اختیارات انتخابات بلدیات

اختیارات ہماری دہلیز تک آگئے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات مکمل ہو گئے ہیں۔ اختیارات، انتخابات، بلدیات۔

اختیارات ہماری دہلیز تک آگئے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات مکمل ہو گئے ہیں۔ اختیارات، انتخابات، بلدیات۔

ان تینوں کا ذکر کرتے ہوئے عجب سا دلوں کو دھڑکا ہے۔ ہم عوام نے تو پھر بڑی ہی محبتوں کے ساتھ بلدیاتی انتخابات میں ووٹ ڈال دیے ہیں۔ اب آگے جو کرنا ہے وہ اختیارات اور انتخابات نے کرنا ہے، مگر بقول عبیداللہ علیم کے:

محبتوں میں عجب ہے دلوں کو دھڑکا سا
کہ جانے کون کہاں راستہ بدل جائے

ہماری محبتوں کا اس بار بھی دیکھیں کیا بنتا ہے، اختیارات اور انتخابات ایک رہیں گے یا ان میں سے کوئی اچانک راستہ بدل جائے گا۔

دھڑکے تو بہت سے ہیں۔ ہم عوام نے کئی سال اپنی دہلیزوں پر کھڑے ہوکر ''اختیارات'' کا انتظار کیا ہے، مگر اختیارات کو ''مختاروں'' نے روک رکھا تھا۔ ہم عوام تو بڑا روئے دھوئے مگر رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے۔ ہوتا وہی ہے جو منظور ''مختار'' ہوتا ہے۔ اختیارات اور دہلیز کا معاملہ اعلیٰ عدالتوں تک پہنچا، وہاں سے احکامات صادر ہوئے کہ ''اے مختارو! اختیارات کو دہلیز تک فوراً پہنچاؤ''۔ ... ''مختار لوگ'' بے چاروں کو اور بہت سے کام دھندوں نے گھیر رکھا تھا۔ وہ بولے ''ابھی ہماری تیاری نہیں ہے۔'' عدالت نے کہا ''یہ تمہاری اختیاری نہیں ہے، دوسرے کام دھندے چھوڑ کر بلدیاتی انتخابات کرواؤ، اختیارات دہلیزوں تک پہنچاؤ!''

تو جناب پورے ملک پاکستان میں بلدیاتی انتخابات کا عمل مکمل ہوچکا ہے۔ میں نے بھی گھر سے نکل کر دیکھا۔ اختیارات میری دہلیز پر بیٹھے تھے۔ مگر ''ہاتھ پر ہاتھ دھرے'' ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کام شروع ہوجاتے۔ پورے ملک میں گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں، گٹر ابل رہے ہیں، میں پچھلے مہینے نومبر میں ملتان شریف گیا تھا، اسٹیشن سے باہر آتے ہی وہی منظر تھا، جو ہر چھوٹے بڑے شہر کا ہے۔ صفائی نام کو نہیں، اور سڑکیں ٹوٹی پھوٹی۔ شیرشاہ روڈ کے ایک ہوٹل میں میرا قیام تھا اور سڑک نام کی چیز نہیں تھی۔ ہاں ایک ناہموار ٹوٹا پھوٹا راستہ تھا۔ ملتان شریف والے تو خوب واقف ہیں، شہر کے گرد ''النگ'' سے بھی گزرنا ہوا۔ شہر کے مرکز گھنٹہ گھر، حسین آگاہی میں بھی، حالات وہی تھے۔ البتہ کینٹ کا علاقہ ہر لحاظ سے بہترین صاف ستھرا، سڑکیں ''کالی شا'' مضبوط، ہموار، مگر کینٹ سے باہر نکلے تو پھر وہی ''دور تک پھیلی ہوئی گندگی کے مناظر۔ '

'بوسن روڈ پر میٹرو بس چلانے کا منصوبہ چل رہا ہے اس وجہ سے سڑک بے حال ہے۔ خیر یہ تو اچھی بات ہے۔ مگر جو کام بلدیاتی ہیں ، ان کا حال خراب ہے۔ پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں بھی بلدیاتی نمایندوں کے لیے اختیارات کے استعمال کے لیے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ لاہور میں میرا قیام اتفاق ٹاؤن، احمد ہاؤسنگ اسکیم میں تھا۔ میں پندرہ روز وہاں رہا۔ میں نے دیکھا اتفاق ٹاؤن اور احمد ہاؤسنگ اسکیم کے درمیان 120 فٹ چوڑے روڈ پر گٹر کا گندہ پانی مسلسل بہہ رہا تھا۔ اور میں اسے بہتا ہی چھوڑ آیا۔ یہ علاقہ ملتان روڈ پر جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ کے عین سامنے واقع ہے۔ اس کے داخلی راستے بھی ایک تنگ گنجان بازار سے ہوکر گزرتا ہے۔ دو تین فرلانگ اندر اتفاق ٹاؤن، احمد ہاؤسنگ سوسائٹی اور وکلا کی ایک سوسائٹی ہے۔ ان میں بہت عالیشان بنگلے، کوٹھیاں بنی ہوئی ہیں۔ مگر صفائی نام کو نہیں ہے۔ اسلام آباد بھی جانا ہوا، دارالخلافے کی کچی، غریب آبادیوں کے حالات سن کر دیکھ کر خوف آتا ہے کہ ''مختاروں'' کے ناک کے نیچے اور یہ حال! تو دور دور بسنے والے کس کھیت کی مولی ہیں!

ریل گاڑی میں سفر کیجیے، پورا پاکستان گھوم لیں، کراچی سے پشاور تک ادھر کوئٹہ تک پلاسٹک کی تھیلیوں سے لپٹے کچرے کے ڈھیر ایک انبار اور گندے پانی کے ذخیرے۔ یاد آیا ان سیلیفون کی تھیلیوں نے بہت تباہی مچائی ہے۔ اسے فوراً ختم کردینا چاہیے۔ ان کی وجہ سے خطرناک بیماریاں پھیلی ہیں۔ ان کا استعمال مضر صحت ہے یہ انتہائی غلیظ میٹریل سے بنتی ہیں اور ہم عوام ہیں کہ دودھ، دہی، گوشت، سالن، روٹیاں، مٹھائی غرض کہ کھانے پینے کی سبھی چیزوں کے لیے انھی تھیلیوں کا استعمال کرتے ہیں۔ پورے ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر، گاؤں دیہاتوں کے بازاروں میں اڑتی پھرتی ان تھیلیوں کے مناظر دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہی تھیلیاں نکاسی آب کے لیے بنائے گئے گٹروں میں پہنچ کر گٹر بند کردیتی ہیں۔ ہم عوام اتنے آرام طلب ہوچکے ہیں کہ لمحہ بھر کے لیے اس ''بیماری'' کا استعمال کرتے ہیں اور پھر کہیں بھی پھینک دیتے ہیں اور پھر یہ کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہیں۔ ایک واقعہ یاد آگیا میں اپنے ایک دوست کے والد کی تدفین کے لیے قبرستان گیا، قبر تیار تھی میں نے دیکھا، چار فٹ گہری قبر کی چاروں دیواروں میں سیلافین کی تھیلیاں پیوست تھیں۔ دوست کے والد صاحب کو انھی تھیلیوں کے ساتھ دفنا دیا گیا۔ یاد رہے کہ یہ پلاسٹک کی تھیلیاں گلتی نہیں ہیں۔ موت کی ان شہزادیوں پر پابندی لگنا چاہیے۔ آدھے سے زیادہ گند انھی کی وجہ سے ہے۔

دیکھ رہے ہو!


بلدیاتی انتخابات میں کامیاب ہونے والو!

تمہارے سامنے مسائل کے انبار لگے ہوئے ہیں، ہر گلی، ہر کوچے میں ہاہا کار مچی ہوئی ہے۔ کیا تم مسائل حل کرپاؤگے؟ مچی ہاہاکار ختم کر پاؤگے؟

یہ دو سوال ہیں جو گلیوں میں ابلتے گٹروں کے پانی سے گزرتے ہوئے تعفن زدہ کوڑوں کے ڈھیروں کو دیکھتے ہوئے لوگ سوچ رہے ہیں۔

دن گزرتے جا رہے ہیں ابھی تک کوئی ہلچل نظر نہیں آرہی ۔ اس بار بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوئے ہیں۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے۔ وہاں (ن) لیگ نے بھاری اکثریت سے بلدیاتی انتخابات جیتا ہے۔ سندھ میں دو سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ نے یہ معرکہ مارا ہے۔ اندرون سندھ اکثریت پیپلز پارٹی کو حاصل ہوئی جب کہ کراچی اور حیدر آباد میں متحدہ قومی موومنٹ نے کلین سوئپ کیا۔ ہاں ! یاد آیا اس بیچ بدین سے باغی ذوالفقار مرزا نے ہلچل مچا کر ماحول کو گرما دیا۔ ایسا حیران کن نتیجہ! باغی نے کسی کو اٹھنے ہی نہیں دیا اور ساری سیٹیں لے لیں۔ سندھ کی صورت حال یہ ہے کہ صوبے میں حکومت پیپلز پارٹی کی تمام بلدیاتی محکمے اور اختیارات صوبائی حکومت کے پاس۔ ملک کے سب سے بڑے اور حساس شہر کراچی کا تقریباً 80 فیصد مینڈیٹ متحدہ قومی موومنٹ کے پاس، بدین باغی ذوالفقار مرزا کے پاس۔ اللہ خیر کرنے والا ہے! بس وقت دعا ہے۔

سوچتے ہوئے لوگ سندھ کے بلدیاتی نتائج کے بارے میں وسوسوں کا شکار ہیں۔ کیا سیاسی جماعتیں انصاف کر پائیں گی؟ جہاں جہاں وہ نہیں جیتیں، وہاں بھی برابری کر پائیں گی؟ یا ووٹ نہ دینے والوں کو سزا کاٹنا پڑے گی۔ افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ ہمارے ووٹوں سے منتخب ہونے والا میئر ایک غیر منتخب سرکاری نوکر یعنی کمشنر کے سامنے جواب دہ ہوگا۔ یہ سب کیا ہے! یہ جمہوریت ہے!

اس طرح اختیارات دہلیزوں تک پہنچائے جاتے ہیں!

لگتا ہے اختیارات دہلیزوں پر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے۔ یا پھر ''مختاروں'' کے آگے ہاتھ پھیلے ہوں گے۔

دے جا سخیا نام خدا! تیرا اللہ بوٹا لاوے گا۔

میرا مولا بوٹا لاوے گا

رہے نام اللہ کا
Load Next Story