اسٹیٹ بینک نے ملکی برآمدات بڑھانےکے لیے روڈ میپ پیش کردیا

اسٹیٹ بینک نے پیداواریت اوربرآمدات بڑھانےکےلیےصنعتی پالیسی کی شکل میں ایک شفاف اور بامقصد نظام کی ضرورت پر زور دیا ہے

پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کا چند شعبوں بالخصوص پاکستان کی مقامی منڈی کے لیے مصنوعات کی تیاری تک محدود رہنا بھی برآمدات نہ بڑھنے کی وجوہات میں شامل ہے۔ فوٹو: فائل

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ملکی برآمدات پر دو دہائیوں سے طاری جمود کو معیشت کے لیے تشویشناک، معاشی نمو میں بلند اضافے اور پائیدار ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دے دیا ہے۔

مرکزی بینک نے اپنی اقتصادی جائزہ رپورٹ برائے سال 2014-15 کے خصوصی باب میں پاکستانی برآمدات پر جاری جمود کے اسباب اور ممکنہ حکمت عملی کا احاطہ کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق برآمدات میں رکاوٹ بننے والے دو اہم ترین خدشات توانائی کی قلت اور سلامتی کی صورتحال کے حوالے سے ملکی تاثر ہیں' تاہم ان دونوں اظہاریوں میں بہتری کی علامات نظر آنا شروع ہوگئی ہیں۔ ان دو اہم مسائل کی شدت کم ہونے کے بعد برآمدات کی راہ میں حائل دیگر ساختی رکاوٹوں کے خاتمے کے لیے ایک مضبوط اور جامع حکمت عملی اور حکومت کی عملی اور مالی معاونت درکار ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے پیداواریت اور برآمدات بڑھانے کے لیے صنعتی پالیسی کی شکل میں ایک شفاف اور بامقصد نظام کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ مرکزی بینک کی سفارشات کے مطابق کامیاب ایشیائی معیشتوں کے خطوط پر ساختی تبدیلی لانے کے لیے صنعتی پالیسی میں برآمدات کو مرکزی حیثیت دینا ہوگی، شعبہ جاتی ترغیبات کے بجائے جنوب مشرقی ایشیا کے طرح برآمد کننندگان کو ایک وسیع تر ادارہ جاتی اعانت، برآمدات کے لیے ڈیوٹی فری خام مال کی فراہمی، سرکاری و نجی شعبوں کے درمیان دور رس اشتراک، مخصوص شعبوں میں تعلیم و تربیت کے ذریعے استعداد کاری، بیرونی ٹیکنالوجی کی منتقلی یقینی بنانے کے لیے سمجھوتے اور ٹیکنالوجی کی بہتری کے لیے چھوٹی فرموں کو برآمدی قرضے فراہم کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے۔


برآمدات میں نمایاں اضافے اور ساختی خامیوں کو دور کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک نے اپنی 7نکاتی سفارشات میں حقوق دانش کو قانونی تحفظ فراہم کرنے، برآمدی فرمز کے لین دین کے وقت کو کم کرنے کے لیے ضوابطی الجھنوں کو حل کرنے، معیارات پر عمل درآمد کے لیے مقامی ٹیسٹنگ سہولت متعلقہ انفرااسٹرکچر کی فراہمی، غیر رسمی صنعتوں بالخصوص ڈیری سیکٹر پر توجہ دینے، درآمدی خام مال پر ریگولیٹری ڈیوٹی کے خاتمے، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں(ایس ایم ایز) کی مالی اور ٹیکنالوجی اعانت اور تکنیکی تعلیم اور ووکیشنل تربیت کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ دس سال کے دوران عالمی تجارت میں مسابقت بڑھنے سے بھارت، بنگلہ دیش، کمبوڈیا اور ویت نام نے فائدہ اٹھایا اور برآمدات میں چار گنا تک اضافہ کرلیا، اس کے برعکس پاکستان، انڈونیشیا اور فلپائن بمشکل اپنے موجودہ حجم کو برقرار رکھ سکے۔ پاکستان میں برآمدات پر جاری جمود کے عوامل کی نشاندہی کرتے ہوئے اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ پاکستان میں تجارتی پالیسیوں کا محور ہمیشہ درآمدی متبادل والی صنعتیں رہی ہیں اور گزشتہ چالیس سال کے دوران دی گئی ترغیبات کے ڈھانچوں میں بھی درآمدی متبادل صنعتوں کو فوقیت حاصل رہی، اس حوالے سے پاکستان میں برآمد مخالف تعصب پایا جاتا ہے۔

پاکستان میں برآمدات بڑھانے کے اقدامات میں ہم آہنگی کا فقدان بھی برآمدات میں اضافہ نہ ہونے کی اہم وجوہات میں شامل ہے، پاکستان میں زیادہ توجہ ری بیٹ، زراعانت پر مبنی قرضوں، ڈیوٹی ڈرابیک اور تحقیق و ترقی فنڈ مختص کرنے جیسی ترغیبات پر مرکوز کی جاتی ہے جن کا اعلان سالانہ تجارتی پالیسی میں کیا جاتا ہے تاہم انسانی سرمائے کے معیار کی بہتری پر کم توجہ دی گئی جس کی وجہ سے تعلیم کا معیار اور مقدار پست رہابلکہ تکنیکی و فنی تعلیم کو بھی فروغ نہ مل سکا۔ گزشتہ دہائی میں حکومتیں مختلف سطحوں پر انتہائی پرعزم برآمدی اہداف تو مقرر کرتی رہیں تاہم عملی پالیسی اقدام کے لحاظ سے مربوط حکمت عملی کا ہمیشہ فقدان رہا۔ پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کا چند شعبوں بالخصوص پاکستان کی مقامی منڈی کے لیے مصنوعات کی تیاری تک محدود رہنا بھی برآمدات نہ بڑھنے کی وجوہات میں شامل ہے۔

رپورٹ کے مطابق یہ رجحان پاکستان میں اختیار کردہ صنعتی پالیسیوں کا منطقی نتیجہ ہیں۔ پاکستان میں انٹلیکچوئل پراپرٹی کے حقوق بشمول پیٹنٹس، صنعتی ڈیزائن، ٹریڈ مارک اور جغرافیائی علامتوں کے تحفظ اور عمل درآمد کے لیے بھی کوئی مناسب قانونی طریقہ کار کی عدم موجودگی بھی ایکسپورٹ میں کمی کی اہم وجوہات میں سے ایک ہے، اس رکاوٹ کی وجہ سے پاکستان کے سوتی ٹیکسٹائل، باسمتی چاول اور کمپیوٹر سافٹ ویئر کے شعبے کو سب سے زیادہ مسائل درپیش ہیں اور تینوں شعبوں کی برآمدات میں نمو کو درپیش سب سے زیادہ مسائل بھی اسی رکاوٹ سے متعلق ہیں۔ اس کے علاوہ معیاری مصنوعات کے رسدکنندہ کی حیثیت سے پاکستان کی کمزور ساکھ، عالمی معیارات کی توثیق حاصل کرنے کے لیے بھاری اخراجات، ایس ایم ایز کے زیر استعمال غیر معیاری اجزا، پرانے طرز کی مصنوعات تک محدود رہنا اور بڑی صنعتوں کو مقامی سطح پر وسائل کی دستیابی میں مشکلات کو بھی اہم رکاوٹ قرار دیا گیا ہے۔
Load Next Story