اوباما کی مدت صدارت کا آخری سال 

امریکی صدر بارک اوباما کی مدت صدارت کا آخری سال شروع ہو گیا ہے

www.facebook.com/shah Naqvi

امریکی صدر بارک اوباما کی مدت صدارت کا آخری سال شروع ہو گیا ہے۔ انھوں نے بطور صدر منتخب ہونے کے بعد امریکی اور دنیا کے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے ملک اور دنیا میں امن لائیں گے۔ اس ایجنڈے پر عمل درآمد کے لیے ان کی بھرپور کوشش تھی کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلا ممکن بنایا جائے جب کہ ان کے حریف طاقتور ری پبلیکن پارٹی اس کے حق میں نہیں تھی ان کا موقف تھا کہ امریکی فوجوں کے مکمل انخلا سے طالبان کو کمزوری کا پیغام جائے گا۔ ابھی یہ بحث و مباحثہ زوروں پر تھا کہ طالبان نے افغانستان کے اہم شہر قندوز پر قبضہ کر لیا۔ طالبان کے قندوز پر قبضے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اوباما کمزور پڑے گئے اور انھیں اپنے حریفوں کا یہ موقف تسلیم کرنا پڑا کہ ان کا امریکی فوجوں کے افغانستان سے مکمل انخلا کا فیصلہ غلط تھا۔ اب نئی صورت حال کے نتیجے میں زیادہ امکان یہ ہے کہ امریکی افواج افغانستان میں غیر معینہ مدت تک قیام کریں گی۔

افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک کے مستقبل کے لیے ایک مثبت قدم ہوتا کہ طویل عرصہ بعد اس خطے سے غیر ملکی فوجوں کا انخلا عمل میں آتا۔ لیکن طالبان نے قندوز شہر پر قبضے سے اس کو ناکام بنا دیا۔ جب کہ طالبان نے جتنی تیزی سے قندوز پر قبضہ کیا اتنی ہی تیزی سے اس شہر سے پسپا بھی ہو گئے۔ سوال یہ ہے کہ غیر ملکی فوجوں کی خطے میں موجودگی کس کے اسٹرٹیجک مفادات کو تقویت پہنچاتی ہے۔ قندوز شہر پر طالبان کے عارضی قبضے نے اوباما کے انخلا کے منصوبے کو ناکام بنا کر جنگجو ری پبلیکن کے موقف کو فتح دلوا دی۔ اسے کہتے ہیں نظر کا دھوکا بظاہر بدترین نظر آنے والے دشمن کس طرح وقت پڑنے پر ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔

امریکی صدر اوباما کا دعویٰ تھا کہ وہ دنیا میں امن قائم کریں گے لیکن اس کے برعکس دنیا ان کے دور صدارت میں مزید دہشت گردی اور تشدد کی لپیٹ میں آ گئی۔ پہلے تو صرف طالبان اور القاعدہ تھے اب داعش بھی وجود میں آ گئی جس نے قتل و غارت کے اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ دیے۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دنیا کے چالیس ممالک اس کی مالی مدد کر رہے ہیں جس میں امریکا سمیت دنیا کے دس ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں یہ ممالک کیوں اور کس لیے اس دہشت گرد تنظیم کی مدد کر رہے ہیں۔ اس لیے کہ مسلمان مذہب کے نام پر ایک دوسرے کو قتل کرتے رہیں اور مسلمانوں کی وہ قوت جو فلسطینی مسلمانوں کے کام آنی تھی ضایع ہوتی رہے۔ فلسطین کا مسئلہ تو کیا حل ہونا تھا' مسلمانوں کی اپنی بقا ہی خطرے میں پڑ گئی اور اسرائیل پہلے سے بھی زیادہ طاقتور اور محفوظ ہو گیا۔

خود امریکا کے اندر امن و امان کی یہ صورت حال ہے کہ موجودہ سال میں دہشت گردی کے اب تک 35 واقعات ہو چکے ہیں۔ ان وارداتوں میں زیادہ تر امریکی ملوث تھے۔ صرف ایک دہشت گردی کی واردات میں دو مسلمان ملوث تھے جن میں سے ایک عورت کا تعلق پاکستان سے پایا گیا ہے۔ کیلیفورنیا فائرنگ میں ملوث تاشفین ملک کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ وہ پاکستان میں خواتین کے ایک درسے میں زیر تعلیم رہی۔ کورس دو سال کا تھا لیکن تاشفین نے اسے مکمل نہیں کیا۔ تفتیش کاروں کو شبہ ہے کہ تاشفین نے ہی اپنے شوہر کو انتہا پسندی کی طرف مائل کیا تھا۔ اس کی ایک کلاس فیلو نے بتایا کہ وہ اچانک ہی تبدیل ہو گئی تھی اور تبدیلی کے بعد سخت گیر اور سنجیدہ ہو گئی۔ دوسری جانب کیلفیورنیا حملے کے ملزم رضوان فاروق کے والد نے کہا کہ رضوان داعش سے متاثر تھا۔ وہ دوستوں کے ساتھ پارٹی پر بھی نہیں جاتا تھا۔ انھوں نے اطالوی اخبار سے گفتگو میں کہا کہ ایک بار انھوں نے اس کے پاس پستول دیکھی تو سخت غصے کا اظہار کیا تھا۔ نیو یارک ٹریڈ سینٹر پر حملہ ہو یا پیرس حملہ یا حالیہ کیلفورنیا حملہ ،ان حملوں سے امریکا یورپ میں آباد ایک کروڑ سے زائد مسلمانوں زندگیاں ہر گزرتے دن کے ساتھ دشوار سے دشوار تر ہو رہی ہیں ۔


صدر اوباما کی حالیہ تقریر موجودہ بدترین صورتحال میں امریکی مسلمانوں کے لیے انتہائی حوصلہ افزا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ مسلمانوں سے خوف خود دہشت گردوں کے ہاتھوں میں کھیلنے کے مترادف ہے' لیکن صرف یہ تقریر امریکا یورپ میں مقیم مسلمانوں کے خلاف نفرت کے اس طوفان کو ختم نہیں کر سکتی جس سے مسلمان اس وقت گزر رہے ہیں جس کا مستقبل میں اضافے کا قوی امکان ہے۔ اس کا ایک ہی حل ہے کہ امریکا یورپ میں مقیم مسلمان دہشت گردی کی صرف مذمت ہی نہ کریں بلکہ اپنی صفوں میں چھپے ہوئے دہشت گردانہ سوچ کے حامل عناصر کی نشان دہی کر کے جلد از جلد انھیں کیفر کردار تک پہنچائیں۔

جو لوگ امریکا یورپ میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ چاہتے ہیں بہتر ہے کہ اپنے اپنے آبائی ملکوں میں واپس جا کر اس خواب کی تعبیر حاصل کریں... لگ پتہ جائے گا۔ امریکا و یورپ میں شرح آبادی میں اضافہ زیرو بلکہ منفی ہو چکا ہے۔ وہاں کے نسل پرست طاقتور عناصر جو کثیر تعداد میں ہیں یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ اگلی چند دہائیوں میں مسلمانوں کی شرح آبادی میں تیزی سے بڑھتا ہوا اضافہ ہماری تہذیب ثقافت اقدار کا خاتمہ کر دے گا۔ اس خطرے سے نبٹنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ پہلے مسلمانوں کی آمد پر پابندی لگائی جائے۔ اس کے بعد دوسرے مرحلے میں ان کو اپنے ملکوں میں واپس بھیجا جائے۔

امریکا و یورپ میں بسے مسلمانوں (پاکستانیوں) کی بقا اسی میں ہے کہ وہ جہاں آباد ہیں' اپنے مفاد میں لبرل اور سیکولر سوچ اپنائیں... ورنہ دوسری صورت میں مقامی نسل پرستوں کے اس ایجنڈے کو پورا کرنے میں مدد گار بنیں گے جس میں آخر کار ایسے حالات پیدا کر دیے جائیں گے کہ انھیں امریکا یورپ چھوڑنا پڑے۔

پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے اہم مہینے جنوری اور مارچ اپریل 2016ء ہیں۔
Load Next Story