کراچی کا امن سب کی ترجیح ہونی چاہیے
اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ کراچی میں آپریشن سے پہلے شہر میں امن و امان کے حالات بہت زیادہ خراب ہو چکے تھے
کراچی میں رینجرز کے اختیارات کی توثیق اور آپریشن کے حوالے سے وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کے درمیان گزشتہ چند دنوں سے جاری کشمکش کے بعد گرما گرمی کا ماحول پیدا ہو گیا ہے۔ کراچی میں رینجرز کے اختیارات کا معاملہ گزشتہ چند دنوں سے مسلسل التوا کا شکار چلا آ رہا ہے جس پر وفاقی حکومت کا موقف ہے کہ سندھ حکومت پہلے کی طرح نوٹیفکیشن کے ذریعے رینجرز کے اختیارات میں توسیع کر دے جب کہ سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ صوبائی اسمبلی کے ذریعے سے اختیارات کی توثیق کرے گی۔
ہفتے کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے رینجرز کے اختیارات میں توسیع نہ ملنے پر سندھ حکومت کے بارے میں کراچی آپریشن بند کیا گیا تو اس کے مستقبل میں منفی اثرات مرتب ہونگے، رینجرز پر الزامات لگا کر کراچی آپریشن کو متنازعہ نہ بنایا جائے، رینجرز اختیارات میں توسیع کے معاملے میں صوبائی حکومت کسی غلط فہمی میں نہ رہے، وفاقی حکومت کراچی کے عوام کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑے گی اور امن وامان کے لیے رینجرز کی ڈھائی سالہ محنت ضایع نہیں جانے دیگی، کراچی آپریشن میں ہم بہت آگے نکل گئے ہیں اب واپسی ممکن نہیں، وفاق کے پاس کراچی کے تحفظ اور آپریشن کو جاری رکھنے کے لیے 4سے 5 قانونی اور آئینی آپشن موجود ہیں۔
کراچی آپریشن کے کپتان وزیر اعلیٰ سندھ ہی ہیں، صوبائی حکومت کو ہر ممکن تعاون فراہم کیا تمام کمزوریوں کی نشاندہی بھی کرتے رہے، کراچی میں جون 2013 اور آج کے حالات میں واضح فرق ہے، امن کے لیے رینجرز نے موثر کردار ادا کیا۔ پچھلے2 ہفتوں سے کراچی آپریشن کا رخ موڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے، کراچی کے عوام ہی نہیں پورا ملک آپریشن کے حق میں ہے، صوبائی حکومت کو رینجرز اختیارات پر تحفظات ہیں تو آگاہ کرنا چاہیے تھا، اب کراچی آپریشن کو متنازعہ بنانے سے دہشتگردوں کی حوصلہ افزائی ہو گی''۔ دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ کی پریس کانفرنس پر ردعمل دیتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر برائے اطلاعات مولا بخش چانڈیو نے پریس کانفرنس میں کہا کہ چوہدری نثار دھمکیاں نہ دیں، جو کرنا ہے کر گزریں، پیر کو سندھ اسمبلی سے رینجرز کے اختیارات کی توثیق کرا دینگے۔
اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ کراچی میں آپریشن سے پہلے شہر میں امن و امان کے حالات بہت زیادہ خراب ہو چکے تھے۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ پورا شہر مجرموں' بھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلرز کے رحم و کرم پر ہے۔ ان حالات میں شہریوں کے متعدد حلقوں کی جانب سے یہ مطالبہ کیا جانے لگا کہ کراچی کے حالات بہتر بنانے کے لیے وفاقی حکومت فی الفور اقدامات کرے۔ جس پر کراچی میں رینجرز کے ذریعے آپریشن شروع کیا گیا' رینجرز نے آپریشن کے دوران متعدد مجرموں دہشت گردوں اور ٹارگٹ کلرز کو گرفتار کیا اور اپنی جانوں کی پروا نہ کرتے ہوئے کراچی کو پھر سے پرامن شہر بنا دیا جس کی گواہی آج وہاں کے شہری اور تاجر طبقے بھی دیتے ہیں' عیدالفطر کے موقع پر شہر میں اربوں روپے کی ریکارڈ تجارت ہوئی جس پر تاجر طبقے میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اب گزشتہ چند دنوں سے رینجرز کے اختیارات ختم ہونے کے بعد وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کے درمیان اس مسئلہ پر محاذ آرائی کا ماحول پیدا ہو گیا ہے، سندھ حکومت کراچی آپریشن پر اپنے تحفظات کا اظہار کر رہی ہے جب کہ وفاقی حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ ایک نارمل انتظامی معاملے کو بلاجواز اچھالا گیا ہے۔ کسی بھی انتظامی تنازع کی صورت میں وفاقی اور صوبائی حکومت کو معاملہ اچھالنے کے بجائے باہمی مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اگر کسی فریق کو کسی ادارے کی جانب سے اپنے دائرہ کار سے تجاوز کرنے کی شکایت ہے تو اس مسئلے کو بھی باہمی بات چیت کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔ جب آئین میں تمام اداروں کے اختیارات کا تعین کیا گیا ہے تو ایسی صورت میں کسی بھی ادارے کو اپنے دائرہ کار سے باہر نکل کر کارروائی نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس سے بہت سے پیچیدہ مسائل جنم لیتے ہیں۔ باہمی تنازعات کے حل کے لیے اسمبلی' عدالتیں اور دیگر پلیٹ فارم موجود ہیں جن کے ذریعے ہی معاملات کو طے کیا جانا چاہیے نہ کہ ایک دوسرے کے خلاف جارحانہ بیان بازی کا وتیرہ اپنا کر ماحول کو کشیدہ کیا جائے۔ بہر حال اس ساری کشمکش میں ایک مثبت اور حوصلہ افزا پہلو بھی سامنے آیا ہے۔ وہ مولا بخش چانڈیو کا یہ کہنا ہے کہ پیر کو سندھ اسمبلی سے رینجرز کے اختیارات کی توثیق کرا دیں گے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ خوش اسلوبی سے طے ہو جائے گا' اصل بات یہ ہے کہ فریقین کی اولین ترجیح کراچی کا امن اور خوشحالی ہونی چاہیے اور اس مقصد کو لے کر آگے بڑھنا چاہیے اور اس سلسلے میں سیاسی اور گروہی مفادات کو بالائے طاق رکھ دیا جائے۔
ہفتے کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے رینجرز کے اختیارات میں توسیع نہ ملنے پر سندھ حکومت کے بارے میں کراچی آپریشن بند کیا گیا تو اس کے مستقبل میں منفی اثرات مرتب ہونگے، رینجرز پر الزامات لگا کر کراچی آپریشن کو متنازعہ نہ بنایا جائے، رینجرز اختیارات میں توسیع کے معاملے میں صوبائی حکومت کسی غلط فہمی میں نہ رہے، وفاقی حکومت کراچی کے عوام کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑے گی اور امن وامان کے لیے رینجرز کی ڈھائی سالہ محنت ضایع نہیں جانے دیگی، کراچی آپریشن میں ہم بہت آگے نکل گئے ہیں اب واپسی ممکن نہیں، وفاق کے پاس کراچی کے تحفظ اور آپریشن کو جاری رکھنے کے لیے 4سے 5 قانونی اور آئینی آپشن موجود ہیں۔
کراچی آپریشن کے کپتان وزیر اعلیٰ سندھ ہی ہیں، صوبائی حکومت کو ہر ممکن تعاون فراہم کیا تمام کمزوریوں کی نشاندہی بھی کرتے رہے، کراچی میں جون 2013 اور آج کے حالات میں واضح فرق ہے، امن کے لیے رینجرز نے موثر کردار ادا کیا۔ پچھلے2 ہفتوں سے کراچی آپریشن کا رخ موڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے، کراچی کے عوام ہی نہیں پورا ملک آپریشن کے حق میں ہے، صوبائی حکومت کو رینجرز اختیارات پر تحفظات ہیں تو آگاہ کرنا چاہیے تھا، اب کراچی آپریشن کو متنازعہ بنانے سے دہشتگردوں کی حوصلہ افزائی ہو گی''۔ دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ کی پریس کانفرنس پر ردعمل دیتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر برائے اطلاعات مولا بخش چانڈیو نے پریس کانفرنس میں کہا کہ چوہدری نثار دھمکیاں نہ دیں، جو کرنا ہے کر گزریں، پیر کو سندھ اسمبلی سے رینجرز کے اختیارات کی توثیق کرا دینگے۔
اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ کراچی میں آپریشن سے پہلے شہر میں امن و امان کے حالات بہت زیادہ خراب ہو چکے تھے۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ پورا شہر مجرموں' بھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلرز کے رحم و کرم پر ہے۔ ان حالات میں شہریوں کے متعدد حلقوں کی جانب سے یہ مطالبہ کیا جانے لگا کہ کراچی کے حالات بہتر بنانے کے لیے وفاقی حکومت فی الفور اقدامات کرے۔ جس پر کراچی میں رینجرز کے ذریعے آپریشن شروع کیا گیا' رینجرز نے آپریشن کے دوران متعدد مجرموں دہشت گردوں اور ٹارگٹ کلرز کو گرفتار کیا اور اپنی جانوں کی پروا نہ کرتے ہوئے کراچی کو پھر سے پرامن شہر بنا دیا جس کی گواہی آج وہاں کے شہری اور تاجر طبقے بھی دیتے ہیں' عیدالفطر کے موقع پر شہر میں اربوں روپے کی ریکارڈ تجارت ہوئی جس پر تاجر طبقے میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اب گزشتہ چند دنوں سے رینجرز کے اختیارات ختم ہونے کے بعد وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کے درمیان اس مسئلہ پر محاذ آرائی کا ماحول پیدا ہو گیا ہے، سندھ حکومت کراچی آپریشن پر اپنے تحفظات کا اظہار کر رہی ہے جب کہ وفاقی حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ ایک نارمل انتظامی معاملے کو بلاجواز اچھالا گیا ہے۔ کسی بھی انتظامی تنازع کی صورت میں وفاقی اور صوبائی حکومت کو معاملہ اچھالنے کے بجائے باہمی مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اگر کسی فریق کو کسی ادارے کی جانب سے اپنے دائرہ کار سے تجاوز کرنے کی شکایت ہے تو اس مسئلے کو بھی باہمی بات چیت کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔ جب آئین میں تمام اداروں کے اختیارات کا تعین کیا گیا ہے تو ایسی صورت میں کسی بھی ادارے کو اپنے دائرہ کار سے باہر نکل کر کارروائی نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس سے بہت سے پیچیدہ مسائل جنم لیتے ہیں۔ باہمی تنازعات کے حل کے لیے اسمبلی' عدالتیں اور دیگر پلیٹ فارم موجود ہیں جن کے ذریعے ہی معاملات کو طے کیا جانا چاہیے نہ کہ ایک دوسرے کے خلاف جارحانہ بیان بازی کا وتیرہ اپنا کر ماحول کو کشیدہ کیا جائے۔ بہر حال اس ساری کشمکش میں ایک مثبت اور حوصلہ افزا پہلو بھی سامنے آیا ہے۔ وہ مولا بخش چانڈیو کا یہ کہنا ہے کہ پیر کو سندھ اسمبلی سے رینجرز کے اختیارات کی توثیق کرا دیں گے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ خوش اسلوبی سے طے ہو جائے گا' اصل بات یہ ہے کہ فریقین کی اولین ترجیح کراچی کا امن اور خوشحالی ہونی چاہیے اور اس مقصد کو لے کر آگے بڑھنا چاہیے اور اس سلسلے میں سیاسی اور گروہی مفادات کو بالائے طاق رکھ دیا جائے۔