ہم نہیں بھولیں گے

جس شاخ پر کل پھول تھا مسکان دکھاتا۔۔۔۔۔وہ پھول بھی اس شاخ کے تن من سے جدا ہے


سہیل یوسف December 16, 2015

کہتے ہیں کہ جب جوانوں کے کاندھوں پر بزرگوں کے جنازے ہوں تو اسے زمانہ امن کہتے ہیں جب بوڑھے مل کر جوانوں کے لاشے اٹھائیں تو وہ جنگ کا زمانہ ہوتا ہے لیکن جب بڑی تعداد میں معصوم بچے شہید کردیئے جائیں تو اسے سانحے کو کس نام سے پکاریں گے؟ تاریخ اس پر چپ ہے۔



16 دسمبر 2014 کا خون آشام دن پاکستانی تاریخ کا وہ ناقابلِ فراموش دن ہے جس نے طول و ارض میں ہر حساس دل کو تڑپا دیا۔ اس روز جب معصوم بچوں کی نورانی انگلیاں کتابوں سے روشنی چن رہی تھیں، جب جماعتوں میں علم کے متلاشی سیراب ہورہے تھے کہ کوئی ساڑھے دس بجے سیکیورٹی فورسز کے لباس میں 7 دہشت گردوں نے آرمی پبلک اسکول پشاور میں داخل ہوکر کمیونٹی ہال کا رخ کیا اور اندر داخل ہوئے، ان کے خود کار ہتھیاروں کی آہنی نالوں سے شعلے ابھرے اور سیکڑوں بچے خاک و خون میں تڑپ کر اس دنیا سے بہتر جگہ جاپہنچے ۔ واقعے کی بریکنگ نیوز نشر ہوتے ہی والدین دیوانہ وار اسکول کی جانب دوڑے اور شکستہ دلوں کے ساتھ باہر جمع ہونے لگے۔

والدین اور بچوں کے لواحقین کے کپکپاتے ہونٹوں سے یا اللہ رحم کی صدائیں تھیں، بعض کے دل ڈوب رہے تھے اور اندر موجود خوفناک فائرنگ کی آوازوں سے وہ دہل جایا کرتے تھے۔ دوسری جانب فوج کے خصوصی دستے فوری حرکت میں آئے اور اسپیشل سروسز گروپ نے ایک بھرپور آپریشن لانچ کیا جس کے بعد ساتوں دہشت گردوں کو جہنم واصل کرکے 940 سے زائد بچوں اور اسٹاف اراکین کو انتہائی کامیابی سے نکال لیا گیا اور اس کے بعد اسکول کو کلیئر کرایا گیا ۔ لیکن اس روز پاکستان کے افق پر غم کی سیاہ چادر تن گئی جسے کے عین قلب میں اے پی ایس شہدا کا خون چمک رہا تھا۔

انسانی تاریخ میں بچوں کے اس ہولناک قتل نے پوری دنیا کو رلا دیا اور عالمی میڈیا نے آرمی پبلک اسکول سانحے کو اپنے اپنے انداز میں پیش کیا۔ لیکن موت وزیست کے اس معرکے میں اسکول پرنسپل سمیت ننھے بچوں نے بھی اپنے حواس برقرار رکھے اور عزم و ہمت کی وہ عظیم داستانیں رقم کیں جو ہمیشہ ہمارے دلوں کو گرماتی رہیں گی۔ ایک بچہ یکایک علامہ اقبال کا شاہین بنا اور اس نے اپنے ساتھیوں کو بچانے کے لیے درجن بھر گولیوں اپنے پھول سے بدن پر برداشت کیں ۔ اسکول پرنسپل طاہرہ قاضی نے دہشت گردوں کو للکارا اور ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا کہ وہ ان بچوں کی ماں ہے اور دہشت گردوں کو للکارتے ہوئے کہا کہ وہ بچوں کو چھوڑ دیں۔



مجھ سے بات کرو، میں ان کی ماں ہوں

'تم بچوں کو کیوں چھپارہی ہو؟' دہشت گردوں کا آرمی پبلک اسکول کی پرنسپل سے سوال۔

'مجھ سے بات کرو، میں ان کی ماں ہوں،' اے پی ایس کی 64 سالہ پرنسپل نے خون کے پیاسو کو جواب دیا اور ان کے لہجے میں نہ کپکپاہٹ تھی نہ الفاظ میں خوف۔ بعض عینی شاہدین نے بتایا کہ 16 دسمبر کے قیامت خیز واقعے میں شاہدہ قاضی بہت آسانی سے اپنی جان بچاسکتی تھیں لیکن وہ ان کے سامنے ڈٹ گئیں اور آخری دم تک بچوں کی جان بچانے کے لیے لڑتی رہیں، طاہرہ قاضی کی جرات اور شہادت کو ہم کبھی نہیں بھولیں گے۔

تم اس دروازے سے باہر نکل جاؤ، ایک طالب علم

آرمی پبلک اسکول کے ایک طالب علم فہد نے بہادری کی جو داستان رقم کی ہے وہ شاید کتابوں بھی نہ ملے گی۔ جوں ہی حملہ آور قتلِ عام کےلیے داخل ہوئے اس نے دروازہ کھول کر اپنے ہم جماعتوں کو باہر نکال دیا اور خود گولیوں کا نشانہ بن گیا۔ ایک اور طالب علم نے خود کو اپنے ساتھیوں پر گراکر پھیلالیا اور 14 گولیاں کھا کر راہِ شہادت کی سمت گیا۔



اے پی ایس کے ننھے شہدا



پوری قوم کا نینگیال طارق، فہد احمد، باقرعلی، حیات اللہ، رضوان صریر خان، محمد واصف علی ، سیف اللہ، فرقان حیدر، مبین اسلم، صاحبزادہ عمر خان کو سلام جن کی شہادت پر قوم متحد ہوگئی اور دشمنوں کے خلاف کارروائی کی ایک للکار سنائی دی۔



حسنین شریف، ارباب صدیق اللہ، محمد اویس، محمد حارث، مجاہد حسین، معظم علی، حامد سیف، تنویر حسین، فضل الرحمان اوروہاب الدین ہم آپ کو نہیں بھولے، کیونکہ آپ کی قربانیوں کے بعد ہی دشمنوں پر عضب کی کاری ضرب لگی اور آپ جیسے ہزاروں نونہالوں کی زندگیاں بچائی گئیں۔



ہم جانتے ہیں کہ محمد غثان، شہود عالم، بلال علی، فہد حسین، ہمایوں اقبال، محمد عذیر، محمد حماد ، محمد طیب، شیرنواز اور ضیاالاسلام کے آنکھوں میں مستقبل کے کتنے عزائم ستارے بن کر چمک رہے تھے اور ہم برسوں روتے رہیں تب بھی تمہارے لہو کے انمٹ دھبے نہیں مٹیں گے۔ تم نے اپنی موت سے پاکستانی قوم کو اجل سے بے خوف کردیا آپ سب کو ہمارا سلام کیونکہ ہم تمہیں نہیں بھولے۔



ہم کبھی نہیں بھولیں گے محمد سلمان کو، ضرغم مظہر، اویس احمد، یاسر اللہ، عمیر ارشد، ذیشان شفیق، گلشیر، احمد مجتبیٰ ، ارحم خان اور اسد عزیز کو جو سخت تکلیف میں اس دنیا سے رخصت ہوئے اور جنت الفردوس میں فرشتوں کے مہمان بنے۔



اے محمد عزیر علی، سید حسنین، حامد علی خان، شہزادہ اعجاز، باسط علی، حارث نواز، خوشنود زیب، محسن مرتضیٰ، شاہ زیب اور اسامہ بن طارق ۔ آپ گھر واپس آنے کا کہہ گئے تھے لیکن آپ کا جسدِ خاکی ہی واپس آیا۔ آپ میں سے کوئی بہترین مقرر تھا تو کوئی ڈاکٹر بن کر غریبوں کی خدمت کا خواہاں تھا لیکن آپ کی یاد ہمیشہ قوم کو خوں رلاتی رہے گی۔



پوری قوم آرمی بپلک اسکول کے عدنان ارشد، محمد شہیر خان، عمار اقبال، عبداللہ غنی اعوان، حمزہ کامران، احمد علی شاہ، محمد عمار خان، حمزہ علی، احمد الٰہی اور سید آفاق احمد کو کبھی نہیں بھولے گی جس نے دہشت گردوں کے خلاف پوری قوم کو متحد کردیا جس کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ایک نئی اور فیصلہ کن سمت ملی۔ آج پاکستان کا امن آپ کی ہی خیرات ہے کیونکہ اس کے بعد دہشت گردوں کے خلاف ہچکچاہٹ ختم ہوگئی اور ایک واضح ردِ عمل سامنے آیا۔



شہدائے اے پی ایس کے طالب علموں میں شہباز علی، ابرار حسین، ماہیر رضوان، شاہ فہد، عدنان حسین، محمد شفقت، عامش سلمان، علی عباس، عزیر احمد، ندیم حسین، اذان، عادل شہزاد، سید ذوالقرنین، مزمل عمر صدیقی، محمد وقار، محمد علی خان،شیمول طارق، محمد علی رحمان، نوراللہ درانی اور سہیل اسلم آپ کی شہادت ہمیشہ ہمارے دل میں تازہ رہے گی لیکن اب تک آپ کی شہادت کے دن کو کسی نام سے منسوب کرنے کا کوئی فیصلہ کیوں نہیں کیا گیا۔ میرے خیال میں 16 دسمبر کو ' یومِ شہیدِ ان امن' قرار دیا جاسکتا ہے یا ' یومِ شہدائے نونہالانِ پاکستان'۔



بچے اسکول جائیں اور پھر گھر واپس نہ آئیں۔۔۔۔۔ اے خدا ! ایسا دسمبر پھر کبھی نہ آئے



پھر شہید ہونے والے ننھے فرشتوں میں ذیشان علی، عاطف رحمان، سہیل سردار، سعد الرحمان، محمد ایلان، عبداللہ ظفر، ملک تیمور، بہرام احمد، ذیشان آفریدی، ذیشان احمد، محمد طاہر، اظہر نصیر، فرحان جلال، عثمان صادق، عمر حیات، شایان ناصر، عبداللہ شاہ، حسن زیب، حذیفہ آفتاب، اسامہ ظفر، شیر شاہ، اسامہ طاہر، مبین آفریدی، حیدر امین، رفیق رضا بنگش، محمد صاحباں، محمد یاسین، اسفند خان، محمد داؤد اور عمران علی بھی شامل تھے جن کے لیے کروڑوں زبانیں دعاگو رہیں گی۔ جن کے نام سے منسوب اسکول اب ہمیشہ ہمیں ان کی یاد دلاتے رہیں گے۔



ان شہیدوں میں ایک ننھی پری خولہ بھی تھیں جس کا اسکول میں پہلا روز تھا اور وہ اے پی ایس کی واحد بچی تھی جس کی عمر سب سے کم تھی۔ جو شہید ہوکر راہِ عدم سے گزر گئی لیکن شفیق الرحمان، مہر علی، یاسر اقبال، ابرار زاہد، زین اقبال، ایمن خان، محمد عمران، عبدالعاظم، اسحاق، وسیم اقبال اور ثاقب غنی کو کون بھول سکتا ہے جو تیرگی میں ستاروں کی طرح جھلملارہے ہیں۔





شہدائے اسٹاف



آرمی پبلک اسکول کی باہمت خاتون پرنسپل طاہرہ قاضی کے واقعات تو آپ پہلے پڑھ چکے ہیں۔ لیکن اسٹاف کے اساتذہ کا لہو اپنے عزیز شاگردوں کے ساتھ مل کر آرمی پبلک اسکول کی زمین میں جذب ہوگیا۔ ان میں صائمہ زرین، شہناز نعیم، نواب علی، محمد سعید، سحر افشاں، حفصہ خوش، بنیش عمر، حاجرہ شریف، فرحت بی بی، صوفیہ حجاب، سعدیہ گل، محمد شفیق، پرویز اختر، مدثر خان ، ظاہر شاہ، محمد حسین، محمد بلال، سجاد علی، احسان اللہ، اکبر زمان، محمد سمیع کو ہمارا سلام جو ملک پر قربان ہوئے۔



اے پی ایس کی وادی مقتل میں پاک فوج کے 3 عظیم سپاہیوں کو قوم ہمیشہ یاد رکھے گی جن میں محمد الطاف، ندیم الرحمان اور نوید اقبال شامل ہیں اور وہ ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے جن کی بدولت مزید سینکڑوں جانیں بچائی گئیں۔ اے عٖظیم شہیدو شہید کی جو موت ہے وہی تو قوم کی حیات ہے اور ہماری رگوں میں تمہارا لہودوڑ کر اب زندگی کی بنیاد بنا ہوا ہے۔ سلام اے شہیدانِ وفا ۔



قوموں کی زندگی میں ایسے ددلخراش حادثات ہمیشہ فیصلہ کن قوت فراہم کرتے ہیں۔ ایسے سانحات کے دکھ کو عمل کی قوت میں بدلا جاتا ہے تاکہ آگے کی راہ ہموار ہو اور اے پی ایس شہدا نے ہمیں یہ راہ دکھلائی ہے کیونکہ وہ علم کے شیدائی، عمل کے مجاہد اور شہیدانِ ملت تھے۔ آج ان کی برسی پر ہمارے اشک رواں ہے اور لبوں پر بس یہی دعا ہے۔
جس شاخ پر کل پھول تھا مسکان دکھاتا
وہ پھول بھی اس شاخ کے تن من سے جدا ہے

ایام کی گردش سے ہے انسان بھی غمناک
یزداں کی مشیت سے یہاں کون بچا ہے

بیتے ہوئے اشکوں کو ان آنکھوں سے نہ پونچھو
بہنے دو انہیں غم کی یہ غمگیر دوا ہے

اک چاک گریباں کی یہ آواز ہے گونجی
رونے سے میرا درد و الم بڑھ سا گیا ہے

دلدار ہو اللہ کا فردوسِ بریں میں
جانباز شہیدوں کو یہ ہردل کی دعا ہے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔