ماحولیاتی آلودگی اور ترقی یافتہ اقوام

دنیا میں صنعتی انقلاب کے بعد سے زمین کا درجہ حرارت بلند ہونے کی حد 2 ڈگری سینٹی گریڈ مقرر کی گئی ہے


Editorial December 14, 2015
منظوری کے بعد مسودہ اقوام متحدہ کی کلائمیٹ چینچ سیکریٹریٹ کو بھیجا جائے گا۔ فوٹو: رائٹرز

فرانس میں کانفرنس آف پارٹیز ( سی او پی ) کے تحت ہونے والی 21 ویں ماحولیاتی کانفرنس میں زمین (کرۂ ارض) کے تحفظ سے متعلق ایک اہم معاہدہ سامنے آ گیا ہے جس میں تمام ممالک نے اعادہ کیا کہ زمین کے درجہ حرارت میں اوسطاً اضافے کو 2 درجے سینٹی گریڈ سے کم رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی لیکن انفرادی سطح پر اس معاہدے پر تمام ممالک کی منظوری ابھی باقی ہے۔ کانفرنس کے بعد اعلامیہ 195 ممالک کی طرف سے مشترکہ طور پر جاری کیا گیا۔ فرانس کے وزیرِ خارجہ لورینٹ فیبیئس نے اس معاہدے کو تاریخی قرار دیا جس میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں صنعتی انقلاب کے بعد سے زمین کا درجہ حرارت بلند ہونے کی حد 2 ڈگری سینٹی گریڈ مقرر کی گئی ہے کیونکہ اس سے زیادہ درجہ حرارت قدرتی ماحول کے لیے تباہ کن ہے جس کے ذمے دار ایندھن اور صنعتی عمل سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گیسز ہیں جو زمین پر حرارت بڑھانے کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔

''آب و ہوا میں تبدیلی'' یعنی کلائمٹ چینج کے عنوان سے ہونے والی اس کانفرنس میں ماحولیاتی تبدیلی سے انتہائی متاثرہ ممالک کے لیے 100 ارب ڈالر کے فنڈ کا بھی وعدہ کیا گیا جو پہلے 2020ء تک تھا لیکن اب اس کی حد 2025ء رکھی گئی ہے۔ ان تمام امور کو قانونی طور پر تحفظ حاصل ہے اور اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے تمام ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ اس معاہدے کو قبول اور منظور کریں کیونکہ زمین پر رہنے والے ہر جاندار کا انحصار اسی معاہدے پر ہے لیکن امریکا اور چین دونوں ہی سب سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا کرنے والے ممالک ہیں اور ان دونوں کے درمیان شفافیت اور معاہدے کی پاسداری بہت اہمیت کی حامل ہے۔

اگر حفظ تقدم کے طور پر اگر یہ کہا جائے کہ اگر دو نامزد ممالک اس معاہدے کی خلاف ورزی جاری رکھی تو ان سے کون پوچھے گا کیونکہ عام محاورے کے مطابق ''زبردست کا ٹھینگا سر پر'' اور اس وقت تو صنعت و ٹیکنالوجی میں ترقی یافتہ تمام ملک اپنی ترقی کی رفتار کو قائم رکھنے کی خاطر زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی نہیں کریں گے۔ فرانس کی وزارتِ خارجہ کے اہلکار نے کہا کہ معاہدے کا 6زبانوں میں ترجمہ کیا جائے گا۔ بہرحال اصل بات یہ ہے کہ بڑی طاقتیں ماحولیاتی آلودگی کی سنگینی کو سمجھیں کیونکہ کمزور اقوام صنعتی طور پر ترقی یافتہ نہیں ہیں لہٰذا وہ ماحولیاتی آلودگی کی ذمے دار نہیں ہیں۔ کرہ ارض بنی نوع انسان کے رہنے کی جگہ ہے' اگر اسے کوئی نقصان پہنچتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بنی نوع انسان کو نقصان پہنچ رہا ہے' ترقی یافتہ اقوام نے کرہ ارض کو خطرے میں ڈال دیا ہے حالانکہ انھیں حقائق کا علم ہے'یوں دیکھا جائے تو ترقی یافتہ اقوام خود ہی بنی نوع انسان کی تباہی کا سامان بن رہی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں