سرکاری خزانے کی لوٹ مار کروڑوں روپے جعلسازی سے نجی بینکوں میں منتقل کرنے کا انکشاف

ایف آئی اے کے تفتیشی افسران سرکاری ملازمین کے پروویڈنٹ اورجی پی فنڈ میں کروڑوں روپے کافراڈکرنے والے ملزمان سے مل گئے

مقدمے کے حتمی چالان میں 26کروڑ کی منتقلی کا چالان پیش کیا گیا جبکہ فراڈ کی مجموعی رقم 50کروڑ روپے سے زائد ہے،ذرائع۔ فوٹو: فائل

ایف آئی اے کے تفتیشی افسران سرکاری ملازمین کے پروویڈنٹ اورجی پی فنڈ میں کروڑوں روپے کافراڈکرنے والے ملزمان سے مل گئے، گورنمنٹ کے خزانے کی رقم جعل سازی سے نجی بینکوں میں منتقل کی گئی۔

تفصیلات کے مطابق ایف آئی اے کمرشل بینکنگ سرکل کوایک نجی بینک کی جانب سے شکایت موصول ہوئی تھی کہ ان کے کچھ بینک اکاؤنٹس میں سرکاری خزانے سے چند ماہ کے دوران کروڑوں روپے منتقل کیے گئے ہیں جبکہ بینک اکاؤنٹس ہولڈرزکیپروفائل کے مطابق ان کے اکاؤنٹس میں اتنی بڑی رقوم کی منتقلی انتہائی غیرمعمولی دکھائی دیتی ہے ،ایف آئی اے کمرشل بینکنگ سرکل نے اس سلسلے میں تحقیقات کاآغازکیاتوانکشاف ہواکہ نجی بینک کے اکاؤنٹس میں منتقل کی جانے والی رقم سرکاری اسکول ٹیچرزکے پروویڈنٹ فنڈکی رقم ہے جسے چندافراد جعل سازی کے ذریعے اپنے نجی بینک اکاؤنٹس میں منتقل کررہے ہیں جبکہ متعلقہ ٹیچرز اس معاملے سے مکمل طورپر لاعلم ہیں۔


ایف آئی اینے اس سلسلے میں جامشورواورسندھ کے دیگراضلاع میں چھاپے بھی مارے اورمتعدد افراد کوگرفتارکرکے ان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا،گرفتارکیے جانے والوں میں سرکاری اسکول کے ٹیچرریاض حسین بھی شامل تھے جنھیں تفتیشی رپورٹ میں مقدمے کا مرکزی ملزم قراردیاگیاتھا۔ایف اے نے اپنی تحقیقات مکمل کرکے حتمی چالان عدالت میں جمع کرادیاہے اورمقدمہ بینکنگ کورٹ میں زیرسماعت ہے،مقدمے کی تفتیش نے اس وقت ایک نیا رخ اختیار کرلیا جبکہ ریاض حسین نے مقدمے کے تفتیشی افسررحمت اﷲ ڈومکی پرالزام عائد کیا کہ انھوں نے خورد برد کے مرکزی کرداروں سے مجموعی طور پر9 کروڑ روپے وصول کرکے انھیں مقدمے میں ملوث نہیں کیاجبکہ ریاض حسین سے ضمانت کرانے کے عوض ڈیڑھ کروڑروپے سے زائد وصول کیے۔

ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے اور دیگر اعلی افسران کوبھیجی جانے والی تحریری درخواست میں انکشاف کیا گیا ہے کہ رحمت اﷲ ڈومکینے فیاض احمدسولنگی سے 3 کروڑ روپے،عبدالخالق سے ساڑھے3کروڑ روپے وصول کیے جبکہ فراڈ کے دیگر کرداروں نثاراحمد وگہیو،ندیم احمد میمن، قربان احمد نوناری، فہیم احمد میمن، عبدالواحد جمالی، امتیازاحمد، عرفان احمد سولنگی اور نیاز حسین پنہورسے بھی خطیر رقوم وصول کی گئیں اوران تمام افرادکوتفتیش کے دوران غیرقانونی مراعات دی گئیں،2سے3 ہفتوں تک ایف آئی اے کے اعلیٰ افسران کے دروازوں پردستک دینے کے بعد ریاض حسین وفاقی اینٹی کرپشن حج،حیدرآباد کے سامنے پیش ہوگئے اوراپنا بیان ریکارڈ کرایاجس کے بعد عدالت نے ایف آئی اے کے اعلی حکام کوہدایت کی ہے کہ معاملے کی تحقیقات کرکے جامع رپورٹ عدالت میں جمع کرائی جائے۔

ذرائع نے بتایا کہ ایف آئی اے کی جانب سے درج کیے جانے والے مقدمے اور حتمی چالان کے مطابق سرکاری خزانے سے 26 کروڑ روپے غیرقانونی طورپرنجی بینک کے اکاؤنٹس میں منتقل کیے گئے تاہم فراڈکی رقم 50کروڑروپے سے زائدہے،ذرائع نے یہ بھی بتایاکہ تفتیشی افسران نے دانستہ طورپرملوث ملزمان کے نجی بینک اکاؤنٹس کومنجمند کرنے میں تاخیر کا مظاہرہ کیاجس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملزمان نے بینک اکاؤنٹس میں موجودکروڑوں روپے چندروز میں کیش کرالیے اورجب اکاؤنٹس کومنجمد کیا گیاتواس وقت ان میں کوئی رقم موجودنہیں تھی۔واضح رہے کہ ایف آئی اے کمرشل بینکنگ سرکل کے ایک اورتفتیشی افسر کی جانب سے چند دن قبل کروڑوں روپے کے حوالہ اورہنڈی میں ملوث منی ایکس چینج کمپنی مالکان کیخلاف ناقص تفتیش کرنے، شواہدکوچھپا کر ملزمان کو ضمانت کرنے کاموقع فراہم کرنے کی کوشش کی گئی تھی جس کامتعلقہ عدالت نے نوٹس لیتے ہوئے ایف آئی اے کے اعلی حکام کواس معاملے سے آگاہ کیاتھا تاہم ان دونوں تفتیشی افسران کے خلاف تاحال کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی گئی۔
Load Next Story