دیگر مراعات فراہم کی جاتی تھیں اور یہی کمیٹی اس کے تمام معاملات کی نگرانی کرنے کی مجاز تھی۔
واضح رہے کہ آپریشن گلاڈیو کے حوالے سے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی جانب سے بھی دستاویزی فلم بنائی گئی ہے، جس میں آپریشن گلاڈیو کی تیاری میں انیس سو نو سے قائم برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس اور انیس سو اکتالیس میں قائم ہونے والی برطانوی فوج کی ہوابازی کی رجمنٹ ''اسپیشل ائیر سروس'' اور امریکا کے خفیہ ادارے ''سی آئی اے '' کو اس خفیہ مشن کے مرکزی کردار قرار دیا گیا ہے۔ بنیادی طور پر آپریشن گلاڈیو انیس سو اٹھاون سے روبہ عمل رہا ہے۔
آپریشن گلاڈیو کے نتیجے میں قتل ہونے والے اٹلی کے وزیراعظم آلدو مورو کے قتل کی تحقیقات کے لیے بنائے جانے والے کمیشن نے انیس سو پچانوے میں تین سو ستر صفحات پر مشتمل رپورٹ شائع کی تھی، جس میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ انیس سو ساٹھ کی دہائی میں امریکا اور اس کی خفیہ تنظیم سی آئی اے نے اٹلی میں عدم استحکام پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
بعدازاں جون سن دو ہزار میں اٹلی کے سینٹر ''پیلیگرانی'' کی سربراہی میں بننے والی تحقیقاتی کمیٹی کا کہنا تھا کہ اٹلی میں گذشتہ دہائیوں میں ہونے والے بم دھماکے ، قتل عام اور فوجی ایکشن کے ذمہ دار ایسے فرد تھے جو بظاہر تو اطالوی تھے، لیکن ان کا تعلق امریکا کے انٹیلی جنس اداروں سے تھا اور وہ امریکا اور اس کے حواریوں کے لیے کام کررہے تھے۔
دیگر آپریشن گلاڈیو
چالیس برس تک پراسراریت کی گرد میں چُھپا آپریشن گلاڈیو دوسرے الفاظ میں ایک ایسا کثیرالاملکی فوجی مشن یا منصوبہ ہے، جسے مکمل طور پر نیٹو تنظیم، امریکا کا خفیہ ادارہ سی آئی اے اور برطانیہ کی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس کی پشت پناہی حاصل ہے اور اس پشت پناہی کے نتیجے میں اس کے مسلح کارندے بالعموم پوری دنیا اور بالخصوص پورے یورپ میں حکومتوں کو علم میں لائے بغیر امریکی مفادات کی نگہبانی کرتے ہیں۔
سوئٹزرلینڈ سے تعلق رکھنے والے مشہور صحافی ''ڈینیئل گینسر'' نے اپنی معرکتہ الآراء کتاب'' نیٹو، سیکرٹ آرمیز''(NATO's Secret Armies) میں تفصیل سے بیان کیا ہے کہ کس طرح امریکا کا محکمۂ دفاع پینٹاگون، برطانیہ کا ایم آئی سکس اور نیٹو کی خفیہ مشن کی کمیٹی دنیا بھر میں سازشیں پھیلا رہی ہیں۔
اس حوالے سے ڈینیئل گینسر کا کہنا ہے کہ نیٹو اور امریکہ کے خفیہ ادارے فرانس، اسپین، پرتگال، جرمنی، بیلجیئم، نیدرلینڈ، لکسمبرگ، ڈنمارک، ناروے، سوئیڈن، فن لینڈ، سوئٹزرلینڈ، آسٹریا، یونان اور ترکی میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے مصنوعی انتشار کے حالات پیدا کرنے کے لیے عرصۂ دراز سے سازشوں کا جال بچھائے ہوئے ہیں۔ ان سازشوں کے لیے وہ آپریشن گلاڈیو کا خفیہ نام استعمال کرتے ہیں، جسے اس کے علاوہ ''اسٹے بیہائنڈ آرمیز'' (Stay-behind)۔ بھی کہا جاتا ہے۔
اگر ہم آپریشن گلاڈیو کے حوالے سے اس کے کارندوں کے چیدہ چیدہ گھناؤنے کارناموں پر نظر ڈالیں تو علم ہوتا ہے کہ انیس سو ساٹھ میں آپریشن گلاڈیو کی خفیہ آرمی نے ترکی کے وزیر اعظم عدنان میندریس کو پھانسی دلوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انیس سو اکسٹھ میں فرانس میں موجود اس گروپ نے الجزائر کی حکومت کو ختم کرانے کی سازش کی، انیس سوسڑسٹھ میں یونان میں ڈکٹیٹر شپ قائم کرائی، انیس سو اکہتر میں ترکی میں فوجی انقلاب کی راہ ہموار کروا کے انتشار پھیل جانے کے باعث سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے۔
انیس سو ستتر میں اسپین کے دارالحکومت میڈرڈ میں قتل عام کروایا، انیس سو اسی میں ترکی میں ڈکٹیٹر شپ دوبارہ قائم کرائی، انیس سو پچاسی میں بیلجیئم کے چھوٹے سے شاپنگ سینٹر میں فائرنگ کرکے اٹھائیس دکانداروں کو قتل کیا، انیس سو نوے میں سوئٹزرلینڈ میں اس گروپ کے لیے کام کرنے والے سابق چیف ''ہربرٹ البوٹ'' نے اپنے گناہوں سے تائب ہو کر امریکا کے محکمۂ دفاع کو دھمکی دی کہ وہ اپنی گھناؤنی کارروائیوں سے باز آجائے مگر اگلے ہی روز ہربرٹ البوٹ اپنے فلیٹ میں مردہ پائے گئے۔ صحافی ڈینیئل گینسر کے مطابق یہ تمام سازشیں آپریشن گلاڈیو کے زیرانتظام انجام دی گئیں۔
اٹلی میں دیگر آپریشن
آپریشن گلاڈیو کے تحت اٹلی ہی میں آپریشن ''پیانو سولو'' بھی تخلیق کیا گیا۔ تھا یہ آپریشن اس وقت کیا جانا تھا جب اپریل انیس سو تریسٹھ کے عام انتخابات میں سوشلسٹ اور کمیونسٹ نظریات کے حامی افراد نے پچیس فی صد سے زاید نشستیں حاصل کیں تو ان فتوحات کا تسلسل روکنے کے لیے وزیراعظم آلدو مورو (Aldo Moro)کی قائم کردہ حکومت کو ختم کرنا تھا (آلدو موردو مرتبہ انیس سو تریسٹھ سے اڑسٹھ اور دوسری مرتبہ انیس سو چوہتر سے انیس سو چھییتر تک اٹلی کے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہے ہیں ) اس وقت اس مشن کا سربراہ کرنل رنزو روکا (Renzo Rocca) کو بنایا گیا۔
رونزا روکا کے منصوبے کے مطابق پورے ملک میں آلدو مورو کی سیاسی جماعت ''کرسچن ڈیموکریسی'' کے دفاتر اور کمیونسٹ نظریات کے مخالف اخبارات کے دفاتر میں بم دھماکے کرواکر ان کا الزام سوشلسٹوں پر لگایا جانا تھا، تاکہ وزیراعظم آلدومورو کی جانب سے سوشلسٹوں کے لیے نرم گوشے کو نفرت میں تبدیل کیا جاسکے۔ یاد رہے کہ وزیراعظم آلدومورو نے اپنی حکومت میں سوشلسٹوں کو بھی خاطر خواہ حصہ دینے کا عندیہ دے رکھا تھا۔ کرنل رینزو روکا سے اس سازش کے حوالے سے جب انیس سو اڑسٹھ میں تحقیقات کی جارہیں تھیں تو اس دوران اس نے خودکشی کرلی۔
کرنل رونزا روکا کی سازشوں اور منصوبہ بندی کے باوجود جب آلدومورو کی حکومت میں کوئی خاطر خواہ بے چینی نہیں پھیلی تو تو رنز و روکا اور اٹلی کے خفیہ محکمے ''سائفار'' (SIFAR) کے سربراہ جنرل گیوانی ڈی لورینزو نے پورے ملک میں انتشار پھیلانے کے لیے خفیہ طریقے سے اپنی خفیہ آرمی کے کارندوں کو استعمال کیا۔ انیس سو ستر میں جب آپریشن پیانو سولو کی حقیقت منظر عام پر آئی تو اٹلی پارلیمنٹ کی جانب سے جنرل گیوانی ڈی لورینزو کو آئین شکنی کا مرتکب قرار دیا گیا۔
اس کے علاوہ انیس سو ستر میں آپریشن ''تورا۔ تورا''(Tora-Tora) کرنے کی سازش کی گئی۔ تاہم اس آپریشن کو امریکی صدر رچرڈ نکسن کے کہنے پر آخری لمحات میں منسوخ کردیا گیا۔ امریکا کی بڑھتی ہوئی مداخلت کے باعث انیس سو ستر ہی میں آلدو مورو جو اس وقت سیکریٹری خارجہ کے عہدے پر فائز تھے، اور اطالوی صدر ''جیووانی لیؤن'' نے امریکا جاکر ہنری کسنجر کو متنبہ کیا کہ امریکا اٹلی میں اپنی پالیسیوں کو تبدیل کرے اور سازشی عناصر کی سرپرستی ختم کرے۔
تاہم امریکی حکومت کی جانب سے کوئی حوصلہ افزاء جواب نہیں ملا، بل کہ ان دونوں حضرات کی سرزنش کرتے ہوئے انہیں کمیونسٹوں کو حکومت میں شامل نہ کرنے کی ہدایت کی گئی۔ اس حوالے سے آلدو مور کی بیوی الینا نورا کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر سے جو الفاظ کہے گئے تھے وہ کچھ یوں تھے،''آپ اپنے ملک میں ہر قسم کی سیاسی قوتوں کو حکومت بنانے میں حصہ دینے کی پالیسیوں کو ختم کریں اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں بھاری خمیازہ بھگتنے کے لیے تیار رہیں۔''
امریکا کی جانب سے تنبیہ کے باوجود آلدو مورو نے حکومتی انتظامات اپنے انداز میں چلانے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں مارچ انیس سو اٹھتر میں انہیں نامعلوم افراد نے اغوا کرلیا اور پچپن دن بعد نو مئی انیس سو اٹھتر کو انہیں قتل کرکے لاش پھینک دی گئی۔ دو مرتبہ وزیراعظم اور انتہائی اہم مناصب پر فائز رہنے والے آلدو مورو کے قاتلوں کا آج تک سراغ نہیں مل سکا، بل کہ اٹلی کے محکمہ داخلہ کا کہنا ہے کے آلدو مورو کے قتل اور اغوا سے متعلق فائل پراسرار طور پر غائب ہوچکی ہے۔