16 ارب ڈالر کے پاک قطر ایل این جی معاہدے پر بغیر بولی دستخط
معاہدہ15مارچ 15ء سے نافذ العمل ہوگا،معیاد دسمبر2030 تک ہوگی، وزارت پٹرولیم نے ای سی سی کی زیلی کمیٹی کوتفصیلات دیدیں
پاکستان اور قطر نے بولی کے قانونی طریقہ کار کے بغیر ہی16ارب ڈالر مالیت کے ایل این جی منصوبے کے معاہدے پردستخط کر دیے۔
معاہدہ 15مارچ2015ء سے نافذالعمل ہوگا،حکومت نے پاکستان ایل این جی لمیٹڈ کی تشکیل پر بھی غور شروع کر دیا ہے۔ حکام کے مطابق وزارت پٹرولیم نے 15 مارچ 2015ء سے موثرقطر سے ایل این جی کی درآمد کے اس جی ٹو جی (گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ) معاہدے کی تفصیلات اقتصادی رابطہ کمیٹی ( ای سی سی) کی جانب سے قائم کی گئی ایک کمیٹی کو پیش کیں۔ قبل ازیں وزارت پٹرولیم نے اقتصادی رابطہ کمیٹی سے پی ایس او کیلیے قطر گیس سے ایل این جی کی خریدو فروخت کے معاہدے کی منظوری لینے کی کوشش بھی کی تھی تاہم یہ کوشش اس وقت ناکام ہوگئی تھیں جب وفاقی سیکریٹری قانون نے اس معاہدے کے حوالے سے اعتراض اٹھایا۔ حکام کا کہنا ہے کہ سیکریٹری قانون اس حوالے سے آئندہ اجلاس میں اپنی رپورٹ پیش کرینگے جس کی روشنی میں اقتصادی رابطہ کمیٹیپی ایس او اور قطرکے درمیان ایل این جی کی خرید و فروخت کے اس کمرشل معاہدے کی منظوری دیگی۔
پی ایس او اس جی ٹو جی معاہدے کے تحت قطر سے ایل این جی کے6 کارگو پہلے ہی درآمد کر چکا ہے۔ حکام کے مطابق ایل این جی کی قیمت برینٹ کروڈ آئل کی ڈائریکٹ شرح سے منسلک کی جا چکی تھی اور کروڈ آئل کی موجودہ قیمت کے تحت ایل این جی سپلائی کی قیمت (خریدو فروخت کے معاہدے) کے تحت تقریبا16ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔اس منصوبے کی میعاد دسمبر2030 تک ہوگی تاہم معاہدے کے تحت فریقین ایل این جی کی قیمتوں پر ہر10 سال بعد نظر ثانی کر سکیں گے، پاکستان اور قطر کو یہ حق بھی حاصل ہوگا کہ قیمتوں کے حوالے سے اتفاق نہ ہونے کی صورت میں وہ خرید و فروخت کے معاہدے کو ختم کر سکیں۔معاہدے کے تحت پاکستان اسٹیٹ آئل(پی ایس او) قطر گیس ٹو کمپنی(کیو جی ٹو) سے سالانہ1.5ملین ٹن سالانہ ایل این جی حاصل کریگا جبکہ دوسرے سال سے یہ پیداوار3 ملین ٹن سالانہ ہوجائیگی۔
پی ایس او کا اہم کاروبار تو آئل ہے تاہم اب وہ یہ دوسراکاروبار بھی شروع کرنے جا رہا ہے۔معاشی فیصلہ ساز باڈی کی جانب سے امید تھی کہ وہ پی ایس او کو یہ ایل این جی سوئی ناردرن اور سوئی سدرن گیس کمپنی کو فروخت کرنے کی اجازت دے دے گئی۔پی ایس او کو یہ ایل این جی تیسری پارٹی کو فروخت کرنے کی اجازت بھی ہوگی۔قطر کیخریدو فروخت کے اس معاہدے میںخواہش تھی کہ قطر گیس،ایل این جی اپنی ہی کمپنی قطر لیکویفائیڈ گیس کمپنی3کے ذریعے فراہم کریگی تاہم اب قطر گیس نے ایل این جی قطر گیس2کے ذریعے فراہم کرنے کی تجویز دی ہے۔نیا مجوزہ منصوبہکے تحت امریکی کمپنی کونوکو فلپس کو قطر گیس تھری کے شئیر ہولڈر کی حیثیت سے پاکستانی مارکیٹ پر قبضے سے محروم کر دیا گیا ہے جو کہ قطر پٹرولیم،کونوکو فلپس اور مٹ سوئی کا مشترکہ منصوبہ ہے۔
معاہدہ 15مارچ2015ء سے نافذالعمل ہوگا،حکومت نے پاکستان ایل این جی لمیٹڈ کی تشکیل پر بھی غور شروع کر دیا ہے۔ حکام کے مطابق وزارت پٹرولیم نے 15 مارچ 2015ء سے موثرقطر سے ایل این جی کی درآمد کے اس جی ٹو جی (گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ) معاہدے کی تفصیلات اقتصادی رابطہ کمیٹی ( ای سی سی) کی جانب سے قائم کی گئی ایک کمیٹی کو پیش کیں۔ قبل ازیں وزارت پٹرولیم نے اقتصادی رابطہ کمیٹی سے پی ایس او کیلیے قطر گیس سے ایل این جی کی خریدو فروخت کے معاہدے کی منظوری لینے کی کوشش بھی کی تھی تاہم یہ کوشش اس وقت ناکام ہوگئی تھیں جب وفاقی سیکریٹری قانون نے اس معاہدے کے حوالے سے اعتراض اٹھایا۔ حکام کا کہنا ہے کہ سیکریٹری قانون اس حوالے سے آئندہ اجلاس میں اپنی رپورٹ پیش کرینگے جس کی روشنی میں اقتصادی رابطہ کمیٹیپی ایس او اور قطرکے درمیان ایل این جی کی خرید و فروخت کے اس کمرشل معاہدے کی منظوری دیگی۔
پی ایس او اس جی ٹو جی معاہدے کے تحت قطر سے ایل این جی کے6 کارگو پہلے ہی درآمد کر چکا ہے۔ حکام کے مطابق ایل این جی کی قیمت برینٹ کروڈ آئل کی ڈائریکٹ شرح سے منسلک کی جا چکی تھی اور کروڈ آئل کی موجودہ قیمت کے تحت ایل این جی سپلائی کی قیمت (خریدو فروخت کے معاہدے) کے تحت تقریبا16ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔اس منصوبے کی میعاد دسمبر2030 تک ہوگی تاہم معاہدے کے تحت فریقین ایل این جی کی قیمتوں پر ہر10 سال بعد نظر ثانی کر سکیں گے، پاکستان اور قطر کو یہ حق بھی حاصل ہوگا کہ قیمتوں کے حوالے سے اتفاق نہ ہونے کی صورت میں وہ خرید و فروخت کے معاہدے کو ختم کر سکیں۔معاہدے کے تحت پاکستان اسٹیٹ آئل(پی ایس او) قطر گیس ٹو کمپنی(کیو جی ٹو) سے سالانہ1.5ملین ٹن سالانہ ایل این جی حاصل کریگا جبکہ دوسرے سال سے یہ پیداوار3 ملین ٹن سالانہ ہوجائیگی۔
پی ایس او کا اہم کاروبار تو آئل ہے تاہم اب وہ یہ دوسراکاروبار بھی شروع کرنے جا رہا ہے۔معاشی فیصلہ ساز باڈی کی جانب سے امید تھی کہ وہ پی ایس او کو یہ ایل این جی سوئی ناردرن اور سوئی سدرن گیس کمپنی کو فروخت کرنے کی اجازت دے دے گئی۔پی ایس او کو یہ ایل این جی تیسری پارٹی کو فروخت کرنے کی اجازت بھی ہوگی۔قطر کیخریدو فروخت کے اس معاہدے میںخواہش تھی کہ قطر گیس،ایل این جی اپنی ہی کمپنی قطر لیکویفائیڈ گیس کمپنی3کے ذریعے فراہم کریگی تاہم اب قطر گیس نے ایل این جی قطر گیس2کے ذریعے فراہم کرنے کی تجویز دی ہے۔نیا مجوزہ منصوبہکے تحت امریکی کمپنی کونوکو فلپس کو قطر گیس تھری کے شئیر ہولڈر کی حیثیت سے پاکستانی مارکیٹ پر قبضے سے محروم کر دیا گیا ہے جو کہ قطر پٹرولیم،کونوکو فلپس اور مٹ سوئی کا مشترکہ منصوبہ ہے۔